آ بیل مجھے مار

کہاوت ہے آ بیل مجھے مار۔ کبھی کبھی انسان خواہ مخواہ ہی جھگڑے میں پڑ جاتا ہے۔ بغیر ارادے کے پریشانی میں الجھ جاتاہے۔ کسی کا بھلا کرتے کرتے خود کو مصیبت میں مبتلا کر لیتا ہے۔ کچھ ایسا ہی موجودہ صورت حال میں ہو رہا ہے۔ خان صاحب دوسروں کے لئے جال بنتے بنتے اپنے پاؤں بھی اسی میں پھنسا بیٹھے ہیں۔

ہم عمران خان کی نیت پر تو شک نہیں کرتے یقینا انہوں نےاچھی نیت سے چیف جسٹس کو خط ، بنی گالا میں ناجائز تجاوزات کو ہٹانے اور ماحول کی بہتری کے لئے ، ہی لکھا ہو گا مگر ان کو کیا پتا تھا کہ یہ الٹا اپنے گلے میں ہی پڑھ جائے گا۔

اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ اگر کوئی غیر آئینی کام ہوا بھی ہے تو غیر ارادی طور پر ہوا ہے کیونکہ اگر ان کے علم میں ہوتا تو شائد وہ اس طرح کا خط ایسے وقت میں نہ لکھتے بلکہ کسی سازگار ماحول میں بنی گالہ کی بہتری کا سوچا جا سکتا تھا۔

اب اس غیر قانونی عمل میں وہ اکیلے بھی نہیں بلکہ ان کے دامن میں براجمان ۱۲۱ ایسی عمارتیں ہیں جو اس رپورٹ کی ذد میں آتی ہیں۔ ان میں کچھ تو ایسے ہوں گے جو ان کے پہلو میں بسنا باعث افتخار سمجھتے ہوں لیکن کچھ ایسے بھی ہونگے جو خان صاحب کو نہیں بھاتے ہونگے، تبھی تو انہوں نے ایسا قدم اٹھایا تھا۔ لیکن اب تو وہ بھی گنگناتے ہوں گے
ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے

لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ ہمارا قانون اور ادارے بھی مست سانپ کی طرح ہیں تب جاگتے ہیں جب ان کی دم پر کسی کا پاؤں آتا ہے تو چڑھ دوژ تے ہیں۔

یا کبھی کبھی بوڑھے شیر کی طرح گھات لگائے بیٹھے شکار کے رینج میں آٓنے کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں اور یوں ہی کوئی شکار پاس آیا اس کو شکار کر لیا اور کجھ دھکا سٹارٹ ہوتے ہیں ان کی بیٹری کمزور ہوتی ہے جب ایک دفعہ کوئی سٹارٹ کر دے تو پھر کار کردگی میں کمال ہوتے ہیں۔

کچھ جان بوجھ کر بیل کی طرح مست ہوئے ہوتے ہیں اگر کسی نے چھیڑا تو پھر اس کی خیر نہیں بھلے وہ کتنا ہی خیر خواہ کیوں نہ ہو۔

اب دیکھیں کتنی عمارتیں بن گئیں مگر قانون اور ادارے خاموش رہے، نہ جانے لحاظ کرتے رہے ، یہ سب کچھ غیر ضروری سمجھتے رہے یا خان صاحب کی جلالی طبیعت سے خوفزدہ تھے، خیر جو بھی تھا، نقصان تو حسب معمول ان لوگوں کا ہوا جنہوں نے ان زیر تعمیر پلازوں میں اپارٹمنٹس بک کروائے ہوئے تھے۔ ان کے حقوق کی پاسداری تو بہر حال ہونی چاہیے۔

اب اگر کام شروع ہو ہی گیا ہے تو پھر موجودہ یا ماضی میں اٹھنے والے تمام سوالوں کے جوابات اور تحفظات کو دور ہو جانا چاہیے۔ روزروز عدالتوں اور اداروں کا وقت ضائع نہیں ہونا چاہیے۔

اب بہت ہی صاف اور وا ضح CDA نے رپورٹ میں خان سب کے اپنے گھر کے ساتھ ساتھ ۱۲۱ عمارتوں کو غیر قانونی قرار دے دیا ہے۔

اب معاملات چونکہ عدالت میں ہیں لہذا جن لوگوں کو ان شخصیات یا املاک کے متعلق تحفظات ہیں ان کو چاہئے کہ پارٹی بن کر اپنے تحفظات دور کر لیں
یہ معاملہ اپنی جگہ ایک تیسرا پانامہ بھی جاگ اٹھا ہے۔
It's Legal Maxim
"He who comes into equity must come with clean hands."
اب خدا جانے حقیقت کیا ہے۔ بہرحال پانامہ میں خان صاحب پر بھی الزام تو آ ہی گیا ہے۔
اب دیکھئے اخلاقیات اور قوانین دونوں شانہ بشانہ چلتے ہیں یا مقابلےمیں اترتے ہیں۔
اب ان رپورٹس پر سیاسی ہونے کا الزام بھی آ سکتا ہے۔مگر اب چونکہ معاملہ عدالت میں آچکا ہے لہذا ان الزامات کی بھی دادرسی کا اچھا موقعہ ہے۔
اب منی ٹریلز نہ بھی ملیں تو مک مکا کی ٹریل آگے بڑھنے کے آثار ضرور نظر آ رہے ہیں۔

ایک بات تو پکی ہے کہ عمران خاں مولوی نہیں ہیں۔ کم ازکم ہل تو لمبی نہیں ڈالیں گے۔ یہ اوربات ہے کہ اس سارے معاملے کو غیر سنجیدہ لیتے ہوئے دھرنوں اور نوجوانوں کے ہلے ہلے کے سپرد کر دیں جو ان کی آزاد خیالی کا ایک پہلو ہے۔

اسی طرح وہ عدالت عظمیٰ تو گئے تھے تلاشی کی خاطر مگر خود کو بھی دینی پڑھ گئی۔
دستاویزات اور شواہد سامنے آِئیں گے تو کچھ سمجھ آئے گی
مگر بخاری صاحب کے الفاظ بڑے جاندار ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا تھا
وکیل بھی کبھی ہارا ہے ہارتی تو ہمیشہ پارٹی ہے۔
بس اتنا ہی کہوں گا۔
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی

ویسے ان کے لئے موقعہ اچھا ہے کہ اپنی زات کے حوالے سے اچھا نمونہ پیش کریں اور وہ تمام مطالبات جو وہ کیا کرتے تھے ان پر عمل کرتے ہوئے ایک اعلیٰ نمونے کی مثال پیش کریں۔

عقلمند انسان وہ ہی ہوتا ہے جوآزمائش سے گھبرائے نہیں بلکہ دانشمندی سے حالات کو ایسے لے کہ وہ اس کی کامیابی کا زینہ بن جائیں۔
 

Dr Ch Abrar Majid
About the Author: Dr Ch Abrar Majid Read More Articles by Dr Ch Abrar Majid: 92 Articles with 124352 views By profession I am Lawyer and serving social development sector for last one decade. currently serving Sheikh Trust for Human Development as Executive.. View More