محاوروں کا استعمال بڑی ہنر مندی کی بات ہے، اگرچہ
بے شمار محاورات متروک ہو رہے ہیں، مگر چند ایک ایسے ہیں جنہیں ضرورت سے
زیادہ ہی استعمال کیا جاتا ہے۔ سیاستدان چونکہ وطنِ عزیز کی سب سے مقبول
مخلوق ہیں، میڈیا پر انہی کا راج رہتا ہے، وہ جو بات کرتے ہیں وہ میڈیا کی
زینت بن جاتی ہے، اب تو سوشل میڈیا کا جادو بھی سر چڑھ کر بول رہا ہے، بڑے
لوگ ایک جملہ ’ٹویٹ‘ کرتے ہیں، میڈیا اسے اٹھا کر عوام الناس کے سامنے پیش
کردیتا ہے، اُن کی ایک ادا، ایک جملہ ، حتیٰ کہ ایک لفظ بھی اٹھا لیا جاتا
ہے۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ بہت سے وزراء یا اپوزیشن رہنما بہت غوروفکر کرنے
لگے ہیں، بہت سے نئے نئے تخیلات ان کے بیانات کی شکل میں قوم کے سامنے آتے
رہتے ہیں، کبھی وہ محاوروں کی زبان میں بات کرتے ہیں تو کبھی عمران خان کی
وجہ سے کرکٹ کی اصطلاحات کی صورت میں۔ کبھی وہ فلمی ڈائیلاگ بولنے لگتے ہیں،
کبھی مولا جٹ بن جاتے ہیں اور کبھی رومانوی انداز اپنا لیتے ہیں۔ انہیں
اتنے جتن اپنی مقبولیت کو قائم رکھنے کے لئے کرنے پڑتے ہیں، بات محاوروں سے
آگے بڑھ کر ڈائیلاگ بازی تک پہنچ چکی ہے۔
پیٹ پھاڑ کر مال نکالنے کے محاورے پر بہت زیادہ زور دیا جاتا ہے، گزشتہ دور
میں جب آصف علی زرداری مملکتِ خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر تھے،
تب وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف (اس وقت وہ خادمِ اعلیٰ نہیں بنے تھے)
اپنی تقریبات میں جذباتی خطاب کیا کرتے تھے، بسا اوقات وہ مائیک وغیرہ بھی
گرادیتے، یا شاید یہ مائیک جذبات کی تاب نہ لاتے ہوئے گر جاتے تھے۔ وہ اپنی
تقریر میں اپنے کارناموں کے ساتھ اُس وقت کے پاکستان کے آئینی سربراہ کے
بارے میں یہی پیٹ پھاڑنے والی بات کیا کرتے تھے، ان کا دعویٰ تھا کہ وہ
اقتدار (ان کی نگاہ میں اقتدار وہی تھا جو وفاقی حکومت پر بھی حاصل ہو)میں
آتے ہی فلاں کو اسلام آباد کی سڑکوں پر گھسیٹیں گے، اور ان کا پیٹ پھاڑ کر
باہر بھیجا جانے والا پیسہ واپس لائیں گے۔ ان جذبات کا اظہار ایک دو مرتبہ
نہیں، بیسیوں مرتبہ کیا گیا۔ اﷲ کا کرنا ایسا ہوا کہ موصوف کے برادرِ بزرگ
پاکستان کے وزیر اعظم بن گئے۔ انہوں نے بہت نشیب وفراز کے دیکھنے کے باوجو
د اپنے دور کے چوتھے سال کی تکمیل کر لی، ظاہر تو ایسا ہی ہوتا ہے کہ
پانچواں بھی پورا ہو جائے گا۔ مگر ان چار سالوں میں میاں شہباز شریف کو
شاید اتنی فرصت نہیں ملی کہ وہ اپنے کئے ہوئے اعلانات پر عمل کرتے۔ سنا تو
یہ ہے کہ ان کے دن رات چوبیس کی بجائے چھبیس گھنٹوں پر محیط ہیں، اور وہ
رات دن خدمت میں ہی گزار دیتے ہیں، جبھی تو ’خادمِ اعلیٰ‘ کے منصب تک پہنچے
ہیں۔ مگر پھر بھی ان کے پاس وقت نہیں نکلا کہ وہ زرداری صاحب کا پیٹ پھاڑتے
اور پاکستان کی لوٹی ہوئی دولت نکالتے۔ یا اسلام آباد کی سڑکوں پر انہیں
گھسیٹتے ۔ (شاید یہ کام وہ اس لئے کرنے کے خواہشمند تھے کہ دوسروں کے لئے
عبرت ہو)۔ اگر یہ کام چار برس میں نہیں ہوا تو ایک سال میں اس کے ہونے کے
امکانات دکھائی نہیں دیتے، کیونکہ اس کی کوئی منصوبہ بندی بھی نظر نہیں آتی۔
یہی وجہ ہے کہ دونوں جماعتوں کے معاملات کو ’’نورا کشتی‘‘ قرار دیا جاتا ہے۔
میاں شہباز شریف نے آصف زرداری کا پیٹ نہیں پھاڑا، نہ اسے اسلام آباد کی
سڑکوں پر گھسیٹا، مگر اب سابق صدر نے بھی اسی کام کے کرنے کا اعلان کردیا
ہے، اب وہ بھی پیٹ پھاڑ کر پیسہ نکالنا چاہتے ہیں، مگر یہاں یہ بات دلچسپی
سے خالی نہیں کہ انہوں نے میاں شہباز شریف کا پیٹ پھاڑ کر پیسے نکالنے کا
اعلان کیا ہے، انہوں نے کہا ہے کہ ’’․․․تمام وسائل پر شریف خاندان کا قبضہ
ہے، حکمران مرغی اور انڈوں سے لے کر بجلی بنانے کا کاروبار کر رہے ہیں۔
شہباز شریف پختونوں کا حصہ کھا رہے ہیں، پیسہ ان کے پیٹ سے نکالوں گا، یہ
پاکستان کسی کے باپ کا ملک نہیں ہے․․․‘‘۔ نہ جانے زرداری صاحب یہ کام کب
کریں گے، شاید کبھی نہیں، کیونکہ دونوں پارٹیوں نے یہ طے کیا ہوا ہے کہ
الیکشن مہم میں ایسے نعرے ہی لگائیں گے، تاکہ اپنے اپنے حصے کے ووٹ بٹورے
جاسکیں۔ ہاں البتہ دونوں پارٹیاں اپنی اپنی باری کے موقع پر عوام کے پیٹ
ضرور پھاڑتے ہیں اور اپنی مراعات اور عیاشیوں کے لئے اُن کے خون کے آخری
قطرے بھی نچوڑ لیتے ہیں۔ عوام اُن کے پیٹ کب پھاڑیں گے، اس کا فیصلہ ہونے
میں ابھی کچھ دیر ہے۔ |