بدنام ہونگے تو کیا نامہ نہ ہوگا یہ محاورہ ، ضرب المثل،
کہاوت یا آج کے زمانے کی سوچ ، اسے کچھ بھی کہیں لیکن ہمارے معاشرے میں بری
طرح سے سرایت کرچکی ہے اور سرعت کے ساتھ ہمارے اذہان پر چھارہی ہے۔ ایک وقت
ہوتا تھا کہ لوگ پانی پبلسٹی سے بھی ہچکچاتے تھے اور خوف کھاتے تھے کہ
خوامخواہ لوگوں کی گفتگو کاحصہ بنا جائے اور موضوع بحث ہواجائے اس سے
احتراز برتتے تھے مگر میڈیا کی ترویج کے ساتھ ساتھ یہ سلسلہ بھی مقبولیت کی
حدوں کو چھوتاجارہا ہے پہلے لوگوں نے اپنی توصیف و تعریف، اپنے کام،
کاروبار، ادارے کی تشہیر کے سلسلے شروع کئے۔پمفلٹ،ہینڈ بل،اخبارات اوراب
الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے سے انسانوں اور مصنوعات کی تشہیرروزشور سے جاری
ہے یہاں تک بھی ٹھیک ہے یا تھا۔ لیکن اب بات اس سے بھی آگے بھی بڑھ چکی ہے
جو کہ بڑی مضحکہ خیز بھی ہے اور پاکستانی سیاستدانوں میں بدرجہ اتم موجود
ہے اور وہ اس ’’قابلیت‘‘کو بڑھانے کیلئے باقاعدہ سے ریہرسل کرتے ہیں اسے
سیکھتے ہیں وقت لگاتے ہیں کلاسز اٹینڈ کرتے ہیں اور ٹیوٹر کی مدد سے اسے
enhance کرنے کے پاپڑ بیلتے ہیں اور وہ بات ہے تعریف و توصیف کی۔جہاں ہمارے
آج کل کے سیاستدان ایک دوسرے کی تعریف و توصیف کے وہ قلابے ملاتے ہیں اور
پل باندھتے دکھائی دیتے ہیں کہ تعریف بھی شرم سے پانی پانی ہوجاتی ہے ہمارے
ملک کے وزیر اعظم سے لے کر ایک جنرل کونسلر تک اپنی تقاریر و تحریر و
گفتگومیں اپنے مخالفین و بالخصوصی سیاسی حریفوں کی ایسی ایسی توصیف کرتے
ہیں کہ یوں لگتا ہے کہ انہوں نے اس کے ان سے پیسے لئے ہوئے ہیں۔ پہلے تو
سنتے اور پڑھتے آئے ہیں کہ دشمن کا نام بھی زبان پر لانا انتہائی معیوب
سمجھاجاتا تھا اور اگر بوجوہ مجبوری و ضرورت نام لینے کی ضرورت بھی پیش آتی
تھی تو کسی بھی دوسرے نام سے پکاراجاتا تھا چہ جائیکہ کہ ہر لفظ، ہر لائن
اور ہر بات میں زیر بحث لانا۔
محترم قارئین! آپ یقیناًکچھ کنفیوژ ہورہے ہیں تو آئیے پہلے اس شعر سے آپ کی
کنفیوژن دورکرتا ہوں اور پھر بات کو آگے بڑھاتے ہیں بقول شاعر
ان کے انکشاف پر آتے ہیں جو خیال
کیسے نہ ہوں وہ رنج و تاسف پر مشتعل
ہوتی ہیں لیڈوں کی تقاریر بالعموم
صرف ایکدوسرے کے ’تعارف‘ پر مشتمل
جی ہاں ہمارے نام نہاد لیڈرزکسی بھی جگہ پر موجود ہیں تعلیمی ادارے ہوں کہ
کھیل کے میدان، زراعت کے فیلڈز ہوں کہ صنعتوں کے ڈھانچے، صحت کے مراکز ہوں
کہ پارلیمنٹ کے ایوان ان کی زبان و دماغ میں صرف اور صرف ایک کیڑا کلبلارہا
ہوتا ہے کہ کسی طرح مخالفین کے کپڑے اتارے جائیں، ان کے کردہ و نا کردہ
کرتوتوں کو لوگوں کے سامنے لایا جائے ان پر کیچڑ اچھالا جائے ان کی کردار
کشی کی جائے جھوٹ پر جھوٹ بولا جائے اور اس تواتر سے بولا جائے کہ سچ کا
گمان ہونے لگے اور کبھی کبھی تو یہ عمل اخلاقیات کی بھی تمام حدیں پار
کرجاتا ہے اور پھر بعد میں اس کو سنبھالنے کیلئے تاویلیں اور دلیلیں بھی
ڈھٹائی کے ساتھ پیش کی جارہی ہوتی ہیں اور کچھ وزرا کو وزارت کا قلم دان
سونپا ہی اسی بنیاد اور قابلیت کی بنا پر گیا کہ وہ اپنے مخالفین کی
’’تعریف و تعارف‘‘میں کسی بھی حد تک چلے جاتے ہیں اور پھر باقاعدہ مقابلہ
ہوتا ہے ہر جماعت نے دو دو تین تین’قلاکار‘‘رکھے ہوئے ہیں جن کی وزار ت کا
مقصدو محور ہی یہی ہے کہ کس کس انداز میں مخالف پارٹی کے لیڈرز کو ذلیل و
رسواکرنا ہے اور پھر اس عمل سے فراغت کے بعد اپنی بارے میں ویوز کے حصول
اور ویلڈن کے لفظ کیلئے ’صاحب ‘ کے روبرو پیش ہونے کیلئے اتاؤلے ہورہے ہوتے
ہیں۔افسوس ۔صد افسوس
یہ ہم سب اپنی نسل کو کیا سکھارہے ہیں کس بات کی تربیت کررہے ہیں ان کے
ذہنوں کو پراگندہ کررہے ہیں سیاست اور سیاستدانوں کے بارے میں ان کی رائے
اور سوچ کو غلط ڈگر پر ڈالنے میں سرگرداں دکھائی دیتے ہیں ان کے ناپختہ
اذہان اپنے اور دوسروں کے بارے میں کیا بات واضح کرنے کی بے ہودہ و بے سود
کوشش میں جتے ہوئے ہیں ۔جناب والہ ! جب آپ کسی ہسپتال یا ہیلتھ سنٹر کا
افتتاح کرنے جارہے ہیں تو وہاں پر صحت و صفائی سے متعلق ،ڈاکٹر ز اور
مریضوں کی فلاح وبہبود سے متعلق امور، مسائل و وسائل کو زیر بحث لائیے۔ کسی
یونیورسٹی کالج یا سکول کے دورے پر جانے کی توفیق ہوجائے تو طلبا و طالبات
کے تعلیمی مسائل کے حل کی بات کیجئے۔ سہولیات کی دستیابی اور سکالر شپ کی
فراہمی کو یقینی بنانے کی امید دلائیے۔اگر زراعت کا کھیت ہے تو فصلات و
سبزیات کی بہترین پیداوار اور ان کی آمدنی سے معیشت کی مضبوطی کی گفتگو
فرمائیے۔گندم و کپاس اور پھلوں کے داموں کی بابت ارشاد فرمائیں۔لیکن! نہیں
بالکل نہیں ۔ہم نے قسم کھائی ہے کہ جہاں بھی جائیں گے وہاں پر مخالفین کو
آڑے ہاتھوں لینا ہے ان کی تذلیل و تحقیر کا کوئی پہلو تشنہ نہیں چھوڑنا
چاہئے متعلقہ اور دیگر تمام امور جائیں بھاڑ میں
خدارا! ان بے ہودہ روشوں کو ترک کردیجئے اور مسلمان و پاکستانی ہونے کا
ثبوت دیجئے اپنے فرائض اور ذمہ داریوں پر فوکس کیجئے فضول کاموں اورلغویات
سے پرہیز کیجئے ویسے بھی اب سب جان چکے ہیں کہ ہمارے نام نہاد لیڈرز کتنے
پارسا ،ایماندار ،عوامی خیر خواہ اور ملک و قوم کے خیر اندیش ہیں
|