صدیوں کا سفر

علامتی فکشن

کئی صدیاں ہی بیت گئیں۔جب ذریات آدم و حوا چین کی۔بنسی بجایا کرتے تھے۔پھر ایک دم ہی ان ہونی ہوگئی اور حسن کی فصیلوں پہ توازن سے بہتے دو کنارے آپس میں گتھم گتھا ہو گئے۔بھلا موجیں ایسی اکھاڑ پچھاڑ کیسے برداشت کر پاتیں سو انہوں نے اس طوفان کے نتیجے میں اپنی اپنی راہ چن لی ۔ایک شہزور نے سیاہ کژدم کے ساتھ مل کر دوسرے کی زندگی۔کی راہ کھوٹی کر دی اور زمین لہو رنگ کر دی ۔اب زمین کی گود کشادہ ہوگئی اور اس نے اپنی مستعار دی مٹی اپنے آغوش میں لے۔ممتا کی ماری جو ٹھہری۔گردش دوراں پھر سے چل پڑی ۔ایک جانب کژدم و اژدر تھے تو کہیں روشنی کے پیکر ۔آپس کی مخاصمت چلتی رہی۔کبھی آگ گل و گلزار ہوئی تو کبھی صلیب تیار کی گئی۔مگر روشنی اندھیرے پہ غالب رہی ۔مگر ایک وقت وہ بھی آیا کہ گھٹا ٹوپ اندھیروں نے ہر چیز کو اندھا کردیا۔مگر بطحا کی وادی میں ایک ننھا دیا ٹمٹمایا اور نور کی تاثیر نے اسے مثل آفتاب کر دیا۔تبھی اوج کژدم اور ان کے حواری گرگس منھ کے بل گر کے انحطاط پزیر ہونے لگے۔اس نور کا چھانا تھا کہ ماہتاب و آفتاب کی چمک دگنی ہو گئی ۔ابن آدم نجوم بن گئے۔وقت کا پہیہ پھر گھوما اور کھیتوں میں سنپولیوں نے نفاق کے بیج ڈال کر منافقت کے دریا سے ہوس کا پانی لگایا۔اس سے ایسے ناگ پھنی نکلے جنہوں نے آہستہ آہستہ زمین کو سم قاتل بنا دیا ۔اب ہر فصل میں اس کے اجزا شامل ہونے لگے۔اور تبدیلیاں ظہور پذیر ہونے لگیں۔

سورج گرد آلود ہو چکا تھا۔درختوں کے ڈھلے ہوئے شانے ان کے وجود کے تھک جانے کے غماز تھے۔آدم کی نصف نسل نے شتروں کی مہار تھام لی تھی ان کے لٹکے پیٹ اور ہوس ذدہ منھ کھلے ہوئے تھے۔گرگسوں کا سردار اپنے جھنڈ کے ہمراہ ان کی آمد پہ پر پھیلائے بوسیدہ ہڈیوں کے تخت پہ متمکن تھا۔وقت کی آندھی نے ایسی چال چلی تھی طاؤس و رباب یکجا ہو گئے تھے۔دنیا ایک تکون میں سمٹ آئی تھی جس کے دو برابر کونے تو ایک جیسے تھے جن کے گرد آگ کے بگولے چوب داری کرتے تھے جب کہ تیسرا کونہ ذرا پرے۔اور بلند تھا جہاں چوب دار جانے سے گھبراتے تھے۔ان کے آگ کے جسم وہاں ٹھنڈے پڑنے لگتے تھے۔اور موت کی پھریریاں ان کو گھیر لیتیں تھیں۔سو وہ وہاں جانا کجا پاس بھی نہ پھٹکتے۔وہ ملک دوام تھا جہاں غیر مرئی روحیں خوش الحان گیت گاتیں اور پرندے رقص کرتے تھے۔ہر طرف نور اپنا ہالہ بنائے رکھتا ۔ رفتہ رفتہ سب گرگسوں کی چونچیں ٹیڑھی اور خون آلود ہوگئیں اور موٹے پیٹ والے بھی ان کا نوالہ بننے لگے ۔تب شتر بانوں کی آنکھیں کھلیں اور وہ ملک دوام کوچ کا سوچنے لگے ۔اپنی جان بچا کر وہ فصیل تک پہنچے مگر در بند ہو چکا تھا تب ان کے گلے سڑے بدبو دار وجود قطرہ قطرہ نیچے بہنے لگے۔اور کوس رحلت بجنے لگا۔