کلو، منی (حصہ دوّم)

چوھدری صاحب کی صحت بھی اب جواب دیتی جا رہی تھی۔ بیٹیوں کی شادی نہ ہونے کی وجہ سے کافی پریشان تھے۔ بڑی اور منجھلی کے رشتے آتے تو تھے مگر ان کی بد زبانی دیکھ کر لوٹ جاتے تھے۔ بیٹا ہاتھ سے نکل چکا تھا۔ روزانہ اپنے عیاش دوستوں میں بیٹھ کر خوب پیسہ اڑاتا۔ جب پیسے ختم ہو جاتے تو پھر باپ سے اور پیسوں کے لۓ جھگڑا کرتا۔ جب بھی باپ اس سے پیسوں کے متعلق پوچھتا کہ پہلے والے پیسوں کا کیا کیا تو وہ گھر میں ایک ہنگامہ کھڑا کر دیتا تھا۔ ایسا ہنگامہ آۓ دن ہی گھر میں ہوتا تھا۔ دادی یہ سب تماشا دیکھتی رہتی تھی مگر آنسو بہانے اور خدا سے دعا کرنے کے علاوہ کر بھی کیا سکتی تھی۔ یہ سب آخر کب تک چلتا۔ مسلسل پریشانیوں نے چوھدری صاحب کو دل کا مریض بنا دیا۔ ایک دن بیٹے کے شور شرابے کے دوران ان کے سینے میں شدید درد ہوا۔ ہسپتال لے جایا گیا۔ پتہ چلا کہ ان کو دل کا اٹیک ہوا ہے۔ گھر میں کسی کو پرواہ بھی نہ تھی سواۓ منی اور بوڑھی دادی کے۔ چوھدری صاحب گھر آۓ تو کافی تبدیل ہو چکے تھے۔ چوھدری پن کا کلف ختم ہونے لگا تھا۔ وہ یہ سوچنے پر مجبور ہو گۓ تھے کہ جو کچھ وہ بن گۓ تھے وہ کتنا غلط تھا۔ جب وہ حمید تھا اور غریب تھا تو کتنا خوش تھا۔ پیسہ نہیں تھا تو نہ یہ مصیبتیں اور نہ پریشانیاں تھیں اور نہ ہی کوئی بیماری تھی۔ اب سب کچھ اتنا بگڑ چکا تھا کہ اس کو سنبھالنا نا ممکن سا ہو گیا تھا۔ رہا سہا پیسہ بیماری پر لگ رہا تھا۔ تنخواہ وقت پر نہ ملنے پر ایک ایک کر کے سب نوکر چاکر چھوڑ گۓ۔ گھر اب کون سنبھالتا۔ بڑی اور منجھلی تو ویسے ہی آرام پرست اور بد سلیقہ تھیں۔ کبھی بوڑھی دادی ور کبھی منی بے چاری گھر کے کام کاج بھی کرتیں اور چودھری صاحب کا خیال بھی کرتیں۔ مالی حالات اور بھی بگڑتے چلے گۓ۔ گاڑی تو پہلے ہی بک چکی تھی۔ اب چوھدری صاحب نے گھر بیچنے کا بھی ارادہ کر لیا۔ بڑی اور منجھلی کو جب اس بات کے بارے میں معلوم ہوا تو انھوں نے گھر میں طوفان اٹھا دیا۔ بیٹے نے الگ باپ کو برا بھلا کہا۔ ان تمام حالات کے باوجود منی نے اپنی تعلیم کو جاری رکھا۔ ان سب مسائل کی وجہ سے اس کی پڑھائی متاثر ضرور ہوتی تھی مگر اس نے ہمت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔ اسے یہ صاف اور واضح نظر آرہا تھا کہ اگر اس نے ہمت ہار دی تو پھر اس گھر کو سننبھالنے والا کوئی نہیں ہو گا۔ آخر کار گھر بھی بیچ دیا گیا۔ چوھدری صاحب واپس اپنے پرانے گھر میں آبسے اور چوھدری حمید سے واپس چوکیدار حمیدے بن گۓ۔ محلے داروں کو بہت خوشی ہوئی مگر وہ خوشی دو قسم کی تھی۔ ایک خوشی وہ تھی جو حمیدے کے لوٹنے پر اس کے مخلص دوستوں کو ہوئی تھی کہ ہمارا وہ دوست جسے دولت نے ہم سے چھین لیا تھا، ہمیں واپس مل گیا ہے۔ دوسری خوشی وہ تھی جو ان لوگوں کو ہوئی تھی جو حاسد تھے اور جنھیں پہلے دن سے ہی حمیدے کا چوھدری بننا اور پیسے میں کھیلنا انتہائی ناگوار گزرتا تھا۔ حمیدے کے واپس آنے پر ان کے دلوں میں ٹھنڈ پڑی کہ اچھا ہوا اس کے ساتھ، بڑا چلا تھا ہنس کی چال، اپنی چال بھی بھول گیا۔ بڑی اور منجھلی تو شرم کے مارے باہر ہی نہیں نکلتی تھیں۔ بیٹے نے محلے میں آنے سے پہلے ہی انکار کر دیا تھا اور اپنے کسی امیر دوست کے گھر رہنے لگا تھا۔ حمیدے نے چوھدری بننے کے بعد بس ایک عقل کا کام کیا تھا کہ اپنی ماں کے سمجھانے پر تھوڑی سی رقم بنک میں منی کی پڑھائی کے لۓ بچا کر رکھ لی تھی۔ اس رقم کا دادی کے علاوہ کسی کو علم نہیں تھا۔ اس طرح منی کی تعلیم میں کوئ یرکاوٹ نہ آئی۔ پڑھائی کا عرصہ بس تھوڑا ہی رہ گیا تھا۔ گھر کا گزارہ بڑی مشکل سے ہورہا تھا۔ یہی دیکھ کر منی نے گھر پر بچوں کو ٹیوشن پڑھانا شروع کر دیا۔ دادی بچوں کو قرآن پاک پڑھاتی تھی۔ حمید بیماری کی وجہ سے کچھ کرنے کے قابل نہ تھا۔ آخر خدا خدا کر کے منی کی تعلیم مکمل ہوئی۔ اس نے یونیورسٹی میں ٹاپ کیا اور گولڈ میڈل حاصل کیا۔ حمیدے اور دادی کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔ خدا نے ان کی دعائیں سن لی تھیں۔ فوراً ہی ایک نامور بنک سے ایک اچھے عہدے کی پیش کش ہوئی جو منی نے فوراً قبول کر لی۔ وقت نے ایک بار پھر پلٹا کھایا مگر اب کی بار حالات بہت مختلف تھے۔ حمید اب چوھدری نہ بنا بلکہ ایک سمجھ دار باپ ہونے کا ثبوت دیتے ہوۓ اس نے منی کے کہنے پر اپنے اسی گھر کو جس میں وہ رہتے تھے، بنوانا شروع کر دیا۔ بڑی اور منجھلی کو سلائی اسکول میں داخل کرانے کے ساتھ ساتھ منی نے ان کو خود پڑھانا شروع کر دیا۔ اس طرح انھوں نے پرائیوٹ طور پر میٹرک کا امتحان پاس کر لیا۔ بیٹے کو کچھ ہی دن بعد دوست نے گھر سے نکال دیا تھا کیوں کہ اب وہ خالی ہاتھ جو تھا۔ اس طرح اسے بھی قسمت نے کافی سبق دے دیا تھا۔ گھر لوٹنے پر اس نے اپنے گھر اور اپنے لوگوں میں آ کر سکھ کا سانس لیا۔ زندگی جیسے دوبارہ لوٹ آئی تھی۔ وہی گھر جو کبھی جہنم بن گیا تھا، چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے وہی گھر جنت بن گیا۔ وہی منی جسے سب کلو اور منحوس کہہ کر پکارتے تھے، اب اسے خوش نصیبی کی علامت سمجھا جانے لگا۔ اب لوگ اس کی مثالیں دیتے نہ تھکتے تھے۔ منی اب کلو سے منیرہ بی بی بن گئی تھی۔

اگر اچھا نصیب ظاہری خوبصورتی یا گورے رنگ سے بننا ہوتا تو آج سب سے سیاہ نصیب کلو کا ہوتا۔ انسان کو اچھا نصیب اس کی مثبت سوچ، پرخلوص اور ہمدرد دل اور محنت و لگن سے حاصل ہوتا ہے۔ دادی نے کبھی منی کا حوصلہ کلو اور منحوس کے طعنے سن سن کر گرنے نہ دیا۔ مگر یر جگہ دادی نہیں ہوتی۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کبھی ایسے معصوموں کو حوصلہ دینے والا کوئ نصیب نہیں ہوتا اور وہ بے چارے احساس کمتری کا شکار ہو کر کبھی بگڑ جاتے ہیں یا پھر ناکامی اور مایوسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں، کیا معلوم کہیں کسی معصوم کو آپ کی تھوڑی سی توجہ اور ہمدردی کی ضرورت ہو۔ آپ کی چھوٹی سی مدد کیا پتہ کل کسی کا مستقبل سنوار دے۔ قطرہ قطرہ مل کر سمندر بن جاتا ہے۔
شہلا خان
 

Shehla Khan
About the Author: Shehla Khan Read More Articles by Shehla Khan: 28 Articles with 30483 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.