دلشاد! دلشاد! منجھلی نے غصے سے دو بار آواز دی۔ دلشاد
دوڑتا ہوا آیا۔ کیا ہوا بی بی جی؟ آتے ہی اس نے سوال کیا۔ کہاں مر گۓ تھے
تم؟ اتنی دیر سے میں تمھیں آوازیں دے رہی تھی۔ ٹی وی کا ریموٹ غصے سے صوفے
پر پھینکتے ہوۓ چوہدری صاحب کی منجھلی بیٹی آسیہ نے کہا۔ جی میں، جی
میں۔۔۔ابھی اس کا جملہ ادھورا ہی تھا کہ آسیہ اس پر برس پڑی۔ کیا جی میں جی
میں لگا رکھی ہے؟ میں کتنی دیر سے چاۓ کا انتظار کر رہی ہوں۔ کیا تمھیں
معلوم نہیں کہ یہ میری چاۓ کا وقت ہے؟ جی میں آپ کی چاۓ ہی بنانے جا رہا
تھا۔ دلشاد نے جواب دیا۔ تو پھر اتنی دیر سے منہ سے پھوٹا نہیں جا رہا تھا
تم سے؟ خوامخواہ میرا موڈ خراب کر دیا۔ جاؤ دفع ہو جاؤ اور میرے لۓ جلدی سے
چاۓ لے کر اؤ۔ یہ تھی چوھدری صاحب کی منجھلی بیٹی آسیہ، جنھوں نے اپنا نام
بگاڑ کر آسی رکھ لیا تھا۔ تعلیم کی کمی کی وجہ سے اخلاقیات کی بھی کافی کمی
تھی ان میں۔ چوھدری صاحب جو کچھ عرصہ پہلے چوکیدار حمیدے تھے، نئی نئی دولت
ملنے پر ایک اچھی جگہ بڑی سی کوٹھی خرید کر اس میں شفٹ ہو گۓ تھے اور ساتھ
ہی چوھدری حمید صاحب بن بیٹھے تھے۔ ایک بوڑھی ماں، ایک بیٹا اور تین بیٹیاں،
یہ ان کی کل کائنات تھی۔ بیوی کب کی وفات پا چکی تھی۔ بوڑھا باپ بیماری کے
ہاتھوں کچھ عرصہ پہلے ہی فوت ہوا تھا۔ بنگلے میں شفٹ ہوتے ہی بڑی بیٹی،
حمیدہ سے ہومی بن گئی تھی۔ منجھلی آسیہ سے آسی اور سب سے چھوٹی منیرہ جسے
سب پیار سے منی کہتے تھے، منی ہی رہی۔ بیٹا جو عمر میں منی سے صرف ایک ہی
سال بڑا تھا، منیر سے جمی بن گیا۔ کچھ پیسے کی کمی اور کچھ بچوں کے تعلیم
میں دلچسپی نہ لینے کی وجہ سے، چودھری صاحب کے تینوں بڑے بچے دو چار
جماعتوں سے زیادہ نہ پڑھ سکے۔ صرف منی ہی تھی جسے تعلیم حاصل کرنے کا شوق
تھا۔ وہ بہت محنت اور لگن کے ساتھ دسویں جماعت میں پڑھ رہی تھی۔ دادی جب
بھی منی کو دیکھتی تھی تو گویا جی اٹھتی تھی۔ اس کے برعکس خاندان والے اسے
منحوس سمجھتے تھے کیوں کہ ماں پیدائش کے فوراً بعد ہی فوت ہو گئی تھی۔
دوسروں کی باتیں سن سن کر بہن بھائی بھی اسے منحوس سمجھنے لگے تھے۔ بس ایک
باپ یا پھر دادی تھی جو اسے ایسا نہیں سمجھتے تھے۔ شکل و صورت میں بھی وہ
اپنے تینوں بہنوں اور بھائی کی نسبت، انتہائی معمولی تھی۔ سیاہی مائل
سانولا رنگ، چھوٹی چھوٹی آنکھیں مگر روشن اور چمکتی ہوئی، چہرہ جیسا بھی
تھا اس پر ہر وقت زندگی سے بھرپور مسکراہٹ رہتی تھی، درمیانہ قد اور اتنی
کم عمری میں بھی باوقار چال۔ بچپن سے ہی نہ صرف اس کا اٹھنا بیٹھنا سب سے
مختلف تھا بلکہ اس کی تمام عادات و اطوار بھی سب سے مختلف تھیں۔ وہ نہ تو
شکل وصورت میں اور نہ ہی عادات و اطوار میں کہیں سے بھی اس خاندان کا حصہ
لگتی تھی۔ دادی کہتی تھی کہ وہ اپنے پردادا پر چلی گئی ہے۔ وہ بھی بلکل
ایسے ہی تھے۔ یہ سن کر منی ہمیشہ مسکرا دیتی تھی اور فخر محسوس کرتی تھی کہ
وہ اپنے پردادا پر گئی ہے۔ گھر میں تو اسے منی ہی کہا جاتا تھا مگر محلے
والے زیادہ تر اسے کلو کے نام سے بلاتے تھے۔ جب بھی کوئی اسے کلو کے نام سے
پکارتا تو اس کا دل کٹ سا جاتا تھا۔ اس کا بس نہیں چلتا تھا کہ وہ کسی طرح
اپنے رنگ کو گورا کر لے۔ خدا سے رو رو کر دعائیں کرتی اور شکوہ کرتی کہ
اللہ میاں جب سب کو گورا بنایا تھا تو مجھے کیوں نہیں بنایا؟ بچپن تھا ،
معصوم ذہن تھا۔ ایسا سوچتے سوچتے جب کچھ سمجھ نہ آتا تو بھاگ کر دادی سے
لپٹ جاتی اور اس کے سینے میں منہ چھپا چھپا کر زور زور سے رو پڑتی تھی۔
دادی سمجھ جاتی تھی کہ آج پھر ان کی معصوم سی پوتی کو کسی نے کلو کہہ کر
پکارا یے۔ وہ اپنا دل مسوس کر رہ جاتی تھی مگر کر بھی کیا سکتی تھی۔ وہ منی
کو دلاسہ دیتی اور ہمیشہ کہتی کہ تو محنت سے دل لگا کر پڑھ اور ان کی باتوں
پر دھیان نہ دے۔ اس رنگ میں کیا رکھا ہے، اصل رنگ تو انسان کے اندر کا ہوتا
ہے۔ وہ خوبصورت اور صاف ہونا چاہیۓ۔ معصوم ذہن کچھ سمجھ ہی نہیں پاتا تھا
کہ دادی کیا کہتی ہے؟ اور وہ سوچتی تھی کہ اندر کے رنگ میں کیا رکھا ہے، سب
کو اچھا تو وہی لگتا جو نظر آنے میں خوبصورت دکھتا ہو۔ وقت گزرتا گیا، منی
بڑی ہوتی گئی۔ ایک دن خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ چوھدری صاحب کے دور کے رشتہ
دار جو بہت پیسے والے تھے اور ان کا کوئی بھی والی وارث نہ تھا، اچانک ایک
حادثے میں جاں بحق ہوگۓ۔ چونکہ چوھدری صاحب نے برے وقتوں میں ان کا کافی
ساتھ دیا تھا اس لۓ وہ اپنی جائیداد کا ایک بڑا حصہ چوھدری صاحب کے نام کر
گۓ۔ اس طرح وہ چوکیدار حمیدے سے چوھدری حمید صاحب بن گۓ۔ گھر، گاڑی، نوکر
چاکر، سب کچھ تھا اب۔ چوھدری صاحب کو سمجھ نہیں آتا تھا کہ پیسے کو کون سے
ایسے کاروبار میں لگایا جاۓ جہاں سے انہیں کچھ آمدنی بھی شروع ہو۔ اہسا نہ
ہو کہ سب کچھ کھا بیٹھیں اور آخر میں پھر وہی غربت رہ جاۓ۔ ایسے میں دوست
احباب بھی نہ جانے کہاں کہاں سے آکر بن جاتے ہیں۔ ان میں خیر خواہ کوئی بھی
نہیں ہوتا۔ دوست وہی ہوتے ہیں جو برے وقتوں میں کام آۓ ہوۓ ہوتے ہیں۔
چوھدری صاحب اپنے نۓ دوستوں کے مشوروں پر عمل کرتے ریے اور اپنی دولت ضائع
کرتے رہے۔ جس بھی کاروبار میں لگاتے کچھ عرصہ بعد نقصان ہو جاتا۔ رفتہ رفتہ
پیسے میں کمی آتی گئی۔ گھر کا خرچہ بڑھتا گیا۔ بیٹے کی آوارہ گردی بڑھ گئی
تھی۔ بڑی اور منجھلی تو پہلے ہی اخلاق سے کوسوں دور تھیں، اب اور بھی بد
اخلاق ہو گئی تھیں۔ ہر وقت نوکروں کو بلاوجہ ڈانٹنا، آۓ دن دادی سے بد
تمیزی وغیرہ ان کا معمول بن گیا تھا۔ منی یہ سب کچھ دیکھتی رہتی تھی مگر
سمجھ نہیں پاتی تھی کہ وہ ایسا کیا کرے کہ گھر کے تمام حالات ٹھیک ہو جائیں۔
ابا پیسے کو کسی ایسے کاروبار میں لگائیں جو چل پڑے۔ بہنوں اور بھائی کو
کسی طرح سمجھا سکوں۔ مگر ایسا کچھ نہ ہوا جو منی کے لۓ تسلی بخش ہوتا۔ اسی
اثناء میں منی نے میٹرک کا امتحان اعلیٰ نمبروں سے پاس کیا۔ بڑے بڑے کالجوں
سے اسے فری داخلے کی پیش کش ہوئی اور ایک اچھے کالج کا انتخاب کر کے منی نے
تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا۔ دادی بہت خوش تھی۔ ایک بار پھر منی نے دل لگا کر
پڑھنا شروع کر دیا۔ بارھویں جماعت سائنس کے ساتھ پہلی پوزیشن میں پاس کی۔
حالات کا تقاضہ تھا کہ منی وہ تعلیم حاصل کرے جو اسے کسی بڑے مقام پر لے
جاۓ تا کہ وہ اپنے گرتی ہوئ مالی حالت کو سنبھال سکے۔ |