پیپلزپارٹی میں نئی تنظیم سازی کی ابھی بازگشت تھی ۔
بلاول بھٹو زرداری چیئرمین بن چکے تو پنجاب میں جیالے قمرزمان کائرہ کو
صوبائی صدر کیلئے موزوں قرار دینے لگے تھے۔ ندیم افضل چن بھی فیورٹ تھا۔
پنجاب میں تنظیم سازی ہوئی تو قمرزمان کائرہ صوبائی صدر اور ندیم افضل چن
جنرل سیکرٹری بنادیئے گئے۔ جیالوں نے بلاول کے فیصلے پر جشن منایا کہ
نظریاتی اور حقیقی لیڈرشپ کا انتخاب کیا گیا ہے۔ اب امتحان نئی لیڈر شپ کا
تھا کہ ڈویژنل ، اضلاع اور تحصیل کی سطح پر تنظیم سازی کی جائے ۔ قمرزمان
کائرہ کے صدر بننے سے آج تک تنظیم سازی کا جائزہ لیا جائے تو جو صورتحال
سامنے آتی ہے ۔ انتہائی مایوس کن ہے۔ پنجاب میں صوبائی تنظیم سمیت تمام
ڈویژن اور اضلاع کی تنظیمیں نہ صرف ادھوری ہیں بلکہ نقائص سے بھر پور ہیں ۔
جس سے قمرزمان کائرہ اور ندیم افضل چن کی تنظیم سازی میں عدم دلچسپی ظاہر
ہوتی ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ قمرزمان کائرہ نے تاحال صوبائی تنظیم بھی مکمل
نہیں کی ہے جبکہ دوسر ی جانب موصوف نے کسی ضلع کا کوئی تنظیمی دورہ نہیں
کیا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا ۔ صوبائی صدر اور جنرل سیکرٹری آپس میں اضلاع
کو تقسیم کرلیتے اور جب تک تنظیمیں مکمل نہ ہوتیں اپنے اپنے اضلاع میں
موجود رہتے ۔ تنظیمی عہدوں کے امیدواروں سے خود انٹرویوز کرتے اور ہر ضلع
کی تنظیم مکمل کر کے ضلع سے باہر نکلتے اور تحصیل کی تنظیم سازی کو بھی خود
مانیٹر کرتے ۔ اس عمل سے ایک تو مضبوط تنظیمیں تشکیل پاتیں اور دوسرا گروپ
بندی کی کھچری بھی نہ پکتی ۔ جس کا آج ہر سطح کی تنظیم شکار ہے۔ تنظیمی سطح
صوبائی کی بے خبری کی یہ صورت ہے راولپنڈی ڈویژن کا صدر اس شخص کو بنایا
گیا جو صدر بنتے ہی پارٹی چھوڑ گیا ۔ اسی طرح راولپنڈی کی ضلعی تنظیم میں
بھی کوئی مشاورت نہیں کی گئی ہے۔ جس سے پارٹی میں سیدھار کی بجائے بگاڑ
پیدا ہوا ہے۔ ضلعی صدر اور جنرل سیکرٹری صرف فوٹو سیشن اکٹھا کروا لیتے ہیں
۔ دوسری کوئی ہم آہنگی نہیں ہے۔ تنظیم سازی کا عمل شدید اختلافات کا شکار
ہے۔ ضلعی تنظیم ابھی تک نامکمل ہے۔ تحصیل کی تنظیمیں ادھوری پڑی ہیں۔
راولپنڈی سٹی کی تنظیم کے سوا کوئی تنظیم مکمل نہیں کی گئی ہے۔ طرفہ تماشا
ہے کہ صوبائی قیادت ساری صورتحال سے لاتعلق نظر آتی ہے۔ قمرزمان کائرہ شاید
یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ تنظیم خود بخود ہی بن جائے گی۔ یا تنظیمیں بنا کر ان
کے حضور پیش کردی جائیں گی۔ کائرہ صاحب اگر آپ چاہتے ہیں کہ پنجاب میں
پیپلزپارٹی سر اٹھائے تو اس کیلئے باہر نکلنا پڑے گا۔ جب تک آپ اپنی تنظیم
مکمل نہیں کرتے ہیں تب تک پیپلزپارٹی میں جان نہیں پڑ سکتی ہے۔ پیپلزپارٹی
اب کوئی بھٹو نہیں ہے۔ اب تنظیم ہوگی تو نتائج حاصل ہونگے۔ دوسرے فارمولے
اب کہیں کام نہیں آئیں گے ۔ اگر آپ تنظیم سازی پر توجہ دیں تو راقم پیشگی
خوشخبری دے رہا کہ پنجاب میں پیپلزپارٹی کو فتح سے کوئی نہیں روک سکتا
ہے۔جذباتی تقاریر اور نعرے بازی سے اب کی بار کام چلنے والا نہیں ہے۔
اپوزیشن پیپلزپارٹی کرے یا تحریک انصاف اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ پارٹی
کی اندورنی پرتوں میں صف بندی سے ضرور فرق پڑے گا۔ مندرجہ بالا باتوں سے آپ
اچھی طرح آگاہ ہیں ۔ لیکن معلوم نہیں ہے ۔ کیوں آپ چپ سادھے ڈنگ ٹپاو
پالیسی اپنائے ہوئے ہیں اور ٹوکن مظاہروں پر اکتفا کرتے ہوئے پارٹی چلانے
کی کوشش میں نظر آتے ہیں ۔ پارٹی جیالوں نے جو توقعات آپ سے وابستہ کر رکھی
تھیں اس کے مظاہر کہیں دیکھائی نہیں دے رہے ہیں ۔ وجوہات کیا ہیں ۔ کارکن
نہیں جانتے ہیں ۔ کارکن تو قیادت کی جانب دیکھتے ہیں ۔ کائرہ صاحب کارکنوں
میں تنظیم سازی کے امور میں قیادت کی عدم دلچسپی سے مایوسی پائی جاتی ہے۔
مایوس کارکنوں کے ساتھ بڑے بڑے دعوے اور بڑیکیں اور فتح کی امید کو کیا نام
دیا جائے۔ کبھی فرصت کے لمحوں میں غور ضرور کرنا ۔ |