شفق کی شادی کو تین ماہ سے اوپر ہو چکے تھے لیکن اب تک
فیصل نے جانے کا نام تک نہ لیا ،وہ جاننا چاہتی تھی کہ فیصل آخر کب تک
پورا پورا دن اسی طرح گھر میں رہے گا ۔ آخر اس نے ہمت کی اور فیصل سے سوال
کر ہی دیا ۔
شفق: فیصل آپ دُبئی کب جائیں گئے۔
فیصل : کیوں تمہیں کچھ چاہیےتو بولو۔میں لا دوں گا۔یہاں سے کیا نہیں ملتا ۔
پیسے بہت ہیں میرے پاس۔
شفق : نہیں ،وہ سب کہہ رہے تھے کہ شادی کے بعدآپ کو جاناہے ۔ اسی لیے میری
پڑھائی بھی ادھوری رہ گئی۔
فیصل : پڑھ لیتی تو کون سا تیر مار لیتی۔ہر چیز کی ایک جگہ ہوتی ہے ۔ عورت
کاکام گھر سنبھالنا ہے ۔ اسے کم ہی پڑھا لکھا ہونا چاہیے ۔ بلکہ قرآن کی
تعلیم کافی ہے ۔قرآن پڑھا کرو۔ گھر میں برکت رہتی ہے ۔ نیک اولاد کی دعا
کیا کرو۔
شفق نے دل میں سوچا میں بی بی مریم نہیں ہوں ۔ نہ ہی صرف دعا سے بچے پیدا
ہو جاتے ہیں ۔
فیصل : تم بھی کچھ بولو۔
شفق: آپ پہلے بھی تو دُبئی میں کام کرتے تھے ۔ تو
فیصل : تو اب تمہیں اکیلا چھوڑ کر دُبئی چلا جاوں ۔ میں جانتا ہوں ،جن
عورتوں کے شوہر ان کے ساتھ نہیں رہتے وہ کیا کیا کرتی ہیں ۔عورت کو اکیلا
چھوڑ کر چلنے جانا ۔اسے بدکاری کی اجاذت دے دینے کے مترادف ہے ۔
شفق کو اسی لیے اس سے بات کرنے کا دل نہیں کرتا تھا ۔اس کے منہ سے اسے
ہمیشہ ایسی ہی باتیں سننے کو ملتی تھیں۔وہ خاموش ہی تھی کہ فیصل پھر بولا۔
فیصل: جب تک ہمارا بچہ نہیں ہو جاتا میں کہیں نہیں جاوں گا۔تم مصروف رہو گی
،تو میں بھی اطمینان سے کام کروں گا ۔ چار سال بہت پیسہ کمایا ہے میں نے
۔تم جانتی ہو دُبئی میں شراب اور شباب کی کوئی کمی نہیں تھی۔مگر میں نے
کبھی بھی کوئی حرام چیز ہلال نہیں جانی ۔ جانیں بھی کیوں ۔جنت سے بڑھ کر
کیا ہے۔ جنت میں ہو گی نا ۔شراب طیور ۔نہ صرف شراب بلکہ حوریں ۔وہ بھی ایسی
جنہیں نہ کسی جن نے ہاتھ لگایا نہ کسی انسان نے ۔
فیصل نے یوں اسے قرآن مجید کی آیت کا ترجمہ سنایا تھا ،جیسے رب نے اس کے
لیے وقف کی جانے والی حور اسے دیکھا دی ہو۔ اس کا انداز جھومنے والا اور
چہرہ دیکھنے والا تھا ۔ شفق نے دل میں سوچا ،ہاں ممکن ہے ،فیصل صاحب، وہاں
تمہیں کوئی حور مل ہی جائے ،مگروہاں بھی تم اپنا علاج ہی کرواتے رہ جاو ۔وہ
بھی میری طرح بیزار ہو جائے ۔
فیصل :تم سوچتی کیا رہتی ہو۔مجھے تو لگتا ہے تمہارا شادی سے پہلے بھی کوئی
چکر تھا۔ جس کی یادیں تمہیں ستاتی رہتی ہیں ۔ بات مجھ سے کر رہی ہوتی
ہو۔دھیان کہیں اور ہی رہتا ہے ۔
شفق نے بیزاری سے فیصل کی طرف دیکھا۔اس نے سوچا کیوں نہ فیصل کو اسی کی
زبان میں جواب دیا جائے ۔ اس نے فیصل کی طرف دیکھا اور پھر دھیرے سے کہا۔
شفق: خاموشی عبادت ہے ۔ ہمارے صحابی حضرت ابو بکرصدیق ؓ منہ میں پتھر لیے
پھرتے تھے کہ کسی سے فالتوبات نہ کرنی پڑے ،قیامت کے دن ہمیں ہمارے اعمال
نامہ پڑھنے ہو ں گئے ۔ ہمارا ایک ایک لفظ لکھا جا رہا ہے ۔ اسی لیے میں
سوچتی رہتی ہوں ،بولوں یا نہ بولوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رفیق اب کھانا بنانا سیکھ چکاتھا ،وہ سارے کام کرتا اور یونیورسٹی بھی جاتا
۔ اسے کبھی کبھا ر ،الیکٹریشن کاکام بھی مل جاتا۔اس نے انٹر نیشنل
ڈرائیوئنگ لائی سنس کے لیے بھی اپلائی کر دیا تھا ،جس کا جواب اسے موصول
نہیں ہوا تھا۔ برمینگم یونیورسٹی اس کی سوچوں سے بھی ذیادہ خوبصورت تھی ۔ان
کا نظام تعلیم بھی اسے بہت ایڈوانس لگا۔ پروفیسرز بنا تعصب کے تعلیم دیتے
۔مگر کچھ لوگوں میں ایسا ہی تعصب موجود تھا جو ہمارے ہاں کے لوگوںمیں ہوتا
ہے۔ مگر وہ اب انگلینڈ کے ماحول میں ڈھلتا جا رہا تھا۔ اسے ایک ہوٹل میں دو
گھنٹے کا کام بھی مل گیا ۔ وہ برتن دھوتا ۔وہ سوچ رہا تھا کہ اپنے ملک میں
ہم جن کاموں کو گھٹیا اور چھوٹا سمجھتے ہیں ۔مغربی ممالک میں وہ کام بھی
اگرہمیں مل جائیں تو ایسے فخر سے کر لیتے ہیں کہ جیسے ان میں کوئی عیب تھا
ہی نہیں ۔
وہ ہوٹل میں برتن دھونے ، الیکٹریشن کا کام کرنے اورایک سٹور میں صاف صفائی
کا کام کرنے لگا تھا ۔ وہ صبح صبح جا کر سٹور میں جھاڑو لگاتا سامان کو سیٹ
کرتا،سٹور کے اندر موجود واش روم کو صاف کرتا۔ اس کام کے اسے روز کے بیس
پونڈ ملتے تھے ۔جو کم تو تھے لیکن یہ کام اس کےلیے آسان تھا۔یہ کام وہ
آدھے گھنٹے میں ختم کر کے سٹور سے نکل جاتا۔ پھر یونیورسٹی چلا جاتا ۔
یونیورسٹی سے واپس آتا ۔ اپنے ساتھ رہنے والوں کے کپڑے دھوتا ۔سکھاتا ۔
استری کرتا ۔کھانا بناتا ۔جو کوئی جس وقت آتا کھانا گرم کر کے اسے دیتا ۔
روٹی پکانا اس نے بہت مشکل سے سیکھا تھا ۔ مگر اب وہ ماہر ہو چکا تھا۔ آج
اس نے کڑی پکوڑے بنائے تھے ،جو عامر کی امی نے سکائپ پر اسے سیکھائے تھے۔
سب سےاُس کی اچھی دوستی ہو چکی تھی۔آج سب ہی رات کے وقت کھانے پر موجود
تھے ۔رفیق نے کھانا رکھا ۔
گلکندر: واہ یار !واہے گرو دی سو، سواد آ گیا ۔ نرملا یاد آگئی۔
سنیل :قسم لے لو، جو میں نے اس سے بڑا ٹھرکی دیکھا ہو۔ ہر چیز پر اسے ایک
الگ عورت یاد آتی ہے۔رات کو میگزین دیکھتا ہے ۔ صبح موبائل پر ویڈیواوراس
کاسنڈے تو اور بھی رنگین ہوتا ہے۔ کچھ شرم کر جا و ۔اپنی عمر کا ہی لحاظ کر
و اور نہ سہی ۔اس بیوی کا ہی سوچ لیا کرو جو چار بچوں کو لیے پیچھے تمہاری
راہ دیکھ رہی ہے۔
گلکندر: تو رب نے سوہنا جسے بنایا ہے۔ اسی کودیکھوں گا اور تجھے دیکھوں ۔
تیری ماں جی بھی ،لگتا ہے رام جی کو دیکھنے کی بجائے ان کےبھگت ۔ہنومان جی
کو دیکھتی رہی ہیں۔
وہ مذاق کرنے کے انداز میں بولا ،سب ہی ہنسنے لگے ۔ سنیل نے بُرا منہ بنا
کر کہا۔
سوباش:گلکندر یار شکل پر نہ جایا کرو۔ اِتنی بُری بھی شکل نہیں ہے اس کی۔
گلکندر:اِتنی بُری نہیں ۔ مطلب تو بھی یہ ہی کہہ رہا ہے بُری ہے ۔
اس نے اورذور سے قہقہ لگایا۔
سنیل: ہنومان بھی کہیں دلوں پرراج کرتے ہیں ۔ہر چہرہ کسی نہ کسی کا محبوب
ہوتا ہے۔
گلکندر : تو !تو نہیں ہے ،باقی شاہد ہوں۔ گوریاں اسے دیکھ کر کنی کاٹ لیتی
ہیں ۔ یہ اسی لیے مجھے سبق دے رہا ہے۔ مطلب آپے ملے نہیں ۔دوجے کو کھان
نہیں دینی۔
سنیل : میں خود گوریوں کو دیکھ کر کنی کاٹ لیتا ہوں ۔ منگیتر ہے میری ۔ وہی
کافی ہے میرے لیے۔عورتوں کی عزت کرنا سیکھو۔ مجھے بہت افسوس ہوتا ہے ۔مشرق
ہو یا مغرب ہم نے عورت کو کموڈیٹی بنا کر رکھ دیا ہے۔جہاں اپنا فائدہ ہو،
وہاں اسے آزادی دے دیتے ہیں اور جہاں اپنا نقصان دیکھا اس کی آزادی ختم۔
گلکندر : تیرا واسطہ نہیں پڑا ۔ابھی ٹھیک سے بچے ۔ تجھے پتہ بھی ہے ۔ اس
گوری نے مجھ سے کتنا پیسہ لیا ہے ۔گرین کارڈ کے چکر میں۔عورت شبدکا مطلب
بھی پتہ ہے تجھے۔ اس نے منہ میں ڈالا ہوا کھانا تھوڑی دیر چبایا۔سوچنے کے
انداز میں سر ہلایا اورپکوڑے کو آگے کرتے ہوئے ۔ اس نے سنجیدگی سے سنیل کو
دیکھ کراپنی دھاڑی پر ہاتھ پھرا ۔ کچھ بھی مفت میں نہیں دیتی ،یہ تیری
کموڈیٹی ۔ بہت کچھ لے بھی لیتی ہے۔ تو جتنا مظلوم ثابت کر رہا ہے نا ۔ہوتی
نہیں ہے۔ اِتنی مظلوم تیری یہ کموڈیٹی۔پتہ نہیں کتنے کموڈ دھونے کے بعد
ہاتھ آتی ہے۔ کموڈیٹی۔ بات کرتا ہے۔
سنیل خاموش رہا۔
عامر: ویسے بات تو دونوں کی کچھ کچھ ٹھیک لگ رہی ہے ۔کہیں عورت مظلوم ہےتو
کہیں ظالم ۔
رفیق : سچ ہے، نظر بدلتی ہے تو نظارہ بدل جاتا ہے۔ دنیا اپنے آپ میں کچھ
نہیں۔ ہر انسان کے لیے ویسی ہی ہے جیسی وہ دیکھتا ہے ۔ سنیل کے لیے عورت
ویسی ہے جیسی اس نےدیکھی ۔گلکندرکا مشاہدہ اسے الگ سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔
گلکندرنے کانوں میں اپنی ہینڈ فری لگائی اور گانے سننے لگا۔وہ لمبا چوڑا
آدمی تھا۔ عمر میں سب سے بڑا۔اکثر سب سے ہنسی مذاق کرتا ۔سب اسے اپنا بڑا
بھائی سمجھتے ۔کسی کو کوئی بھی مسلہ ہوتا تو وہ سب سے پہلے مدد کے لیے تیار
ہوتا تھا۔ اسی نے رفیق کو انٹر نیشنل ڈرائیوئیگ لائی سانسس کے لیے اپلائی
کا مشورہ دیا تھا ۔گاڑی لینے کے لیے پیسے دینے کا بھی کہا تھا۔ رفیق اس کی
طرف دیکھ رہا تھا۔
عامر : کیا ہوا؟ تم کیا سوچ رہے ہو۔
رفیق: میں سوچ رہا ہوں ، انسان کی اچھائی اور بُرائی کا تعلق اس کے مذہب ،
علاقے ،ذات یا جنس کی وجہ سے نہیں ہوتا ۔ انسانیت سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں ۔
حالات ہماری سوچوں کو کس قدر تبدیل کر دیتے ہیں، اس کا اندازہ مجھے یہاں آ
کر ہوا ۔
عامر: یہ تو ہے ۔ ہمارے خوف ہمیں آگے بڑھنے ہی نہیں دیتے۔ مگر جب کوئی اور
چارہ نہ ہو تو ہم ہر خوف پر قابو پا لیتے ہیں ۔ مجھے بھی شروع شروع میں
لوگوں کوسور کا گوشت کھانے میں پیش کرنا بہت بُرا لگتا تھا۔ شراب کھول کر
ان کے آگے رکھنا۔ مگر اب ایسا لگتا ہے کہ یہ کام ہے۔وہ لوگ وہ کھاتے ہیں ۔
جو انہوں نے کھانا سیکھا ہم لوگ وہ کھاتے ہیں جو ہم نے کھانا سیکھا۔ میں نے
خود کو یہ کہہ کر تسلی دے لی ہے کہ مسلمان غلاموں کے کافر آقابھی تو ہوتے
تھے۔ کبھی کبھی چیزیں ہم اپنے لیے خود پیچیدہ بنا لیتے ہیں اور کبھی کبھی
بہت آسان ۔ صرف انسان ہو کر سوچا جائے تو آسانی ہی آسانی ہے۔ اگر چیزوں
کو مذہب ، علاقے ، ذات اور جنس کے تحت سوچا جائے تو زندگی بہت پیچیدہ ہو
جاتی ہے۔
رفیق:ٹھیک کہہ رہے ہو۔ زندگی کو آسان کرنے کے لیے لازمی ہے کہ انسانیت کو
ہر اصول سے بڑھ کر جانا جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شایان کی سالگرہ میں بہت سے لوگوں کو بلایا گیا تھا۔ پارٹی میں آنے والوں
کو ڈاکٹر شیزاد نے غزل سے اپنی بیٹی کے طور پر متعارف کروایا ۔جو لوگ جانتے
تھے کہ ان کے صرف دو ہی بیٹے ہیں ۔انہوں نے مختلف طریقے سے اظہار بھی
کیا۔اکثر خاموش ہی رہے۔
ذیاد جو ایک ڈرامہ پروڈوسر تھا اور عنابیہ کا ایک اچھا دوست بھی تھا۔اس
نےخوشی کو دیکھا ۔
ذیاد: او مائی گارڈ ،کیا پرفیکٹ فیس ہے اس لڑکی کا ،کہاں سے لے آئے ہیں
تمہارے شوہر۔ اتنی خوبصورت بیٹی ۔ تھوڑی نظر رکھا کرو ،آج کل کے شوہر
بھروسہ کے لائق نہیں ہیں۔
عنابیہ: شیزاد تمہاری طرح نہیں ہیں ۔سمجھے۔
ذیاد : اگر اس لڑکی کو ڈرامہ کی آفر کرو ں ۔تو کر لے گی۔
عنابیہ: مطلب؟
ذیاد : مجھے اپنے نئے ڈرامہ کے لیے کوئی نیا فیس تو چاہیے ۔یہ لڑکی تو ۔
عنابیہ: بس بس ابھی نہیں۔
ذیاد: پانچ لاکھ دوں گا۔ اس کے ایک ڈرامہ کے لیے۔ دیکھ لو سوچ کر بتادینا۔
خوشی کو شدت سے انتظار تھا کب ڈاکٹر شیزاد اس کی ٹیچر سے ملانے کے لیے پھر
اسے لے کر جاتے ہیں ۔ ڈاکٹر شہر بانو نے خوشی پر گہرا اثر ڈالا تھا ۔ اس نے
ڈاکٹر شیزاد کے بتائے ہوئے ٹائم سے پہلے ہی جانے کی تیاری کی ہوئی تھی ۔
ابھی چار ہونے میں ٹائم تھا ۔ڈاکٹر شیزاد اور عنابیہ لاونچ میں بیٹھے تھے ۔
خوشی نے اپنے کمرے کی کھڑکی کا پردہ ہٹایا جہاں سے وہ دونوں صاف بیٹھے نظر
آ رہے تھے ۔ اس نے کھڑی کے شیشے کو ہٹایا ۔ تا کہ سن سکے کہ ڈاکٹر شیزاد
اسے چھوڑنے کے لیے کب یہاں سے اُٹھیں گے۔
عنابیہ: اس میں برا منانے والی کون سی بات ہے ۔ خوبصورت لڑکیوں کی ڈیمانڈ
ہوتی ہے اس فیلڈ میں۔
ڈاکٹر شیزاد: وہ نہیں کرئے گی ،ٹی وی سے متعلقہ کوئی بھی کام۔
عنابیہ: مطلب ،میں بھی تو کرتی ہوں ،کیا ہو گیا۔
ڈاکٹر شیزاد : تم اپنی مرضی سے کرتی ہو۔
عنابیہ : وہ بھی اپنی مرضی سے ہی کرئے گی۔
ڈاکٹر شیزاد : تمہیں سمجھ نہیں آیا میں نے کیا کہا ہے۔ غزل ابھی کوئی کام
نہیں کرئے گی۔
عنابیہ : آپ تو ایسے پوزیسیو ہو رہے ہیں جیسے وہ آپ کی سگی بیٹی ہو۔
ڈاکٹر شیزاد : تم سمجھ لو کہ وہ میری سگی بیٹی ہے۔
عنابیہ : اگر آپ کو اس میں اور ہم میں کسی ایک کو چننا پڑے تو آپ کس
ڈاکٹر شیزاد: یہ تمہارے ہم میں اگر میرے بیٹے ہیں تو اس ہم کو میں کر لو یہ
اچھا ہو گا۔اگر تم اس حد تک جاو گی تو ٹھیک ہے تم اپنا فیصلہ کر سکتی ہو۔
عنابیہ: ایک انجان لڑکی آپ کے لیے مجھ سے بڑھ کر ہو گئی۔
ڈاکٹر شیزاد : تم اگر میری خوشی کے لیے اس انجان لڑکی کا ساتھ نہیں دے رہی
ہو ،تو میں تمہاری خوشی کے لیے اس انجان لڑکی کا ساتھ کیوں چھوڑ دوں۔
ڈاکٹر شیزاد وہاں سےاپنے کمرے کی طرف چلے گئے ،خوشی سوچنے لگی ۔کیا یہ ممکن
ہے کہ وہ ٹیچر مجھے اپنے گھر ہی رکھ لیں ۔میں ڈاکٹر شیزاد اور ان کی بیوی
کے درمیان لڑائی کی وجہ نہ بنوں ۔ میں انہیں اچھی بھی لگی ہوں ۔ کیا پتہ
اگر میں انہیں سب کچھ بتا دوں تو وہ مجھے اپنے پاس رہنے دیں ۔ ان کے بچے
بھی تو نہیں ہیں ۔ وہ مجھے اپنی بیٹی بنا لیں ۔یا اللہ میری دُعا سن لے اگر
میں نے کوئی نیکی کا ایک بھی کام کیا ہو ۔وہ کمرے میں انکھیں بند کیے بیٹھی
تھی ،جب ڈاکٹر شیزاد نے آ کر اس سے پوچھا ۔
ڈاکٹر شیزاد : کیسی ہو غزل بیٹا ۔ آر یو ریڈی؟
خوشی اُٹھ کر کھڑی ہو گئی۔دونوں جانے کے لیے کمرے سے نکل گئے منظور نے گیٹ
کھولا ۔
ڈاکٹر شہر بانونے ڈاکٹر شیزاد اور خوشی کو اندر آتے دیکھا تو انہوں نے
چہرے پر مسکراہٹ لاتے ہوئے کہا ۔ آپ کی بیٹی پر تو ہر رنگ کے کپڑے بھلے
لگتے ہیں ۔خدا ہر کسی کو ایسا چہرہ نہیں دیتا کہ جسے بھولنا دشوار ہو جائے۔
ڈاکٹر شیزاد : یہ تو ہے۔ وہ مجھے کچھ جلدی ہے ۔ دراصل کوئی اچھا ڈرائیور
نہیں مل رہا۔ کچھ لوگوں کو بلایا ہوا ہے ۔
ڈاکٹر شہر بانو: کوئی مسلہ نہیں ،ہمیں جس کو پڑھانا ہے وہ ہے نا ہمارے پاس
۔ آپ جائیں ۔
خوشی نے ڈاکٹر شیزاد کو جاتے ہوئے دیکھا۔
ڈاکٹر شہر بانو: کیسی رہی سالگرہ تمہارے بھائی کی۔
خوشی نے ان کی طرف دیکھا۔ وہ سوچ رہی تھی کہ وہ ان سے اپنا مسلہ بیان کر دے
۔ یہ اس کی مدد کر سکتی ہیں ۔ شاہد کوئی حل نکل آئے۔ مگر کچھ ماہ سے وہ
لگا تار خاموش رہ رہ کر نہ بولنے کی عادی ہو چکی تھی ۔ ایک لفظ کا ادا کرنا
بھی اسے مشکل لگ رہا تھا۔
ڈاکٹر شہر بانو نے اسے سوچتا ہوا دیکھا ۔
ڈاکٹر شہر بانو: یہ تو اچھی بات نہیں۔ ایک میں ہوں ۔جو تم سے سب کچھ شیئر
کر رہی ہوں اور ایک تم ہو جو مجھ سے بات تک کرنے کو تیار نہیں ۔ چلو کوئی
بات نہیں ۔ اب تم یہاں پڑھنے کے لیے آ رہی ہو تو لازمی ہے کہ میں تمہیں
پڑھنا لکھنا سکھاوں ۔تمہارے ڈیڈی نے بتایا کہ تم لکھ پرھ سکتی ہو ۔ اب مجھے
کیسے پتہ چلے گا کہ تم لکھ سکتی ہو ۔ چلوکوئی کہانی لکھو ۔کچھ بھی جو
تمہارا جی چاہیے ۔انگریزی ،اردو،جس زبان میں چاہو لکھو۔ یہ بات تو مانو گی
نا۔
ایک نوٹ بک اورپنسل لا کر ڈاکٹر شہر بانو نے خوشی کے ہاتھ میں تھما دیا۔
خوشی نوٹ بک اور پنسل کی طرف غور سے دیکھتی ہے ۔ اسے بے اختیار مراد یاد
آتا ہے ۔پتہ نہیں وہ زندہ ہو گا یا مر گیا ہو گا۔ پتہ نہیں گھر میں کیا
ہوا ہو گا۔ ڈاکٹر شہر بانونے اسے بُرے طریقے سے روتے ہوئے دیکھا تو نوٹ بک
اور پنسل اس سے لے لی ۔ رو لو بیٹا رو لو ۔اسے اپنے سینے سے لگا کر تسلی دی
۔
ڈاکٹر شہر بانو:بچہ تم اکیلی نہیں ہو ۔ میں ہوں نا ۔ فکر نہ کرو۔ اگر کوئی
مسلہ ہے تو بولو ۔ مجھ سے جو ہو گا ۔ تمہارے لیے کرو ں گی۔
خوشی ان کےسینے سے لپٹ کر کافی دیر روتی رہی ۔ پھر وہ پانی لے کر آئیں اسے
دیا۔ اس نے تھوڑا سا پانی پیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فیصل : شفق میرے سر میں درد ہے مالش کرو ۔
شفق فیصل کے سر پر بام لگا تی ہے ۔ وہ رات کو کافی لیٹ آیا ۔ وہ آج کل
عشاہ کی نماز کے لیے جاتا اور رات کو بارہ بجے کے بعد ہی واپس آتا۔
فیصل : شفق ،تم سب سے ذیادہ محبت کس سے کرتی ہو ؟
شفق کو سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کہے ۔ اپنی ماں سے ۔ ممکن ہے
فیصل اس بات پر غصہ ہو کر اسے مارنا شروع کر دے ۔ کہ میرا نام کیان نہیں
لیا ۔ کیا وہ جھوٹ کہہ دے کہ وہ اُسی سے محبت کرتی ہے۔ابھی وہ سوچ ہی رہی
تھی کہ کیا بولے تو فیصل پھر بول پڑا۔
فیصل : تم کرتی ہی نہیں ہو کسی سے بھی محبت ،اگر کرتی ہوتی تو فوراً سے اس
کا نام آ جاتا تمہارے لب پر۔
شفق: آپ کس سے محبت کرتے ہیں؟
فیصل : تمہیں کیا لگتا ہے ،میں تمہارا نام لوں گا؟ ہنستے ہوئے۔
شفق:مجھے ۔
فیصل : ہاں تمہیں ۔ تم میرے بارے میں کیسا سوچتی ہو۔ میں اچھا ہوں ناں۔
قیامت کے دن گواہی دو گی ناں۔
شفق نے دل میں سوچا ۔ اس آدمی کے خیالات کیسے بنیں ہیں ۔ یہ کیسے ہر چیز
کو دین کی طرف لے جاتا ہے۔ جنت جنت کرتا ہے اور زندگی کو جہنم بنا کر رکھا
ہوا ہے ۔میری بھی اور اپنی بھی ۔ کاش کہ مجھے پتہ ہوتا۔ اب تو میرا ایمان
ڈھول گیا ہے۔اللہ نے تو قرآن میں وعدہ کیا ہے کہ پاکیزہ عورتوں کے لیے
پاکیزہ مرد اور پاکیزہ مردوں کے لیے پاکیزہ عورتیں ہیں۔ اس شک کرنے والے
تنگ نظر ۔تنگ دل کے لیے اس جیسی کوئی بیوی کیوں نہیں ۔ میں نے تو کوئی حد
نہیں توڑی ۔ہمیشہ اللہ کا ڈرسینے میں رکھا ۔ پھر میرے حصے میں یہ آدمی
کیوں لکھ دیا گیا ۔ میری کیا غلطی تھی۔کس گناہ کی سزا ملی ہے مجھے ۔
فیصل: تم بولتی کیوں نہیں۔
شفق: جی
فیصل : کیا جی؟
شفق : گواہی دوں گی ،قیامت کے دن آپ کے اچھے ہونے کی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شہر بانو نے جب محسوس کیا کہ وہ بولنا تو چاہتی ہے لیکن بول نہیں پا
رہی تو انہوں نے طریقہ بدلا اور تنویم کا طریقہ استعمال کرنے کا سوچا ۔ تا
کہ اس کے بارے میں اسی کے منہ سے نیم نیند کی حالت میں سب کچھ جان لیں۔اس
طرح ،اس کی مدد کرنے میں انہیں آسانی ہوگی۔وہ اندر سے ایک ننھا سا پنڈولم
لے کر آئیں۔
ڈاکٹر شہر بانو : بچہ اپنی آنکھیں صاف کرو ۔ ایک کھیل کھیلتے ہیں ،دیکھیں
تو تم کیا کیا دیکھ سکتی ہو۔پنڈولم تو دیکھا ہو گا تم نے فزکس میں پنڈولم
کا ذکر تو ہے۔ ہوں ۔
خوشی نے اپنی انکھیں رگڑ کر سارے آنسو ،ڈاکٹر شہر بانو کے دیئے ہوئے ٹشوسے
صاف کر لیے ۔ اس نے ڈاکٹر شہر بانو کی طرف اس طرح دیکھا جیسے وہ کھیلنے کے
لیے تیار بیٹھی ہے۔ڈاکٹر شہر بانو اسے اپنی سٹڈی میں لے کر آئیں جو ایک
چھوٹا سا کمرہ تھا جس کے پردے انہوں نے بند کر دیئے ۔ خوشی کو آرام کرسی
پر بیٹھنے کو کہا۔اس کے پیچھے انہوں نے ایک ٹارچ رکھی جو اس کے سر کے بلکل
پیچھے تھی۔جس کی روشنی سامنے کے پردے پر ایک گول روشنی کا دائرہ بنا رہی
تھی وہ خود اس روشن دائرے اور خوشی کے درمیان پنڈولم پکڑ کر ایک سٹول پر اس
طرح بیٹھی کہ روشنی صرف پنڈولم پرپڑے ۔
ڈاکٹر شہر بانو : غزل اس پنڈولم کو جھولتے ہوئے غور سے دیکھو اور جو بھی
میں بولوں اس پر دھیان دو ۔ ٹھیک ہے۔میرے پیچھے پیچھے دہرانا ۔چاہے دل میں
ہی سہی۔
خوشی نے پنڈولم جوجھول رہا تھا ،اس کو دیکھنا شروع کیا۔رو رو کر وہ پہلے ہی
تھکی ہوئی تھی۔ وہ خود سکون چاہ رہی تھی ۔اس نے ڈاکٹر شہر بانو کے پنڈولم
کو دیکھنا شروع کیا ۔یہ گول سی آدھی سرخ اور آدھی سلور گیند کی شکل میں
تھا تقریباً دو آنچ ،ڈاکٹر شہر بانو نےجب محسوس کیا کہ اس کی انکھیں
پنڈولم کے ساتھ ساتھ جھول کر تھک گئی ہیں تو انہوں نے دھیرے دھیرے بولنا
شروع کیا ۔
ڈاکٹر شہر بانو:مجھے نیند آ رہی ہے ۔ میں سونے لگی ہوں ۔ مجھے نیند آ رہی
ہے ۔ میں سونے لگی ہوں ۔
جب ڈاکٹر شہر بانو نے غزل کو پر سکون پایاتو پوچھا ۔
ڈاکٹر شہر بانو:کیاتم سو چکی ہو ۔بولو بچہ، کیا تم سو چکی ہو۔
ان کی آواز بہت دھیمی تھی ۔
خوشی : میں سو چکی ہوں ۔
ڈاکٹر شہر بانو نے پنڈولم ایک سائیڈ پر رکھ دیا۔
ڈاکٹر شہر بانو: تم کہاں ہو۔
خوشی : اپنی ٹیچر کے گھر۔
ڈاکٹر شہر بانو : تمہاری ٹیچر کا نام کیا ہے؟
خوشی : مجھے نہیں معلوم۔
ڈاکٹر شہر بانو: تمہارا نام کیا ہے؟
خوشی : خوشی۔
ڈاکٹر شہر بانو:پیچھے جاو ۔ جا رہی ہو ۔ پیچھے دیکھو، ٹیچر کے پاس آنے سے
پہلے دیکھو ۔ دیکھو کہ تم کہاں ہو۔ کچھ نظر آیا۔ بولو خوشی کچھ نظر آیا۔
کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد خوشی نے جواب دیا۔
خوشی : میں ڈاکٹر شیزاد کے گھر میں ہوں ۔
ڈاکٹرشہر بانو: ڈاکٹر شیزاد کے گھر کیا کر رہی ہو؟
ڈاکٹر شہر بانو : بولو نا ڈاکٹر شیزاد کے گھر کیا کر رہی ہو؟
خوشی: دعا
ڈاکٹر شہر بانو : کیسی دعا؟
خوشی: ٹیچر مجھے اپنی بیٹی بنا لیں ۔ میں ان کے پاس ہی رہ جاوں ۔
ڈاکٹر شہر بانو: خوشی اور پیچھے جاو ،دیکھو کہ ڈاکٹر شیزاد سے ملنے سے پہلے
تم کہاں ہو ، کیا کر رہی ہو۔
خوشی : میں اپنے گھر کے قریب ایک میدان میں اینٹوں کے پیچھے چھپ کربیٹھی
ہوئی ہوں ۔
ڈاکٹر شہر بانو: اب کیا ہو رہا ہے؟
خوشی: مجھے بہت بھوک لگی ہے ۔ میں اپنے گھر کے چھت کو دیکھ رہی ہوں مگر کچھ
نظر نہیں آتا ،رات ہو گئی ہے۔
ڈاکٹر شہر بانو:خوشی اب کیا ہو رہا ہے ۔تم کہاں ہو ۔
خوشی : میدان میں میرے چچا اور فاخرہ آنٹی کےشوہر آچکے ہیں ۔وہ کوئی سفید
سا پاوڈر دس روپے کے نوٹ پر ڈال کر اسے بھی سگریٹ کے ساتھ پینے کی کوشش کر
رہے ہیں۔مجھے کھانسی محسوس ہو رہی ہے ۔ میں کھانس رہی ہوں ۔ انہوں نے مجھے
دیکھ لیا ۔میرے چچا نے کہا کہ اسے اپنے دوسرے اڈے پر لے جاتے ہیں ۔
خاموشی
ڈاکٹر شہر بانو: خوشی ،خوشی کیا ہو ا ،کیا ہو ا۔
خوشی : مجھے انہوں نے پکڑ لیا ہے ، میرے چچا نے میری بازو پکڑی ہیں اور
فاخرہ آنٹی کے شوہر کو میرا منہ باندھنے کا بول رہے ہیں ۔فاخرہ آنٹی کے
شوہر نے کہا کہ کیا کرنا چاہ رہا ہے ،بھتیجی ہے تیری۔ وہ کہہ رہے ہیں مجھے
تونظر نہیں آ رہا اس کے ماتھے پر کچھ لکھا ۔
ڈاکٹر شہر بانو : اب تم کہاں ہو؟
خوشی : بہت بدبو آ رہی ہے ۔ مجھے۔ میرے چچا نے دھکا دے کر مجھے نیچے پھینک
دی ہے۔ فاخرہ آنٹی کے شوہر کو میری بازو پکڑنے کا بولا ہے ۔
خوشی کی انکھوں سے آنسو بہنے لگے تھے ،مگر اس کی انکھیں بند ہی تھی ۔
ڈاکٹر شہر بانونے اسے ان لمحات سے بھی نکل جانے کی ترغیب دی۔
ڈاکٹر شہر بانو: اور پیچھے جاو خوشی ،تم میدان میں بیٹھنے سے پہلے کہاں تھی
۔ دیکھو ،تم میدان میں اینٹوں کے پیچھے چھپ کر کیوں بیٹھی ہو۔
کافی دیر کی خاموشی ۔ ڈاکٹر شہر بانو انتظار کر ہی ہیں کہ خوشی بتائے کہ
آخر وہ اپنے گھر سے کیونکر نکلی ۔
ڈاکٹر شہر بانو : خوشی تم کہاں ہو ۔ میدان میں آنے سے پہلے دیکھو نا بچہ
تم کہاں ہو ۔
خوشی : میں اپنے گھر کی چھت پر ہوں ۔
ڈاکٹر شہر بانو: وہاں کیا کر رہی ہوخوشی؟
خوشی : مراد سے لڑائی ۔وہ میرا لکھا ہوا کاغذ لے کر بھا گ رہا ہے۔
ڈاکٹر شہر بانو: کیا ہوا ؟
خوشی : مراد چھت سے نیچے گِر گیا ۔ اس کا خون نکل رہا ہے ، امی ،دادی نائلہ
۔سب مراد کے پاس پہنچ گئے۔ دادی نے مجھے دیکھ لیا ۔چھت پر ۔
ڈاکٹر شہر بانو: اب تم کیا کر رہی ہو۔
خوشی : گھر سے بھاگ جانے کا سوچ رہی ہوں ،ابو مجھے جان سے مار ڈالیں گئے۔
مراد میں ان کی جان بستی ہے۔
ڈاکٹر شہر بانو: خوشی چھت کے اوپر آنےسے پہلے دیکھنے کی کوشش کرو ۔تم کہاں
ہو؟
کافی دیر کی خاموشی
خوشی : اپنے کمرے میں۔
ڈاکٹر شہر بانو:کمرے میں کیا کر رہی ہو؟
خوشی : باتیں سن رہی ہوں دادی کی۔ سدرہ مر گی ہے تو مجھے سکول سے ہٹا دیا
ہے ۔ابو نے۔
ڈاکٹر شہر بانو: تم کون سی کلاس میں تھی ،جس سے تمہیں ہٹا دیا گیا ہے؟
خوشی : میں دسویں میں ۔ اس کے آنسو اس کی بند آنکھو ں سے گِر رہے تھے۔
ڈاکٹر شہر بانو : خوشی تم سو رہی ہو ؟
خوشی: میں سو رہی ہوں ۔
ڈاکٹر شہر بانو : اب تم اپنے گھر کی چھت پر ہو ۔
کچھ دیر کی خاموشی
ڈاکٹر شہر بانو : خوشی اب تم میدان میں ہو اینٹوں کے پیچھے۔
کچھ دیر کی خاموشی ، خوشی کی انکھوں میں آنسو تھے اور وہ ہچکیوں سے رو رہی
تھی۔
ڈاکٹر شہر بانو: ڈاکٹر شیزاد کے ہوسپٹل میں ہو تم خوشی۔ کیا تم ڈاکٹر شیزاد
کے ہوسپٹل میں ہو خوشی۔
خوشی : میں ڈاکٹر شیزاد کے ہوسپٹل میں ہوں ۔
ڈاکٹر شہر بانو: تمہیں اب سب سے بڑی پریشانی کیا ہے ۔ تم ہر وقت بے جین
کیوں رہتی ہو ؟
خوشی : میں نوماہ بعد ماں نہ بن جاوں ۔اگر ایسا ہو گیا تو کیا ہو گا ؟
ڈاکٹر شہر بانو: خوشی ڈاکٹر شیزاد کے گھر میں ہو تم دیکھو کیا ہو رہا ہے
وہاں؟
کافی دیرکی خاموشی
ڈاکٹر شہر بانو: خوشی ڈاکٹر شیزاد کے گھر میں کیا ہو رہا ہے؟ سالگرہ ہو رہی
ہے شایا ن کی دیکھو۔
خوشی : شایان کی سالگرہ ہو چکی ہے ۔ ڈاکٹر شیزاد اور ان کی بیوی کی لڑائی
ہو رہی ہے میری وجہ سے۔
ڈاکٹر شہر بانو : خوشی واپس آ جاو ۔ اپنی ٹیچر کے گھر میں ۔جہاں تمہیں
ڈاکٹر شیزاد چھوڑ کر گئےہیں۔
کچھ دیر کی خاموشی۔
ڈاکٹرشہر بانو: خوشی تم اپنی ٹیچر کے گھر واپس آگئی ہو ؟
خوشی : ہاں میں اپنی ٹیچر کے گھر ہوں ۔وہ مجھے پنڈولم دیکھا رہی ہیں ۔
ڈاکٹر شہر بانو: خوشی تم نیند میں ہو۔جاگنے کی کوشش کرو۔دھیرے دھیرے اپنی
آنکھیں کھولو۔ کیا تم جاگ رہی ہو؟
خوشی : میں جاگ رہی ہوں ۔
ڈاکٹر شہر بانو: اپنی آنکھیں کھول لو ۔
خوشی نے دھیرے دھیرے اپنی انکھیں کھولی ۔ اسے اپنا سر بہت بھاری محسوس ہو
رہا تھا۔ڈاکٹر شہر بانو خوشی کو واپس باہر لاونچ میں لے آئیں ۔
ڈاکٹر شہر بانو : غزل بیٹا تم یہاں بیٹھو ، میں چائے بنا کر لاتی ہوں ، پھر
دونوں پیتے ہیں ۔میر ابھی سر درد کر رہا ہے۔
خوشی نے ان کی طرف دیکھا ۔وہ پھر سے اس کے دل کی بات جان چکی تھیں ۔ خوشی
نے سوچا کاش وہ میرے دل کی باقی باتیں بھی میرے بیان کیے بغیر ہی جان جائیں
۔ مجھے اپنے پاس رکھ لیں ۔
ڈاکٹر شہر بانو: یہ لو بیٹا چائے ہے پی لو ۔ تمہارے سر کا درد جاتا رہے گا۔
خوشی نے چائے پینی شروع کی ۔ اس کا جی چاہ رہا تھا کہ چائے پیئے بغیر ہی وہ
چادر اوڑھ کر سو جائے۔ اس کی انکھیں بار بار بند ہو رہی تھیں ،جبکہ سر بہت
بھاری بھاری ہو رہا تھا۔
ڈاکٹر شہر بانو: بیٹا سو جا و اگر سونا چاہتی ہو تو؟
خوشی نے شکر کیا کہ انہوں نے اسے سونے کی اجاذت دی ہے ۔ وہ چائے میز پر رکھ
کر صوفے پر ہی سونے لگی تو ڈاکٹر شہر بانو اسے کمرے میں لے گئی ۔اسے بیڈ پر
لیٹنے کا اشارہ کیا ۔ خوشی کچھ دیر ہی میں گہری نیند سو چکی تھی۔
دو گھنٹے پورے ہو چکے تھے ڈاکٹر شیزاد آ چکے تھے۔ ڈاکٹر شہر بانو نے خوشی
کے ساتھ ہونے والی ساری بات جیت کو ریکارڈ کیا تھا ۔وہ انہوں نے ڈاکٹر
شیزاد کوسنائی ۔
ڈاکٹر شیزاد:مطلب ، غزل اب بولنے لگی ہے۔
ڈاکٹر شہر بانو : نہیں ، اسے تو پتہ بھی نہیں کہ اس نے سب کچھ بول دیا ۔ یہ
سب تو میں نے اس لیے کیا تا کہ اس کے مسائل جان سکوں ۔ اسے بولنے پر آمادہ
کرنے کے لیے ۔اس کے بارے میں جاننا بہت ضروری تھا ۔ اب مجھے پتہ ہے کہ مجھے
کیا کرنا ہے؟
ڈاکٹرشیزاد : آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں ۔وہ اب کہاں ہے۔
ڈاکٹر شہر بانو : سو رہی ہے ، آپ اس بات کا خاض خیال رکھیے گا کہ آپ کو
اس کے بارے میں کچھ نہیں پتہ ۔ آپ کی خاموشی ،اسے ٹھیک ہونے میں مدد دے
گی۔
ڈاکٹر شیزاد: آپ سمجھیں میں نے یہ ریکارڈسنی ہی نہیں ۔غزل کوجگا دیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دانش کراچی یونیورسٹی میں ایم کام کر رہا تھا۔ اس کی کلاس میں سب سے اچھی
دوستی ہو چکی تھی۔ کچھ لڑکیاں بھی ان کے گروپ میں شامل تھیں ۔ وہ سب
کیفیٹیریا یا گارڈن میں ہی ہوتے۔ پریم گلی سے ان کا واسطہ نہ تھا ۔ جو
کراچی یونیورسٹی میں محبت کرنے والوں کی جگہ مشہور تھی ۔ جہاں لڑکے لرکیاں
جوڑے کی صورت میں ایک دوسرے کی طرف منہ کیے دنیا سے بے خبر بیٹھے دیکھائی
دیتے ۔
ماریہ: یار ہم سے تو یہ لوگ اچھے ہیں ، دیکھو ان لوگوں کو آگے چل کر لائف
پارٹنر ڈھونڈنے میں پریشانی نہیں ہو گی۔
ارجمند: کہہ تو ٹھیک رہی ہو لیکن کوئی پسند بھی تو آئے ۔ میرا معاملہ عجیب
ہے جو مجھے پسند آتی ہے ۔ اُسے میں پسند نہیں آتا اور جس کی نظر مجھے پر
ہوتی ہے ۔ مجھے اس میں کچھ نظر نہیں آتا۔
ماریہ: دانش تم بتاو ۔ تمہارے ساتھ کیا معاملہ ہے؟
دانش: میں اپنے حصے کی محبت کر چکا ہوں۔
ماریہ اور سمجھیلا نے بغور اس کے چہرے کی طرف دیکھا۔
ماریہ: کیا کہا؟ کب ہمیں تو پتہ بھی نہیں چلا؟
دانش: یونیورسٹی سے پہلے۔
سمجھیلا: اب کہاں ہے وہ ؟
دانش: نے ایک آہ بھری۔چھوڑو یار ،اس کی شادی ہو گئی۔ اللہ خوش رکھے
اُسے۔میرے نصیب میں نہیں تھی شاہد۔
اریان: مطلب ، تب ہی میں سوچ رہا تھا۔یہ ہماری یونیورسٹی کا موسٹ ہینڈ سم
بوائے، پریم گلی سے دور دور کیوں رہتا ہے۔ یہ تو پہلے ہی مرچی کا مزہ لے
چکا ہے ، جو ان پریم گلی کے عاشقو ں کو بہت جلد لگنے لگی ہے۔
ماریہ : تم کیسے کہہ سکتے ہو ،ہو سکتا ہے ۔ان کے حصے میں مرچی نہیں ،مٹھائی
کے لڈو ہوں۔
اریان: ان میں سے نناوے کو تو مرچی ہی لگے گی ۔ ماں باپ ابھی بھی
اپنےبھائیوں اور بہنوں کے ہاں ہی سے رشتہ کرنا چاہتے ہیں ۔ میری امی تو
اکثر میری کزن کی تعریف میرے سامنے کرتی ہیں ۔ اسی کو بہو بنانے کا خواب
بھی دیکھ رہی ہیں ،یہاں عشق کرنے کا مطلب امی سے لڑائی ،گھر میں فساد ۔شرط
لگا لو ان میں سے ایک دو ہی شادی کریں گئے۔ کچھ خود ہی فائنل تک ایک دوسرے
سے بیزار ہو جائیں گئے۔ کچھ کو ماں باپ لال جھنڈی دیکھا دیں گئے۔
ماریہ : دانش جو ہو چکا ،سو ہو چکا ۔آگے بڑھو۔
اریان: تم تو ایسے دانش کے پیچھے پڑی ہو ۔ جیسے محبت ہو گئی ہے تمہیں ۔اس
سے ۔ یہی بات ہے نا۔
ماریہ : مجھے تو نہیں ، میری ایک دوست کو ہو گئی ہے ۔ اس نے کہا ہے کہ میں
دانش کو اس کی محبت کے بارے میں بتا وں مگر یہ جاننے کے بعد کہ کیا وہ کسی
لڑکی کے لیے دل میں کوئی گوشہ بنا سکتا ہے۔
دانش: میں باز آیا محبت سے ۔ ابھی پہلی بھی خوابوں میں آ کر جگا دیتی ہے۔
دوسری کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ میں تو کہتا ہوں ، محبت کرنی ہی نہیں چاہیے۔
اپنی دوست سے کہو ، کوئی اور کندھا ڈھونڈے ۔میں پہلے ہی بہت بوجھ لیے گھوم
رہا ہوں ۔
ماریہ نے افسردگی کے ساتھ سمجھیلا کو دیکھا ، جو رفیق کو پسند کرتی ہے ۔
اریان : تم اسے فون کر کے کہا کرو نا۔ تم بن جیا جائے کیسے ،کیسے جیا جائے
تم بن۔
دانش: اچھا۔
اریان: تو اور کیا ۔
سب ہنسنے لگے ۔ماریہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔
ماریہ : اصل زندگی میں کہاں کوئی لڑکی اپنے پہلے عاشق کے پاس لوٹ آتی
ہے۔اچھا ہے کہ دل میں کسی اور کو بسا لو ۔ ایک محبت کو بھلانے کے لیے دوسری
محبت کرنا لازمی ہے۔
اریان : اچھا ۔اس کا مطلب ہے کہ پہلی مار کو بھلانے کے لیے دو چار اور مکے
،تین چار اور لاتیں کھا لو پھر دوسری مار یاد رہے گی ،وہ تازہ تازہ ہو گی۔
ماریہ: اریان کبھی کبھی انسان سنجیدہ بھی ہو جاتا ہے۔ فارگارڈ سیک۔
دانش: چلو یار کچھ لے کر آتے ہیں ۔ مجھے تو کچھ کھانے کا دل کر رہا ہے۔
اریان : ہاں ورنہ یہ نہ ہو ۔ماریہ تمہیں محبت کروا کر ہی دم لے۔
ہنستے ہوئے اریان اوردانش گھاس پر سے اُٹھ چکے تھے ۔ ارجمند بھی ان کے ساتھ
کیفیٹریا کے لیے جانے لگا ۔
دانش: گرلز ،آپ لوگوں کے لیے کچھ لے کر آئیں ہم ۔
سمجھیلا اور میرے لیے کوک ہی لے آو بس۔ ماریہ نے آرڈ دینے کے انداز میں
کہا۔
اریان :میڈم جو آپ کہیں ۔ چلو یار ۔
تینوں نے کیفیٹریا کی طرف رُخ کر لیا۔
ماریہ نے سمجھیلا کی طرف مایوسی سے دیکھا۔
ماریہ : یہاں تمہارا کچھ نہیں ہو سکتی ۔ دانش کے دل میں تو پہلے ہی کوئی
اور رہتی ہے ۔ شادی ہو گئی پھر بھی۔ دیکھا نہیں تم نے بات کرتے ہوئے اس کے
چہرے کا رنگ ۔ کیسے اس کے خوش رہنے کی دُعا کر رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خوشی اپنےکمرے میں بیٹھی تھی ۔ڈاکٹر شیزاد کمرے میں داخل ہوئے ۔
ڈاکٹر شیزاد: غزل بیٹا میں سوچ رہا ہوں۔ تمہیں سکول میں داخل کروا دوں ۔
خوشی نے حیرت سے ڈاکٹر شیزاد کی طرف دیکھا۔ پانچ ماہ ہو چکے تھے وہ یہاں پر
تھی ۔اس نے اپنے آپ کو غور سے دیکھا ۔ وہ اکثر اپنے کمرے میں ہی رہتی ۔
ڈاکٹر شیزاد : میں نے سکول والوں سے بات کی ہے ۔تمہارا ٹیسٹ ہو گا اگر تم
نے پاس کر لیا تو تمہیں دسویں جماعت میں ایڈمیشن مل جائے گا۔
خوشی کو مذید حیرت ہوئی کہ ڈاکٹر شیزاد کو کیسے پتہ چلا کہ وہ دسویں جماعت
میں تھی۔
ڈاکٹر شیزاد : بیٹا ا ٓپ ریڈی ہو جاو۔
کچھ دیر میں غزل اور ڈاکٹر شیزاد بیکن سکول میں وہاں کی ہیڈ سے بات کر رہے
تھے ۔
ڈاکٹر شیزاد نے کہا ایک حادثہ کی وجہ سے میری بیٹی نے بولنا چھوڑ دیا ہے
لیکن یہ بہت لائق ہے ۔ آپ اس کا ٹیسٹ لے سکتی ہیں ،پھر جس کلاس کے لیے آپ
اس کو بہتر سمجھیں ،ڈاکٹر شیزاد یہاں اپنے ایک ریفرنس کے ساتھ گئے تھے
۔انہیں انکار کرنا ہیڈ کے بس کی بات نہیں تھی ۔ ٹیسٹ تو ایک فارمیلٹی تھی ۔
خوشی کو انہوں نے داخلہ دینا ہی تھا۔
ٹیسٹ دینے کے بعد خوشی کو بیس منٹ میں سکول میں غزل شیزاد کے نام سے داخلہ
مل چکا تھا۔
ڈاکٹر شیزاد: غزل شیزاد چلیں آپ کے لیے بیگ اور بک لیتے ہیں ۔
خوشی کو سکول سے متعلقہ ہر چیز ڈاکٹر شیزاد نے لے کر دی۔ خوشی کے چہرے پر
بیگ لیتے ہوئے ڈاکٹر شیزاد نےایک ہلکی سے مسکراہٹ دیکھی ۔ ان کے دل میں
آیا کاش یہ بچی بولنے لگے۔
آج اسے ڈاکٹر شہر بانوکے پاس بھی جانا تھا۔ ڈاکٹر شیزاد اپنا بہت ذیادہ
وقت اسے دیتے تھے ۔ عنابیہ ڈاکٹر شیزاد سے ناراض تھی ۔وہ ان سے بہت کم بات
جیت کرتی ، مگر ڈاکٹر شیزاد کو خوشی کی خوشی ذیادہ عزیر رہتی تھی۔
ڈاکٹر شیزاد نے اسے ڈرائیور کے ساتھ ڈاکٹر شہر بانو کے گھر پہلی بار بھیج
دیا تھا۔
ڈاکٹر شہر بانو: آو غزل اندر آجاو۔
ڈاکٹر شہر بانو نے خوشی کو دیکھتے ہی کہا۔ وہ کمرے میں بیٹھی ٹی وی دیکھ
رہی تھیں۔خوشی کو ایسا لگامگر جب خوشی کمرے میں آئی تو اس نے دیکھایہ ٹی
وی نہیں تھا ،کمپیوٹر تھا۔
ڈاکٹر شہر بانو: کتابیں لے کر آئی ہو اپنی ؟
خوشی نے اپنا بیگ آگے کر کے انہیں دیکھایا۔
ڈاکٹر شہر بانو نے اسے اپنا جائزہ لیتے ہوئے دیکھا ۔
غزل : چلو تم بھی موی دیکھو میں تمہیں سٹوری بتاتی ہوں ۔ موی کا نام ہے
۔کیا کہنا۔ انڈین موی ہے ۔
ڈاکٹر شہر بانو: کبھی موی دیکھی ہے تم نے؟
خوشی نے سر نہیں میں ہلایا۔
ڈاکٹر شہر بانو: حیرت ہے ۔ تم ڈاکٹر شیزاد کی ہی بیٹی ہو نا؟
خوشی نے نہیں میں سر ہلایا۔
ڈاکٹر شہر بانو نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ہاتھ میں لیا ۔
ڈاکٹر شہر بانو: ہاں تم تو میری بیٹی ہو نا۔ مگر مجھ سے بات نہیں کرتی ۔
خوشی نے زبان اپنے ہونٹوں پر پھیری۔
خوشی: میں
ڈاکٹر شہر بانو: بولو بیٹا بولو ۔
خوشی : مجھے
ڈاکٹر شہر بانو : کیا مجھے ؟
خوشی: مجھے آپ سے کچھ پوچھنا ہے۔
خوشی نے بہت دھیرے دھیرے سے اپنے الفاط دہرائے ،پچھلے تین دن سے وہ ان کی
پریکٹس کر رہی تھی کہ جب ٹیچر سے ملے گی تو ضرور پوچھے گی۔
ڈاکٹر شہر بانو: جو چاہو پوچھو۔
خوشی : وہ
وہ پھر خاموش ہو گئی ۔اس کے الفاظ اس کا ساتھ نہیں دے رہے تھے ۔ ڈاکٹر شہر
بانو نے اُٹھ کر مووی کو دوبارہ لگا دیا ،جو پہلے سے لگی ہوئی تھی ۔انہوں
نے خوشی کے آنے پر اسے روکا تھا۔چلو مووی پوری دیکھ لیں ،پھر تم پوچھ
لینا۔ جو بھی پوچھنا چاہو۔
ڈاکٹر شہر بانو: مووی ہوتی کیا ہے یہ تو پتہ ہے نا۔
خوشی : جی
مریم دیکھتی تھی فلمیں ۔ کبھی کبھی اسے بھی بتاتی تھی۔ ہیرو اور ہیروئین
ہوتے ہیں ۔ پیار کرتے ہیں ۔شادی نہیں ہوتی ،شادی ہو جاتی ہے تو فلم ختم ۔
وہ مریم کو منع کرتی ،فلمیں نہ دیکھا کر پڑھائی کیا کر ۔ اسی لیے تو فیل ہو
جاتی ہے۔ مریم کہتی ۔تو دیکھتی نہیں ہے نا تجھے کیا پتہ کتنا مزاآتا ہے ۔
سوچ میں ڈوبا ہو ا دیکھ کر ڈاکٹر شہر بانو نےخوشی کی پیٹھ پر ہکا سا
تھپتھپایا۔
ڈاکٹر شہر بانو : کہاں ہو غزل؟
خوشی :جی
ڈاکٹر شہر بانو : تمہیں سٹوری بتا دیتی ہوں ۔ایک لڑکی نئے کالج میں داخل
ہوتی ہے، دیکھو یہ والی ۔انہوں نے پریتی کی فوٹو آتے ہی،تصویر روک دی۔ اس
لڑکی کو ایک لڑکے سے پیار ہو جاتا ہے ۔ پھرشادی سے پہلے ہی اس کے بچے کی
ماں بننے والی ہوتی ہے ۔
خوشی کو اپنے دل کی دھڑکن تیز ہوتی ہوئی محسوس ہوئی ۔ وہ بھی تو اسی بارے
میں ہی ٹیچر سے کچھ پوچھنا چاہ رہی تھی۔
ڈاکٹر شہر بانو : تم کچھ نہیں سوچو ، صرف سنو۔ پھر اس لڑکی کے ماں باپ اسے
اس بچے کو مار ڈالنے کا کہتے ہیں ۔ وہ انکار کر دیتی ہے ۔ اب دیکھو آگے ۔
باقی کی فلم خوشی نے دیکھنی شروع کر دی۔وہ چپ چاپ پوری فلم دیکھتی رہی۔ اسے
اس کے بہت سے سوالوں کے جواب مل چکے تھے ۔پھر بھی اس نے ہمت کر کےاپنی ٹیچر
سے پوچھا۔
خوشی: ٹیچرچار پانچ ماہ کے بعد ماں بننے والی ہر لڑکی پریتی کی طرح موٹی ہو
جاتی ہے ۔ جیسا فلم میں دیکھایا گیا ہے۔
ڈاکٹر شہر بانو: ظاہر ہے تمہارے جیسی تو نہیں لگے گی نا۔موٹی ہو جاتی ہے
،بچہ کو بھی تو پیٹ میں جگہ چاہیے تو، اس کا پیٹ بڑا ہو جاتا ہے۔ تکلیف بھی
تو ہوتی ہے ۔
خوشی : اگر
وہ خاموش ہو گئی ،تو ڈاکٹر شہر بانو نے پاس آ کر اس کا ماتھا چوما ۔
ڈاکٹر شہر بانو: تمہارے دل میں جو آئے بولو بچہ ۔پریشان ہونے کی ضرورت
نہیں ہے۔ تمہاری کوئی بات بھی میں کسی اور سے تھوڑی ہی کروں گی۔
خوشی: اگر کوئی لڑکی فلم کی ہیروین کی طرح کسی سے پیار نہ کرتی ہو اور اپنی
مرضی سے کوئی غلط کام نہ کرئے تو کیا پھر بھی وہ غلط ہے ،اسے سزا ملنی
چاہیے۔
ڈاکٹر شہر بانو: سزا ، کیسی سزا
خوشی : لوگ اسے بُرا کہیں گئے؟
ڈاکٹر شہر بانو: بُرا تو نہیں کہیں گئے ۔ہمدری ہی کریں گئے ۔ ویسے لوگوں کو
تو تب پتہ چلتا ہے نا جب لڑکی حاملہ ہو جائے ۔ کسی لڑکی کے ساتھ جب کوئی
زیادتی ہوتی ہے ،تو اگر وہ زندہ بچ جائے تو اکثر ڈاکٹر لوگ، جن کے پاس وہ
جاتی ہے۔ اسے ایسی دوا دے دیتے ہیں ۔جس سے حمل ٹھہرتا ہی نہیں ۔
خوشی : جی
خوشی کو محسوس ہوا ۔وہ اتنے ماہ یونہی ،اس کرب سے گزری ہے۔مطلب جب وہ ڈاکٹر
شیزاد کے پا س لائی گئی ہو گی تب ہی انہوں نے اس کو دوا دے دی ہو گی۔ڈاکٹر
شہر بانو نے اس کے چہرے پر اطمینان محسوس کیا۔
ڈاکٹر شہر بانو: غزل بیٹا ،تم میری بات مانو گی۔
خوشی : جی۔
ڈاکٹر شہر بانو: بچہ تم بات جیت شروع کرو ۔ اب سکول میں جاو گی تو ،دوست
بنانا۔
خوشی : جی
ڈاکٹر شہر بانو: تم کیا بننا چاہتی ہو بڑی ہو کر۔
خوشی: میں آپ کی طرح ٹیچر بنوں گی ،اس کے چہرے پر خوشی تھی۔
ڈاکٹر شہر بانو: یہ تو بہت اچھی بات ہے،بیٹا۔
خوشی: فلم میں لڑکی نے کسی اور سے شادی کر لی ۔ کیا اسے ساری زندگی برا
نہیں لگےگا۔عزت کے۔۔۔
وہ خاموش ہو گئی۔
ڈاکٹر شہر بانو: عزت کوئی چیز نہیں ہے بیٹا جو کوئی آپ سے چھین لے ۔ عزت
ہماری ذات کا حصہ ہوتی ہے ۔ہم اپنی ذات کو کیسی نظر سے دیکھتے ہیں ،یہ اہم
ہے ۔ گٹر میں اگر انسان گر جائے تو گندگی نہیں بن جاتا ۔ بس اسے گندگی لگ
جاتی ہے ۔ وہ نہا دھو کر اس گندگی کو خود سے دور کر لیتا ہے ۔ دوبارہ سے
وضو کر کے پاک ہو جاتا ہے۔
خوشی: اگر گندگی اس کے اندر چلی جائے تو؟
ڈاکٹر شہر بانو: تم نے کسی مرے ہوے انسان کو دیکھا ہےکبھی؟
خوشی : جی ۔
اسے بے اختیار سدرہ یاد آئی ۔جس کے ناک میں روئی ڈلی ہوئی تھی ،پھر بھی
بار بار خون کی وجہ سے اس کی کوئی رشتہ دار عورت روئی کو تبدیل کر رہی
تھی۔اس کی مانگ نکلی ہوئی تھی۔ اس کے گیلے گیلے بال اس کے شانوں پر پڑھے
تھے ۔
داکٹر شہر بانو نے اس کے منہ کے آگے چٹکی بجائی۔
ڈاکٹر شہر بانو: بیٹا اگر گندگی اندر چلی بھی جائے تو وہ روح کے اندر نہیں
جاتی ۔ روح میں صرف وہی چیز جاتی ہے ۔جو انسان بھیجنا چاہتا ہے۔ہر وہ کوشش
جو منظم طریقے سےکی جاتی ہے ۔اس کے لیے انعام موجود ہوتا ہے۔ کوئی دوسرا
آپ کی روح میں کچھ بھی داخل نہیں کر سکتا ،جب تک آپ خود نہ چاہیں۔تم اپنی
روح کو اپنی مرضی سے پاکیزہ یا غلیظ بنا سکتی ہو ،کوئی دوسرا اس میں ذرا سی
آمیزش بھی نہیں کر سکتا۔
خوشی : روح۔
ڈاکٹر شہر بانو : ہاں روح ،جسم سے ذیادہ اہم ہے روح ۔ تمہاری روح مجھے نیک
اور پاکیزہ لگتی ہے۔
خوشی نے ان کی طرف ایک نظر دیکھا اور دل میں سوچا اور مجھے آپ کی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شفق کو کچھ دن سے فیصل کی باتوں میں مذیدشدت پسندی چھلکتی ہوئی محسوس ہوئی۔
وہ رات دیر دیر تک کہاں رہتا ہے۔ اس کا تذکرہ وہ نہیں کرتا تھا۔ رات کے ایک
بجے وہ جب گھر آتا تو کچھ دیر ،کمرے کی چھت کو گھورتا رہتا ۔ آج بھی وہ
اپنے روز کے شغل میں مصروف تھا ۔ شفق نے دھیرے سے کہا۔
شفق: سنیں وہ ، ہماری شادی کے بعد سے میں امی سے نہیں ملی ۔ میں کراچی جانا
چاہتی ہوں۔کچھ دنوں کے لیے ہم چلیں ۔
فیصل: ابھی تو چھ ماہ بھی نہیں ہوئے ۔ تمہیں یاد آرہی ہے ،اپنی امی کی۔
شفق: جی
فیصل : اگر میں کہیں چلا جاوں، تو تمہیں یاد آوں گا۔
شفق نے دل میں سوچا ۔آج فیصل کو کیا ہوا ہے ۔ اس کے لہجے میں نرمی کیسے
آگئی۔سوال بھی وہ ایسا کر رہا ہے ،جیسے دانی کہتا تھا ۔ میں تمہیں یاد
آتا ہوں شفق۔
فیصل : تم نے جواب نہیں دیا؟
شفق: جی
فیصل : کیا جی ؟ یاد آوں گا ۔یانہیں یاد آوں گا؟
شفق: یاد آئیں گئے۔
فیصل : تم اس دنیا میں سب سے ذیادہ پیار کس سے کرتی ہو؟
شفق : اپنی امی سے۔
فیصل:پھر سوچو سب سے زیادہ پیار ۔جس کے لیے تم مرنے مارنے کو تیار ہو جاو۔
شفق نے سوچنے کی کوشش کی ۔ وہ تو شروع سے ہی ڈرپوک تھی ۔ مرنے مارنے کی
باتوں سے ہی اُسے خوف آتا تھا۔ اس کے گھر کا ماحول بھی ایسا تھا کہ ہر ایک
سے پیار کرنے ،دوسروں کا خیال رکھنے کا سبق ہی اس کو یاد تھا ۔ یہ مرنے
مارنے کے بارے میں تو اس نے کبھی سوچا ہی نہ تھا۔
شفق: پتہ نہیں ۔
فیصل : تمہارا قصورنہیں ، ہماری تربیت ہی غلط کی گئی ہے۔ تمہیں پتہ ہے
،ہمارے مومن ہونے کی شرط کیا ہے ۔ ہمارے نبی ﷺ سے محبت۔ کیا تم نے حدیث
نہیں سنی ۔ آپ ﷺ نے واضح الفاظ میں بیان فرما دیا ہے کہ تم میں سے کوئی
شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اسے ،اس کے ماں باپ اوراہل و
عیال سے ذیادہ محبوب نہ ہو جاوں ۔
شفق نے خاموشی اختیار کر لی، اس نے اس طرح سے تو سوچا ہی نہیں تھا ۔جس طرح
کا جواب وہ سننا چاہ رہا تھا۔
فیصل : مومن تو آزمائے جائیں گئے۔ رب کا فرمان ہے ، قرآن میں تم نے پڑھا
نہیں کیسے رب فرماتا ہے ۔ مومن آزمائے جائیں گئے۔ کبھی مال کی کمی سے تو
کبھی جان کے خوف سے۔میں ہر آزمائش کے لیے تیار ہوں ۔ ابدی جنت کے لیے یہ
کھوکھلی دنیا ۔یہ کچرے کا ڈھیر کس کو چاہیے۔مومن عورتیں اور مومن مرد سب کے
سب جنتی ہیں ۔ کیا تم جان دے سکتی ہو ۔اگر بلاوا آ جائے تو۔
شفق : بلاوا
فیصل : ہاں اگر رب کی طرف سے حکم ہو کہ جان دو ۔تودو گی؟
شفق : رب نے جان دینے کا حکم دیا ہے ۔یہ کون بتائے گا؟
فیصل : تم نے حدیث نہیں سنی ، یہ حدیث قدسی کہ جب میرا مومن بندہ میرا ہو
جاتا ہے ۔تو میں اس کے ہاتھ بن جاتا ہو ں، جس سےوہ کام کرتا ہے ۔میں اس کی
آنکھ بن جاتا ہوں ،جس سے وہ دیکھتا ہے، میں اس کی زبان بن جاتا ہوں ، جس
سے وہ بولتا ہے ۔ میں اس کے پاوں بن جاتا ہوں ،جس سے وہ چلتا ہے۔وہ مومن جو
بولے گا ،وہ اللہ کاحکم ہی تو ہو گا۔
شفق: کون سا مومن؟
فیصل : کوئی بھی مومن ۔
شفق : ہم یقین کیسے کر یں کہ وہ مومن ہے ، ممکن ہے کہ اسے غلط فہمی ہوئی ہو
۔یہ بھی ممکن ہے کہ ہمیں غلط فہمی ہوئی ہو۔
فیصل : پتہ چل جاتا ہے ۔مجھے دیکھ کر نہیں لگتا میں عاشق رسولﷺ ہوں ۔ میرے
چہرے کی دھاڑی ، میرے اُٹھے ہوئے پائنچہ ،یہ سب اس بات کی گواہی دیتے ہیں
کہ میں سچا عاشق رسول ﷺہوں ۔
شفق کے منہ سے نکل گیا۔
شفق : یہ تو ظاہر ہے ، باطن میں نبیﷺ سے ملنا اصل عاشقی کی علامت ہے۔
فیصل اُٹھ کر بیٹھ گیا۔
فیصل : تمہارا کیا مطلب ہے میں باطن میں عاشق رسولﷺ نہیں ہوں؟
شفق: میرا وہ مطلب نہیں تھا۔
شفق اب بُری طرح پھنس چکی تھی۔ اس نے اپنے آپ کو بچانے کے لیے دماغ کے
گھوڑے دوڑائے۔اسے کچھ جواب اور باتیں ذہین میں آتی ہوئی محسوس ہوئیں۔
فیصل : میں وہی تو جاننا چاہ رہا ہوں ،تمہارا کیا مطلب تھا؟
شفق: جس طرح کچھ منافقوں نے مسجد ضرار بنائی تھی ،تاکہ مومنوں کے دلوں کو
نبیﷺ سے متنفر کرنے کے لیے،وہاں منصوبے بنائیں ۔ وہ بھی مومنوں کی طرح نماز
پڑھتے ، اپنے ٹخنے ننگے رکھتے ،یہاں تک کہ ان کے ماتھے سجدوں کی وجہ سے
نشان ذدہ تھے ۔ رب نے قرآن میں ان کا بھید کھول دیا ۔ وہ مومن نہیں ،آپ ﷺ
کو اور صحابؓہ کو خبر دی کہ وہ مومنوں میں سے نہیں ۔منافق ہیں ۔ کہیں ان کے
سجدے تمہیں دھوکا نہ دیں ۔
فیصل کچھ دیر خاموش رہا ۔ وہ کچھ پریشان لگ رہا تھا۔
فیصل : تمہارا مطلب ہے کہ ممکن ہے ہم جسے مومن سمجھ کر اس کا کہا ماننے
لگیں ،وہ صرف ظاہری مومن ہو ، وہ اپنی طرف سے کہہ دے کہ رب نے یہ کہا
ہے۔ہمیں یقین نہیں کرنا چاہیے۔
شفق : مجھے اس بات کو سمجھنے کے لیے ایک کہانی نے مدد کی ہے ۔ کیا آپ کو
سناوں؟
فیصل : ہاں سناو۔
شفق :ایک بہت نیک عورت جو اپنے محلے اور علاقےمیں دین دار مشہور تھی ،لوگ
اس کی بہت عزت کرتے تھے ۔ وہ اکثرلوگوں کو بشارتیں دیتی ۔وہ سچ ہو جاتیں ۔
وہ جیسے جیسے بوڑھی ہو رہی تھی ،وہ ویسے ویسےاور مشہور ہو رہی تھی ۔لوگ اس
کے گھر میں ہر وقت آتے جاتے رہتے تھے ،مگر وہ ان سے کچھ نہ لیتی ۔ سب کو
اس پر یقین کامل تھا ،وہ جو کہتی ہےٹھیک ہے ۔
ایک دن بوڑھی عورت نے خواب دیکھا۔ ایک بہت بڑے سے لکڑی کے ڈبہ میں بہت سے
لو گوں کے ساتھ بیٹھی ہے اور لکڑی کا وہ ڈبہ پانی میں تیر رہا ہے ۔وہ حج پر
جا رہے ہیں ، حضرت موسی ؑ کو جس طرح ان کی ماں نے اللہ کا نام لے کر چھوڑ
دیا تھا ، حضرت لوط ؑ نے جس طرح اپنے ماننے والوں کو کشتی میں بیٹھاتے ہوئے
کہا تھا کہ اس کشتی کا رکنا اور چلنا اللہ کے حکم سے ہے۔ اسی طرح وہ کہہ
رہی ہے کہ اس ڈبہ میں سب کے سب بیٹھ جاو ۔ اس کا چلنا اور ُرکنا اللہ کی
طرف سے ہے۔ اس نے اپنے ماننے والوں کو اپنا خواب سنایا ۔
اس کے ایک ماننے والے بڑھی نے کہا، مائی میں لکڑی کا بڑا سا ڈبہ بناوں
گا،نہ صرف ڈبہ بناوں گا ،بلکہ تیرے ساتھ اس ڈبہ میں بیٹھوں گا بھی ۔ سادہ
لوگ تھے ۔ وہاں پر موجو د سب سے جو امیر تھا ،اس نے کہا میں کراچی کے سمندر
میں اس ڈبہ کو پہنچانے میں تمہاری مدد کروں گا ۔ اس امیر آدمی کا جوان
اکلوتا بیٹا جو امیر آدمی سمجھتا تھا کہ اُسی عورت کی دُعا کی وجہ سے اسے
رب نے دیا تھا ،وہ بھی حج پر جانے کے لیے تیا ر ہو گیا۔ اس قصبہ کے تقریباً
دو سو لوگ ۔ اس ڈبہ میں بوڑھی عورت کے کہنے پر اس کے ساتھ سفرکرنے کے لیے
تیار ہو گئے ۔کسی نے یہ سوچنے کی زحمت نہیں کی کہ حج پر جانے کے لیے یہ
طریقہ درست بھی ہے یا نہیں ۔ بوڑھی عورت کا دماغ تو خراب نہیں ہو چکا ۔ مگر
کسی نے ایسا نہ سوچا۔انہوں نے اس نیک عورت کو ولی مان کر سر تسلیم خم کیا۔
امیر آدمی اور لوگوں نے خود بھی کراچی کے سمندر تک ڈبہ کو لانے کے لیے
پیسے فراہم کیے ۔ بوڑھی عورت نے کہا ۔ رب تو کہتا ہے کہ ،ہو جا ۔تو ہو جاتا
ہے ۔ہمیں کسی زاد راہ کی ضرورت نہیں ۔ جب سب لو گ رات کے اندھرے میں ڈبہ
میں اللہ کا نام لے کر بیٹھے تو کچھ ملاحوں کی مدد سے باکس کو سمند ر میں
اللہ کے نام پر چھوڑ دیا گیا ۔پھر یہ ہوا کہ،وہ لوگ جو اپنے پیاروں کو
چھوڑنے آئے تھے ۔ انہوں نے دیکھا ۔ باکس کچھ دیر تو پانی میں تیرتا رہا
۔پھر پانی کی اُٹھتی لہروں میں الٹا ہو گیا ۔ انہیں اپنے پیاروں کی چیخوں
کی ہلکی ہلکی آواز سنائی دی ۔ سب کے سب مر گئے۔
فیصل پہلی بار بڑی خاموشی سے اس کی بات سن رہا تھا ۔ وہ بھی پوری کہانی
سناتی جا رہی تھی جیسے اس کی ماں نے اسے سنائی تھی۔
شفق : کبھی کبھی ہم جس طرح سمجھ رہے ہوتے ہیں ،چیزیں اس طرح نہیں ہوتی ۔ اب
کون کہے کہ وہ شہید ہیں ۔ خود کشی تو حرام ہے ۔ہمارے پیارے نبی ﷺ تو رحمت
العالمین ہیں ۔ وہ مرنے مارنے کا اس دور میں کیوں کہیں گئے ۔ اس وقت دین کو
عام کرنا تھا ، اب تو دین عام ہو چکا ۔ قرآن میں اللہ کہتا ہے ۔گمرائی
،ہدائت سے علیحدہ ہو چکی، اب جو چاہے اپنے رب کی طرف جانے کا راستہ بنا
لے۔دین میں کوئی زبردستی نہیں ۔
فیصل خاموش تھا ۔ شفق کو محسوس ہوا کہ وہ سوچ رہا ہے ۔ جیسے کسی فیصلے پر
پہنچ رہا ہے۔کچھ دیر بعد اس کی نیند سے بوجھل انکھیں نیم واہ تھیں اوروہ
اکیلے میں بڑبڑھا رہا تھا ۔ نہیں میں نہیں کروں گا۔ نہیں میں یہ نہیں کروں
گا۔ کیا پتہ یہ غلط ہو ۔
شفق نے ٹائم دیکھا چار ہونے والے تھے ۔ وہ اُٹھی اور لائٹ آف کر دی ۔ وہ
سوچ رہی تھی، شادی کے بعد آج پہلی بار فیصل نے اس کی بات سنی بھی اور مارا
بھی نہیں ۔ وہ کتنا ذیادہ بولی ہے آج ۔ کاش سب کچھ ٹھیک ہو جائے۔ فیصل
ٹھیک ہو جائے۔ اس کی کب آنکھ لگ گئی اسےپتہ بھی نہ چلا۔آج پہلی بار اسے
نماز کے لیے فیصل نے نہیں جگایا تھا۔
وہ فوراً اپنے بستر سے اُٹھی ۔ بستر پر فیصل نہیں تھا۔ اسے تعجب ہوا ۔ اگر
وہ اس سے پہلے جاگ جاتا تو لازمی اسے جگاتا پھر وضو کے لیے جاتا ۔آج ایسا
نہیں ہوا تھا ۔ اس نے واش روم میں جا کر دیکھا ۔ فیصل وہاں بھی نہیں تھا ۔
اس نے سوچا شاہد وہ نماز کے لیے چلا گیا ہے ۔ اس نے وضو کیا اور نماز کے
لیے کھڑی ہوئی ۔ اس نے پہلی بار اپنے دل میں فیصل کے لیے ہلکی سی جگہ محسوس
کی۔ شفق نے رب سے پہلی دفعہ اولاد کی دُعا مانگی ۔ اس کے باوجود کےوہ جانتی
تھی فیصل اسے اولاد کی نعمت نہیں دے سکتا ۔اس نے دُعا کرتے ہوئے کہا ۔ اے
رب تو ہر قسم کی عاجزی کو عاجز کر دینے والا ہے ۔جہاں ہم انسان اپنی ساری
قوت لگانے کے بعد اپنے مسائل حل کرنے سے عاجز آ جاتے ہیں تو اپنی ہر عاجزی
تجھے سونپ دیتے ہیں ۔ تو مجھے اولاد عطا کر جو میرے لیے صدقہ جاریہ ہو۔اس
کی انکھوں سے آنسو اس کی ہتھیلی پر گرِے ۔ وہ کافی دیر خاموشی سے نماز پر
ہی بیٹھی رہی۔ اس نے سکون محسوس کیا تو اُٹھ کر بستر پر لیٹ گئی۔ جب وہ
دوبارہ اُٹھی تو بھی فیصل کمرے میں نہیں تھا ۔کافی دیر گزر چکی تھی شفق کو
فکر ہوئی تو وہ ماموں کے پاس گئی۔
شفق : ماموں وہ ابھی تک فیصل نماز پڑھنے کے لیے گئے تھے ۔واپس نہیں آئے۔
فرحان : ابھی تو صبح کے آٹھ ہو چکے ہیں ۔اب تک تو اُسے آجانا چاہیے تھا۔
شفق:جی ۔روز تو جلدی ہی آجاتے ہیں۔
دن ڈھل گیا تو فرحان اور سحریش بہت پریشان ہو گئے۔ فرحان نے تمام ہوسپٹل سے
پتہ کیا ۔ فیصل کے تمام دوستوں سے پتہ کیا ۔فیصل کا کچھ پتہ نہ چلاتو فرحان
نے پولیس کی مدد لینے کی سوچی۔
فرحان : میں پولیس اسٹیشن جا رہا ہوں ۔
شفق: ماموں یہ بھی لے جائیں۔
اس نے فیصل کی تصویر فرحان کو تھمائی۔وہ تصویر کو لے کر چلے گئے۔ |