2018میں شیربندآنکھوں والے کبوترکواٹھاکرلے
جائیگا۔نوازشریف:۔
جب سے پیارے وزیراعظم مخالفین کوجواب دینے کیلئے میدان میں اترے ہیں تب سے
وہ شیر کی تعریفوں میں زمین وآسمان کے قلابے ملاتے ہوئے نظرآتے ہیں
’’سوگیدڑبھی آجائیں توشیرکھڑارہتاہے‘‘شیرشیرہوتاہے ‘‘ اوراسطرح کے
دیگربیانات سے وہ اپنے کارکنوں کالہوگرمانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں مگران
کاحالیہ بیان سمجھ سے باہرہے اس بیان سے وہ اپنے مخالفین کوکبوتربھی قراردے
رہے ہیں اورانہیں دھمکی بھی دے رہے ہیں کہ انہیں اٹھالیاجائیگااس خبرداری
سے کبوتر اپنی آنکھیں بندکرنیکی بجائے کھلی رکھے گاپھرآج تک یہ نہیں سناکہ
کبھی شیرنے بھی کبوترکاشکارکیاہوبہرحال وزیراعظم کومصنوعی نعروں کی بجائے
اپنے آخری سال میں عوام کی حالتِ زارپرتوجہ دینی چاہئے لوڈشیڈنگ اورمہنگائی
کادیوعوامی خوشیوں کوچاٹ رہاہے سرحدوں پرحالات کشیدہ ہیں اورپاکستان نامی
ملک میں اسکے باشندے گھروں میں بھی محفوظ نہیں کھلی آنکھوں والے ان کبوتروں
کوزندگی کااحساس دیجئے بندآنکھوں والے کبوتر خودبخودمنظرسے غائب ہوجائینگے۔
الہ دین کاچراغ نہیں کہ جلدگندصاف کریں۔پرویزخٹک:۔
خیبرپختونخواکی تاریخ کے انوکھے اورہمارے پیارے وزیراعلیٰ جب بھی
گفتگوفرماتے ہیں گندکاذکرکرنانہیں بھولتے انکی باتوں سے ایسامحسوس ہوتاہے
جیسے انکی آمدسے پہلے یہاں گندہی گندتھااوراگران کاظہورنہ ہوتاتویہ گندکبھی
صاف نہ ہوتانجانے وہ گندکس کوقراردے رہے ہیں کبھی وہ گزشتہ کے تمام اپنے
جیسے حکمرانوں کوچوراورڈاکوقراردے رہے ہیں اورکبھی انکے پھیلائے ہوئے
گندکوکوستے ہوئے نظرآتے ہیں ہم جیسے کم فہموں کویہ بات سمجھ نہیں آتی کہ جب
گزشتہ تیس سال کے دوران وزیراعلیٰ صاحب جیسے باکمال لوگوں کویہاں کے عوام
نے چھ مرتبہ اسمبلی بھیجا،ایک مرتبہ ضلعی ناظم بنوایا،تین حکومتوں میں
وزیررہے،دامادِارجمندتحصیل ناظم اورایم این اے بنے،بھائی ضلعی ناظم بنے
اورانہیں بیک وقت چارچارپارٹیوں کے ساتھ رسم وراہ رکھنی پڑی اسکے باوجودیہ
گنداس قدر پھیل گیاکہ اسے صاف کرنے میں وزیراعلیٰ صاحب کوچارسال لگ گئے،
ایک سال مزیدلگے گااوراگلے پانچ سال کی حکومت کے بعدوہ اس گندکوصاف کرنے
میں کامیاب ہونگے یاانہیں مزیدپانچ برس کاعرصہ درکارہوگاہم نے توجب سے ہوش
سنبھالاہے انکی زبان سے یہی سنتے آرہے ہیں کہ وہ گندصاف کررہے ہیں جبکہ
انکی اپوزیشن کاکہناہے کہ وہ جوگندڈال کے ایک سال بعدرخصت ہورہے ہیں اسے
صاف کرنے میں اگلی دوحکومتوں کی ڈیوٹی پکی ہے اورآنے والی دوحکومتیں انہی
نعروں سے اپنے ادوارمکمل کریں گی کہ ہم اس حکومت کاگندصاف کررہے ہیں
اگروزیراعلیٰ صاحب گندصاف کرنے کی بجائے صوبے کے عوام کی خدمت کرتے توبہت
بہترہوتاکیونکہ عوام نے انہیں اپنے مسائل حل کرنے کیلئے صوبے کی سب سے بڑی
کرسی پر بٹھایاتھامگرانکی حکومت میں پارٹی کارکن طالبات امتحانی مراکزمیں
تلاشی لیتے رہے،انکے ایم این اے کوتھانے میں بندکرنے والے ایس ایچ
اوکودربدرہوناپڑا،وزیراعلی ٰہاؤس سے پرچے دئے جاتے رہے، تحریک انصاف جیسی
پارٹی میں انکے خلاف فارورڈبلاک بننااوراس کاٹوٹنابھی شائدگندصفائی کاحصہ
ہو ،پشاورکی سڑکوں پرپارٹی کے بانی رکن کی جانب سے گوخٹک گوکے نعرے ،ایک
وزیرکی کرپشن الزامات میں گرفتاری،اسی وزیرکی جانب سے وزیراعلیٰ اورانکے
خاندان پرکرپشن کے الزامات،صوبے کی تاریخ کے سب سے زیادہ سینئیروزرا،وزراکی
کرپشن الزامات میں برطرفی،وزراکی شہدکی بوتلوں کیساتھ فوٹوسیشن، وفاق کے
خلاف صوبے کی ہائیکورٹ میں کیس،وزیراعلیٰ کے خلاف وفاق کاایف آئی
آر،یونیورسٹی میں طالبعلم کاقتل،سکولوں اوریونیورسٹیوں پردہشت گردانہ حملے
،پرانے منصوبوں کے افتتاح پرہاتھاپائیاں،اسمبلی میں گالم گلوچ ،وزراء کی
جانب سے خواتین اراکین کواسمبلی میں گالیاں ،تعلیمی معیارکاپست
ہونا،ہسپتالوں کے بارے میں محض زبانی دعوے اورمثالی پولیس کے نام نہاد
کارناموں جیسے گند کوصاف کرناشائد وزیراعلیٰ صاحب بھول گئے کسی دن بھیس بدل
کرانہیں صوبے کے سب سے بڑے لیڈی ریڈنگ ہسپتال کادورہ کرناچاہئے تاکہ
گندکامفہوم سمجھ میں آسکے ۔
مریم نوازکوبچانے کیلئے طارق فاطمی اورراؤتحسین کوقربانی
کابکرابنایاگیا۔اعتزازاحسن:۔
اعتزازصاحب نجانے کہاں سے کوڑی اٹھالائے ہیں طارق فاطمی اور راؤتحسین والے
معاملے سے مریم نوازکاکیاواسطہ ؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان دواصحاب
کوقربانی کابکرابنایاگیاہے مگریہ بالکل اسی طرح ہے جیسے کہ یوسف رضاگیلانی
کوزرداری کیلئے قربانی کابکرابنایاگیاتھااس ملک میں قربانی کے بکروں کی
تعدادزیادہ ہونے کی وجہ سے کسی نہ کسی کواپنے آقاکیلئے قربان ہوناپڑتاہے
اقتدارنامی دیوتاکے قدموں میں آج تک بے شماربکرے قربان ہوچکے ہیں اوریہ
سلسلہ آئندہ بھی جاری رہیگاآپکی پارٹی کی تاریخ چونکہ قربانیوں سے بھری
ہوئی ہے لہٰذاآپ اپنی قربانیوں کی مالاجھپتے رہئے دوسروں کی قربانی کوجانے
دیجئے عوام کواچھی طرح معلوم ہے کہ کون کس کیلئے قربان ہواہے۔
مخالفین میری نقالی میں پنکھیاں جھیلتے ہیں تومجھے کوئی اعتراض
نہیں۔شہبازشریف:۔
خادم اعلیٰ سے ایک غلطی یہ ہوئی کہ اپنے ڈرامے کے حقوق محفوظ نہیں کروائے
ورنہ آج پیپلزپارٹی کے لوگ انکی نقالی کیسے کرسکتے تھے؟ ان دونوں ڈارموں
میں یہ بات قدرمشترک ہے کہ یہ اس وقت پلے کئے گئے جب حکومت دوسری پارٹی کی
تھی پیپلزپارٹی کواپنی حکومت کے دوران پنکھیاں جھیلنے کی توفیق نہیں ہوئی
جبکہ شہبازشریف بھی اپنی پارٹی کی حکومت میں اس ڈرامے کی اگلی قسط ٹیلی
کاسٹ کرنابھول گئے شہبازشریف کے ڈرامے میں پھربھی حقیقت کے قریب اداکاری کی
گئی تھی مگر پیپلزپارٹی کاپوراڈرامہ ہی اوورایکٹنگ کاشاہکارنظرآیا۔اب فلاپ
ڈرامے پرشہبازشریف کوکیااعتراض ہوسکتاہے؟
عمران کی جانب سے اصغرخان کیس پرسپریم کورٹ جانے کافیصلہ۔ خبر:۔
خان صاحب سیاسی لڑائی کوگلی کوچوں سے اٹھاکرعدالت میں لے گئے اب توعدالتوں
کوبھی کہناپڑرہاہے کہ سیاسی گندعدالتوں کی لانڈری میں دھونے کی کوشش ہورہی
ہے خان صاحب سے گزارش ہی کی جاسکتی ہے کہ اصغرخان کیس کافیصلہ سپریم کورٹ
ایک مرتبہ سناچکی ہے اس میں جن لوگوں پرالزامات ہیں انہیں کوئی ہاتھ نہیں
لگاسکتالہٰذا عدالتوں کومزیدسیاسی مقدمات کیلئے معاف ہی رکھئے سیاسی مسائل
سیاسی میدان میں حل ہونے چاہئیں عدالتوں کواپنااصل کام کرنے دیجئے اگر آپ
عدالتوں کو سیاسی اکھاڑابنائیں گے تواس کااثرعدالتوں کی کارکردگی
پرپڑنالازم ہے جب عدالتیں لوگوں کوانصاف دینے کی بجائے سیاستدانوں کے
درمیان ریفری کاکرداراداکرنے تک محدودہونگیں تو ان حالات میں لوگ مرنے کے
اٹھارہ سال بعدہی بری ہوتے رہیں گے اصغرخان کیس کوجانے دیجئے اپنی پارٹی کی
فعالیت پرتوجہ دیجئے ،الیکشن اصلاحات میں اپناکردارادا کیجئے ورنہ آئندہ
الیکشن کے بعدتودھاندلی کانعرہ بھی اپنی کشش کھوچکاہوگا۔ |