یار کوہم نے جا بجا دیکھا - قسط نمبر 2

دوپہر 12 بجے اس کی آنکھ کھلی تو آس پاس ماں باپ اور دوست کو بیٹھے دیکھا۔اس کو آنکھیں کھولتا دیکھ کر وہ اس کی طرف لپکے۔
تم ٹھیک ہو نا دیپ؟ ماں نے پاس ہو کر پیار سے سر پہ ہاتھ پھیرتے ہوۓ پوچھا
کتنی بار کہا ہے اتنی مت پیا کر خودتو مر جاؤ گے ہمیں چھوڑ دو گے ساری عمر رونے کو۔ باپ نے خفگی سے منہ پھیر کر کہا
دیپ بتا نایارکیا ہوا تھا؟انیل بتا رہا تھا تجھے کسی کار والےنے ٹکر مارنےکی کوشش کی تھی اور کسی لڑکی نے تجھے بچا لیا۔کون تھا وہ کار والا بتا نا؟ روہت بھی بہت پریشانی سے پوچھ رہا تھا
روہت کی بات سنتے ہی یکدم سندیپ کی آنکھوں کے سامنے کار کے ٹکرانے سے لیکرخودکوموت کے سپردکرنے تک کا سارا منظر کسی فلم کی طرح چل گیا۔
وہ اس طرح ایک جھٹکے سے اٹھ کے بیٹھا کے سب ہڑبڑا کر پیچھے ہٹ گۓ۔وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے اپنے سینے سے پیٹ تک کو بار بار چھو کر دیکھ رہا تھا سب پریشانی سے اس کی حرکتوں کو دیکھ رہے تھے۔
دیپ کیا بات ہے بیٹا کیا ہوا ہے میری جان یہ کیا کر رہے ہو؟ ماں نے پریشان ہو کے پوچھا
میں کیسے بچ گیا مما میں تو مر گیا تھا؟ وہ انتہایئ حیرت میں ڈوبا دیوانہ وار اپنا جسم چھو رہا تھا
یہ کیا کہہ رہے ہو بیٹا دیکھیں نا کیا ہو گیا ہے اسے؟ ماں نے روتے ہوۓ سندیپ کے باپ سے کہا
کچھ نہیں ہوا اسے جتنی پی چکا ہے یہ دو دن تو لگیں گے ہی اترنے میں۔ باپ نے غصے سے کہا
میں سچ کہہ رہا ہوں پاپا میں واقعی مر گیا تھا مجھے کسی نے نہیں بچایا۔ اسے حقیقت میں بہت شاک لگا کہ آخر وہ کیسے زندہ بچ گیا
کیا بک بک کر رہے ہو ہوش میں آٶدیکھو آنٹی کتنی پریشان ہو رہی ہیں۔روہت اسے جھنجھوڑ کر پوچھ رہا تھا
میں سچ کہہ رہا ہوں یار تو تو میرا یقین کر کارنے یہاں ہاں بالکل یہاں ہٹ کیا تھا مجھے۔میں اچھل کے وہ دور جاگرا تھا۔وہ کبھی اپنے پیٹ کو ہاتھ لگا رہا تھا تو کبھی دروازے کی طرف اشارہ کر کے دور کا فاصلہ سمجھا رہا تھا
مجھے اتنا درد تھا مماکہ میری جان ہی نکل گئ اور پھرمیں سچ میں مر گیا تھا آپ تو میرا یقین کریں گی نا؟ اب وہ اپنی ماں کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر انہیں یقین دلانے کی کوشش کر رہا تھا
باہر نکلو تم دونوں جتنی پی لی ہے اس نے اترنے میں ٹائم تولگے گا ہی۔دو دن بند رہے گا اسی کمرے میں تو خود ہی عقل ٹھکانے آ جاۓ گی۔ باپ نے غصے سے کہا اور باہر نکل گیا پیچھے پیچھے ماں اور دوست بھی باہر نکل گۓ اور وہ بیڈ پہ بیٹھا رہ گیا۔
جب کھٹاک سے دروازہ بند ہونے اورلاک ہونے کی آواز آئی وہ تقریباًبھاگتا ہوا دروازے تک گیا
مما میں ہوش میں ہوں میرا یقین کریں میں واقعی مر گیا تھا۔وہ زور زور سے دروازہ پیٹ رہا تھا اور چیخ رہا تھا۔کافی دیر تک دروازہ پیٹنے کے بعد وہ تھک کہ بیڈ پر بیٹھ گیا۔
 

Adeela Chaudry
About the Author: Adeela Chaudry Read More Articles by Adeela Chaudry: 24 Articles with 47521 views I am sincere to all...!.. View More