نفسِ ذکیہ - قسط ٢١

وہ فوزیہ کے نکاح کا دن تھا۔ وہ تو کب سے سب کچھ بھول بھال کر اپنے آنے والے سنہرے دنوں کے خیالی پلاؤ بنا رہی تھی۔ ذولقر کون ہے ۔ کون تھا۔ اسے کچھ یاد نہ تھا۔ اس کی آنکھوں میں تو بس اس کا ہونے والاشوہر ہی سمایا ہوا تھا۔

اس کے گھر والے بے حد خوش تھے۔ ویسے بھی یہ ان کے گھر کی پہلی شادی تھی۔ لہذا ہر کوئی ضرورت سے ذیادہ ہی پر جوش تھا۔ نکاح کا اہتمام بھی یوں ہو رہا تھا جیسے کوئی شادی ہی ہو۔ بہترین شرارہ ، نامور بیوٹی پارلر سے میک اپ۔۔۔ ہال میں بکنگ۔۔۔ اور سب کچھ جو ہر شادی میں ہوتا ہے، اس نکاح کے فٹنکشن میں بھی موجود تھا۔

فوزیہ کا ہونے والا دولہا اور ان کی ساری فیملی امریکہ سے کراچی پہنچ چکے تھے۔وہ ان سب کے لئے بہت ساری تحفے تحائف لائے تھے۔ان کا ایک گھر کراچی میں بھی موجود تھا۔ وہ سب وہیں رکے ہوئے تھے۔

رات کے نو بج گئے۔ ہال خوبصورت چراغوں ، لائٹوں اور پھولوں سے سجا ہوا تھا۔ دولہے والے مولوی صاحب کو لئے ہال میں پہنچ گئے۔ ہر طرف گلاب کے یھولوں کی مہک پھیلی ہوئی تھی۔ کوئی ڈیڑھ سو مہمان تو انہوں نے اس دن بھی بلائے تھے۔ جانے رخصتی کے دن کیا کیا تیاریاں ہوتیں!!!

دولہے میاں بھی ایک مہنگی شیروانی زیب تن کئے اسٹیج پر آنپہنچے۔ فوزیہ کے چچا چچی اور دوسری کزنز بھی وہیں موجود تھے۔ آدھے گھنٹے کے انتظار کے بعد فوزیہ اپنی امی اور چھوٹی بہن کے ہمراہ گاڑی سے اتری اور چھوٹے چھوٹے قدم بھرتی اسٹیج کی طرف بڑھنے لگی۔ تمام افراد احتراماََ کھڑے ہوگئے۔

ہال مہمانوں سے بھر چکا تھا۔ سب چھوارے کھانے کے منتظر تھے۔ مولوی صاحب نے نکاح فارم نکالا اور کسی ایکسپرٹ کی طرح اسے جلدی جلدی فل کرنے لگے۔ شاید انہیں بھی بھوک لگی تھی۔ تمام خاص خاص رشتہ داروں نے اسٹیج کو گھیر لیا۔

’’بسم اللہ الرحمن الرحیم۔۔۔‘‘ نکاح خواں نے اللہ کا نام لیا ۔
’’کیا محترمہ فوزیہ ارشد ولد محمد ارشد کو اپنا نکاح با عوض حق مہر دس لاکھ روپے محترم فخر شیخ ولد احمد شیخ سے قبول ہے؟؟؟‘‘
’’جی!‘‘ فوزیہ نے آہستہ سے یوں گردن ہلائی جیسے کسی پھول کو ہوا چھو گئی ہو۔

نکاح خواں نے فخر سے بھی ایجاب و قبول کیا اور دونوں کو باری باری نکاح نامہ سائن کرنے کو پکڑادیا۔

خطبہ ء نکاح پڑھا گیا۔ ’’آپ سب کو بہت بہت مبارک ہو!!!‘‘ مولوی صاحب نے فرمایا اور سب کی بانچھیں کھل گئیں۔ پھول برستے لگے۔مٹھائی کے ڈبے کھل گئے ۔۔۔ چھوارے بٹنے لگے۔ ’’مبارک ہو! مبارک ہو!‘‘ کے الفاظ سے سارا ہال گونج اٹھا۔ سب ایک دوسرے کو گلے لگا لگا کر مبارک باد دے رہے تھے۔

یوں ہنسی خوشی فوزیہ اور فخر رشتہ ازواج میں بندھ گئے اور میرا نام فوزیہ کی زندگی کی کتاب سے ایسے مٹ گیا جیسے کبھی لکھا ہی نہ گیا ہو۔

۔۔۔۔۔۔۔

مجھے گھر والے اسی ہسپتال میں لے گئے تھے جہاں پہلی بار میری مرہم پٹی کی گئی تھی۔ڈاکٹر صاحب کو سرسری طور پر تو میرے حالات بتا ہی تھے ۔ اب انہیں تفصیل سے فوزیہ اور میرا قصہ سنا دیا گیا۔

’’ایسا ہو جاتا ہے۔۔۔ ایسے کیسزمیں۔۔۔‘‘ ڈاکٹر صاحب نہایت سنجیدگی سے بولے۔ اسد ، ابو جان اورامی تینوں چپ سادھے ان کے سامنے بیٹھے تھے۔
’’ کچھ لوگ بہت حساس ہوتے ہیں۔ جزبات میں بہت آگے بڑھ جاتے ہیں۔ سنا ہی ہو گا آپ نے لیلی مجنوں ، شیریں فرہاد وغیرہ کا قصہ۔۔۔‘‘
’’کچھ لوگ بے قابو ہو جاتے ہیں۔‘‘
’’بہرحال، آپ لوگ جلد از جلد انہیں کسی سائیکولوجسٹ کو دکھائیں۔‘‘
’’جسمانی زخم تو بھر جائیں گے لیکن جو نفسیاتی چوٹیں ہیں۔۔۔ ان کا علاج ہم نہیں کرسکتے۔۔۔‘‘ ڈاکٹر صاحب کی باتیں سن کر سب حیران و پریشان تھے۔ میری کلائی کاٹ ڈالنے کے واقعے کے بارے میں اب تک کسی اور کو خبر نہیں کی گئی تھی۔نہ مجدی کو پتا تھا نہ دلاور کو۔

’’یہ ڈاکٹر ذیشان شریف کا کارڈ ہے‘‘۔ انہوں نے ابو جان کو ایک سفید رنگ کا کارڈ پکڑاتے ہوئے کہا۔
’’بہت اچھے نفسیاتی ڈاکٹر ہیں۔۔۔ ان کا ایک اپنا ادارہ بھی ہے۔ جو محض خدمتِ خلق کے جزبے کے تحت چل رہا ہے۔آپ لوگ ان سے ضرور ملیئے ۔ وہ انشاء اللہ ان کا بہت اچھا علاج کر دیں گے۔‘‘ ڈاکٹر صاحب نے بات ختم کی۔

’’ہاہ!‘‘ ابو جان نے ایک گہرا سانس لیا اور ان کا شکریہ ادا کر کے اٹھے۔ اس عمر میں جوان بیٹا جو ان کی امیدوں کا مرکز تھا۔ وہ بستر سے لگا بیٹھا تھا۔ ابو جان بہت تھکے تھکے اور مایوس سے لگ رہے تھے۔ وہ تو کب سے گھر کا، کاروبار کا سارا انتظام میرے سپرد کر چکے تھے۔ میں بھی اپنی ذمہ داریاں نہایت احسن طریقہ سے انجام دے رہا تھا ۔ گھر بار و کاربار سب سنبھالا ہوا تھا۔ اب یہ سب کیا ہو گیا! کیسے ہو گیا! کسی کہ وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔

شام تک مجھے گھر واپس لے آیا گیا۔ ڈاکٹر صاحب نے وقتی طور پر مجھے پر سکون رہنے کی اور نیند کی گولیاں دی تھیں۔ نا جانے کیسے اثرات تھے ان گولیوں کے۔۔۔ کئی دنوں سے میں نے اپنی آنکھیں بھی پوری طرح نہیں کھولیں تھی۔ جب کبھی پلکیں اٹھا کرذرا کچھ دیکھنے کی کوشش کر تاتو یوں محسوس ہوتا جیسے بینائی کمزور ہو گئی ہے۔ آس پاس کی چیزیں دھندلی سی نظر آتیں۔ ہر دم غنودگی طاری رہتی اور سر میں ایک خفیف سا درد محسوس ہوتا۔

ابو جان، امی ، اسد اور باقی سب گھر والے ایک گہرے صدمے سے دوچار ہو گئے تھے۔ نفسیاتی معالج کیا ہوتا ہے! کیوں وہاں جاتے ہیں! کوئی ٹھیک طرح نہیں جانتا تھا۔ سب کے خیال میں میں اچھا بھلا آدمی تھا۔ مجھے نفسیاتی بیماری کیسے ہو سکتی تھی!!! نفسیاتی علاج تو پاگلوں کا ہوتا ہے نا۔ ان کا بیٹا پاگل تھوڑی تھا۔ کسی سے یہ بات ہضم نہیں ہو رہی تھی کہ مجھے نفسیاتی علاج کی ضرورت ہے۔ اگر کسی کو پتا چلتا کہ میں نفسیاتی ڈاکٹر کے پاس جا رہا ہوں تو کوئی کیا کہتا!!!کہ میں پاگل ہو گیا ہوں۔ میرا نفسیاتی علاج ہوا ہے۔ ساری زندگی کے لئے ’’ نفسیاتی‘‘ ہونے کا ٹھپہ لگ جاتا۔ جس کسی کو پتا چلتا وہ طعنہ دیتا۔ ویسے بھی ہمارے معاشرے میں تو عموماََ لوگوں کو ’’نفسیاتی‘‘ کہہ کر گالی دی جاتی ہے نا۔ کیا یہ گالی، یہ بدنامی واقعی مجھ پر ثابت ہو چکی تھی!!! گھر کا کوئی فرد یہ ماننے کو تیار نہ تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔

رات کے ایک بج رہے ہوں گے۔ سب گھر والے سو چکے تھے۔ سارے گھر کی لائیٹیں بند تھیں۔ میرے کمرے میں میں مکمل اندھیرا تھا ۔بس کمرے کی جو ایک کھڑکی گیلری میں کھلتی تھی وہاں سے مدھم مدھم سی چاند تاروں کی روشنی کمرے میں داخل ہو رہی تھی۔ مجھے ہلکا ہلکا سا بخار بھی تھا اور سردی بھی لگ رہی تھی۔ سردی سے بچنے کے لئے میں نے اپنے آپ کو پوری طرح کمبل میں لپیٹا ہوا تھا۔ میرا چہرہ بھی کمبل میں ہی چھپا تھا۔

کافی دیر اسی حالت میں گزرگئی ۔ نہ میں پوری طرح سو پا رہا تھا اور نہ ہی بیدار تھا۔۔۔ میں نے اپنی آنکھیں کھول دیں۔ کمبل کے اندر گھپ اندھیرے کے سوا کچھ نظر نہیں آیا۔بہت دیر تک یوں ہی گھورتے رہنے کے باوجود بھی ہر طرف سیاہی چھائی ہوئی نظر آئی ۔

’’ٹَک ٹَک ٹَک۔۔۔‘‘ شاید مجھے کوئی وہم ہوا۔ ایسا لگا جیسے کسی نے ایک انگلی کے ناخن سے کچھ بجایا ہو۔
’’ٹَک ٹَک۔۔۔‘‘ پھر وہی احساس ہوا۔ میں نے اپنے آپ کو سکیڑ کر کمبل میں جکڑ لیا۔ کچھ دیر خاموشی چھا گئی۔
’’ٹَک ٹَک ٹَک۔۔۔‘‘
اچانک میرے جسم کے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ ایک بجلی کی لہر میرے تن بدن سی گزر گئی۔ میں نے آہستہ آہستہ اپنے چہرے پر سے کمبل سرکانا شروع کر دیا۔ سب سے پہلے میرے بال نمودار ہوئے۔۔۔پھر پیشانی ۔۔۔ اور پھر میری ایک آنکھ کمبل سے باہر اندھیرے میں کچھ دیکھنے کی کوشش کرنے لگی۔ کچھ نظر نہ آیا۔ ہر طرف اندھیرا اور خاموشی چھائی تھی۔

’’ٹَک ٹَک ٹَک۔۔۔‘‘ مجھے ایک جھٹکا سا لگا۔میرا دل جیسے دھڑکنا بھول گیا۔ یہ آواز کہاں سے آرہی تھی؟؟؟ کون تھا؟؟؟میں کسی بے جان جسد کی طرح ساکت ہو گیا۔صرف اپنی آنکھوں کی پتلیاں ادھر سے ادھر گھمانے لگا۔ پھر جس سمت میری آنکھ ٹک گئی ۔۔۔ میری جان ہی نکل گئی۔

ایک کالا سا ہیولا عین کھڑکی کے وسط میں گرل پکڑے مجھے گھور رہا تھا۔ میرے تو جیسے جسم سے کسی نے خون نچوڑ لیا ہو۔ مجھ پر کپکپی طاری ہو گئی۔ میں نہ پلک چھپک سکا اور نہ ہی اپنے آپ کو کوئی حرکت دی۔ بس کسی بت کی طرح اس ہیولے کو گھورتا رہا۔ خود با خود میری سانسیں گہری ہوتی چلی گئیں۔

وہ بدستور مجھے گھور رہا تھا۔ پھر اس نے ایک قدم بڑھایا اور دیوار کو آر پار کرتے کمرے کے اندر داخل ہو گیا۔ ’’ہاہ!‘‘ وہی بچہ۔ جو اس دن بھی میرے سامنے آیا تھا۔ وہی چھوٹے سے قد کا جسم، کمرے کے اندرداخل ہو چکا تھا۔ میرے دل کی دھڑکنیں بے قابو ہو گئیں۔ خوف کے مارے میں تھر تھر کانپنے لگا۔ وہ بچہ اپنی جگہ جما بس مجھے گھورے چلے جا رہا تھا۔ پھر یک دم مجھے وہ بچہ کسی سے ملتا جلتا دکھائی دینے لگا۔ مجھے کوئی یاد آنے لگا۔ ہو بہو وہی چہرہ ، وہی نقوش اور وہی کیفیت۔۔۔ اب میں بہت بدل گیا تھا مگر میرا بچپن تو بالکل ویسا ہی تھا۔ ہاں۔۔۔ وہ بچہ تو میں ہی تھا۔ میرا بچپن۔۔۔
میں ذہنی طور پر ایک عجیب کیفیت میں گرفتار تھا۔ ایک چبھتا ہوا درد سر میں محسوس ہونے لگا۔ وہ بالکل میرے ہی جیسا بچہ مجھے ٹکٹکی باندھی دیکھاجا رہا تھا۔

میں نے اپنا کپکپاتا ہاتھ ہلایا اور اسے سرکاتا ہو تکیہ کے نیچے کر دیا۔ میرا موبائیل وہیں رکھا تھا۔ میں نے بہت احتیاط سے اپنی ایک آنکھ بھی کمبل میں چھپا لی اور موبائیل پر اسد کا نمبر ملا دیا۔ ایک آنسو میری آنکھ سے نکل کر بہہ گیا۔

اسد کا موبائیل بجنے کی آواز مجھے اس کے کمرے سے آنے لگی۔
’’ہیلو! ہیلو بھائی! کیا ہوا؟؟‘‘ اسد نے نیند کی حالت میں مجھ سے کلام کیا۔
’’اسد ! اسد!‘‘ میں یوں کہنے لگا جیسے کوئی اپنی سانسوں سے باتیں کرتا ہے۔ سرگوشی سے بھی خفیف آواز۔۔۔
’’آہستہ بولوو و و ۔۔۔! آہستہ بولو و و و !‘‘ مجھ پر خوف طاری تھا۔ میں ہر ہر لفظ کھینچ کھینچ کر ادا کر رہا تھا۔
’’آہستہ بولو! وہ سن لے گا ا ا ا ۔۔۔‘‘
’’کیا ہوا بھائی؟؟؟ کون ہے!!!‘‘ اسد بستر پر اٹھ کر بیٹھ گیا۔’’آپ کہاں ہیں؟؟؟‘‘
’’وہ بچہ سن لے گا۔۔۔ وہ باہر تھا۔۔۔ وہ اندرآ گیا ہے۔۔۔‘‘۔ اچانک مجھے کمرے میں کسی کے رونے کی آوازیں آنے لگیں۔ شاید وہ سایہ رونے لگا تھا۔
’’وہ رو رہا ہے۔۔۔ اسد۔۔۔ٖ! بچہ رو رہا ہے۔۔۔‘‘ میں ویسے ہی سرسراہٹ کرتا ہوا اپنی بات کہنے کی کوشش کر رہا تھا۔

دھڑام سے اسد نے کمرے کا دروازہ کھولا ۔ وہ سارے گھر کی لائٹیں جلاتا ہوا بھاگا آیا تھا۔
زور سے کھینچ کر اس نے مجھ پر سے کمبل ہٹا یا اور اسے دیوار پر دے مارا ۔ اس نے کمرے کی لائٹ جلادی تھی۔

’’بھائی ! بھائی! کیا ہوا بھائی!‘‘ اسد چیخ چیخ کر بول رہا تھا۔ ابو اور امی بھی اپنے اپنے کمروں سے بھاگے ہوئے آئے۔
بہنیں بھی دوڑتی ہوئی پہنچیں۔
میں بستر پر اپنے آپ کو یوں سکیڑے لیٹا تھا جیسے کوئی مجھے مار ڈالنے کے در پے ہو۔
’’اسد ! اسد!وہ بچہ گھر میں آ گیا ہے۔۔۔ وہ رو رہا ہے اسد۔۔۔! ‘‘ میں اٹھ کر اسد سے چمٹ گیا۔ میری آنکھوں سے آنسو بہتے جا رہے تھے۔
’’ اسد !وہ کونے میں بیٹھا ہے۔۔۔ وہ پہلے باہر تھا اب اندر آ گیا ہے۔۔۔‘‘ میں اسد سے چمٹ کر اناپ شناپ باتیں کرتا جا رہا تھا۔
’’کیا ہوا! کیا ہوا! اسد!‘‘ ابو نے اسد کو جھنجھوڑتے ہوئے پوچھا۔
’’کون بچہ بھائی؟؟؟ کون بچہ؟؟؟ یہاں تو کوئی نہیں ہے؟؟؟‘‘ گھبراہٹ میں اسد کی زبان لڑکھڑا رہی تھی۔
’’ابو جی!!!!! ابو جی!‘‘ اب تو اسد سے بھی نہ رہا گیا۔ وہ اپنا منہ اپنے ہاتھوں میں چھپا کر رونے لگا۔
’’ہائے۔۔۔! کیا ہوا! اسد!‘‘ امی بھی درد میں چیخیں اور ہم دونوں کو پکڑ کر رونے لگیں۔
’’کیا ہوا ہے؟؟؟‘‘ ایک بہن نے بلک کر پکارا۔سارا گھر کوئی ماتم کدہ بن گیا۔
ابو نے فوراََ میرے ہاتھ چیک کئے کہ کہیں میں نے پھر اپنے آپ کو زخمی تو نہیں کر دیا۔
’’ابو! بھائی کو ڈاکٹر کے پاس لے جائیں۔۔۔ ‘‘
’’ابو ! ان کو ڈاکٹر کے پاس لے جائیں ابو۔۔۔!‘‘ اسد سب کی منتیں کرتا ہوا ایک طرف کو گِر گیا۔

۔۔۔۔۔۔

دلاور اپنی نئی گرل فرینڈ سیمی کے ساتھ ڈانس کی پریکٹس کر رہا تھا۔ ایک بہترین ساؤنڈ سسٹم پر اونچی آواز میں ایک گانا چل رہا تھا۔ ہر ہر بیٹ پر دلاور اور سیمی پاؤں پٹختے ادھر سے ادھر تھرک رہے تھے۔ کبھی سیمی دلاور کی بانہوں میں ہوتی کبھی اس سے دور۔۔۔ دو ایک اور جوڑے بھی ان ہی کے ہاں موجودتھے۔ یہ سب آنے والے ڈانس کومپیٹیشن کے تیاری میں جھوم رہے تھے۔ لاس ویگاس جانے کا کس کو شوق نہیں تھا۔ ’’سِن سٹی‘‘ یعنی گناہوں کا شہر۔۔۔ ساری دنیا میں لاس ویگاس اسی نام سے مشہور ہے۔ حالانکہ ان دنوں لاس ویگاس تو یہی شہر کراچی بنا ہوا تھا۔ جو کچھ کارنامے یہ لوگ یہاں انجام دے رہے تھے وہ کیا کسی گناہ سے کم تھے!!! جسے گناہ کرنا ہو وہ مکہ مکرمہ میں بھی کر لیتا ہے اور جوپاک سرشت ہو وہ چاہے سِن سٹی ہی چلا جائے کبھی اپنی حد سے باہر نہیں نکلتا۔۔۔ بہر حال ماحول کا بھی بہت گہرا اثر ہے۔ ثابت قدم لوگوں کے سوا ماحول کے اثر سے بچنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔

’’چلو بھئی ۔۔۔ اب تھوڑا ریسٹ کر لیں۔۔۔‘‘ دلاور نے میوزک آف کیا۔وہ اور سیمی پسینے میں شرابور تھے۔ اس نے پاس رکھے ٹشو پیپر باکس سے چار پانچ ٹشوز نکالے اور اپنا چہرہ پونچا۔

مجدی کے بدلے ہوئے انداز دلاور نے پرکھ لئے تھے۔ اس سے پہلے بھی وہ اس کی آنکھوں کے سامنے شراب و کباب کے مزے لے چکا تھا۔ لہذا اس گرینڈ ایونٹ میں بھی مجدی کو دعوت دینا چاہتا تھا۔ اس نے اپنے موبائیل پر مجدی کا نمبر تلاش کر کے اسے کال ملائی۔

’’ہاں جی! کدھر غائب ہو جناب!!!‘‘ دلاور ن رسماََ پوچھا۔ ورنہ ابھی چند دن پہلے ہی یہ دونوں ساتھ میرے گھر میری تیمارداری کے لئے آئے تھے۔
’’ہم تو ادھر ہی ہیں۔۔۔ مزے کر رہے ہیں۔۔۔‘‘ مجدی نے ٹھیک ہی کہا تھا جب سے اسے دوسری جاب ملی تھی وہ مزے ہی کر رہا تھا۔
’’چلو پھر آپ کا مزہ دوبالا کر دیتے ہیں۔۔۔ ہی ہی ہی۔۔۔ ‘‘ دلاور بولا۔
’’ایک زبر دست پارٹی ارینج کی ہے ہم سب نے۔۔۔ تین چار دن کا ٹوٹل پروگرام ہے۔ سب سے پہلے پک نک ، ہاکس بے پر۔۔۔ پھر ڈانس کومپیٹیشن اور جو جیتے گا وہ لاس ویگاس جائے گا۔۔۔‘‘ دلاور نے جوش و خواش سے سارا پروگرام پتایا۔
’’لاس ویگاس!!! واقعی؟؟؟‘‘ مجدی کی بانچیں کھل گئیں۔’’واؤ!‘‘ وہ بھی ایکسائٹڈ ہو گیا۔
’’ارے جانی! مجھے ڈانس کہاں آتا ہے۔۔۔!!!‘‘ مجدی نے اداس سی آواز بنا کر کہا۔
’’ہاہاہا۔۔۔ وہ تو مجھے پتا ہے۔۔۔ چلو تم ہم سب کے نظارے کر کے ہی انجوائے کر لینا۔۔۔‘‘ دلاور نے ہنس کر کہا۔ وہ جانتا تھا کہ مجدی کو ڈانس وانس نہیں آتا۔
’’اچھا!!!! چلو ٹھیک ہے ۔ ضرور ضرور۔۔۔‘‘ مجدی بھی خوش ہو گیا کہ مفت میں مزے اڑائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔

ڈاکٹر ذیشان شریف اچھے خاصے ڈیل ڈول کے مالک تھے۔ کوئی پینتالیس سال عمر ہو گی ان کی۔ چھ فٹ سے بھی اونچا قد، صحت مند جسم، کالی زلفیں،صاف شفاف چہرہ۔۔۔ جس پر سنت کے مطابق کالی چمکدار گھنی داڑھی تھی ۔ انہوں نے سر پر ایک اونچی ٹوپی بھی پہن رکھی تھی۔ سفید رنگ کی صاف شفاف شلوار قمیض پر وہ ایک کالی کوٹی زیب تن کئے ہوئے تھے۔ بڑی پر اثر تھی ان کی شخصیت۔۔۔ بہت روشن اور نورانی۔۔۔ بس پَر لگانے کی دیر تھی اور وہ کوئی فرشتہ بن جاتے۔۔۔

انہیں دیکھتے ہی ہر کوئی جیسے ہیپناٹائز ہو جاتا۔ ان کی ہاں میں ہاں ملانے لگتا ۔۔۔ ان کا کہا ماننے لگتا۔۔۔ ان کے پیچھے چلنے لگتا۔۔۔ اللہ ہی نے انہیں لوگوں کے دلوں میں بسا دیاتھا۔

’’آپ ریلیکس ہو کر یہاں لیٹ جائیے۔‘‘ ذیشان صاحب کھلکھلا کر مسکرائے اور مجھ سے مخاطب ہوئے۔ بہت چمک ،بہت کشش تھی ان کی بڑی بڑی آنکھوں میں۔
انہوں نے اپنے بڑے سے ہال نما کلینک میں بہت سے پودے رکھے ہوئے تھے۔ ایک دیوار مکمل شیشے کی بنی تھی ۔جس میں سے سورج کی روشنی خوب تیز تیز اندر آ رہی تھی۔ وہی کونے میں ایک نل اور بیسن بھی بنا تھا۔ انہوں نے آگے بڑھ کر پودوں میں پانی دینے والا اٹھایا اور اسے پانی سے بھر دیا۔پھر شیشے کی دیوار میں بنا شیشے کا دروازہ کھولا۔ ایک تازہ ہوا کا جھونکا میر ے چہرے سے ٹکرا گیا ۔ ایک ایک کر کے انہوں نے کئی پودوں میں پانی ڈالا ۔ میں بدستور انہیں ٹکٹکی باندھے دیکھ رہا تھا۔ اس کام سے فارغ ہو کر وہ میرے سامنے رکھی اپنی کرسی پر بیٹھ گئے اور سوال کیا۔۔۔ ’’پودے پسند ہیں آپ کو؟؟؟‘‘

’’ہم م م ۔۔۔ ‘‘ میں ان کا سوال سن کر جیسے پلک چھپکنا بھول گیا اور بس ’’ہم م م‘‘ کہہ کر جواب دے دیا۔
’’اچھا!‘‘ وہ پھر کھلکھلا کے مسکرائے۔ جبکہ میرے مطابق میرے جواب میں ایسا کچھ نہ تھا کہ اتنا مسکرایا جاتا۔
’’یعنی سبز رنگ پسند ہے آپ کو!‘‘ انہوں نے جیسے مجھ سے پوچھا نہیں بلکہ مجھے بتایا۔ میں سپاٹ سا چہرے لئے ویسے کا ویسے ایک سیٹی نما بیڈ پر لیٹا رہا۔
وہ پھر اٹھے اور اپنے پودوں میں سے ایک کھلتا سرخ رنگ کا گلاب توڑا اور میرے سامنے بیٹھ گئے۔
’’واہ!‘‘ انہوں نے سرخ گلاب اپنی ناک سے لگا کر ایک گہرا سانس لیا۔ کیسی دلفریب خوشبو تھی۔ ہلکی سی گلاب کی خوشبو مجھے بھی محسوس ہوئی۔
سورج کی روشنی سیدھی اس گلاب پر پڑ رہی تھی۔ میں ٹکٹکی باندھے اس گلاب کو یوں دیکھنے لگا جیسے پہلی بار ایسا تازہ اور خوش رنگ پھول دیکھا ہو۔
اچانک میں نے پلک چھپکی۔ ڈاکٹر ذیشان نے ایک گلاب کی پنکھڑی توڑ لی۔ وہ اس پنکھڑی پر اپنی ایک انگلی ملنے لگے۔ میں بغیر چھوئے اس گلاب کی نازکی اور ملائمت کو محسوس کرنے کی کوشش کرنے لگا۔
انہوں نے پھر گلاب کو سونگا ۔ میرے دل میں خود بخود گلاب کو سونگنے اور چھونے کی چاہت ابھرنے لگی۔ شاید ذیشان صاحب نے میرے خیالات پڑھ لئے ۔ وہ اپنی کرسی سے اٹھے اور اس خوبصورت و تر وتازہ گلاب کو میرے سینے پر رکھ دیا۔ میں نے ہلکا سا ہاتھ ہلایا اور گاب کی ٹہنی پکڑ لی۔
واقعی! کتنی اچھی دلفریب خوشبو تھی اس کی۔
’’اچھی خوشبو ہے ناٖٖ!!!‘‘ ڈاکٹر ذیشان نے پھر حوب مسکرا کر جوشیلے انداز میں کہا۔
’’جی!‘‘ میری بھی آواز نکل ہی گئی ۔ میں بھی ہلکا سا مسکرانے لگا۔ میں بار بار گہرے سانس لیتا اور گلاب کی خوشبو سونگتا جاتا۔
’’ریلیکس ہو جاؤ!‘‘ ڈاکٹر ذیشان نے اپنی تھیرپی شروع کی۔
’’گہرا سانس لو۔۔۔ اور اس خوشبو کو اپنے اندر بسا لو!‘‘
’’کتنی اچھی خوشبو ہے۔ کتنی اچھا رنگ ہے۔ کتنا تازہ گلاب ہے۔ آنکھیں بند کر لو۔۔۔ اور گہرا سانس لو۔۔۔ اور گہرا سانس لو۔۔۔ خوشبو سونگو۔۔۔ آنکھیں بند کر لو۔۔۔ گلاب سرخ رنگ کا ہے۔۔۔ تازہ ہے۔۔۔‘‘ میری آنکھیں بند تھیں مگر گلاب میرے سامنے تھا۔ وہی خوبصورت چمکتا سرخ رنگ۔۔۔ اور اس کی تازگی۔۔۔ اور خوشبو۔۔۔ہر ہر پتی میں ایک کاریگری پوشیدہ تھی۔۔۔ میرے چہرے پر از خود ایک مسکراہٹ پھیل گئی۔

۔۔۔۔۔۔۔

ہفت روزہ چیک جو مجدی کو ملا کر تا تھا وہ اس کے ہاتھ میں تھا۔جب بھی وہ ہر ہفتے چیک پر لکھے ہزاروں روپے دیکھتا اس کا خون ڈیڑھ لیٹر بڑھ جاتا۔۔۔وہ پہلے جِم پہنچا اور خوب ایکسرسائیز کی۔۔۔ خود کو تندرست و توانا رکھنے اور اسمارٹ نظر آنے پر وہ بہت توجہ دینے لگا تھا۔ اسی طرح وہ اپنے پہناوے کا بھی اب بہت خیال رکھنے لگا تھا۔ اب وہ پہلے کی سی بات نہیں رہی تھی کے بے پرواہی سے جو کچھ ہاتھ لگا اٹھا کر چڑھا لیا۔ بلکہ وہ بڑے اہتمام سے خود کو آراستہ کرتا تھا۔ ہر دس بارہ دن میں ایک نئی شرٹ یا جینز خریدتا تھا۔ خریداری میں بھی وہ برینڈ کانشیس ہو گیا تھا۔ مشہور و معروف اور مہنگے سے مہنگا برینڈ خریدنا اس کی عادت بنتی جارہی تھی۔ سب گھر والے بھی اس کی بدلتی شخصیت کو دیکھ کر بڑے خوش تھے۔ خوبصورت اور فٹ نوجوان تو سبھی کو اچھے لگتے ہیں۔ کسی کو اس کے بے وقت آنے جانے پر کوئی اعتراض نہ تھا۔ اس نے سب کو یہی بتا رکھا تھا کہ اسے کال سینٹر میں جاب مل گئی ہے۔ وہاں کا ٹائم بدلتا رہتا ہے۔ کبھی رات کو جانا ہوتا ہے کبھی دن کو۔۔۔

گھر کے معاشی حالات بھی بہتر ہو گئے تھے۔ اس لئے کسی کو ذیادہ بال کی کھال اتارنے میں دلچسپی نہیں تھی ۔ سب کا خرچہ پانی پورا ہو رہا تھا۔ جو ادھار وغیرہ لئے ہوئے تھے وہ بھی اتر رہے تھے۔ بس اور کیا چائیے!!!

مجدی نے بینک میں چیک ڈلوایا اور وہیں ایک کسٹمر سروس آفیسر کے پاس بیٹھ گیا۔ کئی دنوں سے وہ ایک گاڑی خریدنے کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ اس نے بینک آفیسر سے قسطوں پر گاڑی نکلوانے کے بارے میں معلومات لینی شروع کر دی۔
۔۔۔۔۔۔۔

’’کیا نام کیا ہے ادارے کا؟؟؟‘‘ مجدی نے اداس سی شکل بنا کر پوچھا۔
’’’روشن‘ نام ہے ان کے سینٹر کا۔۔۔‘‘ اسد نے جواب دیا۔
مجدی ، دلاور اور اسد گاڑی میں بیٹھے مجھے دیکھنے آ رہے تھے۔ ان دونوں کے تو وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ بات یہاں تک پہنچ جائے گی۔ میں کسی rehabilitation center پہنچ جاؤں گا۔
اندر ہی اندر مجدی اور دلاور کو میری فیملی پر غصہ بھی آ رہا تھا کہ خواں مخواں مجھے اٹھا کے پاگلوں کے ساتھ داخل کرا دیا ہے۔وہ تو یہی سمجھتے تھے کہ میں وقتی طور پر پریشان تھا اس لئے کچھ ڈپریشن ہو گیا ۔ مجھے کسی سائکولوجسٹ کو دکھانے کی کیا ضرورت تھی!!! مگر جانتا وہی ہے جس پر پڑتی ہے۔

ہم سب شہر سے دور سمندر کے کنارے بنی ایک روڑ پر گاڑی دوڑا رہے تھے۔ڈاکٹر ذیشان شریف کا بنایا ہوا فلاحی ادارہ’’روشن‘‘ یہیں تھا۔
’’کیا بہت بڑی جگہ ہےٖٖٖ؟‘‘ دلاور نے تجسس سے پوچھا۔
’’جی دلاور بھائی! بہت بڑا مرکز ہے ان کا۔۔۔ عمارت تو چھوٹی سی ہے مگر گارڈن۔۔۔ درخت۔۔۔ سوئمنگ پول اور کھیل کود کے لئے بہت بڑی جگہ ہے۔‘‘
’’اچھا!‘‘ دلاور حیرانی سے بولا۔
’’۔۔۔بلکہ کچھ حصہ ساحل سمندر کا بھی ہے ان کے پاس۔۔۔ مگر زرا آگے کو ہو کے۔۔۔‘‘ اسد نے اپنی ادھوری بات مکمل کی۔

ایک فارم ہاؤس ٹائپ کے چوڑے سے گیٹ پر بڑا بڑا پیلے رنگ سے اردو میں ’’روشن ‘‘ لکھا تھا۔روشن یعنی جس میں سے نور پھوٹ رہا ہو۔ یعنی enlightened۔۔۔ سمجھو قدامت پسندی، تنگ نظری اور گھٹی ہوئی بند قسم کی سوچ کا الٹ ہوا۔۔۔

بندگی میں گھُٹ کے رہ جاتی ہے اِک جوئے کم آب
اور آزادی میں بحرِ بیکراں ہے زندگی (اقبال)

ایک کونے میں لگے ایک پتھر پر یہ شعر کندہ تھا۔ مجدی ، دلاور اور اسد تینوں گاڑی ایک طرف پارک کر کے چھوٹے چھوٹے پتھروں سے بنے ایک راستہ پر چل کر سینڑ کے اندر کو آنے لگے۔ بہت بڑا باغ تھا وہ۔ دائیں بائیں لگے اونچے اونچے گھنے درخت سارے راستے پر سایہ کئے ہوئے تھے ۔ وقتاََ فوقتاََ ہوا چلتی اور پیڑوں کے اندر سے بڑی پرسرار اور پر کشش پتوں کے ہلنے کی آوازیں آتیں۔ سمندر بھی پاس ہی تھا۔ ہوا آلودگی سے بالکل پاک تھی۔ کہیں کہیں بیچ میں فوارے لگے تھے اور کہیں کوئی آبشار بنا دی گئی تھی۔ بڑی دلکش اور دلفریب جگہ تھی۔ ایسی جگہ پر تھوڑا سا وقت گزارنے سے ہی بندہ فریش ہو جاتا ہے۔

ڈاکٹر ذیشان اپنے آفس میں موجود نماز پڑھ رہے تھے۔ ظہر کا وقت تھا۔ وہی اس پورے سینٹر کے کرتا دھرتا تھے۔ مجدی ، دلاور او ر اسد تینوں وہیں آفس کی کرسیوں پر بیٹھ کر ذیشان صاحب کے نماز سے فارغ ہونے کا انتظار کرنے لگے۔

’’السلامُ علیکم!!!‘‘ ڈاکٹر ذیشان ہمیشہ کی طرح چہرے پر بڑی سی مسکراہٹ لئے مصلے سے اٹھے اور ان تینوں کو سلام کیا۔ وہ تینوں ہی ان کی پہلی جھلک دیکھ کر ٹھٹھک کر رہ گئے۔ ان کے ادارے کے نا م کی طرح ان کا چہرہ بھی بے حد روشن تھا۔ جیسے نور پھوٹ رہا ہو۔ ناجانے یہ کیسی بات ہے۔ کیسا معجزہ ہے ۔ انسان کا چہرہ حقیقتاََاس کے باطن کی عکاسی کرتا ہے۔ من جانب اللہ ، ایک خاص کشش، ایک خاص نور ان لوگوں کو عنایت ہوتا ہے جن کے دل شیشے کی طرح صاف و شفاف ہوتے ہیں۔

’’ابھی ہم انیشیل اسٹیج پر ہی ہیں۔۔۔ دو ہی دن ہوئے ہیں انہیں یہاں آئے ہوئے۔۔۔ فی الحال صرف اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ انہیں شزوفرینیاں کا مرض لاحق ہے‘‘۔ رسمی سی سلام دعا کے بعد ڈاکٹر ذیشان نے میرے بارے میں سب کو بتانا شروع کر دیا ۔
’’شزفرینا!!‘‘ اسد بڑبڑایا۔ وہ تو اس بیماری کا نام لینے سے بھی قاصر تھا۔
’’جی! شزوفرینیا۔۔۔‘‘ انہوں نے پھر فرمایا۔
’’اس بیماری میں مریض کو ایسا لگتا ہے کہ اس کے ساتھ کوئی اور بھی ہے۔ جو لوگ موجود نہیں ہوتے وہ نظر آنے لگتے ہیں۔ آوازیں آنے لگتی ہیں۔۔۔ جیسے وہ ہر وقت کسی خواب کی کیفیت میں ہو۔ یعنی وہ وہ کچھ دیکھتا ہو جو موجود نہیں ہو۔۔۔‘‘
’’اچھا!‘‘ دلاور نے ہلکا سا کہا۔ وہ حیرانی کے عالم میں آنکھیں پھاڑے یہ سب باتیں سن رہا تھا۔
’’جی! مگر ابھی اور بھی ڈائگناسس ہو رہا ہے۔ کیونکہ جس طرح انہوں نے اپنے آپ کو زخمی کیا ہے ۔۔۔ ایسا نہیں ہوتا۔۔۔ ابھی اور بھی گہرائی سے سبجیکٹ کا مطالعہ ہو گا۔۔۔‘‘ ڈاکٹر ذیشان کہنا چاہ رہے تھے کہ شزوفرینیا میں انسان اپنے آپ کو نقصان نہیں پہنچاتا جس طرح میں نے پہنچایا۔ لہذا ان کے خیال میں کوئی اور گہری وجہ بھی تھی جس کے باعث میری حالت اتنی تشویشناک ہو گئی۔

’’ان کو کب تک یہاں رہنا ہو گا؟‘‘ مجدی نے بے چینی سے پوچھا۔
’’ام م م۔۔۔ کم از کم ایک مہینہ تو ذہن میں رکھ لیں۔ اس سے ذیادہ بھی لگ سکتا ہے‘‘۔
’’ایک مہینہ۔۔۔‘‘ سب کے منہ سے بے اختیار نکلا۔
’’جی بالکل۔۔۔ ہفتہ تو نزلہ جانے میں بھی لگ جاتا ہے جناب۔۔۔ یہ تو۔۔۔‘‘ ڈاکٹر ذیشان کچھ کہتے کہتے رک گئے۔ و ہ تینوں حیران و پریشان ان کا منہ تکنے لگے۔
’’مسئلہ کیا ہے۔۔۔ اتنی خوبصورت جگہ ہے۔ اتنا دلکش ماحول ہے۔ انہیں اچھی طرح ریلیکس ہونے دیں۔ جب تک مکمل علاج نہیں ہو جاتا انہیں یہاں سے لے جانا خطرے سے خالی نہیں۔۔۔‘‘ ان کا یہ جملہ سن کر سب کا دل جیسے بند سا ہو گیا۔ ’’خطرہ ‘‘ یہ لفظ سب کے لئے، خصوصاََ اسد کے لئے بہت بھیانک تھا۔ و تو اپنی آنکھوں سے میری کٹی ہوئی کلائی سے بہتے خون کا مشاہدہ کر چکا تھا۔ وہ لال رنگ کی چادر۔۔۔ خون میں لتھڑا ہوا ہاتھ۔۔۔ وہ گہرے زخم۔۔۔ اسد ایک جھرجھری لے کر رہ گیا۔

’’چلئیے میں آپ کو ذولقرنین سے ملا دوں‘‘۔ وہ سب اٹھے اور ڈاکٹر ذیشان کے پیچھے پیچھے ان کے کلینک سے باہر نکلے۔

دلاور اور مجدی اس دن پہلی بار وہاں آئے تھے۔ وہ ہر ہرقدم پر دائیں سے بائیں سر گھما گھما کر سارے ماحول کا مشاہدہ کرنے لگے۔ ایک طرف تین چار عورتیں باغ میں رکھے بینچوں پر بیٹھیں کچھ باتیں کر رہیں تھیں۔ سایہ دار پودوں نے ان پر سایہ ڈالا ہوا تھا۔ دوسری طرف دو نوجوان مل کر پودے لگا رہے تھے۔ سوئمنگ پول کے نیلے نیلے رنگ کے پانی کے کنارے ایک نوجوان بیٹھا کچھ پھل کھا رہا تھا۔ وہیں کچھ دور ایک لڑکی بھی پول میں پاؤں ڈالے پانی سے کھیل رہی تھی۔جب جب کوئی ہوا کا جھونکا آتا، اس کی سنہری زلفیں ہوا کے جھونکے سے اُڑ اُڑ جاتیں۔۔۔

وہیں آگے کو ایک طرف ایک کمر ے جتنے سائز کا بڑا سا پنجرہ بھی باغیچے میں ہی بنا ہوا تھا۔ کچھ لوگ وہاں موجود طوطوں کو باجرا ڈال رہے تھے ۔ اور بھی انواں و اقسام کے پرندے وہاں موجود تھے۔ بہت سے کبوتر بھی آسمان سے اتر اتر کر وہیں پڑا باجرا کھاتے جا رہے تھے ۔ اسی کے ساتھ کونے میں چند ہرنیں ، بکریاں اور ایک عدد گھوڑا بھی موجود تھا۔ وہیں ایک خاتون ایک بکری کے پیارے سے بچے کو گود میں لے کر چوم رہیں تھیں۔

کچھ اور آگے چل کر ان سب کو ایک طرف سے کچھ آوازیں سنائی دینے لگیں۔ کچھ لوگ آپس میں قہقہے لگاتے خوش گپیاں کر رہے تھے۔ ایک انسٹرکٹر انہیں نشانہ بازی سکھا رہا تھا۔ ایک لمحے کو ہر ایک کے دل میں یہ خواہش جاگی کہ کچھ دن وہ بھی یہیں رہ جائیں۔ آج کل کے افراتفری کے دور میں کون ہے جو چند لمحے سکون و اطمینان کے نہیں چاہتا! وہاں جہاں انسان فطرت کے ساتھ خود کو ہم آہنگ کر لے۔۔۔ ہرے بھرے باغ میں سر سبز و شاداب ہو جائے۔۔۔ تازہ ہوا میں تازہ دم ہو جائے۔۔۔ سمندر کی لہروں کی بے نیازی میں رچ بس کر بے فکرا ہو جائے۔۔۔

جگہ بہت بڑی تھی ۔ ہم کافی دیر تک چلتے رہے۔ سب کی نظریں مجھے ہی تلاش کر رہیں تھی۔
’’کہاں ہیں بھائی؟؟؟‘‘ اسد نے بے قراری سے پوچھا۔
’’وہ آرٹس روم میں ہیں شاید۔۔۔‘‘

ہم ایک راہداری سے گزر رہے تھے ۔ عین راہ راری کے سامنے ایک بڑا سا لکڑی کا دروازہ بنا تھا۔ جیسے کسی بڑے سے ہال کا ہو۔ ڈاکٹر ذیشان نے ہاتھ بڑھا کر اس دروازے کا بھاری سا ہینڈل پکڑا اور دروازہ کھول دیا۔

وہ واقعی بہت بڑا ہال تھا۔ جیسے کوئی لائبریری ہو۔ تین دیواروں پر بڑے بڑے روشندان بنے تھے۔ جن سے سورج کی روشنی اور تازہ ہوا اندر آ رہی تھی۔ اتنی روشنی اور ہوا تھی کہ نہ کوئی لائٹ جل رہی تھی اور نہ ہی کوئی پنکھا ۔۔۔چار پانچ افراد مختلف قسم کی کرافٹنگ اور آرٹ ورک میں مصروف تھے۔ کچھ عورتیں اور کچھ مرد۔۔۔

’’السلامُ علیکم ذولقرنین ! کیسے ہیں آپ؟‘‘ ڈاکٹر ذیشان نے کھلکھلا کر پوچھا۔ میں جیسے کسی اور ہی دنیا میں گم تھا۔ چونک کر واپس اس دنیا میں آیا اور حیرانی سے سب کو دیکھنے لگا۔ میرے ایک ہاتھ میں پینٹ برش اور دوسرے میں رنگوں سے بھری پلیٹ تھی۔ سامنے لگے ایک کینوس میں میں ایک پینٹنگ بنا چکا تھا۔’’ایک شخص کو کسی نے بہت سی زنجیروں اور رسیوں سے باندھ رکھا تھا اور ارد گرد کے لوگ اسے پتھر مار رہے تھے‘‘۔ وہ پینٹنگ میری ذہنی کیفیت کی ترجمانی کر رہی تھی۔

ڈاکٹر ذیشان نے بغور پینٹنگ کو دیکھا اور لاپرواہی سے بولے۔
’’واؤ! امیزنگ! کتنی خوبصورت پینٹنگ کی ہے!!!‘‘ میرے چہرے پر ایک خوشگوار مسکراہت نمودار ہوئی۔ دلاور ، مجدی اور اسد بھی مسکرانے لگے۔
’’ماشاء اللہ! بہت اچھی پینٹنگ ہے!‘‘ سب ہی تعریف کرنے لگے اور میں خوش ہو گیا۔
’’کیسے ہیں بھائی آپ؟؟؟‘‘ اسد نے میرے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر پوچھا۔
’’ٹھیک ہوں!‘‘ میں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔ میں انجان نظروں سے سب کو دیکھ رہا تھا ۔ جیسے صدیوں بعد ان سے ملا ہوں۔ انہیں بھی میں بدلا بدلا کھویا کھویا سا نظر آیا۔
’’یہ تم نے بنائی ہے ذولقر؟؟؟‘‘ مجدی نے حیرانی سے پوچھا۔ میں نے سر ہلا کر ہاں میں جواب دے دیا اور پھر مسکرانے لگا کہ سب کو پینٹنگ اچھی لگی ہے۔
’’ویری نائس!‘‘ دلاور جوشیلے لہجے میں بولا۔

اچھا آپ لوگ کچھ دیر گپ شپ لگائے میں آتا ہوں۔
’’آپ ان کے ساتھ رہیں پھر ذولقر کو کلینک لے آئیے گا‘‘۔ جاتے جاتے ذیشان صاحب نے ایک اسٹاف سے کہا اور ہال سے باہر نکل گئے۔
کوئی آدھے گھنٹے وہ تینوں میرے ساتھ بیٹھ رہے۔ ادھر ادھر کی بلا ضرورت اور بے مطلب سی باتیں کرتے رہے۔ پھر کوئی آیا اور انہیں جانے کا کہنے لگا۔ وہ تینوں مجھ سے گلے مل کر اٹھے اور بوجھل سا دل لے کر باہر کو نکلے۔

’’اسد!‘‘ میرا دل رونے لگا۔ انہیں جاتا دیکھ کر میں غم گین ہو گیا۔
’’اسد!‘‘ میں کسی بچے کی طرح رونے لگا اور اسد کو پیچھے سے پکارتا رہا۔ وہ شخص جو انہیں لینے آیا تھا بدستور انہیں ہال سے باہر نکلنے کا کہہ رہا تھا۔ مگر اسد سے نہ رہا گیا وہ تڑپ کر واپس مڑا اور میری طرف بھاگا آیا۔
’’اسد مجھے واپس لے جاؤ! اسد مجھے واپس لے جاؤ!‘‘ میں نے اسد کو زور سے پکڑ لیا اور اس کے لگے لگ کر رورو کر فریاد کرنے لگا۔

ہم کے ٹھہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد
پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد

دل تو چاہا پر شکستِ دل نے مہلت ہی نہ دی!
کچھ گلے شکوے بھی کر لیتے مناجاتوں کے بعد

تھے بہت بے درد لمحے ختمِ دردِ عشق کے
تھیں بہت بے مہر صبح مہرباں راتوں کے بعد

اُن سے جو کہنے گئے تھے فیض جاں صدقہ کئے
ان کہی ہی رہ گئی وہ بات سب باتوں کے بعد

کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار؟؟
خون کے دھبے دُھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد؟ (فیض)
۔۔۔۔۔۔۔

’’تم ساحلِ سمندر پر بالکل اکیلے ہو۔ پیلی پیلی ریت اور نیلا نیلا سمندر دور تک پھیلا ہوا ہے۔‘‘ میں وہیں گارڑن میں ایک بینچ پر لیٹا ہوا تھا۔ پاس ہی ایک پانی کا پائپ پڑا تھا جس سے گھاس کو سیراب کیا جا رہا تھا۔ فجر کے فوراََ بعد ہی ڈاکٹر ذیشان کے ساتھ میرا تھیرپی سیشن تھا۔ وہ مجھے ہیپناٹائز یعنی مکمل طور پر پُرسکون کر رہے تھے۔ تاکہ میرا ذہن ہر قسم کی سوچ سے بالکل خالی ہو جائے۔ اس طریقے سے انسان پند و نصح اور اصلاحات بہت آسانی سے قبول کرنے لگتا ہے۔مکمل ذہنی سکون حاصل ہو جانے کے بعد انسان ہر قسم کے سوالات کا جواب نہایت مثبت انداز میں اور بلا جھجک دینے لگتا ہے۔ اور یہی ڈاکٹر ذیشان چاہتے تھے ۔ میرے اندر بہت اندر جو کچھ بھرا ہوا تھا وہ ابھر کر سامنے آ جائے تا کہ اس کا معثر طریقے سے علاج ہو سکے۔ اب تک تو سب یہی تصور کر کے بیٹھے تھے کہ میری اس حالت کی واحد وجہ صرف اور صرف فوزیہ سے جدائی ہے۔ مگر ڈاکٹر ذیشان سمجھتے تھے کہ بات صرف اتنی ہی نہیں بلکہ بہت کچھ اور بھی ہے جو آسیب کی طرح میرے اعصاب پر سوار ہے۔

’’تم ساحلِ سمندر پر بالکل اکیلے ہو۔ صبح کا وقت ہے۔ سورج نکل چکا ہے۔ تم پیلی پیلی چمکتی ریت کو اپنے پاؤں تلے مسلتے ساحل سمندر پر چہل قدمی کر رہے ہو۔ دور دور تک نیلا سمندر ہے۔ پر سکون لہریں آتی ہیں اور بڑھ بڑھ کر تمہارے پیروں کو چھو کر واپس چلی جاتی ہیں۔ جو کچھ نقشِ قدم تم نے پنائے تھے انہیں مٹا جاتی ہیں۔ تم دور نیلگو گہرے سمندر کو نیلے آسمان سے ملتا ہوا دیکھ رہے ہو۔ ٹھنڈی ہوا کے جھونکے تمہارے چہرے سے ٹکرا رہے ہیں۔ یہ تازہ ہوا، یہ خوشنما رنگ، یہ پانی، یہ بادل، یہ ریت ۔۔۔ سب کچھ کتنا اچھا ہے نا؟؟؟‘‘ ڈاکٹر ذیشان نے پہلا سوال کیا۔
میں نے آہستہ سے سر ہلا کر اثبات میں جواب دیا۔
’’کیا تمہیں کوئی اور نظر آ رہا ہے؟‘‘ انہوں نے پوچھا۔
’’نہیں۔ کوئی اور نہیں ہے۔ بس میں ہوا۔۔۔ اکیلا۔۔۔‘‘ میں نے کہا۔
’’اچھا۔ تم کیا کر رہے ہو؟؟؟‘‘
’’میں سمندر کے کنارے کھڑا ہوں اور اسے دیکھ رہا ہوں‘‘۔
’’اچھا۔ سمندر کیسا ہے؟؟؟‘‘
’’بہت اچھا ہے۔ بہت پر سکون۔۔۔ دور دور تک پھیلا نیلا نیلا چمکدار پانی۔۔۔ صاف ستھرا۔۔۔ ‘‘
’’ ہم م م ۔۔۔ بہت اچھا! تو تم کیا سوچ رہے ہو؟؟؟‘‘
’’کچھ بھی نہیں ۔۔۔ بس سمندر کو دیکھ رہا ہوں۔‘‘
’’تمہیں پتا ہے۔ وہیں سمندر پر کوئی اور بھی تمہارے ساتھ ہے۔‘‘ ڈاکٹر ذیشان نے کہا اور میں لیٹا لیٹا چونک سا گیا۔
’’میرے ساتھ!!! میرے ساتھ کون ہے؟؟؟‘‘ میں نے تشویشناک انداز میں دریافت کیا۔
’’میں۔‘‘ ’’ میں ڈاکٹر ذیشان۔ میں بھی وہیں سمندر پر موجود ہوں۔‘‘
’’اچھا! مجھے تو کوئی نظر نہیں آرہا!‘‘ میں نے ساحلِ سمندر کو ٹٹولنا شروع کر دیا۔
’’میں دور ہوں۔۔۔ آہستہ آہستہ چل کر تمہارے قریب آ رہا ہوں۔‘‘ ڈاکٹر ذیشان یہ کہہ کر کچھ دیر چپ ہو گئے۔
’’دیکھو !وہاں دور سے کوئی آ رہا ہے۔۔۔ اسی رستے سے چل کر جہاں سے تم آئے ہوں۔‘‘ مجھے دور سے کوئی اپنی طرف آتا ہوا نظر آیا۔ چھوٹا سا کسی انسان کا ہیولہ۔۔۔
’’دیکھو! کون آ رہا ہے؟؟؟‘‘ ڈاکٹر ذیشان نے پھر کہا اور خاموش ہو گئے۔
اچانک میرے چہرے کا رنگ بدلنے لگا۔میری سانسیں آہستہ آہستہ گہری ہونے لگیں۔
’’کیاہوا ؟؟ کیاہوا؟؟؟ میں آ گیا نا؟؟؟‘‘ ڈاکٹر ذیشان نے میرے بدلتے تاثرات جانچتے ہوئے یک دم پوچھا۔
’’ہاہ! ہاہ! ‘‘ میں گہرے گہرے سانس لے رہا تھا۔
’’وہ تو ۔۔۔ وہ تو وہی ہے۔۔۔ ‘‘ میری حالت غیر ہونے لگی۔
’’کون ہے؟ کون ہے ذولقرنین؟؟؟ کون ہے؟؟‘‘ ڈاکٹر ذیشان بار بار اپنا سوال دورانے لگے۔
’’وہی ! وہی!‘‘ میرے بند آنکھوں سے ایک آنسو نکل کر دائیں طرف کو بہہ گیا۔
’’کون ذولقرنین ؟ مجھے بتاؤ!‘‘
’’وہی جو میرے پیچھے پڑا ہے۔ وہی جو میرے پیچھے پڑا ہے۔‘‘
’’ہمیشہ سے میرے پیچھے پڑا ہے۔‘‘
’’وہ مجھے پھر پکڑ لے گا۔ وہ مجھے پھر پکڑ لے گا۔ ‘‘ میں ساحلِ سمندر پر ایک طرف کو تیز تیز بھاگنے لگا۔ وہ بھی میرے پیچھے بھاگا۔ جیسے ہمیشہ سے مجھے دبوچنے کے لئے لپکتا تھا۔ میرا سانس یوں چڑھنے لگا جیسے میں واقعی سر پٹ دوڑ رہا ہوں۔
’’آنکھیں کھول دو ذولقرنین ! ‘‘ ڈاکٹر ذیشان نے زور سے کر کہا۔ وہ اپنی کرسی سے اٹھ کر میری طرف لپکے۔ میں نے اپنی آنکھیں کھول دیں تھیں۔ سب کچھ غائب ہو گیا۔ مگر میں سر تا پیر پسینے میں شرابور تھا۔ سانسیں چڑھی ہوئیں تھیں۔ کان لال ہو رہے تھے۔ جسم کا درجہ حرارت تیز بخار کی مانند بڑھ گیا تھا۔ ہم گارڈن میں ہی موجود تھے۔ ڈاکٹر ذیشان نے گارڈن میں پڑا پانی کا پائپ ہاتھ میں پکڑا اور مجھ پر بھر پور چھڑکاؤ کر دیا۔ میں خود کو جھنجھوڑ کر اٹھ کھڑا ہوا اور پھر ایک بار پھر نیچے گھاس پر گِر گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔

بہت بڑا ارینجمنٹ کیا گیا تھا۔سارے شہر کے امیر ذادے اور ذادیاں اس ایونٹ میں اکھٹے ہو گئے تھے۔ تقریباََ سب ہی سے دلاور کی دوستی تھی۔دلاور کا بہت پیسہ خرچ ہو گیا تھا سب کچھ ارگنائز کرنے میں۔۔۔مگر اس کے خیال میں پیسہ تو ہوتا ہی اس لئے ہے کہ اس سے لائف انجوائے کی جا سکے۔۔۔خوب انجوائے کی جا سکے۔۔۔ اب تو مجدی بھی دلاور کے رنگ میں رنگنے لگا تھا۔ وہ بندہ جو کبھی سگریٹ کو بھی ہاتھ نہیں لگاتا تھا آج شراب کا جام ہاتھ میں لئے ڈانس فلور پر جھوم رہا تھا۔یہ کس سے لڑائی تھی؟ کس سے بغاوت تھی؟ سوائے مجدی کے اور کوئی نہیں جانتا تھا۔ دلاور کو اس سے کیا غرض تھی کہ مجدی اتنا کیوں بدل گیا ہے۔ وہ تو خوش تھا کہ مجدی نے اس کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال دیا ہے۔ اس کا بس چلتا تو بہت پہلے ہی مجھے بھی اپنی سرگرمیوں میں شامل کر لیتا۔ مگر اللہ کو تو میرے لئے کچھ اور ہی منظور تھا۔

یہ سارا پروگرام کوئی ایک ہفتے پر مبنی تھا۔ پہلے دو دن ہاکس بے پر پک نک منائی گئی، اسکوبا ڈایؤنگ ہوئی، سوئمنگ اور کیمپنگ وغیرہ ہوئی ۔ تیسرے دن آرام کے بعد سب اس رات کو ہونے والے ڈانس کومپٹیشن کے لئے آخری ریہرسل کرنے لگے۔وہ رات بھی آ گئی اور ایک ایک کر کے ہر جوڑا اپنے ہنر کا مظاہرہ کرنے لگا۔ دلاور اور سیمابھی خوب زور لگا کے ناچے ۔ مجدی کے ساتھ تو کوئی لڑکی تھی نہیں اس لئے وہ شائقین میں ہی بیٹھا نظارے کرتا رہا۔ آخر میں ججز کے پینل نے ایک جوڑے کو نمبر ون ڈانسر کا خطاب دے کر اسے لاس ویگاس گھومنے جانے کی خوشخبری سنائی۔ دلاور اداس سا ہو گیا کہ وہ کمپیٹیشن نہ جیت سکا۔

کوئی بیس لاکھ روپے کے خرچے سے صرف ایک جوڑے کو واقعتاََ کچھ مزہ کرنے کا موقع ملا کہ وہ لاس ویگاس میں سیون اسٹار ہوٹل میں کئی دن چھٹیاں منائیں گے۔ ورنہ پک نک شک نک اور ناچنا گانا تو آئے دن ان کے ماحول میں چلتا ہی رہتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔

’’روشن‘‘ میں ڈاکٹر ذیشان اور ان کا اسٹاف سب افراد کو اکھٹا کر رہا تھا۔ آج یوگا سیشن تھا۔ ایک بڑے سے ہال میں آٹھ دس صفیں بنا لی گئیں۔ آگے سارے مرد حضرات تھے اور پیچھے ساری عورتیں۔۔۔ ’’روشن ‘‘ میں بچوں کے سوا ہر عمر کے افراد داخل تھے۔ سب کی اپنی اپنی ذہنی الجھنیں اور نفسیاتی مسائل تھے۔ پچاس سال کی عمر کے لوگ ہوں یا انیس سال کے نوجوان۔۔۔ عبایہ پہنے کوئی خاتون ہوں یا جینز اور ٹی شرٹ زیب تن کئے کوئی لڑکی۔۔۔ داڑھی رکھے کوئی محترم ہوں یا شارٹس پہنے کوئی لڑکا۔۔۔ امیر ہو کہ غریب ۔۔۔ انگلش بولنے والا ہو کہ اردو بولنے والا۔۔۔ بیماری تو کسی کو بھی چھو جاتی ہے ۔۔۔ لہذا یہاں ہر ٹائپ دستیاب تھی۔

’’سب لوگ اپنے دائیں اور بائیں کھڑے ہوئے افراد کو ہاتھ ملا کر سلام کریں‘‘۔ ڈاکٹر ذیشان نے اعلان کیا۔ صفیں بن چکیں تھیں۔ ڈاکٹر ذیشان سب کی طرف منہ کئے سب کے سامنے کھڑے تھے۔
سب نے منہ بنا کر ایک دوسرے کو رسماََ سلام کیا۔
’’ایسے کیوں؟؟؟ ذرا دل کھول کر سلام کریں!!! زور سے ہنسیں!!!‘‘ یہ کہہ کر ڈاکٹر ذیشان نے ایک زور دارقہقہہ لگایا۔ غیر اردی طور پر سب کے چہروں پر مسکراہٹ آ گئی۔
’’ایک بار پھر۔۔۔ کھُل کر۔۔۔ مسکراتے ہوئے۔۔۔ ایک دوسرے کو سلام کریں۔۔۔ اور اورنچی آواز میں السلام علیکم کہیں!!!‘‘ ڈاکٹر ذیشان نے جوشیلے انداز میں زور سے کہا۔ جیسے کوئی اپنی پسندیدہ ٹیم کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ سب خوش ہو گئے۔ مسکرانے لگے اور دوبارہ مسکرا مسکرا کر ایک دوسرے کو سلام کیا۔

’’ویری گُڈ!‘‘ ڈاکٹر ذیشان کی بانجھیں کھلیں ہوئیں تھیں۔ وہ سفید رنگ کی لمبی سی قمیض اور سفید ہی رنگ کے اسپورٹس ٹراؤزرز پہنے ہوئے تھے۔

’’اب ہم تھوڑی سی ایکسرسائز کریں گے! او کے گائز!!!‘‘ انہوں نے پھر کسی کپتان کی طرح اعلان کیا۔
’’ہینڈز اپ!‘‘ ڈاکٹر ذیشان نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھا لئے۔سب نے انہی کی طرح کیا۔
’’ہینڈز ڈاؤن اور نیچے جھک جائیں!‘‘ ذیشان صاحب یک دم جھک کر اپنے پیروں کی انگلیاں چھونے کی کوشش کر نے لگے۔ باقی سب نے بھی یوں ہی کیا۔
’’ہینڈز اپ!‘‘ انہوں نے پھر ہاتھ ہوا میں بلند کر دئیے اور پھر کھڑے ہو گئے۔ میں بھی ایک صف میں کھڑا وہی کچھ حرکتیں کر رہا تھا جو ڈاکٹر ذیشا ن کر رہے تھے۔
’’او مائی گاڈ ۔۔۔ کتنا بورنگ ہے یہ۔۔۔ ہاہاہا۔۔۔‘‘ یہ کہتے ہی ڈاکٹر ذیشان اچھل کر ایک طرف کو بڑھے اور اپنے لیپ ٹاپ پر ایک بھنگڑا ٹائپ کا گانا کھول کر فُل آواز کر کے پلے کا بٹن دبا دیا۔
حیرت سے سب کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ آخر یہ ہو کیا رہا تھا!!!
’’تیرے لانگ دا لشکارا
ارے آ را ری ری را را! ‘‘
’’تیرے لانگ دا لشکارا
ارے آ را ری ری را را! ‘‘ ڈاکٹر ذیشان نے دھڑلے سے ایک ہاتھ ہوا میں بلند کیا اورجیسے کوئی نعرہ مار کے اچھلے اور چھت کو ہاتھ لگانے کی ناکام کوشش کی۔
’’چلو ڈانس کریں!!!‘‘
’’یس لیٹس ڈانس!‘‘ انہوں نے آگے بڑھ کر میرا ہاتھ پکڑ لیا اور مجھے نچانے کی کوشش کر نے لگے۔
چار و نا چار سب ہلکا ہلکا ہلنے لگ۔
ایک خاتون اپنے دونوں ہاتھ اوپر کر کے اپنی جگہ پر کھڑے کھڑے گھومنے لگیں جیسے کوئی پنکھا چل رہا ہو۔ یہ ان کا ڈانس تھا۔۔۔
ایک انکل دونوں ہاتھ کمر پر رکھ کر کبھی ایک پاؤں اوپرکرتے کبھی دوسرا جیسے کسی شہ کو اپنے پیروں تلے پیس رہے ہوں ۔ یہ ان کا ڈانس تھا۔۔۔
ایک وزنی سی آنٹی تھوڑا سا آگے بڑھتی پھر پیچھے کو ہو جاتیں ۔۔۔ پھر کچھ ہاتھ پیر مارنے کی کوشش کرتیں ۔ وہ کسی اور کو دیکھ کر اس کی نقل کر رہیں تھیں۔ یہ ان کا ڈانس تھا۔۔۔
ایک داڑھی والے انکل دونوں ہاتھوں کو سامنے کئے اپنے جگہ پر جمے دائیں سے بائیں انہیں ہلا رہے تھے۔ وہ منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑا بھی رہے تھے۔ شاید استغفراللہ استغفراللہ کا ورد کر رہے تھے وہ۔۔۔
ہم سب میں صرف ایک نوجوان لڑکا ہی تھا جو ایسے لہک لہک کر ناچ رہا تھا جیسے واقعی کوئی ڈانس ماسٹر ہو۔
میں بھی اپنا ایک ہاتھ اٹھا کر کچھ اس طرح سے اپنی ہتھیلی گھما رہا تھا جیسے پانی کا کوئی والو کھول رہا ہوں۔
تین چار منٹ میں بھنگڑا ختم ہو گیا۔ لوگ جیسا تیسا ہل جل کر کچھ تھک بھی گئے ۔ واقعی سب کی خوب ایکسرسائز ہو گئی تھی ۔ سب کا سانس پھول گیا۔ یہ میرا وہاں پہلا انوکھا تجربہ تھا۔ اور میری طرح بہت سے دوسرے لوگوں کا بھی۔ سب کے چہروں پر ایک خوشگوار اور فریش مسکراہٹ تھی۔ جیسے کسی کو کسی نے کسی ان دیکھی قید سے آزاد کر دیا ہو۔

’’او کے! اوکے!‘‘ ڈاکٹر ذیشان سب کو نچاتے نچاتے اپنی جگہ سے بہت دور نکل گئے تھے۔ وہ واپس سامنے آئے اور سب کو مخاطب کیا۔
’’آنکھیں بند کریں اور ایک گہرا سانس لیں اور اندر ہی کچھ دیر روک لیں‘‘۔
’’اب آہستہ سے سانس باہر نکالیں!‘‘ سب نے جلدی سے سانس باہر نکال دی جیسے کوئی غبارہ پھٹ گیا ہو۔
’’آہستہ سے آہستہ سے ۔۔۔‘‘ ڈاکٹر ذیشان نے سمجھایا۔
’’دوبارہ سانس اندر لیں ۔۔۔ اور پھر باہر نکالیں۔۔۔‘‘
ہم سب کچھ دیر تک یہی مشق کرتے رہے۔
۔۔۔۔۔۔۔
 

Kishwer Baqar
About the Author: Kishwer Baqar Read More Articles by Kishwer Baqar: 70 Articles with 85356 views I am a Control Systems Engineer, working in Saudi Arabia.

Apart from work, I am interested in religion, society, history and politics.

I am an
.. View More