بسم اللہ الرحمن الرحیم
ہرکام اللہ کی رضا کے لئے ہونا چاہیے۔ جوکام اللہ کو راضی کردے وہ چھوٹا
نہیں ہو سکتا اور جس کام سے اللہ ناراض ہو جائے وہ بڑا نہیں کہلا سکتا۔ایک
اسلامی معاشرے میں تعلیمی ادارے خواہ دینی مدارس ہوں یا سکول و کالج ہوں ،
یہ بنی نوع انسان کو خدا سے قریب کرنے کا بہترین وسیلہ ہیں۔
کسی زمانے میں ملت اسلامیہ کو ان مدارس اور یونیورسٹیوں کا ثمر بہترین طالب
علموں کی صورت میں ملتا تھا۔ تعلیمی اداروں کا یہ ثمر اور پھل جسے ہم طالب
علم کہتے ہیں ،ایک دن میں پک کر میٹھا نہیں ہوجاتا تھا۔ بلکہ جس طرح ایک
بیج کو زمین کے اندر مدتوں کیمیائی اور حیاتیاتی عمل سے گزرنا پڑتاہے جس کے
بعد وہ ایک پودے کی صورت میں زمین کے اوپر تند و تیز ہواوں اور سورج کی گرم
شعاوں کا مقابلہ کرنے کے قابل بنتاہے۔ اسی طرح ایک طالب علم کو بھی کسی
تعلیمی ادارے میں کئی سالوں تک تعلیمی مراحل کو طے کرنا پڑتا تھا تب جاکر
وہ معاشرے میں شجرِ سایہ دار اور ثمردار بن کر کھڑا ہوتا تھا۔
جس طرح کسی پودے کو کھینچ کر زبردستی درخت نہیں بنایاجاسکتا۔اسے درخت بننے
کے لئے مسلسل مٹی ،پانی،گیس اور ہوا کے ساتھ ساتھ موسمی تغیرات کی ضرورت
پڑتی ہے۔پھردرخت بننے کے بعد بھی پودے کو مسلسل موسمی تربیّت کے مراحل طے
کرنے پڑتے ہیں تب جاکر اس پر شگوفے کھلتے ہیں اور پھل اگتے ہیں۔یعنی کسی
غنچے کو طاقت کے ساتھ مروڑ کر پھول نہیں بنایاجاسکتا اور کسی پھول کومسل کر
یادبا کر قوت و طاقت سے پھل بھی نہیں بنایا جاسکتا۔جب پھل لگ جاتاہے تو پھر
ایک دن میں پک کر میٹھا نہیں ہوجاتا۔پھل بھی سورج کی کرنوں اور چاندنی کی
آغوش میں مقررہ عمل طے کرنے کے بعدہی میٹھا اور شیرین ہوتاہے۔
اسی طرح ایک انسان کو بھی زبردستی اچھا اور مفید انسان نہیں بنایا جاسکتا،
اسے بھی مسلسل تعلیم و تربیت، غوروفکر، تحقیق اور مطالعے کے عمل سے گزرنا
بڑتا ہے۔تعلیم و تربیت کے مراحل سے اچھی طرح گزرنے والے لوگ ہی انسانی
تہذیب کے ستون کہلاتے ہیں۔
انسانی تہذیب کا شجر بھی اسی طرح ہے۔انسانی تہذیب کو بھی آگے بڑھنے اور
ارتقاء کرنے کے لئے مختلف ادوار سے گزرنا پڑتاہے۔بہترین تہذیب سے بہترین
ثقافت جنم لیتی ہے اور بہترین ثقافت سے بہترین تمدن وجود میں آتا ہے اور
بہترین تمدن اپنی گود میں بہترین اقوام کو پروان چڑھاتاہے۔
انسانی تہذیبوں کے درمیان اسلامی تہذیب کو یہ انفرادیت حاصل ہے کہ اس تہذیب
کی بنیادیں معلم بشریت اور معلم اخلاق حضرت محمد رسول اللہ ﷺ نے رکھیں۔
اسلامی تہذیب کی بنیاد ہی تعلیم و تحقیق پر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید
نے بنی نوع انسان کو لکیر کا فقیر بن کر اسلام قبول کرنے کے بجائے بار بار
غوروفکر کرنے کی دعوت دی ہے۔
صدرِ اسلام میں صفہ کی درسگاہ اور مسجد النبی[ص] کے زیرِ سایہ جو تہذیب
پروان چڑھی وہ خالصتا ایک علمی و فکری تہذیب تھی۔اسی علمی و فکری تہذیب نے
ایک علمی و متمدن قوم کو جنم دیا جس کی آغوش میں سعدی،
فارابی،رومی،سینا،جابر بن حیان اور طوسی جیسی گرانقدر شخصیات نے جنم لیا۔
رفتہ رفتہ دین اسلام سے تحقیق اور غوروفکر کا عنصر کم ہوتا گیا اور اس کی
جگہ دیگر تہذیبوں کی طرح بادشاہت، تلوار، اسلحے اور طاقت نے لے لی۔
مختلف حکومتوں اور حالات و واقعات کے پیشِ نظر جیسے جیسے اسلامی تہذیب سے
مکالمے،مناظرے، تحقیق اور غوروفکر کا خاتمہ ہوتا گیا اوردنیا میں اسلامی
تہذیب نایاب ہوتی گئی۔مسلمان بادشاہوں نے اسلامی اخلاق کے بجائے اپنی عادات
و اطوار کو اسلامی معاشرے میں رواج دیا اور حتّی کہ اب نوبت یہاں تک پہنچ
چکی ہے کہ بقول اقبال یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود۔
وقت کے ساتھ ساتھ اسلامی تہذیب سے عاری مسلمانوں نے مغربی تہذیب سے متاثر
ہو کر جدید تعلیمی ادارے کھولے اور ان اداروں کے پروردہ لوگوں نے تمام
قلمدان سنبھال لئے۔خصوصا روس کے ساتھ افغانستان کی جنگ کے دوران ہمارے بعض
دینی مدارس مکمل طور پر سیکولر اور امریکی ہاتھوں میں کھیلنے لگے اور ہمارے
بعض دینی مدارس اور سکول و کالجز اور یونیورسٹیوں کے بلواسطہ یا بلا واسطہ
ناخدا یہی امریکہ نواز اور سیکولرلوگ بن گئے۔یہ لوگ بظاہر دین اسلام کی مدد
و نصرت اور جہاد کی بات کرتے تھے لیکن در حقیقت روس کے مقابلے میں امریکہ
کی مدد کے لئے ہمارے جوانوں کو استعمال کرنا چاہتے تھے۔
افغانستان میں امریکہ اور روس کی جنگ کے دوران پاکستان بھر میں تعلیمی
اداروں کے نصاب سے لے کر فنڈنگ تک ہر طرف یہی امریکہ نواز اور سیکولر طبقہ
چھا یا رہا۔ اس طبقے نے تعلیمی اداروں میں اپنے مفادات کے لئے اسلامی
اخلاقیات اور اقدار کے بجائے ، تند روی، بد اخلاقی، کاشنکوف کلچر، نفرت
آمیز نعروں اور مخصوص جھنڈوں اور رنگوں کا کلچر عام کیا۔
بالاخر بعض یونیورسٹیوں کی طلبا تنظیموں اوربعض دینی مدارس ، دونوں کو اس
سیکولر امریکہ نواز طبقے نے اپنے مفادات کے لیے بھرپور استعمال کیا۔ جن
دینی مدارس اور یونیورسٹیوں میں ان امریکہ نواز لوگوں کا اثر و نفوذ رہا
ہے، وقت کے ساتھ ساتھ ان مدارس اور یونیورسٹیوں سے نکلنے والے طالب علموں
کے اخلاق و کردار میں بھی کوئی فرق باقی نہیں رہا۔
یہ حقیقت اظہر من الشّمس ہے کہ سیکولر اور امریکہ نواز لوگوں کے ہاتھوں میں
کھیلنے والے دینی مدرسے کا طالب جتنا متشدد ہوتا ہے اتنا ہی کسی یونیورسٹی
کی ایسی طلبا تنظیم کا ممبر بھی متشدد ہوتا ہے ، جس کے سر پر امریکی ڈالروں
کا سایہ ہو، مزے کی بات یہ ہے کہ دونوں طرف کے طالب علم مردہ باد امریکہ کا
نعرہ بھی لگاتے ہیں، جس طرح کسی امریکہ کے مددگارفرقہ پرست مدرسے کا طالب
علم اپنے مخالفین کی جان لینے کو اپنا مسلمہ حق سمجھتا ہے اسی طرح کسی
یونیورسٹی میں امریکہ کی نمک خوار پارٹی کا طالب علم بھی سوائے اپنی پارٹی
یا گروہ کے کسی دوسرے کو جینے کا حق دینے پر تیا ر نہیں ہوتا۔
جس طرح امریکہ کے یارو مددگار دینی مدارس کے طالب علم اپنے کئی کئی سو سالہ
پرانے اختلافات کو نکال کر مخالفین پر الزامات کی بوچھاڑ کرتے ہیں اور امت
میں اختلافات ایجاد کرتے ہیں، اسی طرح یونیورسٹیوں میں بھی امریکی فکر سے
متاثرہ لوگ بھی اپنی پارٹیوں کے مخالفین کے عیوب کو اچھالنے اور انہیں زلیل
و رسوا کرنے میں ہی اپنی کامیابی سمجھتے ہیں، جس طرح امریکہ کے ناصر و
منصور، دینی مدارس کے لوگ دین اور جہاد کے نام پر لوگوں کے بچوں کو دہشت
گرد بنا کر اپنے مفادات حاصل کرتے ہیں ، اسی طرح یونیورسٹیوں میں بھی
امریکی و سیکولر خطوط پر لوگوں کی ایسی تربیت ہوتی ہے جو پیسوں کے لئے
لوگوں کو لوٹتے ہیں حتی کہ ڈاکٹر بننے کے بعد لوگوں کو جعلی سٹنٹ ڈالتے
ہیں، پارکنگ کے نام پر ان سے بھتہ وصول کرتے ہیں اور لوگوں کو اغوا کرکے ان
کے گردے بیچ دیتے ہیں۔
آج جس طرح بعض امریکہ نواز مدارس کے پڑھے ہوئے لوگوں سے عوام کو امن اور
اصلاح کی امید ختم ہو گئی ہے اسی طرح بعض سرکاری اداروں کا کردار بھی ایسا
ہے کہ ملک و ملت کو ان سے بار بار مایوسی کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ گزشتہ دنوں
اسلام آباد ائیر پورٹ پر ایف آئی اے کے اہلکاروں نے ملی بھگت کے ساتھ کچھ
خواتین کی پٹائی کی اور انصاف کرنے والے فرشتوں نے یہ انصاف کیا کہ ایک
کانسٹیبل کو برطرف کردیا جائے۔
بلا شبہ یہ انسانیت، اخلاق ، ادب و احترام ، عدل و انصاف اور انسانی ہمدردی
سے عاری تہذیب، ہرگز اسلامی تہذیب نہیں ہے، یہ اصحاب صفّہ، سلف صالحین اور
مدینۃ النبی ﷺ کی تہذیب و ثقافت نہیں ہے۔ یہ سب امریکی و مغربی اور سیکولر
تہذیب و ثقافت تو ہے لیکن مدنی اور محمدی ﷺ تہذیب و ثقافت نہیں۔
اگر ہمارے تعلیمی اداروں میں غیر مہذب اور وحشی لوگ پروان چڑھ رہے ہیں، اگر
ہماری سرکاری پوسٹوں پر کرپٹ اور غیر منصف لوگ براجمان ہیں، اگر ہمارے
معاشرے میں فرقہ پرستی، پارٹی پرستی اور خود پرستی کا دور دورہ ہے تو یہ
ماننا پڑے گا کہ ہمارے ملک میں امریکہ و مغرب کی تہذیب و ثقافت حاکم ہو چکی
ہے،انسانیت سے عاری اس مغربی اور امریکی ثقافت سے جان چھڑوانا، کسی ایک
فرقے، مدرسے، یونیورسٹی یا سرکاری ادارے کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ پوری اسلامی
تہذیب و ثقافت اور ہماری آئندہ نسلوں کی بقا کا مسئلہ ہے۔
اس وقت ہم سب کو اداروں، فرقوں، حکومتوں اور پارٹیوں سے بالاتر ہوکر امریکہ
نواز، مغرب پرست ،پارٹی پرست ،غیر اخلاقی اور غیر مہذب رویوں کے خلاف
مدبرانہ کردار ادا کرنا چاہیے اور ان کا راستہ روکنا چاہیے۔ ہم سب کو مل کر
اپنے قومی و سرکاری اور تعلیمی داروں پر حاکم مغربی و امریکی اور
سیکولررویوں کو مسترد کرنا ہو گا، تاکہ ہمارے معاشرے میں ظلم، ناانصافی،
کرپشن، گالی گلوچ اور دنگا فساد کرنے والوں کے بجائے، اللہ سے ڈرنے والے ،
اس کے رسولﷺ سے عشق رکھنے والے اور ملت اسلامیہ کا درد رکھنے والےلوگ نظر
آئیں۔
ہمیں امریکی و مغربی اور سیکولر تہذیب سے واپس سلف صالحین کی طرف پلٹنا
ہوگا، جہاں اگر ہمسایہ کافر بھی ہوتو اسے اذیت نہیں دی جاتی تھی، بیمار
دشمن بھی ہو تو اس کی تیمار داری کی جاتی تھی، مخالف تلوار بھی کھینچ لے تو
اسے کہا جاتا تھا کہ تو حملے میں پہل کر ، خود چاہے روزے سے ہی کیوں نہ ہوں
لیکن اپنے سامنے افطار کے لئے رکھا ہوا کھانا ، اٹھا کر سائل کو دے دیتے
تھے، جہاں پر حبش کا بلالؓ، یمن کا مقدادؓ اور فارس کا سلمانؓ ایک ہی مسجد
میں نماز پڑھا کرتے تھے۔ ہمارے مسائل کا حل اسی صدر اسلام اور سلف صالحین
کی تہذیب کی طرف پلٹنے میں ہے۔ |