چھاپ تلک سب چھین لی

صدیوں سے ہندوستانی سر زمین بت پرستی ‘جہالت ‘گمراہی اور ذات پات کی تقسیم میں غرق چلی آرہی تھی ‘اونچی ذات کے ہندونیچی ذات کے ہندوؤں کو جانوروں سے بھی بد تر اور اچھوت خیال کر تے تھے ‘نیچی ذات کے ہندو شودر آبادیوں سے دور کیڑوں مکو ڑوں کی طرح زندگی گزارنے پر مجبور تھے اگر کسی نیچی ذات کے ہندو سے کو ئی غلطی یا گستاخی ہو جا تی تو اُسے درد ناک عبرتناک سزائیں دے کر مار دیا جاتا ‘ہزاروں سالوں سے انسان ذلت ‘گمراہی اور جہالت کے اندھیروں میں سسک سسک کر زندگی گزار رہا تھا ‘نسل در نسل غلا می انسان کی ہڈیوں تک اُتر چکی تھی‘ خو ف اور تو ہم پر ستی مذہب کا روپ دھار چکی تھی جگہ جگہ صنم خانے کھلے ہو ئے تھے ‘ہر طاقت ور ‘ چمکتی چیز کو خدا کا اوتار سمجھا جاتا ‘ہندوؤں کی تو ہم پر ستی اس حد تک بڑھ چکی تھی کہ ایک خدا کی بجا ئے کروڑوں خدا بنا رکھے تھے جن کے سامنے دن رات ما تھے رگڑتے اور پھر خدا ئے بزرگ و بر تر کو اہل ہندو ستان پر رحم آیا تو تا ریخ تصوف کے بہت بڑے روشن سورج کا یہاں طلو ع ہوا ‘آپ ؒ کے کردار اور ایمان افروز تعلیمات سے ہندوستان کا چپہ چپہ ایمان کی روشنی سے جگمگا نے لگا ‘آپ ؒ کو اہل دنیا خوا جہ معین الدین چشتی اجمیر ی‘عطائے رسول ‘نائب رسول ‘ خواجہ خواجگان ‘شاہ اجمیر ؒ کے نام سے جانتی ہے آپ ؒ نے ایمان کے وہ چراغ روشن کئے کہ صدیوں کی جہالت ‘گمراہی اور ذات پات فضاؤں میں تحلیل ہو گئی ‘آپ ؒ کے خلیفہ حضرت قطب الدین بختیار کا کی ؒ ‘با با فرید الدین گنج شکر ‘حضرت نظام الدین اولیاءؒ ‘صابر کلیر ‘امیر خسرو ؒ ، سید نصیر الدین ؒ ‘چراغ دہلو ی ؒ ایک چراغ سے دوسرا چراغ اِس شان سے روشن ہوا کہ ہزاروں سالوں کی تا ریکی ایمان کی روشنی میں بدلتی گئی تا ریخ تصوف کے کسی اور سلسلے کو یہ اعزاز حاصل نہیں کہ ایک چراغ سے بڑھ کر دوسرا چراغ روشن ہو تا چلا گیا اور پھر آسمان تصوف پر چشتی سلسلے کا ایک ایسا چاند روشن ہوا کہ برہمن ‘پجا ری جو گی قشقہ و زنا ر تو ڑ کر خاک پر اپنی پیشا نیاں رگڑ رگڑ کر خدا کی کبریا ئی اور سرتاج الانبیا ء ﷺ کی رسالت کی گواہی دینے لگے ۔ اشارہ غیبی کے تحت دہلی سے ایک درویش کامل بت پرستی کے گڑھ ’’کا ٹھیا وار‘‘ پہنچتا ہے جو اُن دنوں بت پرستی میں غرق تھا جہاں پر کا فر اور مشرک صدیوں سے رہتے آرہے تھے درویش نے آکر مقامی با شندوں سے پو چھا تمہا را مقدس مقام کہاں ہے مقامی ہندو درویش کے اِس سوا ل سے گھبرا سے گئے تم مسلمان ہو تم وہاں پر کیوں جانا چاہتے ہو تمہیں وہاں کیا کام ہے تمہا را ہما رے مقدس مقام سے کیا تعلق ہے درویش نے دلنواز تبسم اور شفیق لہجے میں کہا میں آپ لوگوں کی عبادت کا طریقہ دیکھنا چاہتا ہوں مقامی لوگوں نے بتا یا ’’گرنا تھ‘‘ پہا ڑ پر ہما ری سب سے بڑی مقدس عبا دت گا ہ ہے جو شہر سے کچھ فاصلے پر واقع ہے یہ جان کر درویش وقت اُس طرف چل پڑا تو مقامی با شندے بو لے ادھر جانے کی غلطی کبھی نہ کر نا ورنہ ہلا ک کر دئیے جا ؤ گے درویش کے چہرے پر جلال کا رنگ آگیا اور بو لا کس میں ہمت ہے جو مجھے ما رے گا مقامی با شندے بو لے وہاں پر تو عام حالات میں کسی کی ہمت نہیں ہو تی آجکل تو حالات ویسے ہی خراب ہیں ہندو آپس میں لڑ رہے ہیں نفرت کی آگ اِس درجہ بڑھ گئی ہے کہ ہندو ہندو کو مارنے پر تلا ہوا ہے تو غیر مذہب کیسے بچے گا درویش نے بے نیازی سے دیکھا اور پو چھا کیسی لڑائی کیسی جنگ تو لوگوں نے بتا یا’’ کا ٹھیا وار‘‘ میں صدیوں سے دو مذہبی فرقے آباد ہیں جین مت اور و شنو مت دونوں فرقے صدیوں سے پرامن زندگی گزار رہے تھے لیکن آج ایک دوسرے کے خو ن کے پیا سے ہو رہے ہیں درویش یہ کہتا ہوا تیزی سے پہا ڑی کی طرف روانہ ہوا کہ اب تو میرا وہاں جانا بہت ہی ضروری ہے مقامی با شندوں نے بہت ڈرانے کی کو شش کی لیکن چشت نگر کا کامل درویش تیزی سے ادھر جارہا تھا مقامی با شندے حیرت سے ایسے انسان کو دیکھ رہے تھے جسے کسی کا بھی خو ف نہیں تھا اور پھر جب یہ درویش’’ تیر تھ‘‘ کی حدود میں پہنچا تو واقعی خوفناک منظر اُس کی آنکھوں کے سامنے تھا جین مت اور وشنو مت کے پجا ری خو نی ہتھیا ر تلواریں نیزے بھالے پکڑے ایک دوسرے کے سامنے کھڑے خو نی نظروں سے دیکھ رہے تھے اور کسی بھی لمحے زمین انسانی خون سے رنگین ہو نی والی تھی دونوں فرقوں کے پجا ریوں نے جب ایک مسلمان درویش کو اپنی طرف آتے دیکھا تو حیران رہ گئے کہ غیر مذہب کے ماننے والا اُن کے مقدس مقام تک کیوں اور کیسے آگیا کیا یہ گو رنمنٹ کا جا سوس تو نہیں ہے ابھی وہ انہیں سوچوں میں غرق تھے کہ درویش اُن کے قریب آگیا پیکر جرات درویش کی پر جلال آواز گو نجی آپ لوگوں کا جھگڑا کیا ہے آپ کیوں ایک دوسرے کی گردنیں اتا رنے پر تیار ہیں دونوں فرقوں کے پجا ری حیرت اور غصے سے کامل درویش کو دیکھ رہے تھے کہ اِس کی اتنی جرا ت۔ آخر بو لے تم ہو تے کون ہو ہما رے درمیان آنے والے پجاریوں کے ہاتھ ہتھیاروں پر مضبوط ہو گئے تلواریں بلند ہو گئیں‘ یہ ہما را ذاتی جھگڑا ہے اور اِسے ہم اپنی مرضی سے طے کریں گے درویش نے شفیق لہجے میں بو لا بے شک یہ آپ لوگوں کا ذاتی جھگڑا ہے مگر میں آپ لوگوں کو آپس میں لڑتا ہوا نہیں دیکھ سکتا انسانی خون بہت قیمتی ہو تا ہے تم لوگ کیوں ایک دوسرے کے خو ن کو بہانے پر تیار ہو فقیر چشت نے قہر آلودہ نظروں سے ایک دوسرے کو گھو رتے ہو ئے پجا ریوں کو سمجھا نے کی کو شش کی لیکن پجا ری بضد تھے کہ آج خون تو بہے گا آج گردنیں تو کٹیں گیں‘ آج جھوٹ ختم ہو گا اور سچ قائم ہو کر رہے گا آج جو زندہ بچیں گے وہی سچے ہوں گے آج جھوٹے نیست و نابود ہو نگے ‘درویش کی پر جلال آواز پھر گونجی یہ تو کو ئی طریقہ نہیں کے جو مرے گا وہ جھو ٹا اور جو زندہ رہے گا وہ سچا یہ تو کو ئی معیار یا انصاف نہ ہوا ‘درویش نے ’’تیرتھ ‘‘ کے پجا ریوں کو سمجھانے کی کوشش کی لیکن دونوں فرقوں کی سمجھ میں نہ آسکی تو فقیر کی با رعب آواز گو نجی آج میں فیصلہ کروں گا کہ اِس کائنات میں سچا کون ہے اور جھو ٹا کون ہے بت پرست حیرت سے مسلمان درویش کی جرات اور بے با کی دیکھ رہے تھے جو اُن کے درمیان انہیں للکا ر رہا تھا درویش وقت کی پر جلال اور آواز کے سحر سے بت پرستی کے پجا ری سہم سے گئے تھے کچھ دیر پہلے پجا ری جو گستاخانہ چیخیں مار رہے تھے اب حیرت سے درویش کو دیکھ رہے تھے چشت نگر کا درویش کچھ دیر تو خا موشی سے ہجوم کو دیکھتا رہا پھر فقیر بے نیاز کی پر جلال آواز سے فضا ؤں کا ارتعاش ٹو ٹنے لگا مکمل سکو ت میں درویش کی آواز گو نج رہی تھی درویش پر جلال نے وشنو مت کے بڑے پجا ری کو مخا طب کیا پجا ری نے جیسے ہی پیکر جلال کی آنکھوں میں دیکھاتو نظروں کی تاب نہ لا سکا ہتھیا ر زمین پر گر پڑے درویش کی ایک نظر کام کر گئی پجا ری درویش کے پاؤں میں گر پڑا اور چیخ چیخ کر کہنے لگا آپ سچے ہم جھوٹے پجا ریوں پر لرزا طا ری ہو گیا سارے پجا ری زمین پر سجدہ ریز ہو گئے درویش کی پر جلال آواز پھر گونجی جین مت کے بڑے پجا ری کو مخا طب کیا اور پو چھا اب تم بتا ؤ کون سچا کون جھوٹا ہے درویش وقت کی نگا ہ یہاں بھی کام کر گئی پجا ری اپنے چیلوں کے ساتھ زمین پر پیشانی رگڑنے لگا اور بار بار ایک ہی بات کہہ رہا تھا آپ سچے ہم جھوٹے آپ حق پرست ہم جھوٹ پر‘ درویش کی ایک نظر نے کایا ہی پلٹ دی جو ایک دوسرے کے خون کے پیا سے تھے وہ ایک نظر کے شکا ر ہو گئے ‘مہندو پنڈتوں نے مرد کامل پر جلال درویش کی نظر میں کیا دیکھا کہ آبا ؤ اجداد کی ساری کفرانہ تعلیمات بھو ل گئے اُس کے پیچھے سر جھکا کر چلنے لگے ہا تھوں سے قشقے کھرچ ڈالے‘ گلوں میں زنا ر پھا ڑ ڈالے ‘جن فضاؤں میں نا قوس کی آواز گو نجتی تھی اب اﷲ اکبر کی صدائیں آنے لگیں بو ڑھے آسمان کو وہ منظر یا د آگیا جب تا ریخ انسان کے ذہین ترین انسان اپنی شاعری ادیبا نہ صلا حیت نثر نگا ری اور ساری فصاحت بلا غت بھو ل گئے اور پھر وہ مصرہ بو لا جو صدیوں کے بعد نکھرتا جا رہا ہے ۔’’ چھا پ تلک سب چھین لی رے مو سے نیناں ملا ئی کے‘‘۔(تیری نظروہ نظر ہے کہ تو نے ایک ہی نظر میں میرے ما تھے سے کفر کی ساری نشانیاں کھرچ ڈالیں) جس درویش کے سامنے بت پرست مسلمان ہو ئے وہ سلسلہ چشت کے روشن چراغ مشہور بزرگ حضر ت سید محمد گیسو دراز ؒ تھے ۔

Prof Abdullah Bhatti
About the Author: Prof Abdullah Bhatti Read More Articles by Prof Abdullah Bhatti: 805 Articles with 735567 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.