عرفان صدیقی کے دانشور اور کالم نگار ہونے میں کوئی شک و
شبہ نہیں یہ ضرور ہے کہ کچھ عرصہ سے وہ وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف
کے حلقہ مشاورت برائے تاریخی ورثہ ،ثقافت اور ادبی و تہذیبی امور کے مشیر
ہیں۔ ’کالم کہانی‘عرفان صدیقی کے تحریر کردہ وہ کالم ہیں جووہ روزنامہ جنگ
میں ’نقش خیال‘ کے عنوان سے اکتوبر2011 ء سے دسمبر2013 ء تک لکھتے رہے۔ان
کالموں کا تعلق 2013ء کے عام انتخابات سے تھا۔بقول عرفان صدیقی ’’یہ کالم
انتخابی موسموں کے ایسے روزنامچے ہیں جن سے ایک پوری تصویر بنائی جاسکتی
ہے‘۔آپ نے یہ بھی فرمایا کہ یہ کتاب 2013 کے انتخابات پر مبنی ہے جو ایک
تاریخی تسلسل کے ساتھ لکھی گئی ہے، میں نے جو بھی اس میں لکھا وہ سو فیصد
یقین تھا کہ یہی ہوگااور 2013ء کے انتخابات میں میری لکھی گئی سب باتیں سچ
ثابت ہو گئیں‘‘۔ ان کی کالم نگاری بلا شبہ ادیبانا تھی، بقول مجیب الرحمٰن
شامی جنہوں نے کتاب کا فلیپ لکھا ان کا کہنا ہے کہ ’’عرفان صدیقی کی کالم
نگاری کا ایک زمانہ معترف تھا اور ہزاروں کیا، لاکھوں آنکھیں ان کے رشحات
قلم کی منتظر رہتی تھیں۔انہوں نے تواتر کے ساتھ قومی مسائل کو موضوع
بنایااور سیاست و معاشرت کی گھتیاں سلجھاتے رہے۔ان کے ہاں جہاں گزرے ہوئے
کل کا تذکرہ ہوتا تھا وہاں آنے والے کل سے بھی تانک جھانک جاری رہتی تھی‘‘۔
ان کی سیاسی سوچ اور سیاسی وابستگی عیاں ہے۔ اپنے موجودہ منصب سے قبل وہ
حقیقت میں ایک دانشور اور کالم نگار ہی تھے۔ انجمن ترقی اردو پاکستان نے
عرفان صدیقی کی کتاب ’کالم کہانی‘ جو ایک سال قبل2016میں منظر عام پرآچکی
تھی کی رسم اجراء کا اہتمام 6مئی 2017کی رات انجمن کے دفتر واقع گلشن اقبال
کے مختصر سے لان میں کیا۔ میں انجمن کی علمی و ادبی تقاریب میں شرکت میرا
معمول ہے ، میری یہ بھی کوشش ہوتی ہے کہ اس تقریب کا آنکھوں دیکھا اور
کانوں سناحال قلم و قرطاس پر منتقل کروں۔ تقاریب عام طور پر دفتر کے بڑے
حال نما کمرہ میں ہوا کرتی ہیں لیکن عرفان صدیقی کا اعزاز تھا کہ کتاب کی
رسم اجراء کھلی فضاء میں کی جارہی تھی، برقی قمقموں اور چاند کی چاندنی نے
تقریب کو حسین تر بنا دیا تھارہی سہی کثر محفل میں شریک شہر کراچی کے نامی
گرامی دانشوروں ، ادیبوں ، صحافیوں اور کالم نگاروں کی شرکت نے پوری کردی
تھی۔ مختصر سا لان جگ مگ جگ مگ کررہا تھا۔ جوں ہی انجمن کے دفتر کے سامنے
پہنچا تو گاڑیوں کی تعداد ، پولس موبائل اور پولس والوں کی موجودگی بتا رہی
تھی کہ آج کسی سیاسی شخصیت نے انجمن میں قدم رنجا فرمایا ہے۔ خیر صاحب قدرِ
دور گاڑی پارک کرنا پڑی ، دیر ہوجانے کے باعث جگہ بھی آخری صف میں ملی۔ شکر
کیا اور بیٹھ گئے حسب عادت کاغذ قلم کے ساتھ۔مشتاق احمد یوسفی صاحب کا نام
دعوت نامے میں تھا لیکن وہ یقیناًاپنی صحت کے باعث نہ آسکے، پروفیسر سحرؔ
انصاری صاحب ملک سے باہر کسی مشاعرے میں شرکت کے لیے گئے ہوئے ہیں ، ان کی
کمی محسوس ہوئی۔ صدارت معروف دانشور و کالم نگار زاہدہ حنا کے حصے میں آئی
ویسے بھی انہوں نے کتاب اور صاحبِ کتاب کے بارے میں بولنا ہی تھا ۔ جو
کچھوہ لکھ کر لائیں تھیں کچھ اضافے کے ساتھ انہوں نے صدارتی خطبہ پیش کیا،
یہی بعد میں ان کا کا لم روزنامہ دنیامیں ’قلم نیزہ‘ کا عنوان بھی بنا۔
نظامت کے فرائض خوبصورتی اور ادبی جاشنی کے ساتھ محترمہ رخسانہ صبا (جو
مستقبل قریب میں ڈاکٹر رخسانہ صبا ہوں گی) نے انجام دئے۔ انجمن کی معتمد
اعزازی ڈاکٹر فاطمہ حسن نے جناب فرقان صدیقی اور دیگر مہمانانِ گرامی کو
خوش آمدید کہا ، ان کا کہنا تھا کہ وہ عرفان صدیقی کی نثر کی مداح ہیں جو
وہ بڑی خوبی سے لکھتے ہیں۔انہوں نے عرفان صدیقی کی علمی ادبی خدمات پر
روشنی ڈالی ، ان کی کالم نگاری اور ’کالم کہانی ‘ کے بارے میں اظہار خیال
کیا۔ مقررین میں معروف کہانی نویس شکیل عادل زادہ، معروف صحافی و کالم نگار
غازی صلاح الدین ، صحافی وکالم نگار محمود شام ، سینیٹر عبد الحسیب خان
شامل تھے ۔ انجمن کے صدر ذوالقرنین جمیل (راجو) بھی اسٹیج پر سج دھج کے
ساتھ تشریف فرما تھے انہوں نے مہمانان کا شکریہ بھی ادا کیا۔محمود شام صاحب
کے سنجیدہ اور فکاہیہ اظہار خیال سے سامعین محظو ظ ہوئے ۔انہوں نے کتاب ،
صا حبِ کتا ب اور 2013کے انتخابات کے حوالے سے تفصیلی اظہار خیال کیا ، ان
کا کہناتھا کہ عرفان صدیقی صاحب نواز شریف کی کچن کابینہ کے رکن تو ہوگئے
لیکن نون لیگ کو اب ان جیسے کالم نویس میسر نہیں۔ عرفان صدیقی کے کالم
نگاری سے وزیر اعظم کے مشیرِخاص کے منصب تک کے سفر پر یہ شعر بھی پڑھا
۔’زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا ۔۔ہمیں سوگئے داستاں کہتے کہتے‘۔ محمود شام
کا کہنا تھا کہ عرفان صدیقی نوز شریف کے بہت قریب رہے ہیں، ان سے ذہنی ہم
آہنگی بھی رکھتے ہیں۔ بہت سے باتیں 2013کے انتخابات کے حوالے سے دوسروں کو
معلوم نہیں ہوتی تھیں جن کا ادراک عرفان صدیقی کو ہوجایا کرتا تھا۔ انہوں
نے ’کالم کہانی‘ کے صفحہ11سے دو سطریں پڑھ کر سنائی ۔ عرفان صدیقی صاحب
لکھتے ہیں کہ ’یہ2012کے سرما کی بات ہے۔ رائیونڈ کی ایک محفل میں جب آنے
والے انتخابات کی صف بندی کی بات چلی اور اندازہ و قیاس کی پھلجھڑیاں
چھوٹنے لگیں تو میاں نواز شریف نے اپنے رفقاء سے کہا ’’ایک بات یاد رکھیں ،
پیپلز پارٹی کے پاؤں تلے سے زمین نکل چکی ہے، میدان میں آپ کا مقابلہ جتنا
کچھ اور جیسا بھی ہے ، وہ صرف پی ٹی آئی سے ہوتا ہے‘‘۔اس بات کا دعویٰ
عرفان صدیقی کالم کہانی میں کے دیباچے میں کرچکے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ
’’وہ جو کچھ بھی لکھا ہے وہ سو فیصد یقین تھا کہ یہی ہوگا اور انتخابات میں
میری لکھی سب باتیں سچ ثابت ہوگئیں‘‘۔اس قسم کا دعویٰ کئی کالم نویس کرچکے
ہیں، روز ٹی وی شوز میں بیٹھ کر بے شمار تجزیہ نگار بہت سے دعوے کرتے ہیں،
کسی کی چڑیا انہیں آگاہ کردیتی ہے، کسی کو خواب میں آگہی ہوجاتی ہے، عرفان
صدیقی اکیلے ہی کالم نگار نہیں جنہوں نے نواز شریف کے لیے سچ لکھا اور وہ
سچ ثابت بھی ہوگیا، نواز شریف سے قبل آصف زرداری کے لیے ان کی حمایت میں جن
کالم نگاروں نے سچ لکھا تھا وہ اس وقت سچ ثابت ہوا اور زرداری صاحب صدر اور
ان کی حکومت قائم ہوئی تھی۔ اب بہت سے لوگ عمران خان کے بارے میں سچ لکھ
رہے ہیں جو عرفان صدیقی کے دل کو بالکل نہیں بھاتا ،ہوسکتا ہے وہ بھی
مستقبل میں سچ ثابت ہو ، کل وہ بھی یہی لکھیں گے کہ ہم تو پہلے ہی سچ لکھ
چکے ہیں۔ عرفان صدیقی بہت صاف گو بھی ہیں کتاب کے ’حرف آغاز‘ میں نام لیے
بغیر لکھتے ہیں ’’اپنی تقریروں میں بھی نواز شریف اور مسلم لیگ(ن) پر برہنہ
تنقید کے سوا انہوں نے مثبت اور دلوں میں گھر کر جانے والی سیاسی حکمت عملی
کا ذکر کم کم ہی کیا ہے‘‘۔ اسی صفحہ پر زرداری صاحب کے بارے میں لکھتے ہیں
کہ ’’ادھر عمران خان سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت نواز شریف کو نشانہ بنائے
ہوئے تھے اور ادھر شاطرانہ سیاست کی شہرت رکھنے والے آصف زرداری یہ یقین
کیے بیٹھے تھے کہ عمران خان ان کے لیے ہرگز خطرہ نہیں ، البتہ وہ نواز شریف
کے ووٹ توڑ کر پی پی کا راستہ ضرور ہموارکردیں گے‘‘۔
عرفان صدیقی کے کالموں اور ان کی تحریروں سے ان کا سیاسی جھکاؤ نون لیگ کی
جانب واضح ہے۔ انہوں نے لکھا اور اپنی تقریر میں فرمایا بھی کہ لکھاری کی
سیاسی وابستگی ہر صورت میں ہوتی ہے۔ وہ غیر جانب دار نہیں ہوسکتا۔ ان کی
بات میں وزن ہے اکثر لکھنے والوں کی تحریریں سیاسی جھکاؤ کا پتا دیتی ہیں۔
عطا ء الحق قاسمی صاحب کی تحریروں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ جھکاؤ کس جانب
ہے۔ لیکن ایسا سو فیصد نہیں ابھی کچھ سچ کو سچ اور غلط کو غلط کہنے والے
لکھاری ہمارے معاشرے میں پائے جاتے ہیں۔ لکھاری کو تو سچ اور حق کا علم دار
ہونا چاہیے ، سیاسی وابستگی کے ساتھ جو لکھے گا وہ لکھاری نہیں کسی کا
نمائندہ بن جائے گے ،نتیجے میں اُسے منفی صورت حال کا سامنا بھی ہوسکتا ہے
یا پھر مشیر،وزیر، سفیریا کسی ادارے کی سربراہی اس کی گود میں آگرے گی۔
عرفان صدیقی اس فہرست میں اکیلے ہی نہیں بہت ہیں جنہوں نے اس قسم کی ذمہ
داریاں قبول کیں اور اب وہ نہ یہاں کے رہے نہ وہاں کے۔ آج ہی (12 مئی )عطا
ء الحق قاسمی نے اپنے کالم میں ابصار عالم کا واویلا لکھا ہے جس میں وہ
لکھتے ہیں کہ ’ابصار عالم نے اس ادارے کی سربراہی قبول کر کے بہت بڑی
قربانی دی تھی (یہ قربانی صحافت سے دوری ہے) کہ اسے اپنی ہی برادری کی چند
کالی پھیڑوں سے نبرد آزماہونا تھا اور انہوں نے ان پر ہاتھ ڈالا اور یوں
عمر بھر کی دشمنی مول لے لی ہے‘‘۔یہ تو ایسا ہی ہے کہ میٹھا میٹھا ہپ ہپ
کڑوا کڑوا تھو تھو۔ مزے لیے جاؤ اقتدار کے کوئی تمہیں کچھ نہ کہے۔ قاسمی
صاحب بھی اسی کشتی کے سوار ہیں۔ وہ بہت اچھے شاعر، ادیب اور کالم نگار ہیں
، سیاسی وابستگی عرفان صدیقی کی مانند عیاں ہے۔ بات کہیں اور نکل گئی۔ کالم
کہانی کی تقریب اجراء پر واپس آتے ہوئے، صدر محفل معروف دانشور کالم نگار
زاہدہ حنا نے اپنے مخصوص انداز سے گفتگو کا آغاز کیا۔زاہدہ حنا کا خطبہ
صدارت جو کالم کے طور پر روزنامہ دنیا کی اشاعت 10مئی2017میں شائع ہوا پڑھا
جاسکتا ہے۔یہاں ان کے کہے ہوئے ابتدائی اور اختتامی جملے ہی کافی
ہیں،فرماتی ہیں ’’دانشوروں اور کالم نگاروں کی اپنی ایک برادری ہوتی ہے، اس
میں عرفان صدیقی کا نام نمایاں ہے۔ میں عرص�ۂ دراز سے ان کی تحر یر کی اسیر
رہی ہوں ۔ پھر جب یہ وزیراعظم کے مشیر باتدبیر ہوئے تو دل ڈوب گیا۔ صفحوں
پر قلم سے موتی ٹانکنے والا ایک بے بدل لکھا ری، ایوان اقتدار کی غلام
گردشوں میں گم ہوجائے ، یہ کوئی اچھی خبر تو نہ تھی‘‘۔ عقلمند کے لیے اشارہ
ہی کافی ہے۔ زاہدہ حنا آگے کہتی ہیں کہ ’’ کالم کہانی میں چشمے کی طرح بہتی
ہوئی نثر کا لطف ، زبان کی شیرینی، قلم کی کاٹ اور ذہن رساکی کارفرمائی
ہمیں ہر صفحے پر نظر آتی ہے۔ عرفان صدیقی نے نوک قلم سے سیاسی گتھیاں
سلجھائی ہیں اور جابجا وہ جملے لکھے ہیں جو دانائی کے زمرے میں آتے ہیں اور
برسوں یاد رکھے جاتے ہیں، عرفان صدیقی کا قلم جس مہارت سے چوٹیں کرتا ہے
اور چٹکیاں بھرتا ہے، یہ ہمارے بہت کم لکھنے والوں کو نصیب ہوا ہے۔ وہ اپنی
تقریر میں اس خواہش کا بھی اظہار کرتی نظر آتی ہے کہ ’’میری خواہش ہے کہ جب
2018کے عام انتخابات ہوجائیں اور تیسری منتخب حکومت اقتدار میں آکر ہماری
تاریخ میں نیاباب رقم کرے تو اس کے بعد عرفان اپنی برادری میں واپس آکر پھر
سے قلم کا جادو جگائیں۔ اپنی برجستہ اور بے ساختہ زبان سے کشتوں کے پشتے
لگائیں ۔ کسی لکھنے والے کو اپنے میدان سے زیادہ دنوں تک دور نہیں رہنا
چاہیے‘‘۔ کچھ اسی قسم کی بات محمود شام صاحب نے بھی کی تھی۔ لیکن کیا کیا
جائے انسان کی جبلت کچھ اس قسم کی ہے کہ وہ بہتر سے بہتر ، زیاہ سے زیادہ
اور فرش سے عرش کی خواہش رکھتا ہے۔ اگر ایسا ہوجائے تو بہت اچھا ہوگا لیکن
یہ سیاست ایک ظالم بیماری ہے جسے لگ جائے مشکل سے ہی جان چھوڑتی ہے ، کرسی
میں ایسی کشش اور چمک دمک ہے کہ جو اس پر ایک بار براجمان ہوجائے مشکل سے
ہی اتر تا ہے۔ تقریب کے اختتام میں انجمن کے صدر ذوالقرنین جمیل نے لہکتے
اور مچلتے ہوئے صدارتی کلمات کہے اور مہمانوں کے مشکور ہوئے۔
کالم کہانی میں پورے سو کالم ہیں ، ابتدائیہ ’’حرفِ آغاز ‘‘ کے عنوان سے
لکھا ہے جو 26صفحات پر مشتمل ہے جس میں ان تمام باتوں کو دہرایا گیا جو وہ
اپنے کالموں میں لکھ چکے تھے۔ یہ کالم انتخابات2013سے قبل کے گرم سیاسی
ماحول میں لکھے گئے، چنانچہ ادبی چاشنی کے ساتھ جس پر عرفان صدیقی کو کمال
حاصل ہے نواز شریف صاحب اور ان کی جماعت کی واہ واہ اور ان کے مخالفین خاص
طور پر عمران خان ،ان کی جماعت تحریک انصاف ، آصف علی زرداری ، ان کی جماعت
پاکستان پیپلز پارٹی کو تاک تاک کے نشانے پر لیا اور خوب گولا باری کی جس
میں وہ کامیاب و کامران نظر آتے ہیں۔ اگر ایک جملے میں کتاب کا حاصل بیان
کیا جائے تو وہ یہ ہے کہ’’ عرفان صدیقی نے انتخابات 2013سے قبل اپنے کالموں
میں کچھ لکھا وہ سو فیصد سچ ثابت ہوا، نتیجے میں نواز شریف کی حکومت قائم
ہوئی‘‘۔ سچ کے نتیجے میں انہیں وزیر اعظم کے مشیرکا منصب عطا ہوا۔ اللہ
انہیں ہمیشہ سچ لکھنے اور سچ بولنے کی توفیق عطا فرمائے۔ کتاب ظاہری اعتبار
سے دیدہ ذیب ہے ، سر ورق خوش نما ہے، فلیپ معروف سینئر صحافی مجیب الرحمٰن
شامی صاحب نے لکھا ، انہوں نے اپنی بات اس شعر پر ختم کی
اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبان عقل
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑدے
408صفحات پر مشتمل یہ کالم کہانی پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک اچھا
اضافہ ہے۔ سیاست کے طالب علموں کے لیے مفید، سیاسی پنڈتوں کے لیے نافع ،
علم و ادب کے پروانوں کے لیے سود مند ہے۔ جہانگیر بکس نے کتاب شائع کی ۔
قیمت تو ہزار روپے ہے لیکن تقریب اجراء میں یہ 600سو کی تھی جس سے راقم نے
فائدہ اٹھایا اور ایک نسخہ حاصل کیا جس پر عرفان صدیقی نے اس کے سرِ ورق پر
لکھا ’’دعاؤں کے ساتھ‘‘ اور اپنے دستخط کیے۔ اب یہ کتاب میرے گھر کی جنت
میری لائبریری کی زینت ہے جس سے میں فیض حاصل کرتا رہونگا۔(13مئی 2017)
|