رابعہ حسن
’’نئے اجالے ہیں خواب میرے‘‘ کا مطالعہ ایک قاری اور عہدِ حاضر کے نوجوان
کی حیثیت سے کیا۔ اور مطالعے کے بعد کتاب بند کرتے ہوئے اس کا عنوان
بالکلبجامعلوم ہوتا ہے کیونکہ شاعر کا ہر خواب تاروں کی کرنوں سے بنا
دکھائی دیتا ہے۔ شاعر کا ہر خواب مجھے اپنا خواب ہی لگا۔ یہ کلام بلاشبہ
اکیسویں صدی کی صدا ہے جس میں طرزِ کہن سے بغاوت بھی دکھتی ہے ، غلامانہ
سوچ سے بے زاری بھی جھلکتی ہے اور اناالحق کی صدا بھی ابھرتی ہے۔ سنجیدہ
شاعری کے ساتھ ساتھ نمکین شاعری بھی منفرد مزاج کی حامل ہے جو طعن و تشنیع
کے بجائے تلخ حقیقتوں کا عقدہ کھول رہی ہے۔
خطیبِ شہر کی بابت نہ کچھ کہو رندو
بہت ہی سادہ طبیعت حضور رکھتے ہیں
زباں سے ان کی یہ مثردہ نہیں سنا تم نے
ہر ایک سجدے کے بدلے میں حور رکھتے ہیں
شاعر عہدِ حاضر کے مادی رویوں پر بھی چوٹ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ چہروں
میں چھپے چہروں پہ بھی طنز کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
دشمنوں کے خنجر تو سامنے ہی ہوتے ہیں
تو نے بس بچنا ہے آستیں کے سانپوں سے
شاعر کی شخصیت کی سادگی اور کھرا پن بھی کلام میں جا بجا جھلکتا ہے۔
میں چھپا رکھتا نہیں جو دل میں مرے ہوتا ہے
جس سے نفرت ہو اسے منہ پہ بتا دیتا ہوں
یہ نہیں کہ اکرم سہیل صاحب کی شاعری صرف فکر انگیزی پہ ہی مشتمل ہے بلکہ اس
میں قصہ حسن و دل بھی بدرجہ اتم موجود ہے۔
خلقتِ شہر امڈ آئی ترے کوچے میں
وہ لبِ بام کہیں تیری جوانی تو نہیں
محبت کی سرمستی میں کہے گئے الفاظ ساون کا گیت بن کر گونجتے ہیں۔
تیرے آنے سے برستا ہے یہ رم جھم ساون
بھیگ جاتا ہے گھٹاؤں میں یہ چندن ساون
میں نے پینا نہیں بادہ و جام اے ساقی‘‘ اس تغزل سے لبریز غزل کے کچھ اشعار
ندا فیض کی آواز میں سن چکی ہوں مگر پوری غزل پہلی دفعہ پڑھی۔ اور اس کا ہر
ہر مصرعہ صدیوں پرانی مے کے نشے میں ڈبو گیا۔
جا بجا اناالحق کی صدا اور منصور کا تذکرہ شاعر کی حق و صداقت کی طرف مائل
طبیعت کو ظاہر کرتی ہے۔
۱۔ جھول کر دار پہ منصور نے قاتل سے کہا
ہم کہاں مرتے ہیں مصلوب دوباری کیجے
۲۔ رسمِ منصور کی وارث ہے ہماری گردن
کٹ توجائے گی مگر ہم نے جھکائی تو نہیں
اس مجموعے کی سب سے خاص بات آزاد کشمیر کے وسائل پر قبضے کے خلاف آواز ہے۔
اور یہی پہلو شاعر کو آزاد کشمیر کے دوسرے شعرا سے ممتاز کر رہا ہے۔
ہیں وسائل گرچہ دھرتی کے تیرے
ان پہ ثابت حق تیرا ہو تا نہیں
یہ رہیں گے بس تصرف میں میرے
حل یہ مسئلہ، جب تلک ہوتا نہیں
کشمیری تشخص کے دعوٗوں پر سیاست کی دکان چمکانے والوں پر بھی خوب طنز ہے۔
وہ جو ایک گولی کے بدلے سیاست کی دکان چمکاتے رہے، ان کی صورتوں سے بھی بڑی
مہارت سے پردہ اٹھایا گیا ہے۔
یہ تشخص کی بات کرتے ہیں
بات یہ لاجواب کرتے ہیں
جونہی ذاتی مفاد ہو حاصل
پھر کہاں ایسی بات کرتے ہیں؟
شاعری کے دیگر موضوعات میں سے آئینِ آزاد کشمیر اور چلنِ تہمتِ غداری کے
ساتھ ساتھ سرمایہ دارانہ نظام ، ۸ اکتبور کے زلزے کی تباہ کاریاں اور کشمیر
نمایاں ہیں۔ سول سروس اور بیورو کریسی کی سازشوں کو بھی بے نقاب کیا گیا
ہے۔
مشوروں کی آڑ میں کرتے رہے سرگوشیاں
جن کو سمجھا یار تھا وہ بھی دغا دینے لگے
آنے والوں سے لگا رکھا ہے یارانہ ابھی
جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے
اکرم سہیل صاحب چونکہ ایک بیوروکریٹ ہیں ۔ اپنی سروس کے دوران وہ ایک اصول
پسند آدمی رہے، جنہوں نے کبھی اصولوں پر سمجھوتا نہیں کیا۔ اور اسی وجہ سے
زیرِ عتاب بھی رہے۔ ان کے اس جرم کی سزا کا تذکرہ شاعری میں بھی ملتا ہے۔
جرم کو جرم کہا، جرم تو اپنا ہے یہی
بس اسی جرم پہ نازل ہے عتابِ شاہی
اکرم سہیل صاحب کی شاعری دراصل ان کی زندگی کے تجربات کا نچوڑ ہے۔ انہوں نے
گرد و پیش رونما ہونے والے واقعات کو بھی منظوم انداز میں تاریخ کا حصہ بنا
دیا ہے۔ ان میں سے کچھ واقعات تاریخ پر اثر انداز ہونے والے ہیں اور کچھ
ایسے جو تاریخ کا حصہ تو نہیں بنتے مگر ایک حساس فطرت شخص کی طبیعت میں
اضطراب پیدا کر دیتے ہیں۔
آٹھ ابواب پر مشتمل یہ کتاب یقیناً موضوعاتی لحاظ سے تنوع کی حامل ہے۔ اکرم
سہیل یقیناً نئے دور کے شاعر ہیں جن کا وثرن وارداتِ عشق اور قصہ حسن و دل
سے کہیں بلند تر ہے۔ وہ یقیناً ایک انقلابی شاعر ہیں، اور نوجوانوں کے شاعر
ہیں۔ ۔۔یقیناً یہ خواب بہت جلد کشمیر کے ہر نوجوان کی آنکھوں میں سجنے والے
ہیں……اور یقیناً پھر اجالے ہی ہوں گے۔
تاریک ہیں راہیں مگر پر عزم رہو تم
منزل کے نشاں سامنے ان تک تو چلو تم
اک بار اٹھاؤ گے بغاوت کے جو پرچم
یہ عزم جہاں بار، شجاعت کے یہ پرچم
چھینے نہ کوئی اپنی نگاہوں میں بسے خواب
وہ خواب ، مرے خواب، مرے خواب، مرے خواب |