پاکستان کے موجودہ اور کئی بار کے حکمرانوں نے پانامہ میں
آف شور کمپنیاں بنائیں ملکی پیسہ اور دولت ملک سے برآمد کی گئی اور وہ ملک
جو غریب ممالک کی فہرست میں شامل ہے اور وہاں کے عوام کی ایک بڑی تعداد خط
غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے اگر اس ملک کے اثاثہ جات بھی دوسرے ملکوں
میں منتقل ہو جائیں تو سو چئے پھر کیا ہو خیر اس ملک میں رہ کر بھی وہ دولت
انہی خاندانوں کے ہاتھ میں محصور ہے ۔جودولت ملک کی ترقی کے لیے استعمال
ہونی چاہیے وہ سیاسی خانوادوں کی سیاسی اور معاشی ترقی کے لیے استعمال ہو
رہی ہے چلیے ملک میں اُنہی کے کارخانے لگیں تو بھی اُس میں کام کرکے کمانے
والے تو کم از کم پاکستانی ہونگے کچھ تو بھلا ہوگا پاکستانیوں کا مگر یہاں
تو عالم یہ ہے کہ یہ ’’غریب کار خانے دار‘‘ کاغذی کمپنیاں بھی ٹیکس فری
ملکوں میں بنا کر یہاں کی کمائی ہوئی دولت منتقل کر دیتے ہیں۔ ٹیکس دیتے
وقت تو ویسے بھی یہ اپنے اثاثوں کا ہزارواں حصہ دکھاتے ہیں لیکن حیرت ہے کہ
محلات میں رہنے والے اپنے باپ دادوں کو نواب ابن نواب ظاہر کرنے والے چند
لاکھ روپے ٹیکس دے کر اپنا نام ٹیکس ادا کرنے والوں کی فہرست میں شامل کر
دیتے ہیں اور حیرت انگیز طور پر وہ’’ ایماندار ٹیکس افسر‘‘ جو عام آدمی کی
کھال اُتارتا ہے اُدھر خاموشی سے فرائض منصبی انتہائی ایمانداری کے ساتھ
انجام دے دیتا ہے اور بڑے بڑے فیکٹری مالکان، حکمرانوں اور سرمایہ داریوں
سے چند لاکھ روپے لے کرقومی خزانے پر احسان کر دیتا ہے ’’ اِناَّ لِلّہِ و
اِ نّاَ اِ لَیہِ راَ جِعوُن‘‘ ۔
اللہ تعالیٰ اس قوم پر رحم کرے جس کے حکمرانوں اور سرمایہ داروں کو اپنے
قارونی خزانوں کے بعد بھی غربت کا خوف رہتا ہے کہ ٹیکس دینے سے دولت میں
کمی نہ آجائے۔ اللہ تعالیٰ تجھ سے رحم کی دعا اور درخواست ہے اس قوم کی
غریبی پر رحم فرما کہ یہ لوگ پانامہ کی ٹیکس فری جنت سے زیادہ اس ملک کو
سنواریں جسے یہ لوگ اپنی سیاسی تقریروں میں جنت سے کہیں بڑھ کے حسیں اور
جنت نظیر کہتے ہیں۔ قوم سال بھر سے اس قدر پانامہ پانامہ سن ر ہی ہے کہ
اتنا ذکر تو پاکستان کا اس عرصے میں نہ ہوا ہو، ٹی وی پروگرام، مخالفین کے
سیاسی جلسے، عدالتیں سب اسی نام سے گونجتی رہی ججز کی زبانی تاریخی فیصلوں
کی نوید بھی سنائی گئی اور جب فیصلہ آیا تو ’’ایک اور‘‘ جے آئی ٹی بنانے کا
اعلان ہوا دونوں طرف سے فریقین نے مٹھائیاں بانٹی اور قوم مزید کنفیوز
ہوگئی وہ جن کے کان یہ نام سن سن کر پک چکے تھے اور فیصلے کے ذریعے نجات
چاہتے تھے اور دیگر قومی امور پر حاکمان وقت اور سیاستدانان عصر کی توجہ
مبذول ہونے کے متمنی تھے ایک اور خفیہ فیصلے کی توقع کر کے خاموش ہونے لگے
امید اور امید کا دامن اس قوم کے ہاتھ سے ہر بار کھینچ دیا جاتا ہے۔ محسوس
تو اس بار بھی ایسا ہی ہوا ایک فیصلہ کن فیصلہ سامنے نہیں آیا اور قوم پھر
گوں مگوں کی کیفیت میں چلی گئی لیکن اس بار اس جے آئی ٹی کو جس طرح بنایا
گیا ہے اور اختیارات تفویض کیے گئے ہیں اور سپریم کورٹ کی طرف سے اسے جو
تعاون حاصل ہے اس میں یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ فیصلہ مبنی برانصاف ہوگا اور
قومی مفاد کے مطابق ہوگا ۔جے آئی ٹی میں شامل اراکین کے بارے میں تو یہی
کہا جا رہا ہے کہ اُنہوں نے کبھی اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا اور پوری
ایمانداری سے اپنے فرائض منصبی سرانجام دیے مزید برآں تحقیقات میں وسیع
تجربہ بھی رکھتے ہیں ۔ اس ٹیم کو ضابطہ فوجداری 1898 ،ایف آئی اے ایکٹ 1975
اورنیب آرڈیننس 1999 کے تحت مکمل اختیارات دیے گئے ہیں۔ سپریم کورٹ نے
وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ٹیم کے اراکین کو مکمل سیکیورٹی فراہم کرنے کے
احکامات بھی جاری کیے ہیں جس سے توقع کی جاتی ہے کہ یہ لوگ بلا خوف و خطر
اپنے فرائض سرانجام دے سکیں گے۔ اراکین کو یہ اختیار بھی دیا گیا ہے کہ وہ
اپنے ہی اداروں سے یا دوسرے اداروں سے اپنی مرضی کا ایماندار سٹاف لے سکیں
گے اور اگر ضرورت پڑے تو غیر ملکی ماہرین سے بھی مدد لی جا سکتی ہے۔ اس
مقصد کے لیے فیڈرل جو ڈیشل اکیڈمی میں ایک سیکریٹریٹ بنایا گیا ہے اور ٹیم
کو اپنی رپورٹ پیش کرنے کے لیے ساٹھ دن یعنی دوماہ کا عرصہ دیا گیا ہے اِن
تمام اقدامات و انتطامات کے بعد یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ قوم کو ایک واضح
فیصلہ مل جائے گا اور اگر یہ تاریخ بنانے کی کوشش کی گئی کہ قوم کو حقائق
مِن و عن بتا دیے جائیں تو اسے بھی احساس ہوگا کہ اس کی بھی کوئی اہمیت ہے
اور حکمران بھی مستقبل میں شاید احتیاط سے کام لیں اور قومی دولت کو یوں
مال مفت نہ سمجھیں اور نہ ہی اسے یوں لٹاتے پھریں،حقیقی احتساب کا خوف ان
کے دلوں میں بھی پیدا ہو اور اگر اُن کی بے گنا ہی ثابت ہو تو مخالفین بھی
قوم کا وقت اسطرح کے معاملات میں الجھا کر ضائع نہ کریں۔ جے آئی ٹی سے دست
بستہ عرض ہے قوم کو مایوس نہ کریں یہ قوم آپ کی ممنون ہوگی ۔
|