عقیدت واحترام کی رات کو مسلمان اﷲ پاک حضور بار گاہ الہی
میں پیش ہو کر اپنے گنا ہوں کی معافی طلب کر تار ہے اور اپنی عبادات سے
اپنے نامہ اعمال میں ثواب کا آضافہ کر تار ہے اس بابر کت رات کو مساجد میں
خصوصی محافل کا اہتما م کیا گیا تھا ایک مسلمان ہو نے کی حیثیت سے ہم مساجد
اور گھر وں میں ساری رات جاگ کر عبادات میں مصروف رہے اوریہ ایک مومن کی
خواہش ہو تی ہے کہ جب اس کا نامہ اعما ل اٹھا یا جا ئے تو اس کے ثواب کا
پلڑا بھاری ہو اور گنا ہو ں کا پلڑا خالی یا اس میں گنا ہوں کی مقدار کم سے
کم ہو اس بابرکت رات کی آمد سے قبل اور اس رات ہم اپنے گنا ہوں کو کم کرنے
کے لئے جہاں عبادات کر تے ہیں توبہ استغفارکرتے ہیں توساتھ ہماری کوشش ہو
تی ہے کہ کسی بھی انسان سے جانے انجانے میں کی جانے والی زیادتی پر اس سے
معافی مانگ کر نامہ اعما ل میں گناہوں کو کم کر وایا جا ئے پہلے بھی اور اب
بھی مسلمان ایک دوسرے کیساتھ جانے اور انجانے میں ہو نے والی غلطوں اور
زیادتیوں پر باقاعدہ معافی مانگتے تھے بلکہ ایسا بھی ہو تا تھا کسی بڑی
غلطی اور زیادتی پر ہاتھ جوڑکر پاؤں پکڑ کر باقاعدہ معافی طلب کی جا تی تھی
پر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان نے ترقی کر لی نئی نئی ایجادات اور
ٹیکنالوجی کی وجہ سے آج انسان کے طور طر یقے بھی بدل گئے ہیں اور ٹیکنالوجی
نے انسان کے کام کوبھی آسان بنا دیاہے جس کی وجہ سے اس کے وقت کی بچت بھی
ہو جاتی ہے پہلے ٹیلی فون آیا اس میں تا ر کی جھنجٹ تھی مو با ئل فون نے اس
تار سے بھی آزادی دلا دی اب تو اکیسویں صدی ہے سمارٹ فون انٹر نیٹ اور سوشل
میڈیا کا دور ہے جس نے انسان کے مزاج میں اور زیادہ تبدیلی پیداکر دی ہے شب
برات سے پہلے اور اسی رات گناہوں کی کمی کی خاطر معافی کے انداز بھی اس
ٹیکنالوجی کی وجہ سے تبدیل ہو گئے پہلے جب صرف موبائل فون تھا تو تب ایک
دوسرے سے معافی کی طلبی کے لئے ایک ایس ایم ایس تیار کیا جاتا تھا اس کے
نیچے اپنا نام ٹا ئپ کیا اور فون میں محفوظ تما م نمبروں پر ارسال کر دیا
کچھ حضرات وقت کی مزید بچت کر تے ہو ئے اس ایس ایم یایس میں صرف نام کی
تبدیلی کر کے اپنا نام ٹائپ کیا اور میسج روانہ کر دیا اب جبکہ سمارٹ فون
انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا کا دور ہے تو ایک پوسٹ بنا ئی اس کو تمام واٹس ایپ
گروپس اور فیس بک ٹیوٹر فرنیڈز کے ساتھ شیئر کر دیا لو جی اب ہماری معافی
ہو گئی اب اکثر حضرات یہاں بھی وقت کی بچت کر تے ہیں بجائے اپنی طرف سے کچھ
تحریر کر یں اس پوسٹ کو کاپی کیا اور اس پوسٹ کو اپنے وال پر شیئر دیا اب
شیئر کرنے کے بعد بار بار نوٹیفیکشن کو دیکھتے رہتے ہیں کہ میری معافی کو
کتنے افراد پسند کر چکے ہیں کتنے کمنٹ مل چکے ہیں اب اس ڈیجیٹل معافی نامہ
کو ہم پوسٹ تو کر دیتے ہیں لیکن ایسے افر اد جن کو ہم جانتے تک نہیں کبھی
ملاقات تک نہیں ہو ئی ان سے بھی معافی مانگتے رہتے ہیں میرے پاس واٹس ایپ
اور فیس بک پر بہت سارے ایسے پیغامات مو صول ہو تے رہے لیکن ایک دوست کی
طرف سے مو صول ہو نے والے پیغام میں بہت ہی خاص بات تحریر تھی کہ ہم نے جن
لوگوں سے زیادتیاں کی ہو ئی ہے بجائے ان کے پا س جا کر باضابط طور پر عملی
معافی ما نگیں ہم فیس بک اور واٹس ایپ پر معافی کی طلبی کر رہے ہیں اور یہ
بات کتنی عجیب ہے گھر میں ماں باپ ‘بہن بھائی‘بیوی‘شوہر‘ ہمسائے ‘رشتے دار
‘دوست احباب ناراض ہیں تو ان کو منانے کی بجائے ہم سوشل میڈیا پرڈیجیٹل
معافی نامے ارسال کر رہے ہیں اب ہم ڈیجیٹل معافی نامہ سے معافی مانگ کر
مطمئن ہو جائیں کہ ہمیں معافی ملی گئی پر جو لوگ واٹس ایپ اور سوشل میڈیا
استعمال نہیں کر تے ان سے کیسے معافی مانگی ہو گی جن سے رشوت لی تھی کسی کا
حق مار لیاتھا راستے میں جلد بازی میں غلط اور ٹیک کر تے کسی راہگیر ٹکر
مار کے فر ار ہو گئے تھے تیز رفتار ی گاڑی چلاتے ہو ئے کسی پر کیچڑ اچھال
دیا دھول مٹی اڑا کر اذیت دی ہو گی کم تول کر سودا دیا ہوگا زیادہ ریٹ لگا
کرنا جا ئز منافع کمایا ہو گاماں باپ کو ستایا بہن بھائیوں کا حق مارا بیوی
پر ظلم کیا بچوں سے نفرت کی ہمسایوں کو ستایا کیاان سب زیادتیوں کی معافی
ڈیجیٹل معافی نامہ سے قبول ہو جائے گئی میر ی ناقص عقل کے مطابق ہر گز نہیں
کچھ غلطیاں اور زیا دتیاں انفرادی ہو تی ہیں کسی ایک افرا د سے کی جا ئے تو
جب غلطی اور زیا دتی اجتما عی نو عیت کی ہو جس میں قومی سطح پر کوئی ایسا
کام کیا گیا ہو جس سے پوری قوم کے ساتھ زیادتی ہو ئی یا کی گئی ہو اب ایک
شخص بجلی چوری کر تا ہے گیس و پا نی چوری کر تا ہے ملک و قوم کے مفادات کو
ذاتی مفادات پر قربان کر تا ہے تو وہ پوری قوم کے ساتھ زیادتی کر کے قومی
مجرم بھی بن جاتا ہے تو اس کا کفارہ کیسے ادا کر یں گے گیاکیا اس کے لئے
بھی ڈیجیٹل معافی نامہ سے کا م چلایا جا ئے گا بجائے ہم بعد میں معافی کی
طلبی کر تے رہیں تو اس سے بہتر ہے کہ ہم اپنی زندگی میں تبدیلی لے آئیں اور
کسی گنا ہ اور زیادتی کی حاجت ہی پیش نہ آئے ہم اپنے اندر صبر کرنے والے
مادے کی مقدار کومزید آضافے کی طرف لے جائیں اور برداشت کی حد کو مزید بلند
کر دیں اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے کے عمل کو اپنا لیں اور اگر کو ئی
زیادتی بھی کر تا ہے تو اس پر صبر سے کام لیں اور اپنا معاملہ اﷲ کے سپرد
کر دیں اور بدلے کے طو ر پر ہم اس سے بڑی زیا دتی نہ لیں بلکہ معاف کر نے
کے راستے کو اختیار کر یں اپنے گناہوں کی معافی اﷲ پاک سے مانگیں اور اپنی
ہر مشکل میں اﷲ سے رجو کر یں اور یہ فار مولا آپکی اور ہماری زندگی میں امن
و سکون بھی لائے گا اور اس معاشرے میں امن پیداہو گا جبکہ ڈیجیٹل معافی کی
بجائے ہم عملی معافی کوروایت کو برقرار رکھیں تاکہ اگر کو ئی جانے انجانے
میں غلطی ہو بھی جائے یا ہو جانے سے پہلے ہمیں عملی معافی مانگنے کا احساس
ہ وتاکہ ہم وہ غلطی کر یں ہی نہیں
|