اس کی مناسبت سے صحافت اور آزادءصحافت سے متعلق چند باتیں
عرض کرنا چاہتا ہوں۔ عہد حاضر میں اخبارات اور ٹیلی ویڑن نے جس طرح ہر گھر
میں اپنی جگہ بنا لی ہے، اس سے اس کی روز بروز بڑھتی مقبولیت کا اندازہ
لگایا جا سکتا ہے۔ اس مقبولیت کے باعث عام لو گ بھی صحافت اور اس کے مسائل
کو جاننا اور سمجھنا چاہتے ہیں ، جس کے لئے آج سے بہتر کون دن ہو سکتا ہے
کہ آج کے دن کو اقوام متحدہ نے صحافت اورآزادءصحافت کے لئے مخصوص کیا ہے۔
صحافت ، خواہ جس زبان کی ہو ، اس کی اہمیت اور افادیت کو ہر زمانہ میں
تسلیم کیا گیا ہے۔ ہماری سماجی، سیاسی، معاشرتی، تہذیبی اوراقتصادی زندگی
پر جس شدّت کے ساتھ اس کے اثرات مثبت اورمنفی دونوں طریقے سے مرتسم ہوتے
رہے ہیں۔اس کا بہر حال اعتراف تو کرنا ہی ہوگا۔صحافت ترسیل وابلاغ کا اتنا
مو ¿ثراور طاقتور ذریعہ ہے اورواقعات حاضرہ کی معلومات بہم پہنچانے کااتنا
بہتر وسیلہ ہے کہ دنیا کے بڑے بڑے سماجی پیشوا، سیاسی رہنما اور مشاہیرادب
نے نہ صرف اس کی بھرپور طاقت کے سامنے سرتسلیم خم کیا بلکہ اپنے افکار
واظہار کی تشہیر کے لیے صحافت سے منسلک بھی رہے -
تاریخ شاہد ہے کہ صحافت نے کتنے ہی ملکوں کے تختے پلٹ دئے، بڑے بڑے
انقلابات کوجنم دیا، اورظالم حکمرانوں کے دانت کھٹّے کردیے۔ عالمی پیمانہ
پر ایسے کئی مقام آئے، جب صحافت کی بے پناہ طاقت، اس کی عوامی مقبولیت
اوراس کی تنقید سے خوف زدہ ہوکر اس پرپابندیاں عائد کی گئیں۔ صحافت نے جیسے
جیسے ترقی کی ، ویسے ویسے اس کی مقبولیت، اہمیت اورافادیت بڑھتی گئی
اورلوگوں کومتوجہ کرانے میں کامیاب ہوتی گئی۔ اس طرح صحافت انسانی زندگی کا
ایک حصہ بن گئی۔صحافت کی ان خصوصیات اور انقلابی طاقت سے متاثر ہو کر کبھی
اکبر الہ آبادی نے کہا تھا ۔
کھینچو نہ کمانوں کو ، نہ تلوار نکالو
جب توپ،مقابل ہو تو اخبار نکالو
اس کا مطلب یہ ہوا کہ صحافت اتنی مؤثر اور طاقتورہے کہ اس کے سامنے تیر،
کمان، بندوق اورتوپ کی بھی اس قدر اہمیت نہیں ہے۔ مندرجہ بالا شعر کہتے وقت
اکبر الٰہ آبادی کے ذہن میںیقیناًتاریخ کے جانے مانے جرنیل اور اپنے عہد کے
عظیم ڈکٹیٹر نیپولین بونا پاٹ کا وہ مشہورمقولہ رہا ہوگا، جس میں اس نے
صحافت کی طاقت کے سامنے سرنگوں ہوتے ہوئے کہا تھا کہ :
یعنی’لاکھوں سنگینوں سے زیادہ میں تین اخبار سے خوف زدہ رہتا ہوں‘۔
نیپولین بوناپاٹ کا مندرجہ بالا خوف یقینی طورپر صحافت کی اہمیت کو اجاگر
کرتا ہے۔ اس نے ضرور اس بات کومحسوس کیا ہوگا کہ دشمن کی صفوں میں
انتشاربرپا کرنے میں توپ اورتفنگ، لاؤ لشکر، تیر، تلوار کے ساتھ ساتھ
ہاتھیوں، گھوڑوں اورفوجیوں کی بے پناہ طاقت، صحافت کے سامنے کند ہے۔ جو کام
صحافت سے لیا جاسکتا ہے،وہ توپ اوربندوقوں سے بھی نہیں لیا جاسکتا۔ یہی وجہ
ہے کہ دنیا کے بڑے بڑے عظیم مفکر، دانشور، سربراہ، مصلح، سیاستداں اوررہنما
اس کی اہمیت کے ہمیشہ معترف اورقائل رہے ہیں۔
لیکن جب صحافت پر سیاست حاوی ہونے لگی اور دنیا کے بڑے بڑے صنعت کار ، دولت
مند اور بعض ممالک کی حکومتیں، صحافت کی بے پناہ طاقت کا اپنے مفاد میں
استعمال کرنے لگیں ،تب ایسے حالات سے متاثر ہو کر اقوام متحدہ کی جنرل
اسمبلی نے 1991 کی اپنی 26ویں اجلاس میں منظور قرارداد کو نافذکرتے ہوئے
1993سے ہر سال 3 مئی کو عالمی سطح پر یوم آزادءصحافت کے انعقاد کا فیصلہ
کیا۔ جس کے تحت صحافتی تحریروں پر پابندی لگانے، انھیں سنسر کرنے، جرمانہ
عائد کرنے نیز صحافیوں کو زدوکوب کئے جانے ، ان پر جا ن لیوا حملہ کئے جانے
، انھیں اغواکئے جانے اور انھیں بے دردی سے قتل کئے جانے پر غور و فکر کرنے
اور ان کے سدّباب کی کوششوں کے ساتھ ساتھ ایسے حالات سے نپٹنے ، حکمت عملی
تیار کئے جانے اورحکومت وقت کو انتباہ کئے جانے پر زور دیا گیا ہے۔
یونیسکو نے ایسے مقامی اور عالمی سطح کے اداروں ، شعبوں ، این جی اوز وغیرہ
کوصحافتی حفاضت ، آزادءصحافت اور ترقی صحافت کے لئے مثبت اقدام اور اس ضمن
میں غیرمعمومی خدمات کے لئے 1997 سے چودہ آزاد صحافیوں کی جیوری سمیت
یونیسکو کے اسٹیٹ ممبران کی سفارش پر کولمبیا کے ایک اخبار El Espectador
کے مقتول صحافی Guillermo cano isaza جو کہ 17 دسمبر1986 کو کولمبیا کے ایک
بہت بڑے دولت مندصنعت کار کے خلاف لکھنے کی پاداش میں ہلاک کر دیا گیا تھا
، کے نام پر ایک باوقار ایوارڈ کا فیصلہ کیا گیا تھا ، تاکہ نہ صرف جمہوریت
کا استحکام اور اس کا افادی پہلو کا دائرہ وسیع ہوبلکہ مفاد عامّہ کے لئے
صحافت اور صحافتی خدمات پر معمور صحافیوں کی اہمیت اور افادیت کو تسلیم کیا
جائے کہ کس طرح نامساعد حالات میں عوامی مفاد کے لئے رائے عامّہ تیار کرتے
ہیں۔
آزادی صحافت کو جس طرح مختلف مما لک میں سلب کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں اور
آئے دن جس طرح صحافیوں کو یرغمال بنا کر اور پھر انھیں جس بے دردی سے ہلاک
کیا جا رہا ہے۔ ان پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے کو
پوری دنیا میں صحافیوں کے قتل ، قید و بند کی دی جانے والی صعوبتوں اور
دھمکی و ہراساں کئے جانے پر انتہائی افسوس ہے۔ جس طرح صحافیوں پر ظلم و
تشدّد کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے -
ابھی ایک سال قبل ہی اسلامی مملکت کے جنگجوؤں کے ذریعہ لیبیائی ٹیلی ویڑن
کے لئے کام کرنے والے پانچ صحافیوں کو بہت بے دردی کے ساتھ قتل کر دئے جانے
کی خبر منظر عام پر آئی تھی۔ یہ تمام صحافی گزشتہ کئی ماہ سے غائب تھے ،
خیال تھا کہ انھیں اسلامی مملکت کے جنگجوؤں نے اغوا کر رکھا تھا ،جنہےں بعد
میں قتل کر دیا گیا۔ان کی گردن کٹی لاشیں لیبیا کے بن غازی کے نزدیک کم
آبادی والے جنگلاتی علاقہ میں پائی گئیں تھیں، ان صحافیوں میں چار صحافی
لیبیا کے اور ایک صحافی مصر کے تھے۔ ایسی اندوہناک خبریں اب اکثر کئی ممالک
کے مختلف حصوں سے آتی رہتی ہیں۔ جن کی جس قدر مذمّت کی جائے کم ہے۔
ہم اس امر سے ہم انکار نہیں کر سکتے ہیں کہ اظہار رائے کی آزادی اور انسانی
حقوق کے الفاظ معاصر منظر نامے میں بے معنی اور بے وقعت ہوتے جا رہے ہیں۔
اختلاف رائے جمہوریت کا حسن ہے ، لیکن قلم اور کیمرے کو جس طرح جبر و تشدّد
کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اورآزادءصحافت اور اس کی آواز کو دبانے کی کوششیں
کی جارہی ہیں۔ وہ بہت ہی تشویشناک ہے۔
آج صورت حال یہ ہے کہ میڈیا پر ہی یہ الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ میڈیا ،حکومت
پر مثبت تنقید کے بجائے الزام تراشیاں کر رہا ہے، جس کے باعث جمہوریت کمزور
پڑ رہی ہے اور حکومت غلط راہوں پر جانے پر مجبور ہو رہی ہے۔ حالانکہ حقیقت
یہ ہے کہ جمہوریت اور اس کے استحکام ، سیکولرزم کے فروغ اور سماج کا رخ
موڑنے میں صحافت نے جو رول ادا کیا ہے اور کر رہے ہیں ، انھیں فرا موش نہیں
کیا جا سکتا ہے۔لیکن الزام تراشی کے گرم بازار کا ذکر کرنے والے خود صحافت
پر کس قدر اوچھے اور نازیبا الزمات لگا رہے ہیں ، وہ اسے بھول جاتے ہیں۔
ابھی زیادہ دن نہیں ہوئے ہیں کہ بھارت کے مرکزی حکومت کے ایک وزیر اور سابق
فوجی افسر کرنل وی کے سنگھ نے جن ناشائستہ اور بے ہودہ الفاظ میں ملک کی
صحافت پر الزام لگایا ہے، وہ بہر حال قابل مذمّت ہے۔
مجھے خوشی ہے کہ آج بھی جبکہ پوری دنیا صارفیت کے چنگل میں ہے۔ پھر بھی کچھ
واقعات کو چھوڑ کرصحافی اپنی پوری ذمّہ داری ، غیر جانب داری ، بے باکی ،
بلند حوصلہ اور جرات مندی کے ساتھ جمہوریت اور اس کے استحکام کے ساتھ ساتھ
انسانی اقدارو افکار کے لئے اپنے فرائض ذمّہ داریوں کے ساتھ انجام دے رہے
ہیں۔ ایسے جرات مند اور بے باک صحافیوں کی موجودگی میں ، مجھے یقین ہے کہ
صحافت کی جو اعلیٰ قدریں ہیں ، وہ پامال نہیں ہونگیں اور ایسے کچھ صحافی جو
وقتی منعفت کے لئے بھٹک جاتے ہیں ، وہ بھی صحافت کو تجارت تصور کرنے کی
بجائے مشن کے طور پر قبول کرتے ہوئے صحافت کو عبادت کا درجہ دینگے۔ |