مشکل راستے قسط نمبر47

بابا یعنی احسان صاحب کی موت کو ایک ہفتہ گزر چکا تھا ۔۔۔۔۔۔ مگر شہیر میاں کا رونا بند نہیں ہوا اب بھی وہ اداس اداس سے صحن میں رکھی بابا کی چارہائی کے پاس بیٹھے اللہ جانے کیا سوچتے رہتے ۔۔۔ حوریہ بی بی ان کی دلجوئی کرنے میں لگی رہتیں ۔۔۔ انہیں صبر کی تلقین کرتی رہتیں ۔۔۔ وہ خاموش انہیں دیکھتے رہتے ۔۔ بولتے کچھ نہیں ۔۔۔ حوریہ بی بی اپنے وطن پاکستان واپس لوٹ جانا چاہتی تھیں ۔۔۔ انہیں اپنی اکلوتی اولاد فاطمہ کی فکر تھی نا جانے وہ کس حال میں تھیں وہاں ۔۔۔ انہیں بابا کی موت کا بے حد دکھ بھی تھا ۔۔۔وہ ایک شفیق ہستی تھے ۔۔۔ اور جس طرح انہیں اپنے گھر میں پناہ دی تھی ۔۔۔ ان کا خیال رکھا تھا وہ کبھی بھی بھول نہیں سکتی تھیں ۔۔۔ وہ اس ننے سے جن کو بھی ساتھ لے جانا چاہتی تھیں ۔۔۔ ابھی شہیر میاں کورے کاغظ کی طرح تھے ۔۔۔ معصوم اور بھولے بھالے سے ۔۔۔ کوئی بھی اس معصوم جن کو ورغلہ سکتا تھا ۔۔۔۔ غلط راہوں پر ڈال سکتا تھا ۔۔۔ اسی لئے حوریہ بی بی انہیں اکیلا چھوڑنا نہیں چاہتی تھیں ۔۔۔ جب ان سے پوچھا تو وہ رونے لگے ۔۔۔۔

خالہ اماں میرے کُو یہیں رہنا ۔۔۔ میں نئی جاتا کئیں بھی ۔۔۔ بابا کی یاداں اماں کی یاداں اس گھر کے چاروں کونوئوں (کونوں) میں ہیں ۔۔۔

شہیر یادیں تو دل سے وابستہ ہوتی ہیں ۔۔۔ انہیں خالی مکان یا چیزوں میں تلاش نہیں کیا جاسکتا ۔۔۔ تم جہاں بھی جاؤ گے یہ یادیں تمہارے ساتھ جائینگی ۔۔۔ اور ویسے بھی اب مجھے یہاں سے واپس اپنے وطن لوٹ جانا ہے ۔۔۔ اور اکیلے میں تمہیں چھوڑنا یہاں چاہتی نہیں ۔۔۔ تم ابھی بہت چھوٹے ہو ۔۔۔۔ اور ویسے بھی تم نے مجھے خالہ اماں کہا ہے ۔۔۔ اس لئے تمہیں بہت مان سے کہہ رہی ہوں ۔۔۔

کچھ حجت کے بعد آخر کار شہیر میاں ان کے ساتھ چلنے کو راضی ہو ہی گئے ۔۔۔

××××××××××××××××

کہتے ہیں کہ زندگی اگر گردش دوراں کا شکار ہوجائے تو ایسی ایسی انہونیاں آپ کے ساتھ ہونے لگتی ہیں ۔۔۔ جن کا تصور بھی آپ عام دنوں میں کبھی بھولے سے بھی نہیں کرتے ۔۔۔۔ اور میری زندگی ایسے ہی عجیب سے واقعات سے بھرنے لگی تھی ۔۔۔اور اس کی سب سے پہلی کڑی اماں بی کی ناگہانی موت سے شروع ہوئی تھی اور پتا نہیں آگے اور کیا کچھ دیکھنا اور سہنا باقی تھا ۔۔۔ یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا تھا ۔۔۔ ککو کے ساتھ پیش آنے والے واقع کے بعد میں نے انہیں اپنے ساتھ سلانا شروع کردیا تھا ۔۔۔ ویسے بھی اب سنئیہ تو رہی نہیں تھی ۔۔۔ اس کے بیڈ پر ککو سو جاتیں ۔
ان بزرگ جن سے میں نے اس سلسلے میں بات کی تھی ۔۔۔

بیٹا اب بےفکر رہو ککو کی ذمہ داری اب ہم لیتے ہیں ۔۔۔ انشاءاللہ آئندہ ایسا کبھی نہیں ہوگا ۔۔۔۔

انکی اس بات پر مجھے اطمینان تو ہوا تھا مگر میں پھر بھی کوئی رسک لینا نہیں چاہتی تھی ۔۔۔ اور اگر میری وجہ سے ککو کو کچھ ہوجاتا تو شائد میں خود کو کبھی معاف نہ کرپاتی ۔۔۔ آخر کار بہت سوچ بچار کے بعد میں نے ایک فیصلہ کر ہی لیا ۔۔۔ جو میرے لئے تکلیف دہ تو تھا مگر ککو کی حفاظت کے لئے ضروری بھی تھا ۔۔۔ اس دن بھی میں اپنے آفس کے تمام ضروری کام نبٹا رہی تھی ۔۔۔ کہ انٹر کام پر میری سیکٹری کی آواز ابھری ۔۔۔

میم وجاہت صاحب آچکے ہیں ۔۔۔

انہیں اندر بھیج دی جئے ۔۔۔۔

اسے جواب دے کر میں نے پھر سے لیپ ٹاپ کی سکرین پر اپنی نظریں جما دیں اور کی پیڈ پر میرے ہاتھ دوبارہ سے تیزی سے حرکت کرنے لگے ۔۔۔ تقریباً پانچ منٹ بعد ہی میرے کیبن کے دروازے پر دستک ہوئی ۔۔۔

پلیز کم ان ۔۔۔

بدستور ٹائیپنگ کرتے ہوئے میں نے کہا تھا اور نظریں اسکرین سے ہٹا کر دروازے کی سمت دیکھا تھا ۔۔۔

اسلام علیکم انکل ۔۔۔ کیسے ہیں آپ ۔۔۔

وعلیکم اسلام ۔۔۔۔ بالکل ٹھیک ۔۔۔۔ تم سناؤ بیٹا کیسی ہو ۔۔۔

وہ اندر داخل ہوئے تو میں اپنی نشست سے اٹھتے بولی تھی ۔۔۔ جس کا انہوں نے مسکرا کر جواب دیا تھا ۔۔۔

پہلے آپ یہ بتائے چائے پئینگے یا کافی ۔۔۔۔

کافی ٹھیک رہے گی ۔۔۔

پلیز دو کپ کافی بھیج دیجئے گا ۔۔۔۔

یاسمین آپا کو انٹرکام پر کہہ کر وجاہت انکل کو دیکھا ۔۔۔۔

میرے خیال میں کام کی بات اب ہوجائے ۔۔۔ تم نے مجھے بلایا کس لئے ہے ۔۔۔

انکل میں یہ سارا بزنس سنئیہ کو ہینڈ اوور کرنا چاہتی ہوں ۔۔۔۔ اور اپنے زاتی اکاؤنٹ پڑی رقم ککو کے نام کرنا چاہتی ہوں ۔۔۔۔

کیا مطلب ؟ سنئیہ کی بات تو سمجھ میں آتی ہے ۔۔۔ مگر ککو ۔۔۔۔

ککو اماں بی اور ہمارے لئے کیا ہیں یہ آپ کو بھی اندازہ ہوگا ۔۔۔۔ ان کی بے لوث محبت کے آگے یہ تو کچھ بھی نہیں ۔۔۔۔

بیٹا میں مانتا ہوں ۔۔۔ مگر اس سے پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ اپنا سب کچھ یوں لُٹا دینا دانشمندانہ اقدام نہیں ۔۔
کچھ اپنے لئے بھی رکھو ۔۔۔

وہ میری بات سن کر چونکے تھے اور مجھے سمجھانے کی کوشش کی تھی ۔۔۔ مگر میں تو فیصلہ کر چکی تھی ۔۔۔
اور پھر آدھے گھنٹے کی بحث کے بعد انہوں نے خاموشی اختیار کر لی ۔۔۔ میں جانتی تھی انہیں میرا فیصلہ اچھا نہیں لگا تھا ۔۔ مگر انہیں وہی کرنا تھا جو میں چاہتی تھی ۔۔۔۔

×××××××××××××

رات کے آخری پہر فجر کی نماز سے تقریباً آدھا گھنٹا پہلے میں خاموشی سے اپنے بیڈ سے اٹھی تھی ۔۔۔ اور ایک محبت بھری نظر سنئیہ کے بیڈ پر سوئی ککو پر ڈالی تھی ۔۔۔۔۔ اور بہت آہستہ سے کمرے کا دروازہ کھول کر نکل گئی ۔۔۔ اور پھر تیزی سے مین ڈور کا دروازہ کھول کر گھر سے باہر قدم رکھ دئے ۔۔۔۔ پھر مین گیٹ کھول کر باہر نکل آئی ۔۔۔۔ پلٹ کر گھر کی طرف دیکھا تھا ۔۔۔۔ بے اختیار آنکھوں سے آنسو جاری ہوئے تھے ۔۔۔ بابا جانی اور اماں بی ۔۔۔ سنئیہ اور ککو کے ساتھ گزرے پل نظروں کے سامنے پھر گئے تھے ۔۔۔ اور دل جیسے کسی نے مُٹھی میں لے لیا تھا ۔
بے اختیار دل نے دہائی دی تھی ۔۔۔۔ مگر میں پھر رکی نہیں تیزی سے دوڑتی ہوئی گلی سے ہی نکل گئی ۔۔۔ اور اب جب اس گلی اس محلے سے نکل آئی تب اپنی رفتار کو دھیما کیا تھا ۔۔۔ اور تیز قدموں سے چلتی ہوئی مین روڈ پر آگئی تھی ۔۔۔۔ مین روڈ پر اکا دکا گاڑیاں دوڑ رہی تھیں ۔۔۔ گھپ اندھیرا پہیلا ہوا تھا ۔۔۔۔ اسٹریٹ لائیٹس ٹمٹماتے چراغ کی طرح روشن تھے ۔۔۔ جن کی روشنی نہ ہونے کے برابر تھی ۔۔۔۔ میں نے بلا سوچے سمجھے ایک سمت اپنے قدم بڑھا دئے تھے ۔۔۔۔ اچانک ہی مجھے ایسا محسوس ہونے لگا جیسے کوئی میرے پیچھے چل رہا ہو ۔۔۔۔ مُڑ کر دیکھا تو کوئی دکھائی نہیں دیا ۔۔۔ میں نے اسے اپنا وہم جانا اور اسی رفتار سے نامعلوم منزل کی طرف چلنے لگی ۔۔۔

عائیشہ ۔۔۔۔ ہی ہی ہی ۔۔۔۔ عائیشہ ۔۔۔۔

عجیب سی بھاری آواز میں مجھے پکارا گیا تھا پیچھے سے ۔۔۔ چونک کر پیچھے مُڑکر دیکھا تو ایک عورت کو اپنے پیچھے چلتے پایا ۔۔۔ وہ عجیب انداز میں چل رہی تھی ۔۔۔ اور گردن آگے کی اور جھکی ہوئی تھی ۔۔۔۔

×××××××××××××××××

باقی آئندہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

farah ejaz
About the Author: farah ejaz Read More Articles by farah ejaz: 146 Articles with 230273 views My name is Farah Ejaz. I love to read and write novels and articles. Basically, I am from Karachi, but I live in the United States. .. View More