توڑ نہیں جوڑ کی ضرورت ہے

صلحِ’’حدیبیہ‘‘ بظاہر ذلت ومغلوبیت کی صلح نظر آتی ہے ،شرائط صلح پڑھ کر بادی النظر میں یہی محسوس ہوتاہے کہ تمام جھگڑوں کا فیصلہ کفار قریش کے حق میں ہوا، چنانچہ حضرت عمر ؓ بھی صلح کی ظاہری سطح دیکھ کر سخت محزون ومضطرب تھے، وہ خیال کرتے تھے کہ اسلام کے چودہ پندرہ سو سرفروش سپاہیوں کے سامنے قریش او ران کے طرفداروں کی جمعیت کیاچیزہے ،کیوں تمام نزاعات کا فیصلہ تلوار سے نہیں کردیاجاتا،مگر رسول اﷲ ﷺ کی دور اندیش نگاہیں ان احوال ونتائج کو دیکھ رہی تھیں، جو دوسروں کی نگاہوں سے اوجھل تھے اور اﷲ نے آپ ﷺ کا سینہ سخت سے سخت ناخوشگوار واقعات پر تحمل کرنے کیلئے کھول دیاتھا، آپ ﷺ بے مثال استغناء اور توکل وتحمل کے ساتھ ان کی ہر شرط پر صاد فرماتے رہے اور اپنے اصحاب کو ’’اللّٰہُ ورسولہ أعلم‘‘ کہہ کر تسلی دیتے رہے ،تاآنکہ سورۂ فتح نازل ہوئی اور خداوند قدوس نے اس صلح اور فیصلہ کا نام ’’فتح مبین ‘‘ رکھا، لوگ اس پر بھی تعجب کرتے تھے کہ یارسول اﷲ کیا یہ فتح ہے ؟ فرمایاکرتے،جی ہاں یہ فتح مبین ہے ۔

حقیقت یہ ہے کہ صحابہ ﷺ کی بیعت ِجہاد اور معمولی چھیڑ چھاڑ کے بعد کفار معاندین کا مرعوب ہوکر صلح کی طرف جھکنا اور نبی کریم ﷺکا باوجود جنگ اور انتقام پر کافی قدرت رکھنے کے ہر موقع پر اغماض اور عفودرگزرسے کام لینا اور محض تعظیم ِبیت اﷲ کی خاطر ان کے بیہودہ مطالبات پر قطعا ً برافروختہ نہ ہونا ،یہ واقعات ایک طرف اﷲ کی خصوصی مددورحمت کے استجلاب کا ذریعہ بنتے تھے اور دوسری جانب دشمنوں کے قلوب پر اسلام کی اخلاقی اور روحانی طاقت اور پیغمبر ﷺکی شان پیغمبری کا سکہ بٹھلارہے تھے، گوعہد نامہ لکھتے وقت ،ظاہر بینوں کو کفارکی جیت نظر آتی تھی، لیکن حضرتِ ابوبکر صِدّیقؓ کی طرح کچھ لوگ ٹھنڈے دل سے فرصت میں بیٹھ کر غور کرنے والے خوب سمجھتے تھے کہ فی الحقیقت تمام ترفیصلہ حضورﷺ کے حق میں ہورہاہے، اﷲ تعالی نے اس کا نام فتح مبین رکھ کر متنبہ کردیاکہ یہ صلح اس وقت بھی فتح ہے اور آئندہ کے لئے بھی آپ کے حق میں بے شمار فتوحات ظاہری وباطنی کا دروازہ کھولتی ہے، اس صلح کے بعد کافروں اور مسلمانوں کو باہم اختلاط اور بے تکلف ملنے جلنے کا موقع ہاتھ آیا ،کفار مسلمانوں کی زبان سے اسلام کی باتیں سنتے اور ان مسلمانوں کے احوال واطوار کو دیکھتے، تو خود بخود ایک کشش اسلام کی طرف ہوتی تھی، نتیجہ یہ ہواکہ صلح حدیبیہ سے فتح مکہ تک ،یعنی تقریبا ًدوسال مدت میں اتنی کثرت سے لوگ مشرف بہ اسلام ہوئے کہ کبھی اس قدر نہ ہوئے تھے، خالدبن ولید ؓاو رعمروبن العاصؓ جیسے نامور صحابہ اسی دوران میں اسلام کے حلقہ بگوش بنے ، جسموں کو نہیں دلوں کو فتح کرلینا اسی صلح ِحدیبیہ کی عظیم ترین برکت تھی، اب جماعت ِاسلام چاروں طرف اس قدر پھیل گئی اور اتنی بڑھ گئی تھی کہ مکہ معظمہ کو فتح کرکے ہمیشہ کے لئے شرک کی گندگی سے پاک کردینا بالکل سہل ہوگیا تھا، حدیبیہ میں حضور اکرم ﷺ کے ہمراہ صرف ڈیڑھ ہزار جانثار تھے، لیکن دوبرس کے بعد مکہ معظمہ کی فتح عظیم کے وقت دس ہزار کا لشکر ِجرّار آپ ﷺ کے ہمرکاب تھا۔

سچ تویہ ہے کہ نہ صرف فتح مکہ اور فتح خیبر بلکہ آئندہ کی کل فتوحات اسلامیہ کیلئے صلح حدیبیہ بطوراساس وبنیاد اور زرین دیباچہ کے تھی اوراس تحمل وتوکل اور تعظیم حرمات اﷲ کی بدولت جو صلح کے سلسلے میں ظاہر ہوئی،جن علوم ومعارف قدسیہ اورباطنی مقامات ومراتب کا فتح باب ہواہوگا اس کا انداز ہ توکون کرسکتاہے ہاں تھوڑا سااجمالی اشارہ حق تعالی نے سورۂ فتح کی آیتوں میں فرمایاہے ،یعنی جس طرح سلاطینِ دنیا کسی بہت بڑے فتح پرجنرل وکمانڈرکو خصوصی اعزاز واکرام اور تمغوں سے نوازتے ہیں ،خداوندقدوس نے اس فتح مبین کے صلہ میں آپ ﷺ کوجن چیزوں سے سرفراز فرمایا، ان میں پہلی چیز غفران الذنوب ہے ،ہمیشہ سے ہمیشہ تک کی سب کوتاہیاں جو آپ ﷺ کے مرتبۂ ٔرفیعہ کے اعتبار سے کوتاہی سمجھی جائیں، بالکلیہ معاف کردی گئی ہیں ، یہ بات اﷲ تعالی نے کسی اور بندے کے لئے نہیں فرمائی، مگر حدیث میں آیاہے کہ اس آیت کے نزول کے بعد حضوراکرم ﷺ اس قدر عبادت اور محنت کرتے تھے کہ راتوں کو کھڑے کھڑے پاؤں مبارک سوج جاتے تھے اور لوگوں کو دیکھ دیکھ کر رحم آتاتھا، صحا بہ ؓ عرض کرتے ،یارسول اﷲ !آپ اس قدر محنت کیوں کرتے ہیں ؟ اﷲ تعالی تو آپ کی اگلی پچھلی خطائیں معاف فرماچکاہے ، فرماتے !(أفلاأکونَ عبداًشَکوراً۔توکیا میں اس کا شکر گزار بندہ نہ بنوں ، ظاہرہے کہ اﷲ تعالی بھی ایسی بشارات اسی بندہ کو سنائیں گے جو سن کرنڈرنہ ہوجائے، بلکہ اور زیادہ خدا سے ڈر نے لگے ،شفاعت کی طویل حدیث میں ہے کہ جب مخلوق جمع ہوکر حضرت مسیح ﷺ کے پاس جائے گی، تووہ فرمائیں گے کہ محمد ﷺ کے پاس جاؤ،جو خاتم النبیین ﷺہیں اور جن کی اگلی پچھلی سب خطائیں اﷲ تعالی معاف فرماچکاہے ،یعنی اس مقام شفاعت میں اگر بالفرض کوئی تقصیر بھی ہوجائے، تو وہ بھی عفو عام کے تحت میں پہلے ہی آچکی ہے ،گویابجز ان کے اور کسی کا یہ کام نہیں ہوسکتا۔( تفسیرِ عثمانی مع تغیر)۔

کیا حالت ہوتی ہوگی،جب آنحضرتﷺ اور صحابۂ کرامؓ مدینے سے مکہ عمرہ کااحرام باندھکر نکلے ہوں گے اور انہیں کفارِ قریش کی بے جاضد وعناد کے بدولت اپنے احرام راستے ہی میں پیغمبرِاسلامﷺ کی موجودگی میں اتارنے پڑے ہوں گے،بغیر عمرہ کئے وہ اب یہود ومنافقین کو کیا منہ دکھائیں گے،مگر خون خرابے سے بچنے اوربیت اﷲ کی حرمت کے خاطر یہ کڑوے گھونٹ پینے پڑے، بظاہردشمن کے سامنے اپنی شکست تسلیم کرنی پڑی،ان کی بات رکھنی پڑی اور اپنا حق بجانب مُدعا ترک کرنا پڑا، آخر یہ سب کچھ کیوں؟ سیرت ِ طیبہ میں یہی باتیں اور دروس غورکرنے کی ہیں۔
نیے عمرانی معاہدے کی ضرورت ۔

پاکستان ایک کثیرالقومی ریاست ہے ۔ اس میں ہر قوم کی ثقافت ، وسائل اور مسائل مختلف ہیں ۔ یہ تمام قومیں ایک فیڈریشن میں رہتی ہیں جسے پاکستان کہتے ہیں ۔ ستّر سال سے یہ اس فیڈریشن میں رہ رہے ہیں ۔ انیس سو تھتر کے آئین میں تمام سیاسی جماعتوں نے ایک متفقہ کنٹریکٹ (ٓآئین ) پر دستخط کئے تھے ۔انیس سو انچاس کے قرار داد مقاصد آئین کا باقاعدہ حصہ نہیں تھا لیکن ضیاالحق کے دور میں یہ آئین پاکستان کا باقاعدہ حصہ بن گیا ۔ جس کی وجہ سے قوموں کے مسائل اور وسائل کا ذکر درمیان میں سے نکل کر ملک میں مذہبی فرقہ واریت ، انتہاپسندی اور اقلیتوں سے نفرت کی فزا پیدا ہوگئی ۔ اور قرار داد مقاصد کی وجہ ہر وہ شخص غدار وطن ٹھرایا گیا جن کو ان چیزوں سے کوئی سروکار نہیں تھا ۔ اٹھارویں آئینی ترمیم سے کچھ امیدیں قوموں کے وسائل اور مسائل کے حل کرنے کی پیدا ہوگئی تھیں، مگر اس پر بھی مکمل عمل درامد نہیں کیاجارہااور اس کی راہ میں روڑے اٹکائے جارہے ہیں ۔ اور پھر قرار داد مقاصد کی وجہ سے بھی حالات بہتر ہونے کا نام نہیں لے رہی۔

چھوٹی قوموں میں احساس محرومی بڑھ رہی ہے اور ان کے مسائل میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے ۔
ایسے میں ایک نئے عمرانی معاہدے کی اشد ضرورت محسوس ہورہی ہے ۔ جو تمام قوموں کے وسائل کی بنیاد پر قوموں کو حقوق کی ضمانت دے ۔ اور رضاکارانہ فیڈریشن کا قیام عمل میں آئے ۔ ملک میں برداشت ، انسانی حقوق ، عورتوں کے حقوق اقلیتوں کے حقوق کی ضمانت ہو ۔ اور وسائل کی تقسیم منصفانہ بنیادوں پر ہوں۔ شخصی اور فرقہ وارانہ قانون کی بجائے ریاستی قانون کی عمل داری ہو ۔ اور خارجہ پالیسی جیو اور جینے دو کی بنیاد پر ہو ۔ ادارے ریاست کو جوا ب دہ ہوں ۔

فتحِ مبین کے واسطے عمرانیات کے اصول کے عین مطابق60سے زائد کالعدم تنظیموں والے ہمارے ملکِ خداداد(پاکستان) میں آج پر امن بقائے باہمی کے خاطر اپنے ہی بھائیوں سے نہایت خود اعتمادی اور خلوص کے ساتھ صلح حدیبیہ جیسی مصالحتوں کی ضرورت ہے، جہاں کسی کونیچا دکھانے کے لئے نہیں،بلکہ دورانِ صلح ایک دوسرے کو خوب سمجھا جائے، ایک دوسرے کے نقطہائے نظر کو اچھی طرح ٹھندے دل سے پرکھا جائے، ’’کچھ دو اور کچھ لو‘‘کو بنیاد بنایاجائے،اغماض ،تحمل،برداشت اور چشم پوشی کو بطورِشعار اپنایاجائے،صلح کے دوران ہر قسم کی بدعہدی،بدنیتی،غدر، دھوکہ دہی ،خیانت اوراعتماد سازی کے متضاد عوامل سے مکمل احترازواجتناب برتاجائے،بے تکلف اختلاط اور ملنے جلنے کے مواقع تمام فریق کوبا یک دیگر مہیّا ٔ کئے جائیں،نا سمجھ،کوتاہ بین،مفاد پرستوں اوراغیار کے واسطے مخصوص شیطانی ایجنڈوں پر عرصے سے کام کرنے والوں کی باتوں پر کان نہ دہرے جائیں،ان کے تیز وتند طعنوں اور اعتراضات کی طرف التفات نہ کیا جائے ،در خورِ اعتناء نہ رکھا جائے،پھر دیکھیں ملکِ عزیز میں کتنی مثالی آشتی ، ہمہ گیر آسودگی ،امن ،خوشحالی اورسلامتی آتی ہے،بس ایک نئے عمرانی معاہدے کی ضرورت ہے اور فتحِ مبین کی آمد آمد ہے ۔
 

Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 877759 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More