نفسِ ذکیہ - قسط ٢٠

سورج ڈوب رہا تھا۔ مغرب ہونے کو تھی۔ تمام پرندے اپنے اپنے گھونسلوں کو کوچ کر چکے تھے۔ یہ تو جنگلی جانوروں اور بھوت بلاؤں کے نکلنے کا وقت تھا۔ میں بے ہوش اس دنیا سے بے گانہ زمین پہ پڑا ریت چاٹ رہا تھا۔ میرا چہرہ، بال ، سارا جسم مٹی میں اٹا ہوا تھا۔ شرٹ جینز سے باہر نکلی ہوئی تھی ۔۔۔ بٹن ٹوٹے ہوئے تھے۔۔۔ ایک سلیپر پاؤں میں تھی اور ایک گاڑی کے اندر ہی پڑی تھی۔گاڑی کا دروازہ بھی بدستور کھلا ہوا تھا۔اندھیرا بڑھنے لگا ۔ رات دن پر غالب ہو رہی تھی۔ میرا موبائیل سارا دن بدستور بجتا رہا۔ کبھی چھوٹے بھائی کی کال آتی، کبھی بہن کی، کبھی امی کی، کبھی مجدی کی۔۔۔ مجھے کیا خبر تھی کہ کیا ہو رہا ہے۔ میں تو ہر شے سے بے زار و بے گانہ تھا۔ تب تک تو موبائیل کی بیٹری بھی ختم ہوچکی تھی۔ اب تو دنیا والوں سے رابطے کا کوئی زریعہ نظر نہ آتا تھا۔

اتنے میں دور ایک پیلی روشنی میری گاڑی کے قریب آ نے لگی۔ وہ کوئی گاڑی تھی۔دھول مٹی اڑاتی ہوئی، چند منٹ میں وہ میرے ساکت جسم کے عین سامنے آ کر رک گئی۔ اس گاڑی میں سے تین چار آدمی نکلے مجھے اٹھایا اور اپنے گاڑی میں ڈال دیا۔

۔۔۔۔۔۔۔

’’ہیلو بھائی!‘‘ ۔یہ اسد کی کال تھی۔ میرے چھوٹے بھائی کی۔ رات کے دس بج رہے تھے۔ ہسپتال والوں نے میرا موبائیل چارج کر دیا تھا۔ موبائیل آن ہونے کے چند منٹ بعد ہی اسد کی کال آ گئی تھی۔
’’جی سر! ذولقرنین صاحب سے بات کرنا چاہتے ہیں آپ؟؟؟‘‘ ہسپتال کے ایک اسٹاف نے پوچھا۔ انہوں نے میرے والٹ میں پڑے کارڈز پر سے میرا نام پڑھ لیا تھا۔
’’ام م م۔۔۔ جی۔ آپ؟؟؟‘‘ اسد نے حیرانی سے کہا۔
’’جی جناب! یہ تو ہسپتال میں ہیں۔۔۔ فاطمہ میڈیکل کمپلیکس میں۔۔۔انہیں کچھ لوگ لے کر آئے تھے۔ بتا رہے تھے کہ کہیں گرے ہوئے بے ہوش تھے۔آپ فوراََ یہاں پہنچیں‘‘۔
’’کچھ لوگ لے کر آئے تھے!!!‘‘۔ اسد یہ باتیں سن کر ہکا بکا رہ گیا۔ ٹھیک ہے میں گھر سے بہت بری حالت میں نکلا تھا مگر میں ہسپتال کیسے پہنچ گیا۔ اسد بے حد پریشان ہو گیا۔ اس نے ہسپتال والوں سے اچھی طرح پتہ پوچھا اور فوراََ مجدی کو کال لگائی۔ وہ تو خود ابھی کالج میں پڑھنے والا لڑکا تھا۔ کہاں اس قسم کے حالات سے کبھی سامنا ہوا تھا۔ اس نے یہی بہتر سمجھا کہ مجدی کو ساتھ لے لیا جائے۔ ابو جان تو ویسے ہی بے انتہا غصے میں تھے اور اس دن تھانوں کے چکر کاٹ کاٹ کر ہلکان ہو گئے تھے اور والدہ تو ہسپتال کا نام سن کر ہی غش کھا جاتیں۔ اسد نے اسی لئے خاموشی سے مجدی کو ساتھ لیا اور ہسپتال پہنچ گیا۔

میرے ایک ہاتھ میں ڈرپ لگی تھی۔ مجھے بخار اور درد سے نجات کی دوائیں دی گئیں تھیں۔ جسم میں جہاں جہاں چوٹیں اور خراشین پڑیں تھیں، ہسپتال والوں نے وہاں جراثیم کش ادویات لگا کر پٹیاں چپکا دیں تھیں۔ چہرے پر بھی جراثیم کش دوا لگانے کی نیلی نیلی لائنیں پڑی ہوئیں تھیں۔کیونکہ میں نے اپنا چہرہ بھی نوچ لیا تھا۔ میں کسی خوفناک بھوت سے کم نہیں لگ رہا تھا۔ کوئی مجھے اس حالت میں دیکھ لیتا تو خوف کھا کر بھاگ جاتا۔

’’یا اللہ!‘‘ اسد کے منہ سے بے اختیار نکلا۔ اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔
’’یہ کیا ہوا ہے بھائی کو؟؟؟‘‘ اسد جیسے رونے ہی والا تھا۔ اس نے ساتھ کھڑے ایک نرسنگ اسٹاف سے پوچھا۔
میں دنیا و مافیا سے بے خبر پڑا سو رہا تھا۔
’’انہیں اسی حالت میں لایا گیا تھا۔ چہرے پہ اسی طرح نشان تھے۔ سینے پر بھی نشان تھے۔ شاید انہوں نے خود اپنی کلائیوں کو بھی کاٹا ہے۔‘‘ اسد میرے قریب ہوا اور میری ایک انگلی پر بندھی پٹی کو گھورنے لگا۔ اس کی آنکھوں میں نمی آگئی۔
’’ان کے کچھ ناخن بھی اکھڑ گئے تھے‘‘۔ اس نے مزید کہا۔
’’یہ سب کیسے ہوا؟؟؟ ‘‘ مجدی نے اپنی پیشانی پکڑ لی۔ اس کی بھی دل کی دھڑکنیں تیز ہو گئیں۔ وہ بھی میرے پاس ہی کھڑا مجھے حیرانی سے دیکھ رہا تھا۔
’’اف!‘‘ مجدی کے منہ سے بے اختیار نکلا۔
’’ہمارے خیال سے انہوں نے خود ہی اپنے آپ کو زخمی کیا ہے۔ ان کی گاڑی ابھی بھی اسی جگہ کھڑی ہے جہاں سے انہیں اٹھایا گیا تھا‘‘۔ ہسپتال کے نرس نے پھر کہا۔
’’خود ہی۔۔۔ خود ہی زخمی کیا ہے‘‘۔ اسد کی زبان لڑکھڑا گئی۔ پریشانی کے عالم میں وہ ایک لمحے کو کپکپا اٹھا۔
’’کہاں سے اٹھایا تھا انہیں؟؟؟‘‘ مجدی نے دریافت کیا۔
’’ہائی وے سے۔۔۔‘‘ مجدی اس کا جواب سن کر خاموش سا ہو گیا۔ وہ ٹکٹکی باندھے میری حالت کو دیکھ رہا تھا۔
’’کیسے کیا یہ انہوں نے؟؟؟‘‘ ’’کیوں کیا؟‘‘ اسدنے رک رک کر جیسے اپنے آپ سے پوچھا۔ اس کے ان سوالوں کا کسی کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔
’’کب تک رکھیں گے ان کو یہاں؟؟؟‘‘ مجدی نے پوچھا۔
’’آپ چاہیں تو لے کے جا سکتے ہیں۔ ایمبولینس موجود ہے ہمارے پاس۔۔۔ اسی میں لے کر جانا ہو گا۔‘‘ ’’ اب آپ ڈاکٹر سے مل لیں۔۔۔‘‘۔

اسد اور مجدی دونوں ڈاکٹر کے کمرے میں پہنچ گئے۔
’’السلام علیکم!‘‘ کہتے ہوئے وہ دونوں ڈاکٹر کے سامنے بیٹھ گئے۔
’’لگتا ہے کسی پریشانی سے تنگ آ کر انہوں نے ایسا اقدام کیا ہے۔ اس کے علاوہ کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔ آپ لوگ ان کا خیال رکھیں اور جو بھی مسئلے مسائل ہیں انہوں اچھے طریقے سے حل کر لیں‘‘۔ ڈاکٹر صاحب نے سیدھی سی بات کی۔
اسد اور مجدی تو جانتے تھے کہ اس دن گھر میں کیا ہوا ہے۔ راستے میں اسدنے سب کچھ مجدی کے گوش گزار کر ہی دیا تھا۔ اب مجدی کو احساس ہوا کہ اسے فوزیہ والی بات مجھے میسج کر کے نہیں بتانی چائیے تھی۔ مگر اسے کیا معلوم تھا کہ میں گھر سے کن حالات میں نکلا تھا۔ مجدی نے بھی اسد کو فوزیہ اور میرے بارے میں سب کچھ کھل کر بتا دیا۔ اسد بے شک ایک ٹین ایج لڑکا تھا۔ مگر اتنی بات تو اب بچہ بچہ سمجھتا ہے۔ دور ہی ایسا آ گیا ہے۔

مجدی نے ہسپتال والوں کو بل ادا کیا اورمجھے ایمبولینس میں لٹا کر واپس گھر لانے لگے۔

گھر کے سامنے پہنچتے ہی مجدی نے اسد کو باہر ایمبواینس کے پاس ہی کھڑا کیا اور خود اندر جا کر ابو جان کو سب کچھ بتایا۔ رات کے ایک بج چکے تھے۔ ابو جان کو کونسی نیند آنی تھی!!! وہ جاگ ہی رہے تھے۔ سارا ماجرا سن کر وہ بھی سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔ جو کچھ دن میں میرے ساتھ کیا تھا اس پر افسوس کرنے لگے۔دل ہی دل میں خود کو کوسنے لگے۔ اتنے میں والدہ بھی آ گئیں۔ ساری کہانی سن کر وہ وہیں رکھے صوفے پر گر گئیں اور زار و قطار رونے لگیں۔ مجدی نے سب کو حوصلہ دیا اور جس حد تک ممکن تھا ہمت بندھائی۔

کچھ ہی دیر میں مجدی باہر آیا اور ایمبولینس کے ڈرائیور ، اسد اور اس نے مل کر مجھے اپنے کمرے میں بیڈ پر چھوڑ دیا۔

۔۔۔۔۔۔۔

’’ شیراز اور بینش ، سلمان اور شمائلہ، سلمہ اور فرحان۔۔۔‘‘ دلاور نے ایک لسٹ تیار کر رکھی تھی۔ وہ تمام جوڑوں کا نام ایک ایک کر کے پڑھ رہا تھا۔ چار دن بعد ان سب لوگوں نے مل کر ہاکس بے پر پک نک کا پروگرام بنایا تھا۔ ساتھ ساتھ ایک ڈانس کمپیٹیشن بھی ارینج کیا تھا۔ کوئی آٹھ دس لڑکے لڑکیوں کے جوڑے تھے۔ ان سب کا آپس میں مقابلہ تھا اور جیتنے والے کو ملنا تھا دس دن کا لاس ویگاس کا ٹرپ۔۔۔ سب نے مل کراس سارے ارینجمنٹ کے لئے پیسے ملائے تھے۔ ہاکس بے میں پک نک۔۔۔ وہیں وی آئی پی اسٹائیل میں ڈانس کمپیٹیشن کا ارینجمنٹ اور پھر دس دن کا لاس ویگاس کا فائیواسٹار ٹرپ۔۔۔ کل ملا کر کوئی بیس لاکھ کا خرچہ تھا۔

’’ارے سدرہ اور فہیم کو تو انوائٹ ہی نہیں کیا۔‘‘ دلاور نے خود سے کہا اور موبائیل پر سدرہ کا نمبر تلاش کرنے لگا۔
’’ٹوٹ ٹوٹ‘‘ کی آواز کے ساتھ ایک میسج دلاور کی موبائیل اسکرین پر نمودار ہوا۔ یہ میسج بینک سے آیا تھا۔ کوئی ستر ہزار روپے کے قریب پیسے اس کے اکاؤنٹ میں جمع کئے گئے تھے۔ دلاور بار بار وہ میسج پڑھنے لگا۔
’’صرف ستر ہزار۔۔۔!!!‘‘ دلاور کے ماتھے پر بل پڑ گئے۔ مہینے کا آغاز تھا۔ اس کے الیکٹرک اسٹور کا منافع اس کے اکاؤنٹ میں جمع کیا گیا تھا۔ وہ منافع جو کبھی دو لاکھ سے کم نہیں ہوتاتھا۔ اب ستر ہزار پر گر گیا تھا۔

دلاور سدرہ کو فون کرنا بھول گیا۔ اس نے فوراََ اسٹور سوپروائزر کو فون لگایا۔ بیل جاتی رہی مگر کسی نے فون پک نہیں کیا۔ اس نے پھر ٹرائی کیا مگر بے سود۔۔۔
دلاور نے بیزار ہو کر موبائیل بیڈ پر پھینک دیا۔ اسے بہت غصہ آنے لگا۔ اتنا کم پرافٹ!!! اس کی سٹی گم ہو گئی۔صرف اس ایک اسٹور کے بزنس پر ہی تو اس کا سارا انحصار تھا۔اور کیا بچا تھا۔ اب اسے سمجھ آ رہا تھا کہ غیروں پر سب کچھ چھوڑ دینے سے کیا ہوتا ہے۔ اس نے فوراََ گاڑی نکالی اور اسٹور کی راہ لی۔ شام کا وقت تھا ۔ آٹھ بجے اسٹور بند ہو جاتا تھا۔ اس نے تیز تیز گاڑی دوڑائی تا کہ چھٹی سے پہلے مراد صاحب سے بات کر سکے۔

’’کہاں ہیں سب؟؟؟ کہاں ہیں مراد صاحب؟؟؟‘‘ دلاور نے جلدی جلدی ادھر ادھر سب کو ڈھونڈتے ہوئے پوچھا۔ سب ملازمین گھر جا چکے تھے۔ صرف ایک پرانا ملازم ہی اب تک موجود تھا۔
’’ا م م م۔۔۔ سر ۔۔۔ السلام علیکم!‘‘
’’آآآ۔۔۔ سر! وہ تو۔۔۔ سب لوگ جا چکے ہیں ۔‘‘ ملازم نے جواب دیا۔
’’جا چکے ہیں!!! کہاں جا چکے؟؟؟ ابھی اسٹور بند کرنے کا ٹائم تو نہیں ہوا؟؟؟‘‘ دلاور نے حیرت اور فکرمندی سے پوچھا۔
’’ام م م۔۔۔ نہیں سر! وہ مراد صاحب نے پندرہ دن پہلے سے ہی چھٹی کا ٹائم پانچ بجے کر دیا ہے۔‘‘ اس نے جواب دیا
’’کیا؟؟؟ چھٹی کا ٹائم بدل دیا!!!‘‘ دلاور کو چپ لگ گئی۔
’’جی سر! آپ کو نہیں پتا؟؟؟‘‘ ملازم نے پوچھا۔
’’آآآ۔۔۔ نہیں۔۔۔ ہاں۔۔۔ مجھے پتا ہے۔‘‘ دلاور نے الٹا سیدھا جواب دیا۔ اس کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔ اس نے ایک بار پھر مراد صاحب کو کال ملائی۔ کسی نے فون نہیں اٹھایا۔
’’ان کا نمبر یہی ہے نا؟؟؟‘‘ دلاور نے مراد صاحب کا نمبر اس ملازم کو دکھاتے ہوئے پوچھا۔
’’جی۔۔۔ جی سر! یہی ہے‘‘۔ غالباََ اسے مراد کا نمبر یاد تھا۔ اس نے نمبر دیکھتے ہی اثبات میں سر ہلا دیا۔
دلاور خاموشی سے چلتا ہوا اسٹور میں بنے آفس میں جا گھسا اور دیر تک بیٹھا کچھ سوچتا رہا۔

’’سر! چائے لا دوں؟؟؟‘‘ اچانک ملازم نے اندر آ کر دریافت کیا۔ دلاور کو تو جیسے کسی نے ہیپناٹائز کر دیا تھا۔ وہ سر جھڑک کر ہوش میں آیا۔
’’ام م م ۔۔۔ نہیں ۔ نہیں۔۔۔میں جا رہا ہوں۔‘‘ دلاور بولا اور اٹھ کر اسٹور سے باہر نکل گیا۔

’’سدرہ اور فہیم کو تو کال ہی نہیں کی!!!‘‘ دلاور کو یاد آیا۔ وہ ڈرائیو کر کے گھر واپس جا رہا تھا۔دفعتاََ اس نے تمام پریشان کن باتیں اپنے ذہن سے نوچ پھینکیں۔ اس نے سدرہ اور فہیم کو کال کی اور بڑے پر جوش انداز میں انہیں سارے پروگرام کے بارے میں آگاہ کیا۔ کل ملا کرکوئی پچاس افراد سارے پروگرام میں شرکت کرنے والے تھے۔
’’ ایسے پروگرام روز روز تھوڑی ارینج ہوتے ہیں۔‘‘ دلاور خود کو سمجھانے لگا۔ ’’سارے دوست یار آئیں گے۔۔۔ کھل کر مزے کریں گے۔‘‘ وہ دو سال پہلے اسی قسم کے کئے گئے ایک ایونٹ کو یاد کرنے لگا۔ ’’کتنی تفریح آئی تھی یار۔۔۔‘‘ وہ پھر سوچنے لگا اور ایکسائٹڈ ہو گیا۔
’’ چلو مراد صاحب سے بعد میں مل لوں گا۔ بزنس میں اتار چڑھاؤ تو آتے ہی رہتے ہیں۔ اتنا اسپیشل ایونٹ آ رہا ہے ۔اس میسج نے تو سارا مزہ ہی کر کرا کر دیا۔۔۔ ‘‘
دلاور نے چڑ کر کہا۔

۔۔۔۔۔۔۔

بے شک مجدی کو میری بہت فکر تھی۔ وہ میرا سب سے قریبی دوست تھا۔ مگر اب تو اس کے سر پر ایک ہی جنون سوار تھا۔ کچھ بھی کر کر اس دنیا کی ساری آسائشیں ، رونقیں اور سہولیات حاصل کر لے۔۔۔ اور اسے یہ سب حاصل کرنے کا ایک ہی طریقہ نظر آتا تھا۔ وہ تھا ذیادہ سے ذیادہ پیسہ کمانا۔ اس مقصد کو پانے کے لئے لوگ کسی بھی حد سے گزر جاتے ہیں اور کسی بھی حد تک گِر بھی جاتے ہیں۔مجدی اب اپنے قابو میں نہ تھا۔ اس پر تو شیطان مسلط تھا۔

’’ ساری زندگی چرچ کے چکر کاٹ کاٹ کر مجھے ملا بھی کیا!!! غربت اور بے چارگی۔۔۔ کمزوری اور ذلت۔۔۔ہونہہ۔۔۔‘‘
’’ویسے بھی ہم تو کافر ہیں نا!‘‘ مجدی اپنے کمرے میں موجود شیشے میں خود کو دیکھ کر اپنے آپ سے کچھ کہے جا رہا تھا۔ اب تو اس کا اپنا عکس ہی اس کا راز داں تھا۔ کمرے کا دروازہ لاک تھا ۔ وہ جاب پر جانے کے لئے بالکل تیار تھا۔ اس دن اس نے ایک اسکن ٹائٹ وائٹ کلر کی شرٹ اور سلم بلیک پینٹس پہن رکھیں تھیں۔ ساتھ میں ایک بلیک کلر کا کوٹ بھی تھا۔ وہ کسی بڑی کمپنی کا نو عمر اور پر کشش باس لگ رہا تھا۔ اب تو اس نے جم بھی جانا شروع کر دیا تھا۔ تا کہ وہ بالکل ان ہی خوبصورت اور وجیہ نو جوانوں کی طرح ہو جائے جن سے وہ اپنے کام کے دوران ملا کرتا تھا۔

مجدی آگے کو ہوا اور اپنے الماری کی دراز میں موجود انجیکشن اور سرنج نکالی۔ اس نے سرنج میں انجیکشن بھرا اور بے نیازی سے اپنے بازو کی رگوں میں سرنج کی سوئی کھونپ دی۔
’’آہ!‘‘ بے خودی کا ایک جھونکا اس کے تن بدن میں سرائیت کر گیا۔

وہ اپنی پارٹ ٹائم جاب پر پہنچ چکا تھا۔ اسے ٹریننگ سیشن میں لے جایا گیا۔ اپنا کام بھر پور طریقے سے شروع کرنے سے پہلے اسے کئی ٹریننگ سیشنز سے گزرنا تھا۔ جہاں اسے مختلف لائیو ڈیمونسٹریشنز دی جاتی تھیں۔ باہر کے ممالک سے کئی تجربہ کار لوگ اس سے چیٹ کرتے اور اسے لمبے چوڑے لیکچر دے کر اسے اس کا کام سمجھاتے۔

دو تین گھنٹوں میں ہی اس کا کام ختم ہو گیا۔ آج اسے پچھلے ہفتے کا چیک بھی ملناتھا۔
’’یہ لیجئے آپ کا چیک!‘‘ کمپنی کے باس پرویز نے مجدی کے ہاتھ میں اس کا چیک پکڑایا۔
یہ ساٹھ ہزار روپے کا چیک تھا۔’’ ایک ہفتے میں اتنے پیسے۔۔۔‘‘ چیک پڑھتے ہی مجدی کے چہرے پر ایک شرات بھری مسکرہٹ پھیل گئی۔ جسے پرویز صاحب نے محسوس بھی کیا۔
’’ہاہاہا۔۔۔ مزہ آ رہا ہے؟؟؟‘‘ انہوں نے مجدی کو چھیڑتے ہوئے پوچھا۔ مجدی بھی ان کا یہ جملہ سن کر کھلکھلا کر ہنس دیا۔

اب اسے کسی چیز کی پرواہ نہیں تھی۔ وہ جو چاہتا خرید لیتا۔ مزے کرتا پھرتا۔ گھر والوں کو بھی خوش رکھتااور خود بھی چہکتا رہتا۔ معاشی تنگی ختم ہو گئی تھی۔ وہ ایک آزاد پنچھی کی طرح جہاں چاہتا اڑتا پھرتا۔ جو چاہتا کھاتا۔۔۔ جسے چاہتا چکھتا۔۔۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ دنیا کی ہر شے اس کے قدموں میں گرتی جا رہی تھی۔ صرف ایک ہی چیز تھی جو اس کے ہاتھ سے نکل چکی تھی۔۔۔ اس کا خدا پر ایمان۔۔۔ جسے وہ کبھی خرید نہیں سکتا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔

جس قسم کی اینٹی بیکٹیرئیل اور پین کلنگ ادویات مجھے دی گئیں تھی۔ میں اب تک ان کے زیرِ اثر تھا۔ تب سے اب تک ایک غنودگی مجھ پر طاری تھی۔ صحیح طرح سے آنکھیں بھی نہیں کھل رہیں تھیں اور نہ ہی کچھ ٹھیک طرح سے یاد آ رہا تھا۔ شاید کچھ گھنٹوں قبل کسی نے مجھے کچھ کھانے کو دیا تھا۔ شاید بریڈ دی تھی اور دودھ کا گلاس۔۔۔!!! مگر کس نے دیا تھا۔ مجھے کچھ یاد نہیں آ رہا تھا۔ میں بیڈ ہی پر لیٹا لیٹا آنکھیں موندھیں سب کچھ یاد کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ جوں ہی آنکھیں کچھ کھولنے کی کوشش کرتا یوں لگتا جیسے سورج سر پر کھڑا ہے اور میں پھر آنکھیں بند کر لیتا۔ میں کمرے میں اکیلا ہی تھا۔ کوئی آواز محسوس نہیں ہو رہا تھی۔ نا جانے رات کا وقت تھا یا صبح کا۔۔۔ میرے لئے تو کئی دن سے بس رات ہی رات چل رہی تھی۔

’’ٹنگ ٹانگ!!!‘‘ گھر کی بیل بجی تھی۔ نا جانے کون آیا تھا۔ کچھ دیر میں مجھے کسی کے دروازے کھولنے کی آواز آئی۔ چند ہی منٹ گزرے ہوں گے کہ کسی نے میرے کمرے کا دروازہ کھولا۔

میں اپنا سر دیوار کی سمت کئے بے سدھ پڑا تھا۔ بہت نقاہٹ بہت کمزوری محسوس ہو رہی تھی۔ کمرے میں جو بھی آیا وہ بھی خاموشی سے ایک طرف کو کھڑا ہو گیا۔

یہ مجدی اور دلاور تھے۔ دونوں ہی میری حالتِ زار کا مشاہدہ کرنے آئے تھے۔
’’یار اتنا سب ہو گیا ۔۔۔ مجھے کچھ پتا ہی نہیں۔۔۔‘‘ مجھے دیکھتے ہی دلاور دم بخود رہ گیا۔ میر ے چہرے اور جسم پر ابھی بھی جا بجا ں پٹیاں اور مرہم لگے تھے۔ اسے شرمندگی سی ہونے لگی۔ وہ میرا بچپن کا دوست تو تھا ہی پر ساتھ ساتھ پڑوسی بھی تھا۔
’’تم نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا؟؟؟‘‘ دلاور مجدی پر ناراض ہونے لگا۔ مجدی نے اس کی اس بات کا کوئی جواب نہ دیا بس آنکھیں گھما کر منہ بنا لیا۔

’’ذولقر! ذولقر!‘‘ مجدی اور دلاور دونوں مجھے پکار نے لگے۔ میں اپنا نام سن تو رہا تھا ۔ مگر اتنی ہمت نہ پاتا تھا کہ اٹھ سکوں ۔۔۔ آنکھیں کھول سکوں۔۔۔ ان سے بات کر سکوں۔۔۔میر ے چہرے اور جسم پر ابھی بھی جا بجا پٹیاں اور مرہم لگے تھے۔

’’یہ سب اس نے خود کیا ہے؟؟؟‘‘ دلاور کو مجدی سب کچھ بتا تو چکا تھا۔ مگر جو کچھ وہ اپنے سامنے دیکھ رہا تھا اس پر یقین کرنا آسان نہ تھا۔ تیس بتیس سالوں میں کبھی ایسا کوئی موقع نہیں آیا تھا۔ چھوٹی موٹی بیماری ہو جانا ایک الگ بات ہے مگر از خود اپنے آپ کو اذیت دینا۔۔۔ ایسا نہ کبھی میں نے کیاتھا اور نہ ہی کسی کو توقع تھی۔ خاص طور پر دلاور جیسے سخت دل قسم کے آدمی کو یہ سب باتیں کہاں ہضم ہونے والی تھیں۔ یعنی کوئی عشق میں پاگل ہو گیا ہے!!! یا کوئی کسی پریشانی میں ایسا قدم اٹھا سکتا ہے!!!یہ سارے فلسفے دلاور کے لئے ایک معمہ ہی تھے۔

و ہ دونوں کچھ دیر اور وہیں بیٹھے اور گھر والوں سے میرے اور بزنس کے متعلق باتیں کرنے لگے۔ ابو جان نے ایف آئی آر تو درج کرا دی تھی مگر اتنی آسانی سے چور ڈاکو کہاں پکڑے جاتے ہیں۔ وہ روز تھانے کے چکر کاٹتے اور ساتھ ساتھ اسٹور پر بھی روز جاتے تھے۔ چھوٹابھائی اسد نے بھی اس موقع پر ابو جی کو اپنی عمر سے بڑھ کر سہارا دے رہا تھا۔ کالج سے واپسی پر ایک چکر ضرور آفس لگایا کرتا اور جو کچھ اس سے بن پڑتا کاروبار سنبھالنے کی کوشش کرتا۔

سب ہی میر ے بارے میں بہت فکر مند تھے۔ جو کچھ ہوا تھا اس پر افسوس کر رہے تھے اور شرمندہ تھے۔ مگر جو کچھ ابھی ہونے والا تھا ۔۔۔ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔

رات کے دو بج رہے تھے۔ لائٹ گئی ہوئی تھی۔ سب گھر والے گہری نیند میں ڈوبے ہوئے تھے۔ سوائے میرے۔۔۔

امی جان بھی گہری نیند سو چکیں تھی۔ ا ن کے کمرے کی کھڑکی سے ہلکی ہلکی چاند تاروں کی روشنی چھن چھن کر اندر آر ہی تھی۔لائٹ نہ ہونے کی وجہ سے پنکھا بھی بند تھا۔ امی کچھ کچھ دیر کے بعد کروٹ بدل لیتیں اور تھوڑی دیر کے لئے نیند سے بیدار ہو کر پھر سو جاتیں۔ میں نیم اندھیرے میں ان کے بستر کے ایک طرف کھڑا تھا۔کبھی چھوٹے چھوٹے قدم بھر کر امی کے سرہانے کی طرف بڑھتا اور پھر دوبارہ پیچھے کو ہو کر کھڑا ہو جاتا۔

امی جان کو کسی کے ہونے کا احساس ہونے لگا۔ پھر انہیں کچھ ہلکی ہلکی سی آوازیں آنے لگیں۔ کسی کے سسکنے کی آوازیں۔۔۔ جیسے کوئی اپنی آہ و زاری کچلنے کی کوشش کر رہا ہو۔۔۔ اپنی گھٹن اور درد کو چھپا رہا ہو۔۔۔

امی کو پھر کسی کے حرکت کرنے کا احساس ہوا۔۔۔ انہوں نے آہستہ سے اپنے آنکھیں کھولنے کی کوشش کی۔ میں ایک کالے ہیولے کی صورت میں ان کے دائیں طرف کھڑا تھا۔

’’ہاہ! کون ہے؟؟؟ کیا ہوا؟؟؟‘‘ وہ کچھ ڈر سی گئیں اور چونک کر نیند میں کہا۔ وہ اپنے آپ کو بیدار کرنے لگیں۔ وہ مجھے پہچان گئیں۔ میں اپنے دونوں ہاتھوں کو ایک دوسرے سے یوں مل رہا تھا جیسے کوئی ہاتھ دھوتے ہوئے ملتا ہے۔ جیسے کوئی چھوٹا بچہ روتے ہوئے کرتاہے۔۔۔ امی جان کو اٹھتا ہوا دیکھ کر میری سسکیوں کی آواز کچھ بڑھ گئی۔
’’امی ! امی!‘‘ میں بچوں کی طرح سسک سسک کر امی کو پکار رہا تھا۔
’’ہاں ! کیا ہوا ذولقر! کیا ہوا!‘‘ انہوں نے اندھیرے میں گھور گھور کر مجھے پرکھنا شروع کر دیا۔
’’امی جی! امی جی! مجھے دودھ دے دیں امی!!!‘‘ میرے آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگے۔ میں کسی بھوکے مظلوم بچے کی طرح امی سے التجا کر رہا تھا۔
’’ہیں؟ دودھ؟؟‘‘ امی جان نے حیرانی سے کہا ۔ ان کی پیشانی پر پسینہ نمودار ہوا۔ ’’تم رو کیوں رہے ہو!!!‘‘ امی نے بے اختیار میرے دونوں ہاتھ پکڑ لئے۔
’’امی جی! مجھے دودھ دے دیں امی۔۔۔ !‘‘۔’’امی مجھے دودھ دے دیں۔۔۔!‘‘ میں بے حال سا ہوا، لگاتار سسک سسک کر امی سے فریاد کر رہا تھا۔
’’بیٹا! دیتی ہوں ؟؟؟ مگر تمہیں ہوا کیا ہے ؟؟؟ تم رو کیوں رہے ہو۔۔۔‘‘ امی بھاگی بھاگی کچن میں گئیں فرج کھولا اور دودھ کا ایک گلاس نکال کر میرے طرف واپس پلٹیں۔۔۔’’یہ لو ذولقر!‘‘۔ ’’بیٹا کیا ہوا ہے؟؟؟ رو کیوں رہے ہو؟؟؟‘‘ امی جان بھی مجھے اس کیفیت میں دیکھ کر تڑپ اٹھیں اور منہ پر ہاتھ رکھ کر رونے لگیں۔ کوئی اور بھی جاگ گیا۔ شاید ابو تھے۔
’’یہ دیکھیں اس کو۔۔۔‘‘ ۔‘‘یہ رو رہا ہے!!!‘‘ گھر میں لائٹ تو تھی نہیں۔ کوئی نہ پہچان سکا کہ کون جاگا ہے ابو ہیں یا اسد۔۔۔
میں نے دودھ کا گلاس ہاتھ میں پکڑا اور چھوٹے چھوٹے قدم چلتا اپنے کمرے میں گھس گیا اور دروازے بند کر دیا۔

ابو جان اٹھ چکے تھے۔ انہوں نے میرے کمرے کا دروازہ کھولنے کی کوشش کی ۔ مگر وہ بند تھا۔
’’کیا ہوا ہے؟؟؟‘‘ انہوں نے امی کو مخاطب کیا ۔ ان کی آنکھوں سے آنسو بہہ بہہ کر نیچے گر رہے تھے۔ وہ دونوں ہی میرے کمرے کے بند دروازے کے سامنے اندھیرے میں کھڑے تھے۔
’’رو رہا تھا۔۔۔ دودھ مانگ رہا تھا۔‘‘ امی نے اپنے سینے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
’’رو رہا تھا۔۔۔ دودھ مانگ رہا تھا؟؟؟‘‘ ابو کے دل میں بھی ایک وہم سا گزرا کہ جانے کیا ہوا ہے۔
’’کیوں؟؟؟ کیوں رو رہا تھا؟؟؟‘‘ ان کے دل کی دھڑکن بھی تیز ہو گئی۔
’’پتا نہیں۔۔۔دودھ لے کر کمرے میں چلا گیا۔۔۔‘‘ امی نے کہا۔ ان کی آنکھوں میں ابھی بھی آنسو تھی۔
ابو جان نے پھر دروازے کھولنے کی کوشش کی ۔ مگر بے سود۔۔۔
وہ میرے کمرے کی کھڑکی طرف آئے اور مجھے پکارنے لگے۔ ’’ذولقر! بیٹا ٹھیک ہو؟؟؟ کچھ چائیے ؟؟ کچھ چائیے آپ کو؟؟؟‘‘ میں نے کوئی جواب نہ دیا۔ میں تو یوں بیڈ پر چت پڑا تھا جیسے مجھ میں جان ہی نہ ہو۔۔۔
’’بیٹا! کیا ہوا! دروازہ کھولو۔ کچھ چائیے آپ کو؟؟؟‘‘ مجھے تو شاید یہ بھی نہیں پتا تھا کہ کوئی مجھے پکار رہا ہے۔ وہ کچھ دیر اور مجھ سے بات کرنے کی کوشش کرتے رہے۔پھر یہ تصور کر کے دوبارہ سونے چلے گئے کہ میں بھی سو چکا ہوں۔

نیند کس کافر کو آنی تھی۔ امی جان فجر کی نماز کے لئے اٹھیں۔لائٹ آ چکی تھی۔ انہوں نے کمرے کی لائٹ جلائی تو بستر کے پاس نیچے کسی چیز کے نشانات موجود تھے۔
’’ہاہ!‘‘ انہوں نے ایک گہرا سانس لیا۔ وہ لال رنگ کے قطرے دیکھ کر امی غش کھا کر گر گئیں۔ نیچے زمین پر اسی جگہ بہت سے خون کے قطرے گرے ہوئے تھے جہاں میں رات بھر کھڑا رہا تھا۔
’’ذولقر! ذولقر!‘‘ امی جان نے زور زور سے چیخنا شروع کر دیا اور میر ے کمر ے کی طرف بھاگیں۔ ’’اف!‘‘ سارا گھر دم بخود رہ گیا کہ جانے کیا قیامت آگئی ہے۔
’’کیا ہوا!!!!‘‘ ابو جی بھی زور سے چیخے اور بھاگتے ہوئے میرے کمرے کی طرف آئے۔ اسد اور چھوٹی بہنیں بھی زور زور سے قدم بھر تے وہیں پہنچے۔
ایک طوفان آ گیا۔
’’کیا ہوا کیاہوا!‘‘ سب چیخنے لگے۔ امی میرے کمرے کا دروزہ زور زور سے بجا رہیں تھیں۔
’’ذولقر! ذولقر!‘‘ ۔
’’دروازہ کھولو! دروازہ کھولو ذولقر نین!!!‘‘ وہ زور زور سے دروازہ پیٹ رہیں تھیں۔ ان کی چوڑیاں ٹوٹیں اور زمین پر بکھر گئیں۔
’’کیا ہوا ہے امی ؟؟؟ کیا ہوا ہے؟؟؟‘‘ اسد نے چیخ کر پوچھا۔
’’ذولقر نے اپنے آپ کو مار دیا ہے!!! اس نے اپنے آپ کو زخمی کر دیا ہے۔‘‘ امی بھاگتی ہوئیں اپنے کمرے میں گئیں اور سب کو نیچے پڑے خون کے نشان دکھانے لگیں۔
’’اف!‘‘ کسی نے اپنا ماتھا پیٹا۔۔۔ کسی نے سینہ کوبی کی۔۔۔ کوئی زمین پر گر گیا۔
’’ اسد بھاگتا ہوا میرے کمرے تک آیا اور زور سے کمرے کے درواز پر ایک لات ماری۔۔۔ اور پھردوسری لات ۔۔۔ لاک ٹوٹ گیا ۔ چوکھٹ اکھڑ گئی۔
اسد نے فوراََ آگے بڑھ کر مجھ پر پڑا کمبل اٹھایا ۔ میں نیم بے ہوشی کی حالت میں دنیا و مافیا سے بے پرواہ بیڈ پر پڑا ہوا تھا۔ میری کلائی کے طرف بستر کی سفید چادر لال ہو چکی تھی۔
اسد نے میری کلائی اٹھائی۔۔۔ میں نے کسی تیز دھار چیز سے اپنی کلائی کاٹ دی تھی۔۔۔

اسد نے فوراََ باقی گھر والوں کے ساتھ مل کر مجھے اٹھایا اور بڑی مشکلوں سے گاڑی میں ڈال کر ہسپتال لے گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔

Kishwer Baqar
About the Author: Kishwer Baqar Read More Articles by Kishwer Baqar: 70 Articles with 85366 views I am a Control Systems Engineer, working in Saudi Arabia.

Apart from work, I am interested in religion, society, history and politics.

I am an
.. View More