جب نبی پر سحر کیا گیا تھا تو آپ ﷺ کو مسحور کہنے والا ظالم کیوں ؟

نبی ﷺ کے سحر کے متعلق لوگوں میں طرح طرح کے خیالات ہیں ، سحر کا معاملہ لیکر منکرین حدیث نے الگ شوشہ چھوڑا اور کافروں نے الگ ۔ نبی ﷺ پر سحر سے متعلق ایک یہ شبہ کیا جاتا ہے کہ قرآن کے سورہ الفرقان آیت نمبر 8 میں ہے اور ان ظالموں نے کہا کہ تم ایسے آدمی کی تابعداری کر رہے ہو جس پر جادو کر دیا گیا ہے اور دوسری جگہ بنی اسرائیل آیت نمبر 47 میں ہے جبکہ یہ ظالم کہتے ہیں کہ تم اسکی تابعداری کرتے ہو جن پر جادو کر دیا گیا ہےگویاان دونوں آیتوں میں اللہ تعالی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر سحر کا الزام لگانے والوں کو ظالم کہا تو پھر بخاری اور مسلم شریف کے ان احادیث کا کیا ہوگا جن میں یہ کہا گیاہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر سحر کیا گیا تھا تو اس طرح ظاہری قرآنی آیات اور صحیح احادیث میں صاف تعارض نظر آرہا ہے۔دراصل یہ ایک شبہ ہے نیچے اس شبے کا رد پیش کیا جارہاہے ۔
یہ بات صحیح ہے کہ آپ ﷺ کو مسحور کہنے والوں کو دو مقامات پر ظالم کہا گیا ہے اور وہ ظالم مشرکین ہیں ، وہ دو آیتیں مندرجہ ذیل ہیں ۔
1ـ اللہ کا فرمان ہے : نَّحْنُ أَعْلَمُ بِمَا يَسْتَمِعُونَ بِهِ إِذْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ وَإِذْ هُمْ نَجْوَىٰ إِذْ يَقُولُ الظَّالِمُونَ إِن تَتَّبِعُونَ إِلَّا رَجُلًا مَّسْحُورًا (الاسراء:47)
ترجمہ: جس غرض سے وہ لوگ اسے سنتے ہیں ان ( کی نیتوں ) سے ہم خوب آگاہ ہیں ، جب یہ آپ کی طرف کان لگائے ہوئے ہوتے ہیں تب بھی اور جب یہ مشورہ کرتے ہیں تب بھی جب کہ یہ ظالم کہتے ہیں کہ تم اس کی تابعداری میں لگے ہوئے ہو جن پر جادو کر دیا گیا ہے ۔
2- اللہ کا فرمان ہے : أَوْ يُلْقَىٰ إِلَيْهِ كَنزٌ أَوْ تَكُونُ لَهُ جَنَّةٌ يَأْكُلُ مِنْهَا ۚ وَقَالَ الظَّالِمُونَ إِن تَتَّبِعُونَ إِلَّا رَجُلًا مَّسْحُورًا (الفرقان:8(
ترجمہ: یا اس کے پاس کوئی خزانہ ہی ڈال دیا جاتا یا اس کا کوئی باغ ہی ہوتا جس میں سے یہ کھاتا اور ان ظالموں نے کہا کہ تم ایسے آدمی کے پیچھے ہو لئے ہو جس پر جادو کر دیا گیا ہے ۔
اور یہ بات بھی صحیح ہے کہ نبی ﷺ پر سحر کیا گیا تھا ، صحیح بخاری میں مذکور ہے :
سحَر رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم رجلٌ من بني زُرَيقٍ، يُقالُ له لَبيدُ بنُ الأعصَمِ، حتى كان رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم يُخَيَّلُ إليه أنه يَفعَلُ الشيءَ وما فعَله(صحيح البخاري:5763)
ترجمہ: بنی زریق کے ایک شخص لبید بن اعصم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کر دیا تھا اور اس کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی چیز کے متعلق خیال کرتے کہ آپ نے وہ کام کر لیا ہے حالانکہ آپ نے وہ کام نہ کیا ہوتا۔
اور مسلم شریف میں بھی اس جادو کا ذکر ہے :
سحر رسول الله صلى الله عليه وسلم يهودي من يهود بني زريق . يقال له : لبيد بن الأعصم . قالت : حتى كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يخيل إليه أنه يفعل الشيء ، وما يفعله .(صحيح مسلم؛2189)
ترجمہ: بنی زریق کے ایک یہودی جسے لبید بن اعصم کہا جاتا ہے اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کر دیا تھا اور اس کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی چیز کے متعلق خیال کرتے کہ آپ نے وہ کام کر لیا ہے حالانکہ آپ نے وہ کام نہ کیا ہوتا۔
گویا اس میں کوئی شک نہیں کہ رسول اللہﷺ پر جادو ہوا تھا ،اس جادو کا اثر بھی مذکور ہے کہ کسی کام کے متعلق آپ کا خیال ہوتا کہ کرلیاہوں مگر اسے انجام نہیں دئے ہوتے تھے ۔بخاری شریف کی دوسری روایت میں ہے: كان رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم سُحِرَ، حتى كان يَرى أنه يأتي النساءَ ولا يأتيهِنَّ(صحيح البخاري:5765)
ترجمہ: نبی ﷺ پر جادو کیا گیا تھا جس کا اثر یہ تھا کہ آپ یہ سمجھتے کہ آپ ﷺ اپنی بیویوں کے پاس آتے ہیں، حالانکہ آپ آتے نہ تھے۔
بخاری ومسلم کے علاوہ دیگر کتب حدیث میں بھی آپ ﷺ پر جادو کئے جانے کا ذکر ہے ، یہاں یہ بات جان لینی چاہئے کہ الحمد للہ جادو کا آپ ﷺ پر جسمانی اور عقلی کوئی اثر نہیں تھا اس لئے عبادت کی انجام دہی یا رسالت کی تبلیغ پر کوئی اثر نہیں پڑا۔اللہ تعالی آپ کا محافظ ونگراں تھا، فرمان الہی ہے :
ترجمہ : اے رسول جو کچھ بھی آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے پہنچا دیجئے ۔ اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے اللہ کی رسالت ادا نہیں کی اور آپ کو اللہ تعالٰی لوگوں سے بچا لے گا بے شک اللہ تعالٰی کافر لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا ۔

بعض لوگوں کا شبہ ہے کہ مذکورہ مسحور والی قرآنی آیات اورصحیحین کی حدیث کے درمیان تعارض نظر آرہا ہے حالانکہ دونوں میں کوئی تعارض وٹکراؤ نہیں ہے کیونکہ قرآن کی دونوں آیات مکی ہیں یعنی مکہ میں نازل ہوئیں اور صحیحین کی روایات مدینے کی ہیں یعنی آپ ﷺ پر مدینے میں جادو کیا گیا تھا نہ کہ مکہ میں ۔ اس لحاظ سے مکے کے سحر کا مدینے کے سحر سے کوئی تعلق ہی نہیں بنتا۔ دوسری بات یہ ہے کہ مکہ کے مشرکین آپ ﷺ کو مختلف طعنے دیا کرتے تھے تاکہ آپ کو اور آپ کے اصحاب کو تکلیف پہنچے اور دوسرے لوگوں کو آپ کی باتوں کو سننے اور ماننے سے روکا جاسکے ۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ کو مسحور کے علاوہ ساحر، مجنوں اور کاہن بھی کہاگیا ۔یہ سارے الفاظ یونہی بطور طنز کہا کرتے تھے اور آپ ﷺ کی ان الفاظ کے ساتھ لوگوں کے سامنے مثال بیان کرتے تھے جیساکہ سورہ بنی اسرائیل کی اگلی آیت میں مسحور کے بعد اللہ تعالی نے ذکر کیا :
انظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثَالَ فَضَلُّوا فَلَا يَسْتَطِيعُونَ سَبِيلًا (الاسراء :48(
ترجمہ: دیکھیں تو سہی ، آپ کے لئے کیا کیا مثالیں بیان کرتے ہیں ، پس وہ بہک رہے ہیں ، اب تو راہ پانا ان کے بس میں نہیں رہا ۔
یہ کوئی نیا معاملہ نہیں ہے ، اس طرح سے پیغمبروں کی شان میں پہلے بھی کافروں نےایسامعاملہ کیا ہے جیساکہ اللہ تعالی نے موسی علیہ السلام کے متعلق فرعون کا قول ذکر کیا ہے :
وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَىٰ تِسْعَ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ ۖ فَاسْأَلْ بَنِي إِسْرَائِيلَ إِذْ جَاءَهُمْ فَقَالَ لَهُ فِرْعَوْنُ إِنِّي لَأَظُنُّكَ يَا مُوسَىٰ مَسْحُورًا (الاسراء:101(
ترجمہ: ہم نے موسیٰ کو نو معجزے بالکل صاف صاف عطا فرمائے ، تو خود ہی بنی اسرائیل سے پوچھ لے کہ جب وہ ان کے پاس پہنچے تو فرعون بولا کہ اے موسٰی! میرے خیال میں تجھ پر جادو کر دیا گیا ہے ۔
دیکھیں یہاں بھی موسی علیہ السلام کو مسحور کہا گیا ہے ، الفاظ قابل غور ہیں "انی لاظنک " میں تمہارے بارے میں گمان کرتا ہوں یعنی یہ فرعون اور اس جیسے کافروں کا گمان ہے کہ پیغمبرمسحور (جادوکئے ہوئے) ہوتے ہیں ۔ نبی ﷺ کے متعلق بھی مشرکوں کا یہی گمان تھا ۔

مکہ کے مشرکوں کے باطل گمان کا مدینے میں آپ ﷺ پر ہوئے جادو سے قطعا کوئی تعلق نہیں ہے ۔ جب کافروں نے آپ ﷺ کو ساحر اورمسحور کہا اس وقت آپ پر جادو ہوا ہی نہیں تھا اور جب آپ ﷺ پرمدینے میں جادو کا اثر ہوا تو اس جادوجادوگر نے آپ کو کچھ نہیں نقصان پہنچا سکا۔ آپ کو جسمانی کوئی تکلیف نہیں ہوئی اور نہ ہی آپ ﷺ کی عقل میں ذرہ برابر فتور آیا جو مسحور کی بڑی علامت ہوتی ہے ۔آپ جوں کے توں تھے ،بس معمولی اثر تھا جس کا ذکر اوپر کیا گیاہے۔ مشرکوں اور کافروں نے تو آپ ﷺ کومسحور قرآ ن کی وجہ سے کہاتھا نہ کہ سحر کی کسی بات کی وجہ سے جیساکہ آیت کا یہ ٹکرا " نَّحْنُ أَعْلَمُ بِمَا يَسْتَمِعُونَ بِهِ إِذْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ "( جس غرض سے وہ لوگ اسے سنتے ہیں ان ( کی نیتوں ) سے ہم خوب آگاہ ہیں ، جب یہ آپ کی طرف کان لگائے ہوئے ہوتے ہیں) بتلاتا ہے کہ یہ لوگ آپ سے قرآن سنتے اور سن کر جب واپس ہوتے تو کہتے یہ تو ساحر ہے ، یہ تو مسحور ہے ۔ اللہ نے مشرکوں کو ظالم قرار دیا کیونکہ انہوں نے سچے پیغمبر پر تہمت لگا یا اور جو حق بات لوگوں کو بتلاتے تھے انہیں مسحور کہا ۔ ظلم کہتے ہیں :وضع الشی فی غیرمحلہ یعنی کسی چیز کو اس کی اصل جگہ میں نہ رکھ کر دوسری جگہ رکھنا۔ مشرکوں نے مسحور کا لفظ ایسی جگہ استعمال کیا جو صحیح نہیں تھی اس وجہ یہ ظالم قرار پائے ۔اللہ تعالی جو بھی کہتا ہے حق کہتا ہے ۔ فرمان رب العالمین ہے :
وَاللَّهُ يَقُولُ الْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِي السَّبِيلَ (الاحزاب:4)
ترجمہ: اللہ تعالی حق بات کہتا ہے اور سیدھی رات سمجھاتا ہے ۔

Maqubool Ahmad
About the Author: Maqubool Ahmad Read More Articles by Maqubool Ahmad: 320 Articles with 350315 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.