جب سے ملک میں مردم شماری کا آغاز ہوا ہے مختلف ہتھکنڈوں
سے اس کی راہ میں رکاوٹیں حائل کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔کرم ایجنسی میں
مردم شماری ٹیم کو لے جانے والی گاڑی پر ریموٹ کنٹرول حملہ اس کی تازہ مثال
ہے۔ اس واقعے میں عملے کے دو افراد سمیت 14 افراد جاں بحق ہوئے جبکہ زخمیوں
میں مردم شماری ٹیم کی سیکورٹی پر مامور چار خاصہ دا ر بھی شامل ہیں ۔ اس
سے قبل گوادر میں مردم شماری کے عملے کی حفاظت پر تعینات دو جوانوں کو شہید
کردیا گیا۔ لاہور میں بھی مردم شماری کے پہلے مرحلے کے دوران خود کش حملے
کے نتیجے میں چار فوجی جوان شہید ہوگئے تھے۔
سوال یہ ہے کہ مردم شماری جیسے اہم قومی عمل میں رکاوٹیں ڈالنے کے پیچھے
کون سی قوتیں کارفرما ہوسکتی ہیں اور ان کے مقاصد کیا ہیں؟ بہت سے تجزیہ
نگار اس بات پر متفق ہیں کہ ملک میں خوف ، سراسیمگی اور عدم تحفظ کی فضا
قائم رکھنے کے لئے دہشت گرد ایسے مواقع کی تلاش میں رہتے ہیں۔ان کے علاوہ
وہ دشمن قوتوں کے ایجنڈے کی تکمیل کے لئے ان کے اشاروں پر اہم قومی امور کو
سبوتاژ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بعض مقامی گروہ اور تنظیمیں بھی اپنے اپنے
مخصوص مقاصد کے حصول کے لیے ایسا مکروہ راستہ اپناسکتی ہیں۔یہ حقیقت اب کسی
سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ پاکستان میں نسلی و گروہی پہلو سیاست اور انتخابی
نتائج پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔ مردم شماری چونکہ اس حوالے سے
اعدادوشمار کو مزید واضح کردے گی جس کے بعد وسائل کی تقسیم اور دیگر
معاملات کا رخ تبدیل ہوسکتا ہے۔ لہٰذاایسے سیاسی خدشات بھی دہشت گردی کا
محرک ہوسکتے ہیں۔
یہ حقیقت بھی مدنظر رہے کہ مردم شماری جیسے کاموں کے لیے عملے کو محلے محلے
اور گھر گھر جانا پڑتا ہے اور چونکہ بہت سی تنظیموں کے مختلف علاقوں میں
سلیپرز سیل موجود ہیں۔ چور کی داڑھی میں تنکے کے مصداق دہشت گردوں کو خدشہ
ہے کہ کہیں مردم شماری کے دوران عام افراد کے لبادے میں چھپے ان کے ساتھی
اور یہ سلیپر سیلز بے نقاب نہ ہوجائیں لہٰذا یہ بھی اس عمل میں رکاوٹ ڈالنے
کی ایک بڑی وجہ ہوسکتی ہے۔بہرحال وجوہات یا محرکات جو بھی ہوں،یہ بات طے ہے
کہ یہ تمام عناصر ریاست کے دشمن ہیں اور انہیں بے نقاب کرکے انجام تک
پہنچانا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ گزشتہ دنوں چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید
باجوہ اپنے ایک وڈیو پیغام میں ہرپاکستانی کو ردالفساد کا سپاہی قرار دے
چکے ہیں۔ ان کا یہ بیان ہمیں یہ احساس دلا رہا ہے کہ فوج اور دوسرے سیکورٹی
اداروں کے ساتھ ساتھ پاکستان کے تمام شہریوں کو بھی اپنی ذمہ داریوں
کامظاہرہ کرتے ہوئے اردگرد ماحول پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ ہمارے گلی
محلوں میں سلیپرز سیلوں میں چھپے دہشت گردوں کو ان کے منطقی انجام تک
پہنچایا جا سکے۔
چند روز قبل کراچی کے علاقے اردو بازار میں ایسے ہی ایک سلیپر سیل پر
رینجرز اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے چھاپہ مارا تووہاں چھپے
دہشت گردوں نے ان پر کریکر بموں سے حملہ کردیا جس کے نتیجے میں چار اہلکار
زخمی ہوگئے۔جوابی کارروائی میں تین دہشت گرد مارے گئے۔اس گھر میں ایک خاتون
اور بچہ بھی موجود تھے۔ جو دہشت گردوں کی جانب سے دھماکے کے نتیجے میں ہلاک
ہوگئے۔یہ واقعہ شہری علاقوں میں دہشت گردوں کے سلیپرز سیلوں کی موجودگی کے
ساتھ ساتھ ان کی طرف سے بچوں اور عورتوں کو شیلڈ کے طور پر استعمال کرنے کی
خوفناک اطلاع دے رہا ہے۔ پاک فوج نے ایسے ہی خدشات کے پیش نظر ردالفساد
آپریشن شروع کیا تھا تاکہ گلی محلوں میں چھپے ایسے دہشت گردوں، ان کے
ساتھیوں، سہولت کاروں اور چھپائے گئے اسلحے اور گولہ بارود کی شناخت اور
تلاش کی جائے۔اس سلسلے میں سیکورٹی اداروں کو اہم کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں۔
عام سے لوگ جو بظاہر دکانداربے ضرر عام شہری نظر آتے تھے اور کئی برسوں سے
علاقے میں مقیم تھے، دہشت گردی میں ملوث پائے گئے۔ ان سے بھاری تعداد میں
خطرناک اسلحہ اور گولہ بارود بھی برآمد کیا گیا ۔
اسی طرح کی ایک مثال لیاقت یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ سائنسز(لمز) کی طالبہ
نورین لغاری کی ہے۔جسے حال ہی میں لاہور کے پوش علاقے پنجاب ہاؤسنگ سوسائٹی
سے دہشت گردوں سے مقابلے کے بعد حراست میں لیا گیا۔ نورین 10 فروری کو
جامعہ سے لاپتہ ہوئی تھی۔ بعد ازاں اس نے اپنے بھائی کو ایک پیغام روانہ
کیا تھا کہ وہ خلافت کی سرزمین (شام) خیریت سے پہنچ گئی ہے۔گزشتہ دنوں
ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے میڈیا کے نمائندوں کو
بریفنگ دیتے ہوئے نورین لغاری کا وہ بیان دکھایا جس میں اس نے اعتراف کیا
کہ اسے اغوا نہیں کیا گیا تھا بلکہ وہ اپنی مرضی سے لاہورآئی۔ اس کے
ساتھیوں کا مقصد خود کش حملے کرنا اور انٹیلی جنس اہلکاروں کو اغوا کرنا
تھا۔نورین کے مطابق ان کے پاس ہینڈ گرنیڈاورخود کش جیکٹیں بھی تھیں جن سے
ایسٹر کے روز کسی چرچ پر خود کش حملہ کیا جانا تھا اور اس مقصد کے لئے اسے
ہی چنا گیا تھا۔ یہ اطلاعات بھی ہیں کہ جب سیکورٹی فورسز نے پنجاب ہاؤسنگ
سوسائٹی میں موجود ان کے کرائے کے گھر پر چھاپہ مارا تو نورین نے باقاعدہ
طور پر دہشت گردوں کے شانہ بشانہ سیکورٹی فورسز پر فائرنگ کی۔
لمز کی اس ’’پڑھی لکھی‘‘ طالبہ کی دہشت گرد تنظیم میں شمولیت ،’’کارنامے‘‘
اور اس کے ساتھی دہشت گردوں کی ہمارے گلی محلوں میں عام شہریوں کے روپ میں
موجودگی ہماری آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے۔اسی طرح چند ماہ قبل لاہور میں
مال روڈ پر ہونے والے خود کش حملے جس میں پولیس کے اعلیٰ افسروں سمیت
13افراد شہید ہوگئے تھے، میں بھی ایسا سہولت کار ملوث تھا جس کی بظاہر کپڑے
کی دکان تھی اور وہ لنڈا بازار کے ایک کرائے کے گودام میں اپنے بیوی اور
چار بھائیوں کے ساتھ رہتا تھا۔اس نے خودکش حملہ آور کو خودکش جیکٹ سمیت اسی
گودام میں ٹھہرا رکھا تھا اور ’’ٹارگٹ‘‘ ملنے پر اسی نے خودکش بمبار کو
موقع پر بھی پہنچایا تھا۔
ان چند مثالوں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ دہشت گردکس حدتک ہمارے معاشرے
میں رچ بس چکے ہیں۔ وہ مختلف علاقوں میں اپنے سلیپرسیلوں کے ذریعے دہشت
گردی کی مذموم کارروائیاں جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ ہماری نوجوان نسل کو بھی
اپنے مقاصد کے لئے ورغلا رہے ہیں۔ لہٰذاہمیں نہ صرف اردگرد اجنبیوں بلکہ
اپنے بچوں کی سرگرمیوں پر بھی نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ خاص طور پراس وقت جب
وہ انٹرنیٹ استعمال کررہے ہوں کیونکہ نیٹ ہی نوجوانوں کو ہنٹ کرنے کا سب سے
بڑا ذریعہ ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ افواج پاکستان اور دیگر سیکورٹی
اداروں نے ردالفساد کے تحت کامیاب آپریشنز کے ذریعے بہت سے دہشت گردوں اور
ان کے سہولت کاروں کوان کے انجام تک پہنچایا ہے تاہم اس ناسور کے مکمل
خاتمے کے لئے بقول چیف آف آرمی سٹاف ہر پاکستانی کو سپاہی بننا پڑے گا۔
|