تحریر : فضہ عادل،ہری پور
الارم بجنے پر اس نے ادھ کھلی آنکھوں سے سائیڈ ٹیبل پر سے موبائل اٹھایا
اور ٹائم دیکھتے ہی بجلی کی سی تیزی سے فورا اٹھ بیٹھی ۔۔۔۔ اوہ میرے خدا
۔۔ کمبخت موبائل بھی اتنی دیر سے بولا۔۔ پانچ بجے کا الارم لگایا تھا۔۔
ساڈھے پانچ ہو گئے ۔۔
قریب ہی اماں بیڑ سے نیچے اترتے چپل پیروں میں ڈال رہی تھی ۔۔ حیرت سے اسے
دیکھتے ہوئے بولیں۔۔ ہممم۔۔۔ ارے تیری آنکھ اب دیر سے کھلی ہے تو اس میں اس
مشین کا کیا قصور۔۔ صبح سے ہزار بار تو بول چکا ہے گھوڑے تو نے بیچ رکھے
تھے کوس تو اسے رہی ہے۔۔ اب یہ میری طرح تجھے مار مار کے تو جگانے سے رہا۔۔
اماں میرا دماغ نہ خراب کرو صبح صبح۔۔ تم تو اس وقت چپ ہی رہو بس۔۔ وہ
لجاجت سے ماں کو کہتے اٹھی اور کتابیں کھول کر بیٹھ گئی۔
اب اگر غلطی سے جلدی اٹھ گئی ہو تو نماز ہی پڑھ لو۔۔ فجر کا ٹائم نکلا
جارہاہے۔
اوووووف۔۔۔ اماں تمھیں پتہ بھی ہے میرا امتحان ہے آج اسلئے جلدی اٹھ گئی
تھی۔۔ ایک تو تم بھی نا۔۔۔
اری اٹھ جا۔۔ اٹھ جا زیادہ زبان نہ چلا۔۔۔
اماں فی الحال مجھے تنگ نہ کرو۔۔ ساری زندگی پڑی ہے پڑھ لونگی نماز بھی۔۔۔
اماں اب آہستہ آہستہ چلتی ہوئی کچن میں پہنچ چکی تھی۔۔ اری زندگی کا کیا
بھروسہ ابھی ہے اگلے پل نہیں۔۔ اور زندگی بھی تو اک امتحان ہی ہے ناں۔۔اٹھ
میری دھی۔۔ پڑھ لے نماز پھر آرام سے بیٹھ کے امتحان کی تیاری کریو۔۔ اٹھ جا
شاباش۔۔
امی نے اب پیار سے سمجھانے کی کوشش کی تھی۔۔ جس پر اب وہ غصے سے بولی تھی۔۔
کیا ہو گیا ہے اماں ۔۔ ہٹی کٹی تو ہوں ۔۔۔ اﷲ نہ کرے مجھے کچھ ہو۔۔ اور پھر
سے کتاب کے صفحے پلٹنے لگی۔۔
اری اووو۔۔۔سن لے کمینی۔۔ کبھی تو سن لے میری بات۔۔ یا قسم کھا رکھی ہے
ساری عمر ماں کو سکھ نہیں دینا۔۔۔
اف خدایا ۔۔۔ عاشی اب دونوں ہاتھوں سے سر پکڑے بیٹھی تھی۔۔ تم تھوڑی دیر
خاموش نہیں بیٹھ سکتی اماں۔۔ یا آج قسم کھا رکھی ہے۔۔ میرا دماغ خراب کر کے
چھوڑنا ہے۔۔ اٹھ ہی جاں یہاں سے ورنہ تم نے تو خاموش ہو نا نہپں۔۔۔
عاشی ماں کی بات کو مکمل نظرانداز کرتی سٹور میں چلی گئی۔۔ اور تھوڑی دیر
بعد انتہائی ذوردار چیخ کی آواز آئی۔۔ اماں جب تک بھاگ کے سٹور میں پہنچی
عاشی زمین پہ اوندھی پڑی سسک رہی تھی اور قریب ہی ایک سانپ تیزی سے وہاں سے
بھاگا تھا۔۔ اماں نے عائشہ کا سر گود میں رکھا۔۔ ارے اٹھ میری بچی آنکھیں
کھول۔۔ عاشی۔۔ عاشی۔۔۔ ارے کوئی ہے عاشی کو سانپ نے ڈس لیا۔۔ ارے کوئی میری
بچی کو بچا لو۔۔ وہ چیختی چلاتے اٹھ کے مدد کے لئے باہر بھاگی تھیں۔۔
جبکہ آشی کی آنکھوں میں اندھیرا چھانے لگا۔۔ اب اسے یاد آیا۔۔ اماں ٹھیک کہ
رہی تھی۔۔ زندگی بھی تو امتحان ہے۔۔ انسان کا سب سے بڑا امتحان۔۔ جسکے لئے
تو وہ کبھی تیار ہی نا تھی اور امتحان کا وقت پورا ہو گیا۔۔۔ |