تحریر ۔۔۔ شیخ توصیف حسین
گزشتہ روز مجھے میرا ایک دوست لیکچر دیتے ہوئے کہنے لگا کہ ملک وقوم کو
مزید تباہ و بر باد ہونے سے بچا نے کیلئے تعلیم کے نظام کا فروغ ہو نا از
حد ضروری ہے لہذا ہمارے ملک کے والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو تعلیم
جیسے زیور سے آ راستہ کر نے کی ہر ممکن کوشش کر نی چاہیے خواہ انھیں اس نیک
اور معیاری مقصد کیلئے اپنے پیٹ پر پتھر ہی کیوں نہ باندھنے پڑے آج جو ملک
بھر میں لا قانو نیت کا ننگا رقص جاری ہے وہ صرف اور صرف ملک بھر میں بڑھتی
ہوئی جہالت کا نتیجہ ہے یہ سوچ صرف میری نہیں بلکہ ہر پڑھے لکھے طبقے کی
سوچ ہے یہاں تک کہ ہمارے ملک کے حا کمین کی بھی یہی سو چ ہے میں اپنے دوست
کے اس سیاسی بیان کو سننے کے بعد اُس سے پو چھنے لگا کہ آپ مجھے یہ سچ سچ
بتائے کہ ہمارے ملک کے ڈاکٹرز پڑھے لکھے ہیں یا پھر جاہل اور اگر وہ پڑھے
لکھے ہیں تو پھر وہ ڈریکولا کا روپ دھار کر غریب مریض جو زندگی اور موت کی
کشمکش میں مبتلا ہوتے ہیں کا خون کیوں چوس رہے ہیں آپ مجھے کسی ایک ڈاکٹر
کا نام اور پتہ بتا سکتے ہیں جو خداوندکریم کی خو شنودگی کی خا طر مفت
انسانیت کی خد مت کر رہا ہو در حقیقت تو یہ ہے کہ ان کے منہ مو مناں اور کر
توت کافراں جیسے ہیں یہ اپنے پرائیویٹ کلینکوں پر غریب مریضوں کو ایسے
دیکھتے ہیں جیسے ہندو بر ہمن قوم اچھوتوں کو اگر آپ حقیقت کے آ ئینے میں
دیکھے تو یہ وہ ناسور ہیں کہ جو ادویات بھی ان کمپنیوں کی لکھتے ہیں جن سے
انھیں کمیشن ملتی ہے اچھا یہ بتاؤ کہ ہمارے ملک کا محکمہ پولیس پڑھا لکھا
ہے یا پھر جاہل اور اگر مذکورہ محکمہ پڑھا لکھا ہے تو پھر ملک بھر میں لوٹ
مار جلاؤ گھیراؤ چوری ڈکیتی راہزنی اغوا برائے تاوان کی وارداتوں کے علاوہ
جو ئے فحاشی اور منشیات فروشی کے اڈے کیوں قائم ہیں جس کی زد میں آ کر
نجانے کتنے گھروں کے چراغ گل ہو چکے ہیں بھا ئی صاحب اگر آپ حقیقت کے آ
ئینے میں دیکھے تو اس تباہی کے ذمہ دار وہ ڈی پی او صاحبان ہیں جو اپنے
ذاتی مفاد کیلئے اپنے اپنے اضلاع کے مشہور و معروف تھانوں میں لوٹ مار ظلم
و ستم اور ناانصا فیوں کی تاریخ رقم کر نے والے سب انسپکٹرز کو انچا رج
جبکہ اعلی کارکردگی کے حامل اور تجر بہ کار انسپکٹروں کو اُن کے ماتحت
تعنیات کر دیتے ہیں جس کے نتیجہ میں متعدد انسپکٹرز ذہنی مریض بن کر اپنے
فرائض و منصبی ادا کر نے میں مصروف عمل ہیں تو آج میں یہاں بڑی معذرت کے
ساتھ اُن ڈی پی او صاحبان سے ایک سوال کرتا ہوں کہ اگر آ پ کو اپنے ہی ضلع
کے ڈی ایس پی صاحبان کے ماتحت تعنیات کر دیا جا ئے تو کیا تم اپنے فرائض و
منصبی احسن طر یقے سے ادا کر سکو گے اور کیا انصا ف ہو گا اور اگر یہ انصا
ف نہیں تو پھر تم کیوں اعلی کا ر کر دگی کے حا مل اور تجر بہ کار انسپکٹروں
کو تھا نوں میں کرپٹ ترین سب انسپکٹروں کے ما تحت تعنیات کرتے ہو در حقیقت
تو یہ ہے کہ جو ڈی پی او صا حبان اپنے ماتحت عملہ کے حقوق کا تحفظ نہیں کر
سکتے وہ بھلا عوام کی جان و مال کا تحفظ کیسے کر سکتے ہیں اچھا چھوڑو ان
باتوں کو میرے دوست یہ بتاؤ کہ ہمارے ملک کے علمائے دین خواہ وہ کسی بھی
مکاتب و فکر سے تعلق رکھتے ہیں پڑھے لکھے ہیں یا پھر جا ہل اور اگر یہ پڑھے
لکھے ہیں تو پھر یہ حکم خداوندی کو ٹھکرا کر ملک بھر میں مذہبی فسا دات
کروانے میں مصروف عمل کیوں ہیں جس کی زد میں آ کر نجانے کتنے گھروں کے چراغ
گل جبکہ نجانے کتنے بند سلا سل ہو کر رہ گئے ہیں سچائی تو یہ ہے کہ ان تمام
مکاتب و فکر سے تعلق رکھنے والے علمائے دین میں سے کسی ایک عالم دین کا نام
اور پتہ نہیں بتا سکتے جو محمد و آ ل محمد کی پیروی کرتے ہو ئے پھٹے پرا نے
کپڑوں کے علاوہ ٹوٹی ہوئی جو تیاں زیب تن کیئے ہوئے ہوں یا پھر بھوک اور
پیاس سے نڈھال ہو کر پیٹ پر پتھر باندھ کر بارگاہ الہی میں سجدہ زن ہو کر
شکر ادا کر رہا ہو یا پھر سخت دھو پ میں پیدل سفر کر کے اپنے آ قا و مو لا
کی تبلیغ کر رہا ہو یا پھر اپنے آ قا و مو لا کی تبلیغ کرتا ہوا شہید ہوا
ہو یا پھر اپنے آ قا و مو لا کی تبلیغ کے دوران اپنے چھ ماہ کے نواسے کو
قربان کر دیا ہو یا پھر اس کے اہلخا نہ نے اسلام کی سر بلندی کی خا طر قیدی
بن کر اپنے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں پہنی ہو ں یا پھر اس کے اہلخا نہ نے کئی
دنوں تک بھوک اور پیاس سے نڈھال ہو کر بھی آ واز حق بلند کرتی رہی ہو یا
پھر دین حق کیلئے اپنے پورے کے پورے خا ندان کو قر بان کر دیا ہو ایسا ہر
گزہر گز کو ئی نہیں در حقیقت تو یہ ہے کہ آج جو ملک بھر میں مساجدیں قائم
ہو رہی ہیں کچھ دیو بندی کچھ اہلحدیث کچھ اہلسنت کچھ قادیانی کچھ بریلوی
اور کچھ اہل تشیع کی ہیں خداوند کریم کی ایک مسجد نہیں کہ جہاں پر کلمہ گو
بھائی آ پس میں ملکر نماز پڑھ سکے یہ جو بھائی چارے کی فضا کو تبدیل کر کے
نفرت کی فضا کو قائم کیا گیا ہے یہ انھیں علمائے دین کے ذاتی مفاد کا نتیجہ
ہے یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ اس مہنگائی اور بے روز گاری کے دور میں ایک
مزدور شخص بارہ گھنٹے تک موت کی آ نکھوں میں آ نکھیں ڈال کر مزدوری کی مد
میں جو کچھ حاصل کرتا ہے اُس سے اس کی دو وقت کی روٹی پوری نہیں ہو تی جبکہ
دوسری جا نب یہ عالم دین ہیں جو کرتے بھی کچھ نہیں لیکن پھر بھی بڑے
پروٹوکول کے ساتھ وی آئی پی زندگی گزار رہے ہیں تعجب ہے کہ اس نفسا نفسی کے
شکار معاشرے میں یہ ایسا کیسے کرتے ہیں تو اس بات سے واضح ہو گیا کہ انھیں
وی آئی پی سہو لیات غیر ملکی آ قافراہم کرتے ہیں وہ بھی اپنے گھناؤ نے مفاد
کیلئے یہاں مجھے ایک واقعہ یاد آ گیا کہ دو پاکستانی اشخاص ایک عربی شخص کے
ساتھ سفر کر رہے تھے کہ اسی دوران ایک پا کستانی شخص کا عربی شخص کے ساتھ
کسی بات پر جھگڑا ہو گیا جس کے نتیجہ میں پا کستانی شخص نے اپنی زبان میں
عربی شخص کو غلیظ گا لیاں دینا شروع کر دی جس کو سن کر عربی شخص نے بھی
اپنی زبان میں حد سے زیادہ غلیظ گالیاں پاکستانی شخص کو دینا شروع کر دی یہ
سلسلہ اسی طرح جاری تھا کہ اسی دوران دوسرے پا کستانی شخص نے اپنے پاکستانی
دوست سے کہا کہ تمھیں شرم آ نی چا ہیے کہ تم عربی شخص کو غلیظ گا لیاں دے
رہے ہو جبکہ وہ تمھیں قرآن پاک پڑھ کر سنا رہا ہے بالکل یہی کیفیت ہمارے
باقی ما ندہ پاکستانی بھائیوں کی ہے کہ عالم دین انھیں کچھ بھی کہے خواہ
انھیں عربی زبان میں گا لیاں ہی کیوں نہ دیں یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ہمیں قرآن
پاک پڑھ کر سنا رہے ہیں قصہ مختصر کے ہمارے ملک کے تمام اداروں میں خواہ وہ
صو بائی ہیں یا پھر وفاقی میں تعلیم یا فتہ افراد مو جود ہیں لیکن افسوس کہ
یہ تعلیم یا فتہ افراد نفسا نفسی کا شکار ہو کر ملک و قوم کو دیمک کی طرح
چاٹ کر ہڑپ کر رہے ہیں جن سے عدل و انصاف کی توقع رکھنا بھی بس ایک دیوانے
کا خواب ہے آ خر میں بس یہی کہوں گا کہ یہ جو آ پ نے جہالت کی رٹ لگا کر اس
کی ذمہ داری غریب والدین پر سونپ دی ہے اس کے ذمہ دار غریب والدین نہیں
بلکہ یہ تعلیم یافتہ طبقہ ہے جو نوٹوں کی چمک سے مر عوب ہو کر نا اہل بچوں
کو تو نو کریاں دے دیتے ہیں لیکن غریب والدین کے بچوں کو میرٹ پر نہیں آج
اگر آپ حقیقت کے آ ئینے میں دیکھے تو لا تعداد غریب والدین کے بچے ہاتھوں
میں ڈگریاں لیے در بدر کی ٹھو کریں کھا رہے ہیں رہا سلسلہ تعلیم حاصل کر نے
کا تو صرف تعلیم حاصل کر نے سے ملک و قوم ترقی حاصل نہیں کر سکتی کہ جب تک
تعلیم کے ساتھ ساتھ جذبہ ایمانی اور جذبہ حب الو طنی نہ ہو
بک گیا دوپہر تک بازار کا ہر ایک جھوٹ
اور میں شام تک یو نہی ایک سچ کو لیے کھڑا رہا |