لبیک اللّٰھم لبیک حصہ - 2

احرام :
حج وہ واحد عبادت ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے خا ص لباس کی قید لگا ئی ہے ور نہ عمو می عبادات میں طہارت ،ستر وغیرہ کی پا بندیاں ہیں جبکہ حج اور عمرہ کا لباس انو کھا ہے جو محض لباس نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ایک علامت ہے ایک کیفیت ہے ،ایک خا ص ضا بطہ ہے جس میں انسان کو کس دینا اللہ تعا لیٰ کی مشیت ہے ۔گھر سے نکلنا ،دنیا و گھر کی آسا ئشوں کو چھوڑ کر کئی دن کے لیے اللہ کی راہ میں سفر کی مشقت بر داشت کر نا ایک مسلسل مشق اور تر بیت ہے ۔اور اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ ایک جا نب انسان کے اندر اپنی اطا عت کا جذبہ بیدار کر تا ہے دوسری جانب انسا نوں کے بنائے ہوئے معیار اور فرق کو مٹا تا ہے اور یہ سبق یاد دلا تا ہے کہ
”یا یھا الناس انا خلقنٰکم من ذکر وانثی وجعلنٰکم شعو با ً وقبائل لتعارفو ا ط ان اکرمکم عند اللہ اتقٰکم “

لو گوں! ہم نے تمھیں ایک مرد اور ایک عورت سے پید اکیا ۔اور پھر تمھاری قو میں اور برادریاں بنا دیں تا کہ تم ایک دوسرے کو پہچا نو۔در حقیقت اللہ کے نز دیک تم میںسب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پر ہیز گار ہے “ (الحجرات:13 )

مو لا نا مو دودی ؒ لکھتے ہیں کہ ” احرام کا یہ یو نیفارم پہننے کے بعد علا نیہ یہ معلوم ہو نے لگتا ہے کہ سلطانِ عا لم اور با د شاہِ زمین و آسمان کی یہ فو ج ،جو دنیا کی ہزاروں قو موں سے بھر تی ہو کر آ رہی ہے ،ایک ہی با دشاہ کی فو ج ہے ،ایک ہی اطاعت و بند گی کا نشان ان سب پر لگا ہو اہے ،ایک ہی وفاداری کے رشتے میں یہ سب بند ھے ہوئے ہیں ،اور ایک ہی دارالسلطنت کی طرف اپنے بادشاہ کے ملا حظہ میں پیش ہو نے کے لیے جا ر ہے ہیں ۔یہ یو نیفارم پہنے ہوئے سپاہی جب میقات سے آگے چلتے ہیں تو ان سب کی زبا نوں سے وہی ایک نعرہ بلند ہو تا ہے ۔
لبیک اللھم لبیک لا شر یک لک لبیک

بو لنے کی زبا نیں سب کی مختلف ہیں ،مگر نعرہ سب کا ایک ہی ہے ۔پھر جوں جوں مر کز قر یب آتا جا تا ہے ،دا ئرہ سمٹ کر چھو ٹا ہو تا چلا جا تا ہے ۔مختلف ملکوں کے قا فلے ملتے چلے جا تے ہیں ،اور سب کے سب مل کر نما زیں ایک ہی طرز پر پڑ ھتے ہیں ۔سب کا ایک ہی یو نیفارم ،سب کا ایک امام ،سب کی ایک ہی حر کت ،سب کی ایک ہی زبان ،سب ایک اللہ اکبر کے ہی اشارے پر اٹھتے اور بیٹھتے اور رکوع و سجدہ کر تے ہیں ،اور سب اسی ایک قر آنِ عر بی کو پڑ ھتے اور سنتے ہیں ۔یوں زبا نوں اور قو میّتوں اور وطنوں اور نسلوں کا اختلاف ٹو ٹتا ہے اور یوں خدا پر ستوں کی ایک عا لمگیر جماعت بنتی ہے ۔“ (خطبات : ص 308 )وحدت ِامت کا کتنا بڑا سبق ہے ۔اللہ ایک ،کعبہ ایک ،قر آن ایک ،ایک رسول پاک ﷺکے پیرو کار ،پھر کیوں امت پارہ پارہ ہو کر دشمنوں کے لیے نرم چارہ ہو چکی ہے ۔ہر سال اللہ تعا لیٰ یہ سبق یاد دلا تا ہے اگر حر م شر یف میں رنگ ،نسل ،مسلک ہر چیز کی تفر یق مٹ جا تی ہے ۔ تو حر م سے باہر یہ سب کچھ کیوں ہے ؟ عر ب اور عجم الگ ہیں ،سنی ،وہا بی اور شعیہ نفر تیں ہیں ،دیو بندی اور بر یلوی کے جھگڑے ہیں ۔اور بد نصیبی سے پٹھان ،پنجابی ،سند ھی ،مہا جر اور بلو چی کی تقسیم ہے ۔ملکوں کے اندر ملک بنانے کی تحر یکیں اور تنظیمیں ہیں اور اب تو امت کا تفر قہ بنیاد پر ستی یا تر قی پسندی کی بنیاد پر بھی ہو چکا ہے اور یہ اس وقت کی شاید سب سے بڑی تقسیم ہے ۔اسے مغر ب نواز یا قدامت پسند، یا دوسرے الفا ظ میں لبر ل اور دیندار طبقہ کی تقسیم بھی کہہ سکتے ہیں ۔حا لا نکہ اسلام میں اس چیز کی کوئی گنجا ئش نہیں کہ مسلمان ہو کر بے دین مغر بی تہذیب کا دلدادہ ہو گا یاسیکو لر اور لبر ل کہلا کر فخر محسوس کرے گا ۔اسلام تو بس ایک اصطلا ح رکھتا ہے جسے اللہ اپنے بندوں کے لیے پسند کر تا ہے ”مسلم “ فر مان باری تعالیٰ ہے
ان الدین عند اﷲ الا سلام ۔ اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے ۔ (آل عمران )

کہیں حکم دیا : ”یٰاَ یھا الذین امنو اادخلوا فی السلم کا ٓ فّةً ص ولا تتبعوا خطوٰت الشیطٰن ط انہ لکم عدومبین۔(البقرہ: 208 )
” اے ایمان لا نے والو ،تم پورے کے پورے اسلام میں آجاﺅ اور شیطان کی پیروی نہ کرو، کہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے“

لبیک اللّٰھم لبیک:
احرام با ند ھتے ہی جو پہلا کلمہ کہا جا تا ہے وہ” لبیک اللّٰھم لبیک “ہے ۔” اے اللہ میں حا ضر ہوں ۔۔۔ اے اللہ تیرا کوئی شر یک نہیں میں حا ضر ہو ں ۔۔۔ نعمتیں بھی تیری ،ملک بھی تیرے ،تعر یف بھی تیری ،تیرا کوئی شر یک نہیں “۔اور یہ کلمہ کتنی مر تبہ پڑھا جا تا ہے کتنے زور سے پڑ ھا جا تا ہے کہ پتھر بھی گو اہی دیں،پہاڑ بھی گو اہی دیں ،زمیں و آسماں کے درمیان ہر چیز گو اہی دے کہ یہ بندہ اللہ کی پکارپر حا ضر ہو گیا ہے اور پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ اللہ میں حا ضر ہو ں !
صرف تیرا ہو ں کیو نکہ تیرا کوئی شر یک تو ہے ہی نہیں !
صرف تیرا ہوں کیو نکہ ساری نعمتیں تو نے مجھے عطا کی ہیں
صرف تیرا ہوں یہ دنیا ،یہ ملک ،یہ کا ئنات سبھی کچھ تیرا ہے ۔تو بلا شر کت غیرے اس کائنات کا مالک ہے ! میرا ما لک ہے ! تومیرا آقا ہے تو میں غلام ،میں بندہ ،میں نو کر ،میں حا ضر ۔۔۔!
جو تیرا حکم ہو گا بجا لاﺅں گا ۔تیرے سوا کسی کے سامنے سر اطاعت خم نہ کرو ں گا ۔تیرے حکم کے خلاف کوئی کام نہ کروں گا ۔
لبیک اللّٰھم لبیک میری زند گی کی ہر سوچ ،ہر بات ،ہر کام تیرے حکم کے مطا بق ہو گا ۔
جوانی تیرے لیے،محنت تیرے لیے ،اس جان کی قر بانی تیرے لیے ا ور تیرے دین کے لیے ۔لبیک الّٰلھم لبیک ۔
میرا مال تیرے لیے ۔اس مال کا کمانا تیرے حکم کے مطابق حلال ،اسکا خر چ تیری رضا کے لیے، اسکی قر بانی تیرے لیے ،تیرے دین کے لیے ۔لبیک اللّٰھم لبیک ۔
میری اولاد تیری بند گی کے لیے۔تیرے دین کی امامت کے لیے ۔ لبیک الّٰلھم لبیک۔
ایسا لبیک، رو نگٹے کھڑے کر دینے والا ،آنکھیں تر کر دینے والا ،دل کو جھنجوڑ دینے والالبیک، کیا یہی مطلوب نہیں ؟

پھر کیا ہوا مسلمانوں! ہر سال امت کے لا کھوں افراد لبیک پکارتے پکارتے اللہ کے حضور حاضر ہو تے ہیں لیکن یہ نہ گناہ چھوٹتے ہیں ،نہ نفس پر ستی نہ طا غوت کی بند گی، نہ زند گیاں سنورتی ہیں ،نہ اللہ کا ر نگ غالب آتا ہے ۔نہ انفرادی زندگی میں اللہ کا دین غالب آتا ہے نہ قو می زند گی میں ۔وعدہ تو اللہ کی لا شر یک اطاعت کا ہو تا ہے لیکن دوسری ساری اطاعتیں زند گی میں غا لب ر ہتی ہیں ۔یہ کیسا نفاق ہے ،یہ کیسی دو ر نگی ہے ،یہ کیسی نوکری اور اور غلا می ہے کہ جس میں زبان پر تو اقرار ہی اقرار رہتا ہے اور عمل سے انکار ہی انکار !

امت مسلمہ کو کئی سو سال گزر گئے اس منا فقت میںاور آج پوری امت اللہ کی پکڑ کی زد میں ہے ! ہمارا کر دار ہمارے کلمے کی تصدیق نہیں کر تا۔ لہذالبیک ایسا مطلوب ہے کہ جسکی تصدیق ہماری آنے والی ساری زند گی کر ے اور ہمیں احساس ہو جائے کہ اللہ اور اسکا ’دین ِغر یب ‘ کس کس مو قع پر ہمیں پکارتا ہے اور ہم سے کیا کیا مطا لبے کر تا ہے ۔ہم کتنے مواقع پر لبیک کہتے ہیں اور عملی طور پر کہتے ہیں ! اور کہاں کہاں دنیا کی مصلحتیں اور مجبوریاں ہمارے پا ﺅں کی بیڑیاں بن جاتی ہیں ۔اس تجر بے کی تو فیق اور پھر اس پر عملدآمد کا عہد کر لیں تو گو یا حج ِمقبول کا راز پا لیا۔

طواف :
لبیک کہتے کہتے اللہ کے گھر پہنچ گئے وہ گھر جسکی طرف ساری عمر سے رُخ کر کے نمازیں پڑھ رہے تھے جس کے تصور سے روح کی دنیا آباد تھی ۔
”ان اول بیت وضع للناس للذی ببکة مبر کاً و ھدًی للعٰلمین “ ( آل عمران : 96 )
”بے شک سب سے پہلی عبادت گاہ جو انسانوں کے لیے تعمیر ہوئی وہ وہی ہے جو مکہ میں واقع ہے اس کو خیر و بر کت دی گئی تھی اور تمام جہان والوں کے لیے

مر کز،ہدا یت بنا یا گیا تھا ۔“ کیسا روح پرور منظر ہو تا ہے ایسا پُر شکوہ ماحول اللہ اللہ ۔اللہ کے گھر کے گر د دیوانہ وار طواف لوگ چل رہے ہیں ،چل رہے ہیں چلتے جا رہے ہیں ایک نہ تھمنے والا سلسلہ ہے۔ ایک دیوانگی ہے، ایک محبت ہے ،والہیت ہے، جو سب پر طار ی ہے ۔اللہ کے ذکر کا نہ رُکنے والا سلسلہ ہے ۔یہ سب اللہ کے دیوانے ،اسکی رضا کے طالب ،اسکی پکار پر لبیک کہ رہے ہیں ،چشم تصور سے دیکھیں تو اس مطاف پر کس کس کے قدموں کے نشا ن ثبت ہیں؟ حضرت ابر اہیم ؑ سے لے کر لاکھوں انبیاء اکر م کا سلسلہ اور محسن انسانیت نبی کر یم ﷺ کے قدم مبار ک اس گھر کا طواف کر تے ہوئے بند گی کا عہد کر تے ہوئے ،رمل کر تے ہوئے صحابہ کرام ،مجاہدین با صفا نظر میں گھو م جا تے ہیں ،کتنے خوش نصیب ہیںیہ سب جنہیں اللہ نے ان نقو ش ِپا پر چلنے کی تو فیق عطافر مائی ! وہ عظیم ہستیاں جنہوں نے اس گھر میں عہد باند ھا اور زندگی کے عملی میدانوں میںاس کو وفا کیا ۔لبیک کا حق ادا کیا۔کلمہ شہادت کا حق ادا کیا اور اپنے قول و عمل سے ’شہادت حق ‘ کے لیے سر دھڑ کی بازی لگائی ایسی کہ حق غالب ہوگیااور باطل مغلوب ہو گیا ۔یہ دیوانہ وار طواف آج بھی ہو رہا ہے اونچی آواز میں کلمہ شہادت کا ورد ہر لمحہ جاری ہے۔ رمل کر تے ہوئے مر درش اور بھیٹر میں بھی رمل کر تے ہوئے نظر آتے ہیں ! لیکن دل سو چتا ہے میرے اللہ ! آج تیری زمین پر تیرا دین مغلو ب،مظلوم ،مفلو ج اور غر یب ہے وہ کا فروں کے آگے سر اٹھا نے والے کہاں گئے ؟

ظا لموں کے آگے کلمہ حق کہنے والے کیا ہوئے ؟

یہ رمل تو تھا ہی کافروں پر دین اسلام کا رعب طاری کر نے کے لیے ،مجاہد ین کی ہیبت ان کے دلوں میں بٹھانے کے لیے !

آج حر م کعبہ میں اتنے رمل کر نے والے لیکن ساری امت پر کافروں اور مشر کوں کی یلغار ! اے اللہ ! اس امت کو وہ قیادت عطا فر ما دے جو انسانوں کے اس سمندر کو درست سمت عطا کر دے، ان کے جذبوں کے اس سیلاب کو امت کے لیے نا فع بنا دے ۔ اے اللہ ! حجاج کو اس طوافِ دیوانہ وار کی روح سے آشنا کر دے اس رمل کی حقیقت سے آگاہ کر دے ۔ اے اللہ ! تو امت سے راضی ہو جا۔ منا سک کی ان ظا ہری صورتوں کو قبو لیت بخشتے ہوئے زند گی بھر کے لیے عمل کے اصول بنا دے ۔(آمین)

جاری ہے
Dr.Rukhsana Jabeen
About the Author: Dr.Rukhsana Jabeen Read More Articles by Dr.Rukhsana Jabeen: 15 Articles with 25076 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.