خواب دکھانے کا موسم آپہنچا

میں ڈنکے کی چوٹ پر اس بات کا قائل ہوں کہ میرے ملک میں حکومت جمہوریت کی ہو یا آمریت کی، لبرلز مضبوط ہوں یا اسلامسٹس، سرمایہ دارانہ نظام ہو یا اشتراکی نظام، اقتدار میں شیر والوں کی جماعت ہو یا بلے والوں کی، تیر والوں کی ہو یا پتنگ والوں کی یا کوئی اور جماعت ملک کی باگ ڈور سنبھال لے، میرے ملک میں غریب عوام کے حالات بدلنے والے نہیں ہیں، کیونکہ کوئی بھی عوام کے ساتھ مخلص نہیں۔ غریب طبقے کا استحصال ہوتا رہے گا۔ غربت سے تنگ آکر مزدور خودکشیاں کرتے رہیں گے اور غریب و مزدور طبقے کے خون پسینے کی کمائی سے سرمایہ جمع کرنے والے لوگ چند منافقانہ بول دے کر اپنی ذمے داری سے سبکدوش ہوتے رہیں گے۔ الیکشن کا زمانہ قریب آرہا ہے۔

سیاستدان ایک بار پھر نت نئے نعروں سے غریب عوام کو بہلانے اور بہکانے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ جلسوں میں غریب عوام کے حقوق کی باتیں کریں گے۔ عوام کی تمام ضروریات پوری کرنے کے وعدے کریں گے، مگر حقیقت میں کچھ نہیں کیا جائے گا۔ برسوں سے پاکستان میں یہی چل رہا ہے۔ یہاں الیکشن میں عوام سے وعدے کیے جاتے ہیں۔ عوام کو سبز خواب دکھائے جاتے ہیں۔ ترقیاتی کاموں کے جھوٹے اعلانات پہ زندہ باد کے نعرے بلند کیے جاتے ہیں۔ سیاستدان انتہائی مسرت کے ساتھ اسٹیج پہ کھڑے ہو کر اپنی نام نہاد سچائی اور عوامی خدمت پرخوب فخر کرتے ہیں۔ کامیاب ہوکر حکمران بن جاتے ہیں اور اگلے الیکشن تک عوام کو مکمل طور پر بھول جاتے ہیں۔برسوں سے یہاں یہی روایت چلی آرہی ہے۔

عوام اقتدار پر قابض چند سیاسی خاندانوں کے لیے نعرے لگاتے ہیں، ووٹ دیتے ہیں اور انھیں کندھوں پر بٹھاتے ہیں، مگر یہ لوگ اقتدار کے ایوانوں میں پہنچ کر ایک دوسرے کے مفادات کے محافظ بن جاتے ہیں اور ایک دوسرے کی کرپشن کو تحفظ دیتے ہیں، لیکن عوام کی بدحالی دور کرنے کے لیے کچھ نہیں کرتے۔ ملک میں غربت، جہالت، مہنگائی اور بیروزگاری کے ذمے دار یہی حکمران ہیں جنہوں نے تمام وسائل پر قبضہ کررکھا ہے۔ سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کی تمام پالیسیاں اشرافیہ اور امیروں کو فائدہ پہنچانے تک محدود ہوتی ہیں۔غریب اس معاشرے میں ایک ٹشو پیپر ہے، جسے جہاں ضرورت پڑی، استعمال کیا اور ردی کی ٹوکری کی نذر کردیا۔ سر اٹھانے کا سوچتا بھی ہے تو کوئی نیا نعرہ عنایت کردیا جاتا ہے اور غریب اپنی جنگ لڑنے کی بجائے انھیں لوگوں کی جنگ لڑنے میں مشغول ہوجاتے ہیں، جو ہمیشہ سے ملک کی اکثریت کا خون چوستے آئے ہیں۔

مزدوروں کا دن یکم مئی گزرا۔ سارا سال مزدوروں سے بے رحم طریقے سے کام لینے والے سرمایہ داروں نے اس دن مزدوروں کے حقوق کے نام پر بڑے بڑے پروگرام کیے۔ مزدوروں کے حقوق کے علمبرداروں نے مزدوروں کی حالت زار کا خوب واویلا کیا اور ہر سال یہی ہوتا، مگر یہ ڈرامہ صرف ایک تقریب تک ہی چلتا ہے۔ پروگرام ختم ہوتا ہے۔ یہ لوگ ٹھنڈے ٹھار کمروں سے نکل کر ٹھنڈی ٹھار گاڑی میں بیٹھ کر اپنے ٹھنڈے ٹھار گھر میں آرام کرنے لگتے ہیں اور اگلے دن یہ تک بھول جاتے ہیں کہ کل مزدور نامی کسی مخلوق کے حقوق پر ایک لمبی چوڑی تقریر کی تھی۔ پورا سال نہ تو کوئی کسی مزدور کے حالات جاننا گوارا کرتا ہے اور نہ کوئی خودکشی کرتے کسی غریب کی حالت زار پر توجہ دیتا ہے۔

میڈیا کے سامنے لمبے لمبے بیانات داغے جاتے ہیں، مگر ان پر عمل درآمد رتی برابر بھی نہیں ہوتا۔ میرے ملک میں غریب مزدوروں کی حالت ہر نکلتے سورج کے ساتھ بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے، ان کی ماہانہ اجرت سرکاری طور پر صرف تیرہ ہزار روپے مقرر کی گئی، لیکن ملتی اس سے بھی بہت کم ہیں، مگر مزدور کیا کرے، چھوڑ سکتا نہیں، مجبوری میں اسی اجرت پر مزدوری کرنا پڑتی ہے۔ پاکستان میں تقریبا ساٹھ فیصد مزدور اس کم سے کم ماہانہ اجرت سے بھی محروم ہیں جس کا اعلان قومی سطح پر کیا جاتا ہے اور اس معاوضے سے بچوں کی تعلیم و علاج کا خرچ تو کجا، گھر میں دو وقت کا کھانا بھی نہیں پکایا جاسکتا۔

غریب عوام کے حالات بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں۔ معاشرے میں غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہوتا جارہا ہے۔ ایک جانب ملک و قوم کی دولت کو کرپشن کے ذریعے اپنے بینکوں میں جمع کرنے والوں کے پاس اتنی دولت ہے کہ اس کا حساب رکھنا مشکل ہے، دوسری جانب غریبوں کے بچے آج بھی گندگی کے ڈھیروں میں رزق تلاش کر رہے ہیں۔ محنت مزدوری پر مجبور ہیں۔

استحصالی نظام کی وجہ سے لوگ اپنے بچوں کو فروخت کررہے ہیں۔ میرے ملک کے شہروں اور بستیوں میں غربت کی ایسی ایسی المناک کہانیاں جنم لے رہی ہیں، جنھیں سن کر کچھ دیر کے لیے سکتہ طاری ہوجاتا ہے۔ غربت کے ستائے لوگ خودکشیاں کر رہے ہیں، بچوں کو بھی زہر دے کر قتل کر رہے ہیں، ان کے مرنے کے بعد میڈیا پر بیان دینے کے لیے تو بہت سے لوگ جمع ہوجاتے ہیں، لیکن ان کے مرنے سے پہلے کوئی ان کی اشک شوئی نہیں کرتا۔ کوئی ان کے حالات تک نہیں پوچھتا۔ اگر پہلے ان کا درد سنا ہو، ان کے ساتھ تعاون کیا ہو، ان کے روزگار کا بندوبست کیا ہو تو خودکشی کی نوبت ہی کیوں آئے؟ بھوک بڑی خوفناک چیز ہوتی ہے۔ یہ انسان کو انسانیت کی حدود سے باہر نکال کر ایسے گھناؤنے کام کرنے پر مجبور کر دیتی ہے جس کے بارے میں وہ معمول کی زندگی گزارتے ہوئے سوچ بھی نہیں سکتا۔

گزشتہ دنوں لیہ میں غربت سے تنگ باپ نے پانچ بچوں کو زہر دے کر خودکشی کرلی۔ اسی قسم کے دلخراش واقعات دوسرے شہروں میں بھی پیش آئے۔ یہ واقعات کوئی پہلی بار رونما نہیں ہوئے، اس سے پہلے بھی ہوتے رہتے ہیں۔ ایک تسلسل ہے۔ غریب آنکھ کھولتے ہی زندگی سے لڑنا شروع کردیتا ہے۔ لڑتا ہے اور لڑتا جاتا ہے، مگر جب اس کی زندگی سے بیوی بچے بھی وابستہ ہوجائیں تو شاید اس میں زندگی سے لڑنے کی مزید سکت نہیں رہتی اور اپنے بیوی بچوں کو بھی روز مرتا ہوا نہیں دیکھ سکتا، بیوی بچوں سمیت موت کو گلے لگا لیتا ہے۔

اگرچہ خود کشی کرنا انتہائی غلط اقدام ہے، جس کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے، مگر کوئی یہ نہیں دیکھتا کہ خودکشی کرنے والا کن حالات سے گزرا ہوگا۔ کوئی بھی شخص اپنی اولاد کی ذرہ سی تکلیف برداشت نہیں کرتا، تصور کیجیے مصائب کے کیسے پہاڑ ٹوٹتے ہوں گے جو ایک باپ اپنی محبوب اولاد کی زندگی ختم کرنے کو تیار ہوجاتا ہے۔ یقینا بہت درد بھری داستان ہوتی گی، مگر درد تو وہی جانتا ہے، جس پر بیتتی ہے۔ یہ سب پورے معاشرے کی بے حسی کا نتیجہ ہوتا ہے۔ حکمرانوں اور سیاستدانوں کی بے حسی کا شاخسانہ ہوتا ہے جو کھاتے تو عوام کے نام پر ہیں، مگر غریب عوام کے لیے کرتے کچھ نہیں۔ غریب عوام کے حالات تب ہی سدھر سکتے ہیں، جب سیاستدان اور حکمران طبقہ منافقت چھوڑ کر عوام کے ساتھ جھوٹ بولنے کی بجائے سچ بولے اور سنجیدگی کے ساتھ ان کے مسائل حل کرنے کی کوشش کرے، مگر افسوس ان سے سچ کی امید نہیں کی جا سکتی۔
 

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 701147 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.