بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
اس كائنات میں اللہ تعالی نے بعض اشیاء کو بعض پر فضیلت عطا کی رسولان عظام
کوانبیاء عظام پر اور انبیاء عظام کو تمام مخلوق پر، ایک مومن کو تمام
انسانوں پر، ایک ولی کو تمام مومنوں پر، ایک صحابی کو تمام ولیوں پر، رسول
اکرم سرور عالم، عالِم ماکان ومایکون کو ساری کائنات پر۔اسی طرح ایک صدی کو
دوسری صدی پر جیساکہ "خير القروني قرني"سے ظاہر ہے ۔سال کے بارہ مہینوں میں
ماہ رمضان کو تمام مہینوں پر فضیلت حاصل ہے اللہ تعالی فرماتا ہے"شھرُرمضانَ
الذی انزل فیہ القرآن الآیۃ"یوم جمعہ کو تمام ایام پر فضیلت حاصل ہے۔ اللہ
کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں "إن من أفضل أيامِكم يوم
الجمعةالحدیث"اسی طرح ایک رات کو دوسری راتوں پر برتری حاصل ہے مثلاً شبِ
قدر کو تمام راتوں پر، اللہ فرماتا ہے "ليلة القدر خير من الف شهر"اسی طرح
شبِ برات کو شب قدر کے بعد تمام راتوں پر فضیلت و برتری حاصل ہے، اللہ کے
رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں "یطلع اللہ علی عبادہ لیلۃ
النصف من شعنان، فیغفر للمومنین الحدیث".
آئيے سب سے پہلے ہم ماہ شعبان کی فضیلت کے متعلق احادیث صحیحہ کا مطالعہ
کرتے ہیں اس کے بعد شب برات کی فضیلت و اہمیت پر احادیث صحیحہ و حسنہ پیش
کرنے کی سعادت حاصل کروں گا ۔
شعبان کے روزہ کی فضیلت کے تعلق سے اس قدر احاديث مروی ہیں کہ ان کی تعداد
حد تواتر کو پہنچ گئی ہے اور یہ احادیث صحاح ستہ بلکہ جامع صحیح البخاری
اور صحیح مسلم میں بھی موجود ہیں۔اب اگر ان احادیث کو کوئی ضعیف کہکر مردود
قرار دینا چاہتا ہے تو یہ اس کی جہالت اور لا علمی کی دلیل ہے۔اب احادیث
صحیحہ کو ترتیب وار مع ترجمہ و تشریح پیش کیا جاتا ہے۔
«1» حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ فَضَالَةَ حَدَّثَنَا هِشَامٌ عَنْ يَحْيَى
عَنْ أَبِي سَلَمَةَ أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا حَدَّثَتْهُ
قَالَتْ لَمْ يَكُنِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُ
شَهْرًا أَكْثَرَ مِنْ شَعْبَانَ، فَإِنَّهُ كَانَ يَصُومُ شَعْبَانَ
كُلَّهُ، وَكَانَ يَقُولُ: ((خُذُوا مِنَ الْعَمَلِ مَا تُطِيقُونَ،
فَإِنَّ اللَّهَ لاَ يَمَلُّ حَتَّى تَمَلُّوا، وَأَحَبُّ الصَّلاَةِ إِلَى
النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا دُووِمَ عَلَيْهِ،
وَإِنْ قَلَّتْ)) وَكَانَ إِذَا صَلَّى صَلاَةً دَاوَمَ عَلَيْهَا ) صحيح
البخاري، كتاب الصوم، باب صوم شعبان، حديث:1970
حضرت ابو سلمہ سے مروی ہے کہ حضرت عائشہ رضی الله عنہا نے ان حدیث بیان کی
کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم شعبان سے زیادہ روزے کسی اور مہینہ
میں نہیں رکھتے تھے، شعبان کا پورا مہینہ روزہ سے رہتے تھے ۔اور آپ صلی
اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ عمل وہی اختیر کرو جس کی تم میں طاقت ہو،
کیونکہ اللہ تعالیٰ نہیں تھکتا(ثواب دینے سے) یہاں تک کہ تمہیں تھک جاؤ
۔اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک وہ نماز سب سے زیادہ محبوب تھی جس پر
ہمیشگی اختیار کی جائے ۔اگرچہ کم ہی کوں نہ ہو, اور جب رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم کوئی نماز شروع کرتے تو اس پر ہمیشگی اختیار فرماتے۔
«2» حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ
إِسْمَاعِيلَ حَدَّثَنَا صَدَقَةُ بْنُ مُوسَى عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسٍ
قَالَ سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ
الصَّوْمِ أَفْضَلُ بَعْدَ رَمَضَانَ فَقَالَ: ((شَعْبَانُ لِتَعْظِيمِ
رَمَضَانَ)). قِيلَ فَأَيُّ الصَّدَقَةِ أَفْضَلُ قَالَ: ((صَدَقَةٌ فِي
رَمَضَانَ)). قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ. وَصَدَقَةُ بْنُ
مُوسَى لَيْسَ عِنْدَهُمْ بِذَاكَ الْقَوِيِّ.
جامع الترمذي، كتاب الزكاة، باب ماجاءفي فضل الصدقه جلد:ا، حديث:665
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
کی بارگاہ میں عرض کیا گیا کہ رمضان کے بعد کون سے روزے افضل ہیں، آپ صلی
اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شعبان کے روزے جو رمضان کی تعظیم کے لیے ہوں ،عرض
کیا گیا کہ کون سا صدقہ افضل ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "ماہ
رمضان میں صدقہ کرنا۔
جامع ترمذی، کتاب الزکاۃ، جلد:ا، حدیث:665
3» أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ:
حَدَّثَنَا ثَابِتُ بْنُ قَيْسٍ أَبُو الْغُصْنِ- شَيْخٌ مِنْ أَهْلِ
الْمَدِينَةِ- قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيُّ قَالَ:
حَدَّثَنِي أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ قَالَ: قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ لَمْ
أَرَكَ تَصُومُ شَهْرًا مِنَ الشُّهُورِ مَا تَصُومُ مِنْ شَعْبَانَ.
قَالَ: ((ذَلِكَ شَهْرٌ يَغْفُلُ النَّاسُ عَنْهُ بَيْنَ رَجَبٍ
وَرَمَضَانَ وَهُوَ شَهْرٌ تُرْفَعُ فِيهِ الأَعْمَالُ إِلَى رَبِّ
الْعَالَمِينَ فَأُحِبُّ أَنْ يُرْفَعَ عَمَلِي وَأَنَا صَائِمٌ)).
سنن النسائی، کتاب الصیام، باب صوم النبی صلی اللہ علیہ وسلم، جلد، ا،حدیث،
2369
اسامہ بن زیدکہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم!
جتنا میں آپ کو شعبان کے مہینے میں روزہ رکھتے ہوئے دیکھتا ہوں اتنا کسی
اور مہینے میں نہیں دیکھتا، آپ نے فرمایا: ”رجب و رمضان کے درمیان یہ ایسا
مہینہ ہے جس سے لوگ غفلت برتتے ہیں، یہ ایسا مہینہ ہے جس میں آدمی کے اعمال
رب العالمین کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں، تو میں چاہتا ہوں کہ جب میرا عمل
پیش ہو تو میں روزہ سے رہوں“۔
سنن نسائی، کتاب الصیام ،جلد، ا، حديث:2369
«4» وحدثنا أبو بكر بن أبي شيبة وعمرو الناقد جميعا عن ابن عيينة- قال أبو
بكر حدثنا سفيان بن عيينة- عن ابن أبي لبيد عن أبي سلمة قال: سألت عائشة-
رضي الله عنها- عن صيام رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالت كان يصوم حتى
نقول قد صام. ويفطر حتى نقول قد أفطر. ولم أره صائما من شهر قط أكثر من
صيامه من شعبان كان يصوم شعبان كله كان يصوم شعبان إلا قليلا،
صحيح مسلم، كتاب الصيام، جلد، ا، حديث:1156
حضرت ابوسلمہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روزوں کے بارے میں پوچھا تو سیدہ رضی
اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ آپ روزے رکھتے رہتے تھے یہاں تک کہ ہم کہتے
کہ آپ روزے ہی رکھتے رہیں گے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم افطار کرتے تو
ہم کہتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم افطار ہی کرتے رہیں گے اور میں نے
آپ کو نہیں دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شعبان کے مہینہ سے
زیادہ کسی اور مہینہ میں اتنی کثرت سے روزے رکھے ہوں آپ شعبان کے تھوڑے
روزوں کے علاوہ پورا مہینہ روزے رکھتے تھے۔
صحیح مسلم، کتاب الصیام، جلد، ا، حدیث:1156
حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ عَنْ
زَائِدَةَ بْنِ أَبِي الرُّقَادِ عَنْ زِيَادٍ النُّمَيْرِيِّ عَنْ أَنَسِ
بْنِ مَالِكٍ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
إِذَا دَخَلَ رَجَبٌ قَالَ اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي رَجَبٍ
وَشَعْبَانَ وَبَارِكْ لَنَا فِي رَمَضَانَ وَكَانَ يَقُولُ لَيْلَةُ
الْجُمُعَةِ غَرَّاءُ وَيَوْمُهَا أَزْهَرُ
مسندامام احمد بن حنبل، حديث، 2342
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب رجب کا مہینہ آتا رسول
الله صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے، "اے اللہ! ہمارے لیے ماہ رجب اور
ماہ شعبان میں برکت عطا فرما ا ور ماہ رمضان میں ہمارے لیے برکت عطا فرما
اور فرمایا کرتے کہ جمعہ کی رات روشن و تابناک ہوتی ہے اور اس کا دن با
رونق ہوتا ہے۔". مسند امام احمد بن حنبل، مسند انس بن مالک، حدیث:.2342
یہ جو پانچ حدیثیں پیش کی گئی ہیں یہ سب صحیح اور حسن ہیں امام ترمذی نے
اپنی روایت کردہ حدیث کو اگرچہ غریب کہا ہے لیکن یاد رہے غرابت صحت کے
منافی نہیں۔
ان احادیث کی روشنی میں یہ بات عیاں اور ہویدہ ہوجاتی ہے کہ ماہ شعبان کے
روزے رکھنا اور ان کا خوب اہتمام کرنا سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور
باعث اجر و ثواب ہے۔اسی لیے ہمارے اکابر کا یہ طریقہ رہا ہے کہ وہ ماہ
شعبان کے روزوں کا خاص اہتمام فرمایا کرتے تھے خاص طور پندرہویں شعبان کے
روزے کا خاص اہتمام فرماتے تھے۔
ان احادیث سے ماہ شعبان کی عمومی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔رسول اکرم صلی اللہ
علیہ وسلم کا اس مہینہ میں روزہ رکھنا خود اس بات پر دال ہے کہ یہ مہینہ
عظیم المرتبت اور بہت ہی بابرکت ہے۔ایک حدیث اور پیش کی جاتی ہے جو ماہ
شعبان کی فضیلت کو اجاگر کرتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد
فرمایا ۔"شعبان شهري ورمضان شهرالله " بعض حضرات نے اس حدیث کو موضوع اور
بعض نے ضعیف کہا ہے اس لیے میں نےاس کو ماقبل میں پیش نہیں کیا۔
اب ہم اپنے اصل مقصد کی طرف پلٹتے ہیں اور وہ شب برات کی فضیلت کو احادیث
مبارکہ کی روشنی میں ثابت کرنا ہے۔
شب برات کیا ہے:
ماہ شعبان کی پندرہویں رات کو شب برات کہاجاتا ہے شب کے معنی رات اور اور
برات کے معنی چھٹکارا پانا کے ہیں ۔چونکہ مسلمان اس رات کو اپنے گناہوں سے
توبہ و استغفار کرکے قطع تعلق کرلیتے ہیں اس لیےہم اسےشب برات کہتے ہیں ۔اس
رات کو لیلۃ الصکۃ یعنی تقسیم امور کی رات بھی کہا جاتا ہے۔اس رات کو لیلۃ
المبارکہ اور لیلۃ الرحمۃ بھی کہا جاتاہے۔
کیا شب برات کا ثبوت قرآن سے ہے
میرا آپ سے ایک سوال ہے کہ کیا اگر کسی شئی کا ثبوت قرآن سے نہ ہو تو کیاوہ
چیز ناجائز و حرام ہوجائیگی ۔ائیروپلین میں سفر کرنا، دن میں دس دس بیس بیس
مرتبہ چائے پینا، بریانی کھانا کہاں قرآن سے ثابت ہے۔اگر آپ یہی چاہتے کہ
اگر کسی شئی کا ثبوت قرآن سے نہ ہو تو اس کو ناجاٰئز و حرام قرار دیا جائے
تو آپ اپنے ابا کی اولاد ہیں یہ قرآن میں کہاں لکھا ہے۔اس اعتبار سے تو
جناب آپ ح۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہوگئے۔ھداک اللہ
لیکن میں آپ کو بتاتا چلوں کہ شب برات کا ثبوت قرآن سے بھی ہے ۔جیساکہ بعض
صحابہ کرام کا مذہب یہی رہا ہے۔اب اس آیت کو پیش کرنے جارہا ہوں جس کی
بنیاد پر بعض صحابہ کرام نے اس بات کا اعتراف کیا کہ اس آیت سے مراد شب
برات ہے۔
اللہ تعالی فرماتا ہے
إنَا أَنْزَلْنٰه فِيْ لَيْلَةٍ مُبٰرَكَةٍ إنَا كُنَا مُنْذِرِيْنَ،
فِيْهَا يُفْرَقٰ كُلُ أَمْرٍ حَكِيْمٍ. )سورة الدخان، آيت:3
بے شک ہم نے اسے برکت والی رات میں اتارا، بے شک ہم ڈر سنانے والے ہیں۔اس
میں باٹ دیا جاتا ہے ہر حکمت والا کام۔ (ترجمہ کنزالایمان)
اس رات سے مراد شب قدر ہے یا شب برات۔اس شب میں قرآن پاک بتمامہ لوح محفوظ
سے آسمان دنیا کی طرف اتارا گیا پھر وہاں سے حضرت جبریل بیس سال کے عرصہ
میں تھوڑا تھوڑا لیکر نازل ہوئے ۔اس شب کو شب مبارکہ اس لئے فرمایا گیا کہ
ااس میں قرآن پاک نازل ہوا اور ہمیشہ اس شب میں خیر و برکت نازل ہوتی ہے،
دعائیں قبول کی جاتی ہیں۔ )خزائن العرفان)
وقال عكرمة : الليلة المباركة هاهنا ليلة النصف من شعبان(تفسير القرطبي)
حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہاں لیلہ مبارکہ سے مراد شعبان کی
پندرہویں رات ہے۔(تفسیر قرطبی)
ان آیات میں لیلۃ مبارکۃ سے مراد حضرت عکرمہؓ اور مفسرین کی ایک جماعت کے
نزدیک شب برأت ہے (روح المعانی )
حضرت عکرمہ کا استدلال
روی عبد الله بن صالح ، عن الليث ، عن عقيل عن الزهري : أخبرني عثمان بن
محمد بن المغيرة بن الأخنس أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - قال : "
تقطع الآجال من شعبان إلى شعبان ، حتى إن الرجل لينكح ويولد له ، وقد أخرج
اسمه في الموتى " (تفسیر ابن کثیر ) جامع البیان تاویل آی القرآن، رقم
الحدیث:28670
حضرت عثمان بن محمدؒ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ
(زمین پر بسنے والوں کی )عمریں ایک شعبان سے دوسرے شعبان تک طے کی جاتی ہیں
،یہاں تک کہ انسان شادی بیاہ کرتا ہے اور اس کے بچے پیدا ہوتے ہیں؛ حالانکہ
اس کا نام مردوں کی فہرست میں داخل ہو چکا ہوتا ہے“۔[جامع البيان عن تأويل
آي القرآن » أول سورة الدخان ... رقم الحديث: 28670]
اس کے علاوہ اور بھی احادیث مبارکہ ہیں جنہیں حضرت عکرمہ کے استدلال میں
پیش کیا جاسکتا ہے ۔لیکن واضح رہے کہ مشہور تفسیر اس آیت کی اکثر کے نزدیک
یہ ہے کہ لیلۃ مبارکہ سے مراد لیلۃ القدر ہے شبِ برأت مراد نہیں، کیونکہ
دوسرے موقع پر ارشاد ہے انا انزلناہ فی لیلۃ القدر کہ ہم نے قرآن لیلۃ
القدر میں نازل کیا اور یہاں فرمایا جارہا ہےکہ ہم نے لیلۃ مبارکہ میں نازل
کیا اور یہ ظاہر ہے کہ نزول سے مراد دونوں جگہ نزول دفعی ہے تدریجی نہیں
کیونکہ وہ تو 23 سال میں ہوا، اور نزول دفعی ایک ہی مرتبہ ہوا ہے اس لئے
لیلۃ مبارکہ سے مراد لیلۃ القدر ہوگی یہ قرینہ قویہ ہے اس بات کا کہ یہاں
بھی لیلۃ القدر ہی مراد ہے۔
حضرت عکرمہ کی جانب سے ایک اعتراض کا جواب
اس سے شب برات مراد لینے میں یہ اعتراض لازم آتا ہے کہ قرآن کا یکبارگی
نزول لوح محفوظ سے آسمان دنیا کی طرف دو مرتبہ ہوا، ایک شب قدر میں، دوسرا
شب برات میں ۔لیکن اس تعارض کا یہ جواب دیا جاسکتا ہے کہ شب برات میں حکمِ
نزول ہوا، اور شب قدر میں وقوعِ نزول ہوا ۔یعنی شب قدر میں نزول سے مراد
حقیقی نزول ہے اور شب برات میں نزول سے حکمی نزول مراد ہے۔
یہ بات یم نے اپنی طرف سے نہیں کہی ہے بلکہ اس تعارض کا یہی جواب ہمارے
مفسرین کرام دیتے رہے ہیں۔اس تعلق سے مزید بحث تفسیر قرطبی، تفسیر
نیشاپوری، تفسیر ابی سعود، تفسیر روح البیان اور تفسیر روح المعانی میں اسی
آیت کے تحت ملا حظہ کر سکتے ہیں۔
شب برات احادیث کی روشنی میں
ہمارے ہاں شبِ برات کے حوالے سے دو باتیں پائی جاتیں ہیں۔ایک طرف متشدّد ین
ہیں جواسے بدعت قراردیتے ہیں اور اس سے متعلقہ روایت کردہ تمام احادیثِ
مبارکہ کو ضعیف یا موضوع سمجھتے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف جہلاء ہیں جنہوں نے
اغیار کی نقالی کرتے ہوئے بہت ساری رسومات و بدعات کو بھی اِس رات عبادت کا
ایک حصہ بنا لیا ہے
اب آئیے ان احادیث کا مطالعہ کرتے ہیں جو خاص طور پر پندرہویں شعبان یعنی
شب برات کی فضیلت و اہمیت کے متعلق وارد ہوئی ہیں۔ساتھ ہی ساتھ ان احادیث
کی صحت و ضعف پر بھی بحث کی جائیگی۔
شب برات کی فضیلت میں صحیح و حسن روایات
.(1» حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلاَّلُ حَدَّثَنَا عَبْدُ
الرَّزَّاقِ أَنْبَأَنَا ابْنُ أَبِي سَبْرَةَ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ
مُحَمَّدٍ عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ عَنْ
أَبِيهِ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ
صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((إِذَا كَانَتْ لَيْلَةُ النِّصْفِ
مِنْ شَعْبَانَ فَقُومُوا لَيْلَهَا وَصُومُوا يَوْمَهَا. فَإِنَّ اللَّهَ
يَنْزِلُ فِيهَا لِغُرُوبِ الشَّمْسِ إِلَى سَمَاءِ الدُّنْيَا فَيَقُولُ
أَلاَ مِنْ مُسْتَغْفِرٍ فَأَغْفِرَ لَهُ أَلاَ مُسْتَرْزِقٌ فَأَرْزُقَهُ
أَلاَ مُبْتَلًى فَأُعَافِيَهُ أَلاَ كَذَا أَلاَ كَذَا حَتَّى يَطْلُعَ
الْفَجْرُ)). )سنن ابن ماجہ، کتاب إقامة الصلاة والسنة فيها، باب ما جاء في
ليلة النصف من شعبان،رقم الحديث:1451(
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا: جب نصف شعبان کی رات آئے تو اس رات کو قیام کرو اور دن کو روزہ
رکھو۔ اس رات اللہ تعالیٰ سورج کے غروب ہوتے ہی پہلے آسمان پر (اپنی شایان
ِشان)نزول فرما لیتا ہے اور صبح صادق طلوع ہونے تک کہتا رہتا ہے: کیا کوئی
مجھ سے بخشش مانگنے والا ہے کہ میں اسے معاف کر دوں؟ کیا کوئی رزق طلب کرنے
والا ہے کہ اسے رزق دوں؟ کیا کوئی (کسی بیماری یا مصیبت میں) مبتلا ہے کہ
میں اسے عافیت عطا فرما دوں؟ ۔
اس حدیث میں ابن ابی سبرہ کے علاوہ باقی تمام رُوات ثقہ ہیں۔لیکن چونکہ یہ
حدیث متعدد طرق سے مروی ہے اس لیے یہ حدیث صحیح لغیرہ کے مرتبہ کو پہنچ
جائیگی ۔اس لیے کہ صحیح لغیرہکی تعریف یہ ہے۔"صحیح لغیرہ وہ حدہث ہے جس کے
اندر صحت کے شرائط(عدالت راوی، ضبط راوی، اتصال سند، عدم شذوذ اور عدم علت)
میں کچھ کمیَ ہو مگر تعدد طرق سے اس کی تلافی ہوگئ ہو۔اور یہاں چونکہ تعدد
طرق سے اس کی تلافی ہوجاتی ہےاس لیے اس میں کوئی اشکال نہیں
«2» حَدَّثَنَا رَاشِدُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ رَاشِدٍ الرَّمْلِيُّ حَدَّثَنَا
الْوَلِيدُ عَنِ ابْنِ لَهِيعَةَ عَنِ الضَّحَّاكِ بْنِ أَيْمَنَ عَنِ
الضَّحَّاكِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَرْزَبٍ عَنْ أَبِي مُوسَى
الأَشْعَرِيِّ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
قَالَ: ((إِنَّ اللَّهَ لَيَطَّلِعُ فِي لَيْلَةِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ
فَيَغْفِرُ لِجَمِيعِ خَلْقِهِ إِلاَّ لِمُشْرِكٍ أَوْ مُشَاحِنٍ)).( سنن
ابن ماجہ، ایضاً )
حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے
ارشادفرمایا: اللہ تعالیٰ نصف شعبان کی رات (اپنے بندوں پر) نظر فرماتا ہے،
پھر مشرک اور (مسلمان بھائی سے) دشمنی رکھنے والے کے سوا ساری مخلوق کی
مغفرت فرما دیتا ہے ۔
عن ابي ثعلبة رضي الله عنه قال، قال رسول الله صلى الله عايه وسلم إذَا
کَانَ لَیْلَۃَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ اِطَّلَعَ اللّٰہُ اِلٰی خَلْقِہٖ
فَیَغْفِرُ لِلْمُؤْمِنِیْنَ وَیُمْلِیْ لِلْکَافِرِیْنَ وَیَدَعُ اَھْلَ
الْحِقْدِ بِحِقْدِھِمْ حَتّٰی یَدَعُوْہُ؛ (صحيح الجامع الصغير، رقم
الحديث:771
حضرت ابو ثعلبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
نے ارشاد فرمایا"جب نصف شعبان کی رات ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ اپنی مخلوقات
کی طرف متوجہ ہوتا ہے ‘پس تمام مخلوق کو بخش دیتا ہےاور کافروں کو ڈھیل
دیتا ہے اور بغض رکھنے والوں کو ان کے بغض کے ساتھ چھوڑ دیتا ہے یہاں تک کہ
وہ اس کو ترک کر دیں ۔‘‘
یہ احادیث صحیحہ و حسنہ ہیں ۔اور یہ باالاتفاق قابل عمل ہیں۔لیکن چونکہ
فضائل اعمال میں ضعیف احادیث بھی معتبر ہوتی ہیں اس لیے احادیث ضعیفہ کو
بھی پیش کیا جاتا ہے۔اس کی پوری تفصیل(ضعیف حدیث کہاں معتبرہے) معرفۃ علوم
الحدیث، التقریب والتیسیر، فتح المغیث فی الفیۃ الحدیث وغیرہ میں ملاحظہ کر
سکتے ہیں
شب برات کی فضیلت میں ضعیف روایات
«1» حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ
أَخْبَرَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ أَرْطَاةَ عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ
عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ فَقَدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى
اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةً فَخَرَجْتُ فَإِذَا هُوَ بِالْبَقِيعِ
فَقَالَ: ((أَكُنْتِ تَخَافِينَ أَنْ يَحِيفَ اللَّهُ عَلَيْكِ
وَرَسُولُهُ)). قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي ظَنَنْتُ أَنَّكَ
أَتَيْتَ بَعْضَ نِسَائِكَ. فَقَالَ: ((إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ
يَنْزِلُ لَيْلَةَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا
فَيَغْفِرُ لأَكْثَرَ مِنْ عَدَدِ شَعْرِ غَنَمِ كَلْبٍ)). وَفِي الْبَابِ
عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ لاَ
نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ الْحَجَّاجِ.
وَسَمِعْتُ مُحَمَّدًا يُضَعِّفُ هَذَا الْحَدِيثَ وَقَالَ يَحْيَى بْنُ
أَبِي كَثِيرٍ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ عُرْوَةَ وَالْحَجَّاجُ بْنُ أَرْطَاةَ
لَمْ يَسْمَعْ مِنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ. ،)جامع الترمذي، كتاب
الصيام، باب ما جاء في ليلة النصف من شعبان، رقم الحديث:744
«2» حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْخُزَاعِيُّ وَمُحَمَّدُ
بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ أَبُو بَكْرٍ قَالاَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ
هَارُونَ أَنْبَأَنَا حَجَّاجٌ عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ عَنْ
عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ فَقَدْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ
عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ فَخَرَجْتُ أَطْلُبُهُ فَإِذَا هُوَ
بِالْبَقِيعِ رَافِعٌ رَأْسَهُ إِلَى السَّمَاءِ فَقَالَ: ((يَا عَائِشَةُ
أَكُنْتِ تَخَافِينَ أَنْ يَحِيفَ اللَّهُ عَلَيْكِ وَرَسُولُهُ)). قَالَتْ
قَدْ قُلْتُ وَمَا بِي ذَلِكَ وَلَكِنِّي ظَنَنْتُ أَنَّكَ أَتَيْتَ بَعْضَ
نِسَائِكَ. فَقَالَ: ((إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى يَنْزِلُ لَيْلَةَ النِّصْفِ
مِنْ شَعْبَانَ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا فَيَغْفِرُ لأَكْثَرَ مِنْ
عَدَدِ شَعَرِ غَنَمِ كَلْبٍ)).)) سنن ابن ماجه، كتاب إقامة الصلاة و السنة
فيها، باب ما جاء في ليلة النصف من شعبان، رقم الحديث:1452
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک رات میں نے رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو (گھر میں) نہ پایا۔ میں آپ کی تلاش میں نکلی تو
دیکھا کہ آپ بقیع میں ہیں اور آپ اپنا سرآسمان کی طرف سر اٹھائے ہوئے ہیں۔
(جب مجھے دیکھا تو) فرمایا: عائشہ! کیا تجھے یہ ڈر تھا کہ اللہ اور اس کا
رسول تجھ پر ظلم کریں گے ؟ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ: میں نے عرض
کیا: مجھے یہ خوف تو نہیں تھا لیکن میں نے سوچا (شاید) آپ اپنی کسی (اور)
زوجہ محترمہ کے ہاں تشریف لے گئے ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اللہ تعالیٰ نصف شعبان کو آسمان دنیا پر (اپنی شایان شان) نزول فرماتا ہے
اور بنوکلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ (لوگوں) کو معاف فرما دیتا ہے
۔(سنن ابن ماجہ)
3)( حَدَّثَنَا حَسَنٌ حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ حَدَّثَنَا حُيَيُّ بْنُ
عَبْدِ اﷲِ عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيِّ عَنْ عَبْدِ اﷲِ
بْنِ عَمْرٍو رضی الله عنه أَنَّ رَسُولَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم
قَالَ: يَطَّلِعُ اﷲُ عَزَّوَجَلَّ إِلَی خَلْقِهِ لَيْلَةَ النِّصْفِ مِنْ
شَعْبَانَ، فَيَغْفِرُ لِعِبَادِهِ إِلَّا لِاثْنَيْنِ: مُشَاحِنٍ
وَقَاتِلِ نَفْسٍ. (احمد بن حنبل، المسند، 2 : 176، رقم الحدیث : 63533
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’ماہِ شعبان کی نصف شب (یعنی پندرہویں رات) کو
اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کی طرف متوجہ ہوتا ہے، پس وہ اپنے بندوں کو معاف کر
دیتا ہے سوائے دو لوگوں کے: سخت کینہ رکھنے والا اور قاتل۔‘‘( مسند امام
احمد بن حنبل)
عن عثمان بن ابي العاص عن رسو ل الله صلى عليه وسلم قال:" إِذَا کَانَ
لَيْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ فَإِذَا مُنَادٍ : هَلْ مِنْ
مُسْتَغْفِرٍ فَأغْفِرَ لَهُ؟ هَلْ مِنْ سَائِلٍ فَأعْطِيَهُ؟ فَـلَا
يَسْألُ أحَدٌ إَلَّا أعْطِيَ إِلَّا زَانِيَةٌ بِفَرْجِهَا أوْ مُشْرِکٌ."
(شعب الايمان للبيهقي،رقم الحديث:3836
حضرت عثمان بن ابی العاص سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا"جب شعبان کی پندرہویں رات ہوتی ہے تو منادی ندا دیتا ہے: کیا کوئی
مغفرت طلب کرنے والا ہے کہ میں اسے بخش دوں؟ کیا کوئی سوال کرنے والا ہے کہ
میں اسے عطا کروں؟ پس زانیہ اور مشرک کے سوا ہر سوال کرنے والے کو عطا کر
دیا جاتا ہے"۔
موقوف روایت
قال عبد الرزاق :و أخبرني من سمع البيلماني يحدث عن أبيه عن إبن عمرقال:خمس
ليال لا ترد فيهن الدعاء: ليلة الجمعة، و أول ليلة من رجب، و ليلة النصف من
شعبان، و ليلتی العيدين.(مصنف عبد الرزاق، باب النصف من شعبان، جلد؛ 4،رقم
الحديث:7927
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایاکہ پانچ راتیں ایسی ہیں
جن میں دعا رد نہیں کی جاتی: جمعہ کی رات، رجب کی پہلی رات، شعبان کی
پندرھویں رات، دونوں عیدوں کی راتیں ۔ (مصنف عبد الرزاق)
ان احادیث کے علاوہ اور بھی بہت ساری احادیث مبارکہ ہیں جو ماہ شعبان اور
شب برات کی فضیلت و اہمیت کے متعلق وارد ہوئی ہیں۔
فضائل اعمال میں اگرچہ ضعیف احادیث بھی قابل عمل ہوتی ہیں ۔اور شب برات کی
فضیلت میں تو احادیث صحیحہ و حسنہ بھی موجود ہیں ۔اب اگر کوئی شخص ان تمام
احادیث کو موضوع کہ کر ان کو مردود قرار دینا چاہتا ہے تو یہ اس کی جہالت
اور کاہلی و سستی کی علامت ہے۔
کاہلی اسی کو تو کہتے ہیں کہ بیس رکعت تراویح کو آٹھ ادا کرنا ۔شب برات اور
شب قدر میں وارد شدہ احادیث کو موضوع بتاکر ان راتوں میں عبادت الہی سے منھ
موڑ لینا۔
انہی لوگوں کے لیے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کا یہ فرمان ہے
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ
الْحُبَابِ عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ حَدَّثَنِي الْحَسَنُ بْنُ
جَابِرٍ عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِيكَرِبَ الْكِنْدِيِّ أَنَّ رَسُولَ
اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((يُوشِكُ الرَّجُلُ
مُتَّكِئًا عَلَى أَرِيكَتِهِ يُحَدَّثُ بِحَدِيثٍ مِنْ حَدِيثِي فَيَقُولُ
بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ كِتَابُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ فَمَا وَجَدْنَا
فِيهِ مِنْ حَلاَلٍ اسْتَحْلَلْنَاهُ وَمَا وَجَدْنَا فِيهِ مِنْ حَرَامٍ
حَرَّمْنَاهُ. أَلاَ وَإِنَّ مَا حَرَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ
عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلُ مَا حَرَّمَ اللَّهُ)).
مقدام بن معدیکرِب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا: قریب ہے کہ کوئی آدمی اپنے آراستہ تخت پر ٹیک لگائے
بیٹھا ہو اور اس سے میری کوئی حدیث بیان کی جائے تو وہ کہے: ہمارے اور
تمہارے درمیان اللہ کی کتاب کافی ہے، ہم اس میں جو چیز حلال پائیں گے اسی
کو حلال سمجھیں گے اور جو چیز حرام پائیں گے اسی کو حرام جانیں گے ، تو سن
لو! جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہے وہ ویسے ہی ہے
جیسے اللہ نے حرام قرار دیا ہے ۔
یہی حال ان اہل خبیث کا ہے۔
توحید کے ٹھیکے دار بنتے ہو اور عمل احکام خدا اور فرامین مصطفے کے خلاف
کرتے ہو۔
جہاں اپنی بات ہو وہاں غیر معتبر کتب احادیث کی حدیث اور موضوع روایات کو
بھی صحیح و حسن بتاکر اپنے مسئلہ کو ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہو ۔اور اگر ہم
اپنی تائید میں صحاح ستہ بلکہ بخاری و مسلم کی روایت کو پیش کریں تو اسے
ضعیف کہ کر لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہو۔
اب بھی وقت ہے آجاؤ راہ راست پر ۔فرقہ ناجیہ صرف اور صرف اہل سنت والجماعت
ہی ہے ۔ائمہ اربعہ کی تقلید کرنے والے ہی حق پر ہے۔
اس کے علاوہ تمام فرقے گمراہ، بد عقیدہ اور کافر ہیں ۔
اپنے آپ کو اہل حدیث کہنے والوں ان احادیث پر عمل کیوں نہیں کرتے۔یہاں اپنی
عقل کو ترجیح دیتے ہو۔اور کان کھول کر سن لو کوئی شخص اہل حدیث یعنی بیک
وقت تمام حدیثوں پر عمل کر ہی نہیں سکتا ہاں ہر سنت پر عمل کر سکتا ہے اسی
لیے تو عالم ما کان وما یکون، غیب کی خبریں دینے والے آقا، ہم سب کے والی،
ہادی امت، نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«ا» حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ بَشِيرِ بْنِ ذَكْوَانَ
الدِّمَشْقِيُّ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ
اللَّهِ بْنُ الْعَلاَءِ- يَعْنِي ابْنَ زَبْرٍ- حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ
أَبِي الْمُطَاعِ قَالَ: سَمِعْتُ الْعِرْبَاضَ بْنَ سَارِيَةَ يَقُولُ
قَامَ فِينَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ
يَوْمٍ فَوَعَظَنَا مَوْعِظَةً بَلِيغَةً وَجِلَتْ مِنْهَا الْقُلُوبُ
وَذَرَفَتْ مِنْهَا الْعُيُونُ فَقِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَعَظْتَنَا
مَوْعِظَةَ مُوَدِّعٍ فَاعْهَدْ إِلَيْنَا بِعَهْدٍ فَقَالَ: ((عَلَيْكُمْ
بِتَقْوَى اللَّهِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَةِ وَإِنْ عَبْدًا حَبَشِيًّا
وَسَتَرَوْنَ مِنْ بَعْدِي اخْتِلاَفًا شَدِيدًا فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي
وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ عَضُّوا عَلَيْهَا
بِالنَّوَاجِذِ وَإِيَّاكُمْ وَالأُمُورَ الْمُحْدَثَاتِ فَإِنَّ كُلَّ
بِدْعَةٍ ضَلاَلَةٌ))(. سنن ابن ماجه، باب اتباع سنة الخلفاء الراشدين،
جلد، ا، ص، 5
حضرت عرباض بن ساریہ کہتے ہیں کہ ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
ہمارے درمیان کھڑے ہوئے، آپ نے ہمیں ایک مؤثر نصیحت فرمائی، جس سے دل لرز
گئے اور آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا
گیا: اللہ کے رسول! آپ نے تو رخصت ہونے والے شخص جیسی نصیحت کی ہے، لہٰذا
آپ ہمیں کوئی تاکیدی حکم ارشاد فرمائیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تم اللہ سے ڈرتے رہنا، اور امیر (سربراہ) کی بات سننا اور اس کا کہنا
ماننا، گرچہ تمہارا امیر ایک حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو، عنقریب تم لوگ میرے
بعد سخت اختلاف دیکھو گے، تو تم میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی
سنت کو لازم پکڑنا، اس کو اپنے دانتوں سے مضبوطی سے تھامے رہنا، اور دین
میں نئی باتوں (خلاف شرع کاموں) سے اپنے آپ کو بچانا، اس لیے کہ ہر خلاف
شرع کام گمراہی ہے۔
اس حدیث کو بنظر غائر پڑھیے اور دیکھیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ علیہ
وسلم نے فعلیکم بسنتی فرمایا، فعلیکم بحدیثینہیں فرمایا۔اس لیے کہ ایک حدیث
دوسری حدیث کے لیے یا کسی آیت کے لیے کبھی ناسخ ہوتی ہے جس کا علم تاریخ
وغیرہ سے معلوم کیا جاتا ہے۔لہذا تمام احادیث پر بیک وقت عمل ہو ہی نہیں
سکتا۔اپنے آپ کو اہل حدیث کہنے والو ہوش میں آؤاور بنا کسی چون و چرا کے
مذہب اہل سنت والجماعت میں داخل ہوجاؤ۔
اسی لیے تو امام عشق و محبت، حامی سنت، ماحی بدعت، قاطع نجدیت، الشاہ امام
احمد رضا خان فاضل عرب و عجم نے فرمایا
آج لے ان کی پناہ آج مدد مانگ ان سے
پھر نہ مانیں گے قیامت میں اگر مان گیا
التجا
اس دور پر فتن میں بہت سارے فرقے پیدا ہو چکے ہیں کچھ حدیث کا سرے ہی سے
انکار کردیتے ہیں تو کچھ اپنے آپ کونام نہاد اہل حدیث کہنے پر تلے ہوئے ہیں
۔ایسے حالات میں جماعت اہل سنت کی ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں کہ وہ ان تمام
فرقہاے باطلہ کا مقابلہ کریں اور اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کے کوشش کریں۔
چوکہ مطلق العنان غیر مقلد اقوال بزرگان دین کو نہیں مانتے ہیں، نام نہاد
اہل حدیث بنتے ہیں، اسی لیے میں نے شب برات کے متعلق صرف احادیث کریمہ پر
ہی اکتفا کیا ہے۔اقوال اولیاء اللہ کو ترک کردیا ہے۔
اصطلاحات حدیث
ضرورت کے تحت چند اہم اصطلاحات حدیث جن کا تذکرہ ماقبل میں آچکا ہے، کو پیش
کیا جاتا ہے۔
حدیث: جمہور محدثین کی اصطلاح میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل
اور تقریر کو کہا جاتا ہے۔
مرفوع: وہ حدیث ہےجس کی سند نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچے۔
موقوف: وہ حدیث ہےجس کی سند صحابی تک پہنچے۔
مقطوع: وہ حدیث ہے جس کی سند تابعی تک پہنچے۔
صحیح: وہ حدیث ہے جو عادل، تام الضبط راوی کی روایت سے مروی ہو اور اس کی
سند متصل ہو، اور معلَّل و شاذ نہ ہو۔
صحیح کی قسمیں: اس کی دو قسمیں ہیں)(اول) صحیح لذاتہ، (دوم) صحیح لغیرہ
صحیح لذاتہ: وہ حدیث ہے جس میں صحیح کی تعریف میں مذکور تمام صفات کامل طور
پرپائی جائیں۔
صحیح لغیرہ: وہ حدیث ہے جس کے اندر صحت کے شرائط مذکورہ میں کچھ کمی ہو مگر
تعدد طُرُق سے اس کی تلافی ہو گئ ہو.
حسن: وہ حدیث ہےجسے عادل مگر خفیف الضبط راوی نے متصل سند کے ساتھ روایت
کیا ہو اور وہ روایت شذوذ و علت قادحہ سے پاک ہو۔
اس کی بھی دو قسمیں ہیں ۔اول، حسن لذاتہ دوم، لغیرہ
حسن لذاتہ: وہ حدیث ہے جس میں صحت کے مذکورہ بالا شرائط میں کسی قسم کی کمی
پائی جاتی ہو اور تعدد طرق سے اس کی تلافی نہ ہوئی ہو۔
حسن لغیرہ: وہ حدیث ضعیف جس کے ضعف کی تلافی ہوگئی ہو ۔تلافی ضعف کی متعدد
صورتیں ہیں ۔مثلاًکئی سندوں سے مروی ہونا یا ائمہ کا اس پر عمل ہونا وغیرہ۔
ضعیف: وہ حدیث ہے جس میں صحیح کے تمام یا بعض شرائط نہ پائے جاتے ہوں اور
کسی طرح اس کی تلافی بھی نہ ہوئی ہو۔
اس کی بہت ساری قسمیں ہیں۔اگر ضرورت ہو تو مقدمہ ابن صلاح، معرفۃعلوم
الحدیث، نزہۃ النظر وغیرہ کتابوں کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔
نوٹ: ابھی میں ایک ادنی سا طالب علم ہوں ممکن ہے کہ مجھ سے بہت ساری خامیاں
ہوئی ہوں۔لہذا میں آپ سے التماس کرتا ہوں کہ اگر کوئی خامی نظر آئے تو اس
کی خود ہی اصلاح کرلیں ورنہ مطلع فرمادیں عین نوازش ہوگی۔
خاک ہو جائیں عدو جل کر مگر ہم تو رضا
دم میں جب تک دم ہے ذکر ان کا سناتے جائیں گے |