قرآنی آیات کا مفہوم ہے کہ ’’پاک ہے وہ ذات جو اپنے
بندے کوایک ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ لے گئی جس کے آس پاس ہم نے
برکت دے رکھی ہے اس لئے کہ ہم اسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائیں یقیناََ
اﷲ تعالیٰ ہی خوب سننے والا اور دیکھنے والا ہے ‘‘۔حضرت ابوذر ؓ سے مروی ہے
کہ نبی کریم محمد الرسول اﷲ ﷺ سے پوچھا گیا کہ زمین میں سب سے پہلی مسجد
کون سی بنائی گئی ؟ تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا ’’مسجد حرام !تو میں نے پوچھا
کہ اس کے بعد کونسی ہے ؟تو نبی آخرالزماں ﷺ نے فرمایا کہ مسجد اقصیٰ!میں نے
پوچھا کہ ان کے درمیان کتنا عرصہ ہے؟ تو نبی اقدس ﷺ نے فرمایا کہ چالیس سال
!پھر جہاں بھی نماز کا وقت آ جائے نماز پڑھ لو کیونکہ اسی میں فضیلت ہے ‘‘۔مسجد
اقصیٰ مسلمانوں کا قبلہ اول ہے اور معراج میں نماز کی فرضیت 16 سے 17ماہ تک
مسلمان مسجد اقصیٰ کی جانب رخ کر کے ہی نماز ادا کرتے تھے پھر تحویل قبلہ
کا حکم آنے کے بعد مسلمانوں کا قبلہ خانہ کعبہ ہو گیا ۔مسجد اقصیٰ کا بانی
حضرت یعقوب ؑ کو مانا جاتا ہے اور اسکی تجدید حضرت سلیمان ؑنے کی ۔ پہلی
جنگ عظیم کے بعد عیسائیوں کا بیت المقدس پر قبضہ ہو گیا تو انہوں نے مسجد
اقصیٰ میں بہت ردو بدل کی انہوں نے مسجد میں رہنے کیلئے کئی کمرے بنا لئے
اور اس کا نام معبد سلیمان رکھا متعدد دیگر عمارتوں کا اضافہ کیا جو بطور
جائے ضرورت اور اناج کی کوٹھیوں کے استعمال ہوتی تھیں انہوں نے مسجد کے
اندر اور مسجد کے ساتھ ساتھ گرجا بھی بنا لیا سلطان صلاح الدین ایوبی نے
فتح بیت المقدس کے بعد اقصیٰ کو عیسائیوں کے تمام نشانات سے پاک کیا اور
محراب اور مسجد کو دوبارہ تعمیر کیا ۔زمانہ قدیم میں مسجد کا اطلاق پورے
صحن پر ہوتا تھا اور اس کی تائید امام ابن تیمیہ کے اس بیان سے بھی ہوتی ہے
کہ ’’مسجد اقصیٰ اس ساری مسجد کا نام ہے جسے سلیمان ؑ نے تعمیر کیا تھا اور
بعض لوگ اس مصلیٰ یعنی نماز پڑھنے کی جگہ کو جسے عمر ابن خطاب ؓ نے اس کی
اگلی جانب تعمیر کیا تھا اقصیٰ کا نام دینے لگے ہیں ۔اکیس اگست 1969 کو ایک
آسٹریلوی یہودی ڈینس مائیکل روحان نے قبلہ اول کو آگ لگا دی جس سے مسجد
اقصیٰ تین گھنٹے تک آگ کی لپیٹ میں رہی اور جنوب مشرقی جانب عین قبلہ کی
طرف کا بڑا حصہ گر پڑا محراب میں موجود منبر بھی نذر آتش ہوگیا جسے صلاح
الدین ایوبی نے فتح بیت المقدس کے بعد نصب کیا تھا صلاح الدین ایوبی نے
قبلہ اول کی آزادی کیلئے تقریباََ 16جنگیں لڑیں اور ہر جنگ کے دوران وہ اس
منبر کو اپنے ساتھ رکھتے تھے تا کہ فتح ہونے کے بعد اس کو مسجد میں نصب کر
سکیں ۔اس المناک واقعہ کے بعد خواب غفلت میں ڈوبی ہوئی امت مسلمہ کی آنکھ
ایک لمحے کیلئے بیدار ہوئی اور سانحے کے تقریباََ ایک ہفتے بعد اسلامی
ممالک نے ’موتمر عالم اسلامی‘ او آئی سی قائم کر دی تاہم 1973 میں پاکستان
کے شہر لاہور میں ہونے والے دوسرے اجلاس کے بعد 56اسلامی ممالک کی یہ تنظیم
غیر فعال ہو گئی ۔یہودی اس مسجد کو ہیکل سلیمانی کی جگہ تعمیر کردہ عبادت
گاہ سمجھتے ہیں اور اسے گرا کر دوبارہ تعمیر کرنا چاہتے ہیں حالانکہ وہ
کبھی بھی بذریعہ دلیل اس کو ثابت نہیں کر سکے کہ ہیکل سلیمانی یہیں تعمیر
تھا ۔اگر ہم جائزہ لیں تو یہ آج سے نہیں بلکہ دو ہزار سال سے دنیا بھر کے
یہودی ہفتے میں چار مرتبہ یہ دعائیں مانگتے رہے ہیں کہ بیت المقدس پھر
ہمارے ہاتھ آ جائے اور ہم ہیکل سلیمانی کو پھر تعمیر کریں ہر یہودی گھر میں
مذہبی تقریبات کے موقع پر اس تاریخ کا پورا ڈراما کھیلا جاتا ہے کہ ہم مصر
سے کس طرح نکلے اور فلسطین میں کس طرح سے آباد ہوئے اور کیسے بابل والے ہم
کو لے گئے اور ہم کس طرح سے فلسطین سے نکالے گئے اور بکھر گئے ۔جسکا مقصد
بچے بچے کے دماغ میں اس بات کو بٹھانا ہے کہ ان کی زندگی کا مقصد بیت
المقدس کی جگہ ہیکل سلیمانی تعمیر کرنا ہے۔بارہویں صدی عیسویں کے مشہور
یہودی فلسفی موسیٰ بن میمون نے اپنی کتا ب شریعت یہود میں صاف صاف لکھا ہے
کہ ہر یہودی نسل کا یہ فرض ہے کہ وہ بیت المقدس میں ہیکل سلیمانی کو از سر
نو تعمیر کرے۔ حال ہی میں یہودی مراکشی دروازے کے راستے مسجد اقصیٰ میں
داخل ہوئے جبکہ شام کو یہودی شر پسند قبلہ اول میں د اخل ہونے کے بعد مسجد
کے اندرونی اطراف میں گھومتے اور سیٹیاں بجاتے رہے ہیں تاہم فلسطینی
اتھارٹی کے ماتحت نام نہاد پولیس نے گزشتہ روز غرب اردن سے مزید چھ فلسطینی
شہریوں کو حراست میں لے لیا ہے۔مسجد اقصی پر قبضہ کرنے کی ریت یہودیوں نے
جارحانہ اپنا رکھی ہے اور آئے دن کوئی نہ کوئی سانحہ اس میں رونما ہوتا
رہتا ہے یہاں تک کہ مسجد اقصیٰ میں مسلمانوں کو عبادت کرنے سے بھی روک دیا
گیا ہے ۔ حالات آئے روز سنگین ہوتے جا رہے ہیں شام خراب ہو چکا ہے ۔حال ہی
میں دوبارہ مسلم ممالک کی افواج پر مشتمل ایک گرینڈ الائنس منظم ہوا ہے جس
کا کام دنیا بھر میں دہشتگرد ی کی روک تھام کرنا اور دنیا کو امن و امان کا
گہوارہ بنانا ہے لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس اتحاد کی نظر
میں دہشتگردی صرف وہ ہے جو امریکہ اور اقوام متحدہ کو نظر آ تی ہے یا دنیا
بھر میں ہونے والے اسلامی ممالک پر یہودیوں اور دیگر بین المذاہب کی جانب
سے بہیمانہ پے در پے حملے بھی دہشتگردی کے ذمرے میں آتے ہیں؟ اگر ہیں تو یہ
ایک تصفیہ طلب مسئلہ ہے جس کا حل ترجیحی بنیادوں پر سوچنے کی ضرورت ہے ۔ |