یوں تو پاکستان کو قائم ہوئے 70 سال سے زیادہ کا عرصہ ہو
چکا ہے۔ مگر بدقسمتی سے پاکستان جیسی ا سلامی ریاست اور ملک میں اسلامی
قوانین کا نافذ نہ ہونا اس سے بھی زیادہ بدقسمتی کا ثبوت ہے۔کہنے کو تو ملک
میں تمام قوانین موجود ہیں۔ مگر یہ صرف غریبوں اور عام شہریوں کے لیے۔ آپ
کو اور مجھے پتہ ہے کہ ان قوانین کے شکنجے میں صرف عام اور غریب لوگ ہی
جکڑے جاتے ہیں۔ امیر اور حکمرا ن ان قوانین سے آزاد ہیں۔کہنے کو تو پاکستان
جیسی اسلامی ریاست میں امیر اور غریب کے لئے قوانین برابر ہیں۔ مگر یہ کہنے
کی حد تک بالکل درست ہے۔مگر جب ہماری انصاف کی عدالت میں کھڑے مظلوم اور
مجرم کے درمیان مقدمے کا فیصلہ ہوتا ہے ۔ پتہ تب و چلتا کہ ہمارا عدل دینے
کا نظام کتنا طاقت ور ہے پاکستان میں 80 فیصد لوگ انصاف کے لیے عام او ر
فوری نہ ملنے کا شکوہ کرتے ہیں۔یہ درست ہے جس ملک میں انصاف اور قانون کے
بالا دستی نہیں ہوتی۔ تو اس ملک کو ایسے ہی حالات او ر مسائل کا سامنا کرنا
پڑتا ہے۔ جس حالات سے پاکستان اب گزر رہا ہے ۔جس ملک میں انصاف طلب کرنے
والوں کا معاشرتی مرتبہ کم اور مجرم معاشرتی اثرو سوخ زیادہ ہو ۔ وہ قوم اﷲ
کے ہاں اچھی نہیں ہو سکتی۔جس ملک میں انصاف مانگنے والا کمزو ر ہو اور ظلم
کرنے والا طاقت و ر ہو اور تمام انتظامیہ اس کے ساتھ ہو۔ اس معاشرے میں عدل
کبھی بھی فروغ نہیں پائے گا۔ اور نہ انصاف کی بالا دستی قائم ہوگی ۔پاکستان
کی تاریخ ایسے ہی انصاف کے تقاضے پورے نہ کرنے والے مقدمات سے بھری پڑی ہے۔
گھریلو ملازمہ سے لے کر زین قتل کیس تک۔ پاکستانی اعلٰی عدلیہ میں ایک اور
و اقعہ ہے۔جب ایک خاتون نے اپنے بیٹے کے قاتلوں کو معاف کرنے کا کہا تھا کہ
میں کمزور ہوں اور میری بیٹیاں ہیں ۔دشمن طاقتور ہے۔میں اپنا کیس واپس لیتی
ہوں۔ پاکستان میں یہ کوئی نئی روایت نہیں ہے۔مظلوم انسانوں کو مختلف طریقوں
سے کیس کی پیروی نہ کرنے، صلع کرنے اور جان سے مار دینے کی دھمکیاں دی جا
تی ہیں جس سے ظالم کی چکی میں پھنس جانے والا انسان ڈر کر پیچھے ہٹ جاتے
ہیں۔یوں مجرم کی جیت ہو جاتی ہے اور مظلوم انسان کی ہار۔ جیسے ایک واقعہ
معزز عدالت میں پیش آیا۔کیونکہ مظلوم انسان کو پتہ ہے، میری ر یاست مجھے
کبھی بھی ا نصاف دلانے میں پہل نہیں کرے گی۔ ظالم اور امیر دنیا میں ا نصاف
کی ہر عدالت سے بری ہیں کیونکہ وہ اپنے حق میں فیصلہ لینے کے لئے کچھ بھی
کر سکتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ آئین میں بھی ردوبدل کر سکتا ہے۔ مگر پاکستان کی
عدالتوں میں اور پارلیمینٹ میں بل پاس نہیں ہوتے تو صرف غریبوں کے لئے۔ اس
وجہ سے تو پاناما کیس میں حکمران بال بال بچ گئے ۔ مگر فرض کریں یہی کیس
اگر عام پاکستانی کا ہوتا جس کا کسی سیاسی جماعت سے تعلق نہ ہوتا۔ تو اس پر
انصاف کے تقاضے ضرور پورے کئے جاتے ۔ کیونکہ مظلوم اور کمزور لوگوں میں
عدالتوں پر پریشر ڈالنے کی ہمت اور طاقت نہیں ہوتی۔اس لیے تو و ہ تھانے میں
پولیس گردی کا نشانہ بنتے ہیں۔اور یہی لوگ بڑے مجرم قرار پا تے ہیں۔ اﷲ
افسوس کرتا ہے ایسے نظام عدل پر جس معاشرے میں غریب کے لئے انصاف حاصل کرنا
مشکل ہو اور امیر کے لئے آسان۔ وہ ملک دنیا میں قا بل فخر مقام حاصل نہیں
کر سکتا۔ |