وہ تاریخ ساز شخصیت جو عمر میں سب سے چھوٹا ، ایماں کی
محصومیت ، نبی کی پہلی شفقت ، نبی کے پیار کا محور ، شجاعت کی انتہاء اور
حکمت و دانائی کا منبہ۔
جس کا خاندان اعلیٰ ، جس کی نسبت اعلیٰ ، جس کی تربیت اعلیٰ ، جس کا قول
اعلیٰ ، جس کا مقام اعلیٰ ، جس کا نام اعلیٰ ، جس کا امام اعلیٰ ، جس کا
کام اعلیٰ اور جس کا پیغام اعلیٰ۔
جو ایمان کا معیار ، جو پاکیزگی کا شاہکار ، جو جنت کا سردار ، جو ملت کا
شہسوار ، نبی کے خاندان کا افتخار اور حجت کا اعتبار۔
جس کا ذکر سعادت ، جس کا ایمان حجت عبادت ، جس کابغض رکھنے والا راسخ ۔ جس
کا عمل ریاضت ، جس کا ہر اندازحسن معاشرت کا باب ، جس کی زندگی اک کتاب ،
علی کے ماننے والو یہ وجد ، یہ جلال ، یہ ادب ، یہ ملال یہ محبت یہ جمال ،
یہ عشق یہ کمال سب درجہ ایمان ہے اور ایمان کے بعد عمل ہے۔ عمل کیا ہے وہ
فلسفہ حیات ہے جو علی نے دیا۔
علی کا فلسفہ حیات: عبادت ہے ، ریاضت ہے ، سیاست ہے ، خلافت ہے ، ذہانت ،
رفاقت ، عدالت شجاعت ہے ، سخاوت ہے ، پاکیزگی ہے ، قناعت ہے ، عفت ہے ، ادب
ہے جو بھی ہے اس کا محور دین کی سرفرازی ہے اور کچھ بھی نہیں ۔
ان کی جوانی تیرے سامنے ، ان کی قوت ایمانی تیرے سامنے ، ان کی قربانی تیرے
سامنے ۔
ان کی شخصیت کے کئی پہلو ہیں جن پر بہت کجھ لکھا گیاہے اور لکھا جاسکتا ہے
۔ یہاں میں فقط ایک پہلو کا مختصراؑ عرض کروں گا۔
کہا جاتا ہے کہ شجاعت اور ذہانت کبھی اکٹھے نہیں ملتے۔
انکی شخصیت شجاعت اور ذہانت کا پیکر تھی۔
دشمن کو گرایا ہوا ہے اس کے سینے پر بیٹھے ہیں تلوار اٹھی ہوئی ہے بس ایک
جنبش کی دیر تھی کہ اس کا سر تن سے جدا ہوجاتا۔
وہ آپ پر تھوک دیتا ہے۔
آپ کا ہاتھ رک جاتا ہے اور اس کو چھوڑ دیتے ہیں۔ وہ سوال کرتا ہے۔
اے علی تو نے مجھے چھوڑ کیوں دیا۔ میری اس حرکت پر تو تجھے اور زیادہ غصہ
آنا چاہیے تھا مگر تو نے مجھے چھوڑدیا۔
ان کا جواب حکمت و دانائی اور قوت ایمانی کی ایک اعلیٰ دلیل ہے۔
کہا
میں پہلے تجھے اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کی وجہ سے مارنے جا رہا تھا
اور جب تو نے مجھ پر تھوک دیا تو اس کے بعد اگر تجھے مار دیتا تو یہ میرا
زاتی انتقام بن جاتا۔
اس سے بڑی برداشت ، درگزر ، حکمت و دانائی ، قوت فیصِلہ اور قوت ایمانی کی
مثال کیا ہو سکتی ہے۔
علی کے دیوانو إ
آج وقت نعروں کے ساتھ ساتھ انکی سیرت ، پاکیزگی ، قوت ایمانی اور حکمت
ودانائی کے اعمال کا تقاضہ کر رہا ہے۔ معاشروں کی ارتقاء فقط نعروں سے نہیں
بلکہ عمل سے ہوتی ہے۔
ان کا نام نعروں کی گونج میں نہیں عمل میں دکھائی دے اور ہر عاشق علی ایک
چلتی پھرتی تصویر ہو۔ |