اساں کلھیں پڑھ پڑھ انج تھی گئیوں جْل کہیں دے کول نماز
پڑھوں
ہتھ بدھ بھاویں ہتھ کھول پڑھوں اے پھول نہ پھول نماز پڑھوں
ہتھ تسبی مسجد رقص کروں پا گل وچ دول نماز پڑھوں
جتھ طارق دڑکے نہ ہوون او مسجد گول نماز پڑھوں
’’ ذرا نم ہوتو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی ‘‘ ، اس شعر کے مصداق سرائیکی پٹی
ادب ،تعلیم اور ٹیلنٹ کے حوالے سے بڑی زرخیز ہے اور یہ زرخیزی اس امر کی
شاہد ہے کہ یہاں شاکر شجاع آبادی،نور محمد سائل، اقبال سوکڑی،سونا خان بے
وس ، محمد محمود احمد ہاشمی ( مرحوم ) ، عزیز اکبر شاہد ، مخمور قلندری ،
نذیر ڈھالہ خیلوی، غلام سکندر خان، صفدر کربلائی جیسے نامور شعراء نے صحرا
کی تپتی ریت پر جھلس جھلس کر ، ادب نواز نمازیوں کی امامت کا فریضہ سرانجام
دیا ہے۔
سرائیکی زبان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ جھونپڑوں سے اٹھتے دھویں اور
گندم کے آٹے کی سوندھی سوندھی خوشبو میں لپٹی ہوئی ہے‘ یہ زبان مصنوعی اور
جکڑی ہوئی زبانوں کی نسبت لامحدود طور پر قدرتی اور دلکش ہے جو اپنی خاردار
رہگزاروں سے محبت رکھتی ہے‘ اس کی فضائیں اس جادو سے معمور ہیں جو جھاڑیوں
میں اْگے پھول پیش کرتے ہیں، اس کی مٹھاس اور شیرینی قلب و اذہان پر سرایت
کر جاتی ہے ‘‘۔
شاعری محض وزن اور بحر کا نام نہیں ، یہ تخلیق اور اختراع کا نام ہے، اور
یہ شاعری زبان کی مٹھاس اور علاقائی مرحومیوں ، درد و مصائب کی عکاسی کرتی
ہے۔ ہر شاعر نے اپنے اپنے علاقہ کی محرومیوں اور تاریخ و ادب کو سرائیکی
ڈوہڑوں، ماہیوں اور گیتوں میں بیان کرکے اس خطے میں نئی جہت متعارف کروائی۔
ڈوہڑا سرائیکی شاعری کی وہ صنف ہے جس میں قافیہ اور ردیف کے ساتھ ساتھ تخیل
بیانی اور الفاظ کو سوچ کے پیمانے میں رکھ کر بیان کیا جاتا ہے۔سرائیکی ادب
کے کئی ناموں نے ’’ ڈوہڑے ‘‘ کی صنف پر سخن آزمائی کی ، قافیہ ردیف اور
الفاظ کے چناؤ میں بخل سے کام نہیں لیا ۔ سرائیکی ادب کے افق پر براجمان
ایک ایسا نام کہ جس نے ڈوہڑے کی صنف سخن کو تمام تر تعصبات سے بالائے طاق
رکھ کر علاقائی ثقافت ، ریت پریت، دکھ ، درد ، علاقائی محرومیوں اور امن کو
بیان کرکے بھائی چارے اور محبت کا پرچار کیا ۔ یقینا میری مراد سرائیکی
دھرتی کے سر کا تاج سائیں احمد خان طارق ( مرحوم ) ہیں جنہوں نے نہ صرف
ڈوہڑے کو نئی جہت اور جلا بخشی بلکہ ساری زندگی سرائیکی ادب کے فروغ میں
گزاری دی۔ سائیں احمد خان طارق کا شمار سرائیکی ادب کے مقبول شعراء میں
ہوتا ہے ، انہیں سرائیکی ادب میں ’’دوہڑے کا امام‘ کہا جاتا ہے۔سائیں احمد
خان طارق آج ہم میں نہیں مگر اُن کی ادبی خدمات اور کام رہتی دنیا تک یاد
رکھا جائے گا۔ آپ کا پیدائشی نام احمد خان اور تخلص طارق جبکہ والد کا نام
بخش خان کھوسہ تھا۔آپ 1924ء میں تونسہ شریف کے علاقہ شاہ صدر دین میں پیدا
ہوئے۔کھوسہ فیملی سے تعلق رکھنے والے سائیں احمد خان طارق پرائمری پاس مگر
صف اول کے ادیب تھے ، زمیندارہ اُن کا پیشہ تھا ، کھیت کھلیانوں سے دلی
لگاؤ تھا۔ سائیں احمد خان طارق نے اپنی شاعری میں ابتدائی اصلاح ڈیرہ غازی
خان کے معروف شاعر نور محمد سائل سے لی، نور محمد سائل سرائیکی وسیب کے
معروف و منفرد شاعر عزیزاکبر شاہدکے والد ہیں۔1949ء میں استاد نور محمد
سائل کے شاگرد ہوئے ، استاد نور محمد سائل نے ہی انہیں ’’ احمد خان طارق ‘‘
کا نام دیا اور اسی نام سے انہوں نے سرائیکی ادب کی دنیا میں لازوال شہرت
پائی۔
10 فروری 2017 ء کو ڈیرہ غازی خان کے قصبے شاہ صدر الدین میں انتقال کر
جانے والے احمد خان طارق سرائیکی خطے کے وہ شاعر تھے جنہوں نے سرائیکی
شاعری کو ایک منفرد ذائقے اور حیرن کردینے والے لینڈ سکیپ سے متعارف
کروایا۔ احمد خان طارق کو اپنی ذاتی صلاحیتوں اور فطرت کے مطالعہ نے انہیں
ایسی لوک دانش سے مزین کیا کہ اپنے خطے اور تہذیب کی نمائندہ آواز بن کر
سامنے آئے۔
سرائیکی ڈوہڑے نے اپنے چار مصرعوں میں بھرے درد کو محفوظ کرنے کے لیے احمد
خان طارق کے سینے کو آخری پناہ گاہ کے طور پر منتخب کیااور طارق نے اس لے
دے کے عمل میں اپنی سر سے پا تک عاجزی وانکساری کی کیفیات ساری کی ساری
سرائیکی ڈوہڑے کوکمال محبت کا مظاہرہ کرتے ہوئے دان کر دی ہیں۔جس کی بدولت
سرائیکی ڈوہڑا بہت ساری اصنافِ ادب کی مقبولیت کے باوجود عہد بہ عہد امر ہو
گیا ہے۔ طارق نے اپنے اس ڈوہڑے میں سرائیکی وسیب کی کس طرح تصویر کشی کی ہے
قارئین ملاحظہ فرمائیں۔
حال نہ پچھ بے حال نہ کر میں دردیں دا دفتر ہاں
ڈاج ہاں لٹی بنری دا کہیں اجڑیے گھر دا در ہاں
چھورے بال دا پاڑیا چولا اْتو ننگا سر ہاں
طارق چمن ویران دا بلبل مدتاں توں بے پر ہاں
احمد خان طارق کی شاعری کا سوالیہ اور صوفیانہ رنگ شعروں کے روپ سروپ میں
اضافہ کرتا ہے۔ اُن کا یہ نیا رنگ ملاحظہ فرمائیں۔
ودے اپنڑے آپ توں پچھدے ہیں
جیڑھا روز جگیندے کون ہوسی
ہر دھمدی رات دے متھڑے تے
رنگ لال پھریندے کون ہوسی
کڈی مسجد خبطہ پڑھدا ہے
کڈی بین وجیندے کون ہوسی
انڑ سونہاں طارق سونہا ں ہے
ناں گھن الویندے کون ہوسی
سرائیکی دھرتی کی خوبصورت آوازوں نے احمد خان طارق کے ڈوہڑے کو نہایت
خوبصورتی سے زبان و بیاں کے سر سنگیت کے ساتھ پیش کیا۔ آج بھی اُن کے ڈوہڑے
کی گونج گلی گلی موجود ہے۔
کہیں حال ڈتے لجپال مٹھا
گئے جھوک لڈا شالا کُوڑ ھووے
٭٭٭٭٭٭
بس طارق ڈُو بھائی ھاسے
اوکوں کیچ ملی ساکوں ریت ملی
احمد خان طارق کا دوہڑہ علاقائی روایت و ثقافت،غربت و افلاس،عشق و محبت اور
علاقائی محرومیوں کی بھرپورعکاسی کرتاہے۔ان کی شاعری میں ’’بیٹ‘‘ کا ماحول
اپنی تمام تر رعنائیوں اور حسن و جمال کے ساتھ سانس لیتا ہوا محسوس ہوتا
ہے۔وہ اپنے قلم سے مْوقلم کا کام لیتے ہیں اور شاعری کے کینوس پر دیہاتی
زندگی کی سچی اور سادہ مگر متحرک تصویریں پینٹ کرتے ہیں۔ احمد خان طارق کے
مجموعہ کلام میں’’ گھروں درتانڑے، طارق دے دوہڑے، متاں مال ولے، میکوں سی
لگدے، ہتھ جوڑی جْل، بیٹ دی خوشبو، عمراں داپوہریا، سسی، میں کیا آکھاں‘‘
شامل ہیں۔93 سال کی عمر میں وفات پانے والے سائیں احمد خان طارق کی یادیں
اور کلام آج بھی زندہ ہے۔
ان کے ڈوہڑے میں ’’ آس ، اُمید ‘‘ اور درد کی ایک جھلک ملاحظہ فرمائیں۔
اے پاگل دل! بے ہوش نہ تھی، ذرا آپ کوں جھل ، کل آ ویسی
کل سِجھ دا وعدہ کر گئے چن ، من کہیں دی گل ، کل آ ویسی
شالا خیر ہووِس ، تھیسی خیر دا ڈینہہ ،بہسوں رست مل ، کل آ ویسی
اجاں اج تاں طارق ویندا پئے کل لہسی کل ، کل آ ویسی
سائیں احمد خان طارق کا یہ ڈوہڑا ملاحظہ فرمائیں : ٭٭٭٭٭٭٭
تیڈی چھاں تے پلدے پئے ہاسے کر پاسہ گئیں چن دْھپ کیتی
بس لکدا چھپدا دیکھ تیکوں میڈا سیت وہ گئے لک چھپ کیتی
چن چاندڑیاں چٹیاں ڈد ھ راتیں گئیں قہر دیاں کالیاں گھپ کیتی
ادھ بزم دے طارق بین والے اج بیٹھوں چُنڈ اِچ چپ کیتی
احمد خان طارق نے اپنے ادبی کیریئر میں سرائیکی شاعری کی تمام اصناف میں نہ
صرف کام کیا بلکہ اپنی انفرادیت کے رنگ بھی نمایاں کئے۔ یہ الگ بات کہ ادبی
دنیا میں ان کی تمام تر شہرت اور انفرادیت ان کی ڈوہڑا گوئی کے حوالے سے
تھی‘ احمد خان طارق کی نظم‘ غزل اور ان کی سرائیکی کافی پر ابھی گفتگو کا
آغاز ہی نہیں ہوا‘ اب تک ان کے تمام ناقدین نے ان کے فن کو محض ڈوہڑے اور
اس میں موجود بیٹ کی ثقافت‘ مونجھ اور عجز کے حوالے سے ہی دیکھا ہے۔ گو
احمد خان طارق کی ڈوہڑا گوئی ان کے فن کی معراج بنی لیکن دیگر اصناف میں
کئے گئے ان کے کام کو بھی نظر تحسین سے دیکھنے کی ضرورت ہے‘ ڈوہڑا جو
سرائیکی شاعری کی اہم صنف سخن ہے کیفی جامپوری اپنی کتاب ’’سرائیکی شاعری‘‘
میں ڈوہڑا کی اہمیت بتاتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ملتانی زبان کا ہر شاعر ڈوہڑا کہہ کر مشق سخن کا آغاز کرتا ہے‘ برسوں کے
رواج اور تسلسل کی بدولت ڈوہڑے کا ایک مزاج اور مخصوص انداز بن چکا ہے‘ جس
نے روایت کی شکل اختیار کرلی ہے‘ دیہات کا نوجوان چاندنی رات کی رنگینیوں
میں اپنی حسرتوں اور ارمانوں کا اظہار ڈوہڑے میں کرتا ہے‘ پوہ ماگھ کی
ٹھٹھرتی راتوں میں رہٹ چلانے والا ڈوہڑا گا کر ہی اپنے سینے کو گرماتا ہے‘
شفق شام کی سرخی پھیلنے سے پہلے چرواہا مویشیوں کے گلے کو واپس لاتے ہوئے
سریلی آواز میں ڈوہڑا گانے لگتا ہے تو فضا جھوم اٹھتی ہے‘ مویشیوں پر ایک
خاص کیفیت طاری ہو جاتی ہے‘ سروں پر پانی کے مٹکے اٹھائے دوشیزاؤں کی چال
میں ایک پیارا سا دھیما پن آ جاتا ہے۔‘‘
احمد خان طارق کا تعلق دریائے سندھ کے کنارے آباد صدیوں پرانے اس بیٹ اور
بیلے سے تھا جہاں دریا کی روانی بعض اوقات آنکھوں میں رکھے خواب تک بہا لے
جاتی ہے‘ اپنی شاعری میں اس علاقے کے تہذیبی رویوں کو انہوں نے جس آفاقی
پھیلاؤ کے ساتھ پیش کیا یہ انہی کا خاصہ تھا‘ بعض لوگ احمد خان طارق کی
شاعری پر یہ اعتراض اٹھاتے ہیں کہ انہوں نے صرف بیٹ کو ہی اپنی شاعری کا
مرکز بنائے رکھا، اپنے معترضین کے نام پیغام میں احمد خان طارق نے ایک
انٹرویو میں کہا تھا کہ :
’’مجھے پتہ ہے کہ میری شاعری کے بارے میں بہت سے نقادوں کی یہی رائے ہے
لیکن یہ بات مکمل طور پر ٹھیک نہیں ہے‘ میں نے اپنی شاعری میں اور لینڈ
اسکیپ بھی پینٹ کئے ہیں‘ لیکن میں یہ دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ کوئی بھی
دوسرا شاعر میرے اس منظر نامے میں چند روز گزار لے تو وہ بھی اس کیفیت سے
نہیں نکل سکے گا جو بیٹ اور بیلے میں مجھ پر طاری ہو جاتی ہے‘ بیٹ کے ساتھ
میرا روحانی تعلق ہے‘ وہ سب کچھ جسے میں اپنے دل میں بسانا چاہتا ہوں وہ
صرف بیٹ کے اندر ہے‘ میرے باطن میں بھی ایک بیٹ آباد ہے مجھے اکثر ایسا
لگتا ہے کہ میری روح کی تخلیق بھی کہیں دریا کے کنارے ہی ہوئی تھی جہاں بیٹ
اور بیلے کے رنگ اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ موجود تھے‘‘۔
احمد خان طارق’’ بیٹ ‘‘ کی جس جادوئی فضا کے زندگی بھر اسیر رہے آخر اس ’’
بیٹ ‘‘ کی جادوئی فضا کے رنگ کیا ہیں بقول حفیظ خان!
’’ ڈوہڑا گوئی میں احمد خان طارق کا شہرت کے سب سے معتبر سنگھاسن پر
براجمان ہونا کوئی امر اتفاقیہ نہیں‘ اس اوج کمال کے پس منظر میں فنی ریاضت
سے زیادہ ان کے دانشمندانہ برتاوا کا دخل ہے کہ جس کے ذریعے انہوں نے اپنے
وسیب کے دکھ اور مصائب کو مصور کیا ہے‘ ان کے ہاں محبتوں کے ساگر صرف اپنی
لوکائی کیلئے ہلکورے نہیں لے رہے بلکہ انہوں نے اپنے ’’بیٹ‘‘ کو آفاقی سطح
پر جگ جہان کا استعارہ بنا دیا ہے احمد خان طارق کی شاعری میں بیٹ صرف سندھ
ساگر کے کناروں کے ساتھ ساتھ رواں دلدلی بودو باش کرنے والے حرماں نصیبوں
کا مسکن نہیں بلکہ ان تمام خطوں کا بیانیہ ہے کہ جو تہذیبی‘ جغرافیائی‘
معاشی اور سماجی حملہ اآوری سے دوچار چلے آتے ہیں۔ انہوں نے یاس اور
ناامیدی کو زینہ زینہ اترتی موت سے کہیں ہٹ کر جیتی جاگتی اور رواں دواں
زندگی میں تلاش کرتے ہوئے روایتی شاعری کے مضامین بدل کر رکھ دیئے ہیں۔ یہ
منصب بھی احمد خان طارق کے نام ہوا کہ اجڑے ہوئے نو اآبادیاتی خطے کا بے
نوا شاعر کس طرح اپنی انفرادی فہم کو اجتماعیت میں منقلب کرتے ہوئے قوی تر
مزاحمت اور مہذب دفاع کا روپ عطاء کرتا ہے‘‘۔
اٹھی سینگی جاگ سیانی تھی نہ اتنی نندر پیاری کر
پئی سارا گھر خیلان تھیا کوئی تھاں دھو انگڑ بوہاری کر
ہن سر ڈوپہر خمار کوں سٹ، بے کار نہ تھی کوئی کاری کر
آئی طارق کالی رات اجھو‘ وَٹ ڈیوا جوڑ تیاری کر
احمد خان طارق کی آٹھ کتابیں سرائیکی ادب کا بیش بہا خزانہ ہیں۔ اُن کی
پہلی کاوش ’’گھروں درتانڑیں‘‘ سے لے کرآخری مجموعہ کلام ’’میں کیا آکھاں‘‘
تک ان کی شاعری ایک ارتقاء سے ہم کنار ہوتی رہی‘ گو ڈوہڑا کے حوالے سے یہ
بات تسلیم کی جا چکی ہے کہ احمد خان طارق نے اس متروک ہوتی ہوئی صنف کو ایک
نئی زندگی اور نئی تازگی دی لیکن اس کے باوجود ان کا شاعری کی دیگر اصناف
میں کیا گیا کام ابھی بھی ناقدین کی توجہ کا منتظر ہے‘ ان کی منفرد لفظیات‘
جادوئی بیانیہ زمین کے رنگوں سے آراستہ شعری تراکیب اور ان کے شعری دروبست
پر بھی ابھی گفتگو کا دروا ہونا ہے۔
پراجیکٹ منیجر UNDP پاکستان( سابق ڈی سی او بھکر ) محمد زمان وٹو کہتے ہیں
:
’’ احمد خان طارق کی شاعری سرائیکی وسیب کے رنگ ، ثقافت ،علاقائی محرومیوں
اور طرز بودوباش کی عکاس ہے ، لق و دق صحراؤں میں بسنے والے احمد خان طارق
نے علاقائی محرومیوں کو شاعری کا روپ دے کر ارباب بااختیار کے ضمیر کو
جھنجھوڑا ہے ۔ اُن کی شاعری امن ، بھائی چارے اور محبتوں کے جذبات سے لبریز
ہے۔ ‘‘
سرائیکی بولی سے پیار کرنے والے رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر محمد افضل خان
ڈھانڈلہ کہتے ہیں :
’’ احمد خان طارق کی شاعری کو اپنے وسیب میں عوامی سطح پر بہت زیادہ محبت
ملی۔ عوامی سطح پر ہی انہیں ’’ڈوہڑے کا امام‘‘ اور ’’سرائیکی شاعری کا
حاتم‘‘ کہا گیا‘ ان کے پہلے مجموعہ کلام کی اشاعت کے بعد ان کی شاعری کی
شہرت ہی نہیں پھیلی بلکہ ان کی شاعری پورے خطے میں ایک سچ کی طرح قائم
ہوئی۔ ان کی شاعری نے اس طرح اپنے آپ کو منوایا جیسے کوئی سچ اپنا آپ منوا
لیتا ہے‘ یہی وجہ ہے کہ احمد خان طارق کی شاعری کو ہر سطح پر اور ہر طبقے
میں قبول کیا گیا۔ احمد خان طارق سرائیکی وسیب میں فرید ثانی کی حیثیت
رکھتے ہیں، جس طرح خواجہ غلام فرید ؒ نے کافی لکھ کر اس صنف کو امر کردیا ،
آج تک کوئی اُن جیسی کافی نہیں لکھ سکا، اسی طرح احمد خان طارق نے ڈوہڑہ
لکھ کر اسے ہمیشہ کے لیے امر کردیا، ڈوہڑے لکھے جائیں گے مگر جو صنف سخن
احمد خان طارق نے متعارف کروایا وہ ہمیشہ زندہ رہے گا۔ احمد خان طارق چونکہ
خود بیٹ سے تعلق رکھتے تھے اس لیے اُن کی شاعری میں بیٹ اور بیٹ کا درد
پنہاں ہے۔ الفاظ کے چناؤ سے لے کر بحر المدارج تک اُن کے تخیل کی پرواز
شاہین جیسی رہی ، وہ فہم و فراست اور سرائیکی ادب کے سر کا تاج تھے ، احمد
خان طارق اس دنیا سے چلے گئے مگر اُن کا فنِ شاعری اور ڈوہڑا ہمیشہ زندہ
رہے گا ۔ ‘‘
پروفیسر شریف اشرف اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں:
’’احمد خان طارق وہ خوش نصیب شاعر ہیں جنہیں اپنی شاعری کے سبب شہرت اور
مقبولیت ’’عقیدت اور محبت کے انداز میں حاصل ہوئی۔ کم و بیش بیس سال سے
طارق دلوں کی دھڑکن اور جذبوں کی آواز بن کر مونجھی ماندی سرائیکی دھرتی کی
بسیط وسعتوں میں دکھ کی انوکھی دھج کے ساتھ موجود ہے‘ محفل ہو کہ میلہ ہو‘
گیت ہو کہ سنگیت ہو‘ جھوک ہو کہ وساخ جہاں جہاں دل والے دلدار کے قصے ہوتے
ہیں‘ ہجر و وصال کی حکایتیں ہوتی ہیں‘ حسن و عشق کی کہانیاں سنی جاتی ہیں۔
طارق ایک قصہ گو اور کہانی کار کی حیثیت سے گہرے دکھ اور گھمبیر اداسی کی
علامت بن کر سامنے آتا ہے‘‘۔
میڈے سر دے والی وارث ہو، تساں والیاں کوں میں کیا آکھاں
میڈے سیئت وی اﷲ والے ہن، اﷲ والیاں کوں میں کیاآکھاں
کن والیاں تیڈا پچھدیاں ہن، کن والیاں کوں میں کیا آکھاں
توں طارق دھنولا چاتی گئیں، لسی والیاں کوں میں کیاآکھاں
سرائیکی خطے میں احمد خان طارق کی محبوبیت کا ایک حوالہ یہ بھی ہے کہ انہیں
ان کے تمام ہم عصر شعراء نے بھی خراج تحسین پیش کیا‘ ان کی شاعری پر گفتگو
کی‘ مضامین تحریر کئے‘ دسمبر 2015ء میں محبوب تابش کی ادارت میں شائع ہونے
والے سرائیکی ادبی جریدے ’’وسوں ویہڑے‘‘ کا ’’احمد خان طارق نمبر‘‘ بھی
شائع کیا گیا جس میں احمد خان طارق کے فن و شخصیت کا بھرپور انداز میں
احاطہ کیا گیا۔
احمد خان طارق نے بیٹ کے واسیوں کے دریائے سندھ کے ساتھ رومانس کو نئی
جہتوں سے آشنا کیا ہے‘ بیٹ جہاں پر سکون بودوباش سے عبارت ہے وہاں طغیانیوں
کے عالم میں بربادیوں کے ابواب رقم کرتا ہوا انہیں ہجرت آشنا کرتا ہے‘ یوں
وسیبیوں کی زندگانی سپت سندھو کے مزاج کے مطابق تغیرات سے ہمکنار ہوتی رہتی
ہے۔ احمد خان طارق کے بارے میں بجاطور پر کہا جاتا ہے کہ اس دلدلی بیٹ کی
فسوں کاریوں کو ان سے زیادہ موثر انداز میں کسی اور شاعر نے مصور نہیں کیا‘
میرے لئے یہ امر حیرت کا باعث ہے کہ سرائیکی زبان کے معروف ترین ڈوہڑا گو
شاعر دریاؤں کے بیٹ خاص طور پر دریائے سندھ کے اس پار آباد رہے ہیں۔ سائیں
احمد خان طارق کی شاعری سچ اور حسن کا ادراک ہے جو جذبات کے بے ساختہ اظہار
اور دلیل کی جھنجھٹ سے باہر نکل کر قبول کرنے سے ممکن ہوتا ہے۔ سرائیکی
وسیب کی گود میں کھیلنے والے دریاؤں‘ نہروں نے ایک ایسا سکھ بھی اس دھرتی
کے مزاج میں شامل کر دیا ہے کہ استحصال کی صدیاں گزر جانے کے باوجود بھی اس
دھرتی کے باسی آج بھی دھرتی کے مزاج جیسے ہی ہیں۔
سرائیکی شاعری میں ڈوہڑا ایک قدیم صنف رہی ہے‘ ڈوہڑے کے ساتھ تو سرائیکی
شناخت وابستہ ہے‘ ۔ ڈوہڑا اپنی ہیئت کے اعتبار سے دکھ درد اور غم کا اظہار
کرتا ہے‘ سرائیکی وسیب میں خواجہ فرید کے بعد سب سے زیادہ احمد خان طارق کو
گایا گیا۔ احمد خان طارق کا ڈوہڑا بھرپور اثرپذیری اور معنویت سے لبریز ہے
کہ کوئی بھی گلوکار اپنی گائیکی میں اس کے استعمال کے بغیر نامکمل ہے۔
نامور کالم نگار صحافی محمد ثقلین رضا کہتے ہیں :
’’ سرائیکی شاعری میں احمد خان طارق کو ڈوہڑے کا ’’ امام ‘‘ کہا جاتا ہے ۔
اُن کے ڈوہڑوں میں سرائیکی کلچر اور وسیب کا درد واضح دکھائی دیتا ہے۔ ایک
انفرادیت یہ بھی ہے کہ اکثر شعراء اپنی طویل شاعری میں وہ کچھ نہیں کہہ
پائے جو احمد خان طارق نے محض چار مصروں میں سمو دیا۔ یوں سمجھ لیں کہ
سرائیکی شاعری کو احمد خان طارق نے چار مصروں میں بند کرکے دریا کو کوزے
میں بند کرنے کا عملی ثبوت پیش کیا ہے ۔ ‘‘
ڈائریکٹر سوشل ویلفیئر و بیت المال فیصل آباد ڈویژن محمد شاہد رانا کہتے
ہیں :
’’ احمد خان طارق نے سرائیکی شاعری کے ذریعے خطے کے لوگوں کو نہ صرف شعور و
آگہی دی بلکہ سرائیکی زبان کے فروغ میں بھی اپنا کلیدی کردار ادا کیا۔
دورِجدید میں سرائیکی زبان احمد خان طارق کی شاعری کی وجہ سے زندہ زبانوں
میں شمار ہوتی ہے۔ ‘‘
نامور ادب نواز اور تھل سرائیکی چانڑاں کے روح رواں ملک بشیر احمد گوندل،
احمد خان طارق کی ادبی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں :
’’ احمد خان طارق شاعری کے میدان میں ’’ اُستاد الاساتید ‘‘ ہیں، اُن کی
ادبی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ خواجہ غلام فرید ؒ نے سرائیکی ادب میں کافی
لکھ کر نام پیدا کیا جبکہ احمد خان طارق نے سرائیکی کی تمام اصناف پر طبع
آزمائی کرکے زبان سے محبت کا عملی ثبوت پیش کیا۔ وہ ڈوہڑے کے امام ہیں اور
ڈوہڑے میں اُس کا مقابلہ کسی سے نہ ہے ، وہ صوفی شاعر تھے اور ان کی شاعری
میں آفاقیت پائی جاتی ہے۔ ‘‘
مسلم لیگی راہنما و سابق چیئرمین پاکستان بیت المال محمد افضل خان ( سرپرست
انجمن آڑھتیان ) کہتے ہیں :
’’ بلاشبہ احمد خان طارق نے سرائیکی ادب خصوصاً ڈوہڑے کی صنف کے فروغ میں
اہم کردار ادا کیا۔ ویسے تو سرائیکی دھرتی نے بہت سے موتیوں کو جنم دیا ،
ان نایاب موتیوں میں احمد خان طارق صف اول میں شمار ہوتے ہیں، خدا وند کریم
اُن کے درجات بلند فرمائے آمین۔ ‘‘
سرائیکی ادب کے شہزادے سائیں صفدر کربلائی کہتے ہیں ’’ احمد خان طارق کی
شاعری کا اسلوب جداگانہ حیثیت کا حامل ہے ، یہ انداز انہوں نے شروع کیا اور
انہیں پر ختم ہوگیا۔ احمد خان طارق کی شاعری بنیادی طور پر سرائیکی وسیب کی
شاعری ہے۔ اُن کے استعارے سرائیکی وسیب سے پھوٹتے ہیں اور سرائیکی وسیب میں
ہی ضم ہوجاتے ہیں۔ ‘‘
نامور شاعر ، ادیب پروفیسر قلب عباس عابس کہتے ہیں: احمد خان طارق کا ڈوہڑا
دھرتی کا دکھ ، وسیب کی ثقافت ، داخلی اور خارجی رنگوں سے آہنگ ہے۔ احمد
خان کے ڈوہڑے میں بُنے الفاظ تسبیح کے منکوں کی طرح پروئے ہوئے ہوتے تھے کہ
جن کو پڑھ کر تسبیح پڑھنے جیسا لطف بھی آتا تھا۔ ‘‘
نامور شاعر ادیب، ریڈیو پاکستان کے کمپیئر سید نجف علی بخاری کہتے ہیں ’’
احمد خان طارق کی شاعری آفاقی ، سچی اور اپنے وسیب سے جڑی ہوئی ہے ، اُن کے
ہرڈوہڑے میں اپنے وسیب کا دکھ نمایاں نظر آتا ہے۔ احمد خان طارق وہ شاعر
تھے کہ جنہیں منصور ملنگی سے میری ایک ملاقات میں کہ جب ہم لوگ کہاوڑ کلاں
سے بھکر آرہے تھے تو اُن کا ذکر ایک ڈوہڑے کے حوالے سے چھڑا تو منصور ملنگی
نے بے ساختہ اُنہیں سرائیکی کا ’’ خدائے سخن ‘‘ قرار دیا، جبکہ اردو میں یہ
اعزاز جوش ملیہبادی کے حصے میں آیا۔ریڈیو پاکستان ڈیرہ اسماعیل خان کے لیے
ایک انٹرویو میں منصور ملنگی بتاتے ہیں کہ جب میں احمد خان طارق کے ڈوہڑے
اپنی آواز میں لوگوں تک پہنچاتا ہوں تو ہر سننے والا اُن ڈوہڑوں میں سے
اپنا دکھ کشید کرلیتا ہے۔ ‘‘
سرائیکی ادب کا ہر قاری اس بات پر متفق ہے کہ جو طارق سائیں نے ڈوہڑے کی
صنف کو نیا وقار اور اعتبار دیا ہے، آج ڈوہڑا جس مقام پر نظرآتاہے اس میں
طارق سائیں کا حصہ سب سے زیادہ ہے لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ ڈوہڑے کے
علاوہ کسی دوسری صنف میں طارق صاحب کا قلم رواں نہیں‘ غزل اور گیت میں بھی
ان کے ہاں عمومی سادگی‘ بیان کا دھیماپن‘ نزاکت‘ جدت خیال‘ تشبیہات اور
محاورے کا برمحل استعمال ایک لطف پیدا کرتا ہے۔اگر ہم معاصر سرائیکی شاعری
پر غور کریں تو جو دو تین بڑے شاعر نظر آتے ہیں احمد خاں طارق ان میں سے
ایک ہیں۔ سوال یہ ہے کہ بڑا اور مانا ہوا شاعر کون ہوتا ہے؟اس کا جواب دینا
بہت ضروری ہے۔ شاعرانہ اور فنکارانہ عظمت کسی سائنس دان یا گارے مٹی سے
دیواریں اٹھانے والے مستری کی فنکاری جیسی نہیں ہوتی بلکہ یہ عظمت فنی ،
فکری اور ادبی شعور کے ساتھ ساتھ ذوق سلیم کی دولت کے باعث کسی بھی فنکار
کا اثاثہ ہوتی ہے۔ اگر شاعر جمالیاتی لطافتوں کی رفاقت میں عمرانی تہذیبی ،
ثقافتی اور تاریخی شعور بھی من میں رکھتا ہو تو اس کی عظمت کے سفر کا آغاز
ہو گا۔ مگر یہ سفر آغاز ہوگا انتہا اور تکمیل نہ ہو گی۔ پھر عظمت کیسے حاصل
ہو گی ؟ اس کے لیے شاعر کو اپنی ’’ ڈکشن ‘‘ الگ بنانی پڑے گی اور یہ ڈکشن
چلتے پھرتے نہیں بن جاتی بلکہ اپنے پیچھے بڑی فنی ریاضت اور شاعرانہ ترفع
کی متقاضی ہوتی ہے۔ کہا جاتاہے کہ ہر خیال اپنا پیرایہ ساتھ لے کر آتا ہے۔
جیسا خیال ہو گا ویسا ہی پیرایہ ہو گا۔ اس خیال اور پیرائے کے ملاپ سے لفظ
اپنی پوری ماہیت کیساتھ ’’ خیال ‘‘ کو قاری تک پہنچاتے ہیں۔ احمد خاں طارق
کا شعری پیرایہ اس بات کی عمدہ مثال ہے۔
سائیں احمد خان طارق تخلص کا استعمال بھی بڑی چابکدستی سے کرتے ہیں ،قافیہ
اور ردیف کا استعمال تو فنی حسن کی ایک اور حسین دلیل ہے ،یہ تمام پہلو
’’طارق ‘‘ کو سرائیکی شاعری کا ’’خان‘‘بناتے ہیں۔
احمد خان طارق نے بھی شعر برائے شعر نہیں کہے اور نہ ہی محض اوزان اور
بحروں کے ساتھ مقدار پوری کی ہے بلکہ تخلیق اور اختراع کی اعلیٰ منزل پر
جاکر سرائیکی میں لاجواب دہڑے لکھے ہیں۔ہم اپنی بحث کے آغاز میں یہ بات کہہ
آئے ہیں کہ کافی اور دْہڑا سرائیکی وسیب کی اپنی اصناف ہیں اور وسیبی دکھوں
کا بہترین اظہار انہی اصناف میں ہوا ہے۔یہ بات سچ ہے کہ مونجھ، اداسی ، ہجر
اور وچھوڑے کے جذبات سے جنم لیتے دکھ اور کرب کی روایت ہماری کافیوں اور
دہڑوں میں موجود ہے۔ طارق کے دہڑے اس روایت کی کی توسیع ہیں۔ انھوں نے
رومانس کے پردے میں سرائیکیوں کے دکھوں کو نئے نئے رنگوں میں بیان کیا ہے۔
یہاں سے لگتا ہے کہ طارقنہ صرف رومانس کے شاعر نہیں بلکہ انھیں اپنے وسیب
کا تہذیبی، سماجی اور سیاسی شعور بھی حاصل ہے اور یہ بات بھی توجہ طلب ہے
کہ وہ اس شعور کے اظہار میں لطافت، ترفع اورفنی حسن کو نظر انداز نہیں کرتے
بلکہ نفیس پیرائے کو ہی اپنے سامنے رکھتے ہیں۔ یہ اپنے ہر خیال کے لیے نازک
اور کومل لفظیات اپنی زنبیل میں محفوظ رکھتے ہیں اور اظہار کے موقع پر حسب
ضرورت استعمال کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ معاصر سرائیکی دہڑا طارق کی شناخت
بنا ہے۔ دہڑا نگاری تو بہت سے اور شعرا ء بھی کررہے ہیں پر طارق بس ایک ہی
ہے کیونکہ طارق کے پاس لفظ ، خیال اور اسلوب اپنا اور’’ نویکلا ‘‘ ہے پھر
ڈوہڑے کا مزاج اور طارق کا مزاج بھی تو ایک ہی ہے۔ سرائیکی وسیب کا
ادبی،تہذیبی اور ثقافتی ورثہ کافی اور دہڑا میں محفوظ ہے ،جیسا وسیب کا
مزاج ہے اس کا بہترین اظہارانہی اصناف سے ہی ممکن ہے ،طارق نے اس اظہار کو
خوب نبھایا ہے۔ جب تک وسیب موجود ہے تب تک دہڑا ہے اور جب تک طارق کے دہڑے
زندہ ہیں تب تک سرائیکی زبان کو کوئی خطرہ نہیں کیونکہ طارق نے اپنے دہڑوں
میں اپنے وسیب کو زندہ رکھنے کے تمام سامان جمع کررکھے ہیں۔
توں ساڈا بنڑ نہ بنڑ دلبر ہے گالھ صفا اساں تیڈڑے ہیں
ڈے جام وصال دے بھر ساکوں یا زہر پلا اساں تیڈڑے ہیں
ساڈے ڈوہیں ہتھ ہن اکھیاں تے جہیں قسم چوا اساں تیڈڑے ہیں
رکھ آپ غلامی وچ شاکر یا ویچ وٹا ، اساں تیڈڑیہیں
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
بھلا خوشیاں کہیں کوں چک پیندن ، کوئی خوشی ٹھکرا پتہ لگ ویندے
جیڑھی چیخ پکار کوں پھند اہدیں ایہو توں چا پنڑا پتہ لگ ویندے
جے روونڑ اپڑیں وس ہوندے توں رو ڈکھلا پتہ لگ ویندے
جویں عمر نبھی ہے شاکر دی ، ہک منٹ نبھا پتہ لگ ویندے
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حوالہ جات : ( وکی پیڈیا، سرائیکی شاعری، میں کیا آکھاں ، وسوں ویہڑے، احمد
خان طارق نمبر ) |