فلم انڈسٹری اور متبادل بیانیہ

وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات وقومی ورثہ مریم اور نگزیب کا منصب حکومت کی ترجمانی ہے، چونکہ ملکی سیاست میں ہنگامی حالات ہیں، اس لئے ترجمانی کا فریضہ کئی دیگر وزیر، مشیر (اور وزیر ، مشیر بننے کے امیدواران ) بھی بڑے جوش وجذبے سے ادا کر رہے ہیں۔ ایک خاتون اور ذمہ دار ترجمان ہونے کے ناطے اگر مریم اور نگزیب محتاط گفتگو بھی کرتی ہیں، تو دیگر وزراء یہ کمی مخالفین کو مغلظات بکنے اور الٹے سیدھے نام رکھنے سے پوری کردیتے ہیں۔ گزشتہ روز موصوفہ نے اپنی روایتی ترجمانی کی ڈیوٹی سے کچھ وقت نکالااور سندھ کے گورنر ہاؤس میں منعقد ہونے والے ایک اجلاس میں شرکت کی، جو ’فلم، پروڈکشن اور براڈکاسٹنگ پالیسی 17ء‘ کے سلسلہ میں طلب کیا گیا تھا۔ اس میں کچھ سرکاری، کچھ لیگی اور چند ایک افراد متعلقہ شعبہ کے بھی شامل تھے۔ وزیر موصوفہ نے فلم انڈسٹری کی اہمیت پر گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ ’’ ․․․ دنیا میں پاکستان کا مثبت امیج اجاگر کرنے اور معاشرے سے انتہا پسندی اور عدم برداشت کے خاتمے کے لئے متحرک فلم انڈسٹری وقت کی اہم ضرورت ہے ․․․ انتہا پسندی کے خلاف متبادل بیانیہ پیش کرنے کے لئے فلم انڈسٹری موثر کردار ادا کر سکتی ہے ․․․‘‘۔

فلم انڈسٹری بلا شبہ ابلاغ کا ایک موثر ذریعہ ہے، محترمہ کے کہنے کے مطابق ’ساٹھ کی دہائی میں پاکستان کی فلم انڈسٹری کا شمار خطے کی بہترین انڈسٹریوں میں ہوتا تھا‘۔ کوئی کام تنزلی کا سفر شروع ہونے پر بھی کافی وقت لے جاتا ہے، چار دہائیاں قبل تک پاکستان میں بننے والی فلموں کی مقبولیت قائم تھی، جس فلم کو لوگ پسند کرتے وہ کئی کئی ہفتے ایک ہی سینما گھر کی زینت بنی رہتی، اسی بات کو اس کی تشہیر کے لئے استعمال کیا جاتا تھا۔ بہت سے فلمی اداکار قومی ہیرو کا روپ دھار چکے تھے، ان کے نام کو ہی فلم کی کامیابی کی ضمانت قرار دیا جاتا تھا۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ اس کا معیار قائم نہ رکھا جاسکا۔ شاید وہ لکھنے والے نہ رہے، دل کو موہ لینے والے موسیقار بھی چلے گئے، وہ ڈائریکٹر بھی نہ رہے۔ اور بالآخر وہ اداکار بھی نہ رہے، جنہیں لوگ دیکھنا چاہتے تھے۔ یہ نہیں کہ نئے لوگ اس میدان میں نہیں آئے، بلکہ وہ حقیقی معانوں میں پرانے لوگوں کی جگہ پُر کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ جو کچھ بھی ہوا، سینما خالی ہونے لگے اور وقت آیا کہ ویرانیوں نے وہاں ڈیرے ڈال دیئے، اب صرف ان کی باقیات ہی رہ گئی ہیں۔ پاکستان میں فلمیں مقبولیت کا ریکارڈ ضرور قائم کرتی رہیں، مگر ایسا نہیں ہوا کہ فلم کے ذریعے قوم کو کوئی راہ دکھائی گئی ہو، یا قوم کی رہنمائی کی گئی ہو، حتیٰ کہ ماحول اور معاشرے کی حقیقی ترجمانی بھی فلم میں کم ہی دیکھنے کو ملی۔ فلم کی یہ مجبوری ضرور ہے کہ مبالغہ کا بہت عمل دخل ہوتا ہے، مگر صرف مبالغہ یا گلیمر کے چکر میں فلم بنانے سے قوم کو کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ پاکستان میں ایسی فلموں کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے، جن کو لوگ تاریخ، سبق یا اصلاح کی ذیل میں یاد رکھتے۔ اگر کچھ یاد رکھی گئیں تو اداکاری کی بنا پر، یا کبھی کوئی اچھی کہانی کی وجہ سے، یا پھر خوبصورت گانوں کے سبب۔

ہمیں فلم سے اصلاح کی توقع ضرو ر رکھنی چاہیے، مگر صرف اس صورت میں کہ ماضی کو مدنظر رکھا جائے۔ اگر یہ کہا جائے کہ اب زمانہ بدل چکا ہے، اب اصلاحی فلمیں بن سکتی ہیں، تو یہ المیہ بھی اب ساتھ ہی ہے کہ فلم تو بن جائے گی، مگر سینما کون جائے گا؟ گویا فلم تو ہوگی، مگر فلم بین کوئی نہ ہوگا۔ یہاں دوسری اور اہم بات یہ ہے کہ متحرک فلم انڈسٹری جب پاکستان میں اپنے عروج پر تھی، اور ہمارے پرانے اداکار ہیرو تھے، تب فلم نے قوم کو کس راہ پر لگایا؟ تین اہم کام ہوتے تھے، ماردھاڑ، رومانس یا مزاح۔ فلم کا اہم ترین تصور یہی ہے کہ یہ تفریح کے لئے ہوتی ہے، اور اسی ماحول میں فلم بین کے ذہن میں کچھ سوال بھی چھوڑے جاتے ہیں، جن پر غور اور عمل کرنے سے اس کے مزاج میں تبدیلی آنا شروع ہو جاتی ہے۔ مگر اپنے ہاں فلموں میں اگر کسی کردار نے شہرتِ دوام حاصل کی ہے ، وہ ہے ’’مولا جٹ‘‘۔ ہماری فلم انڈسٹری نے قوم کو تشدد تو سکھایا ہے، تحمل، بردباری اور برداشت کا درس کم ہی دیا ہے۔ اب سرکاری خواہش اور سنسر کی پابندیوں سے گزر کر اگر اپنی فلم انڈسٹری بہتر کام کرنا چاہتی ہے تو قوم منتظر ہے۔

muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 472643 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.