تصور بدعت کے بارے میں پائی جانے
والی غلط فہمی کو دور کرنے کے لئے آئمہ و محدّثین کے نزدیک بدعت کی تقسیم
بیان کی گئی ہے۔ اکابر آئمہ اسلام نے کتاب و سنت اور آثارِ صحابہ کے ذریعے
اس حقیقت کو واضح کیا ہے کہ ہر بدعت ناجائز اور حرام نہیں ہوتی بلکہ صرف وہ
بدعت ناجائز ہوتی ہے جس کی کوئی اصل، مثال یا نظیر کتاب و سنت میں موجود نہ
ہو اور وہ شریعت کے کسی حکم کے واضح طور پر مخالف اور متضاد ہو۔ لیکن اس کے
برعکس جو نیا کام احکام شریعت کے خلاف نہ ہو بلکہ ایسے امور میں داخل ہو جو
اصلًا حسنات و خیرات اور صالحات کے زمرے میں آتے ہیں تو ایسے جملہ نئے کام
محض لغوی اعتبار سے ’’بدعت‘‘ کہلائیں گے کیونکہ ’بدعت‘ کا لغوی معنی ہی
’’نیا کام‘‘ ہے ورنہ وہ شرعًا نہ تو بدعت ہوں گے اور نہ ہی مذموم اور نہ
باعث ضلالت ہوں گے وہ مبنی بر خیر ’’امورِ حسنہ‘‘ تصور ہوں گے۔
تصورِ بدعت کے حوالے سے یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ بعض اوقات ایک کام
محض لغوی اِعتبار سے بدعت ہوتا ہے شرعی اِعتبار سے نہیں بعض لوگ کم فہمی کی
وجہ سے بدعتِ لغوی کو ہی بدعتِ شرعی سمجھ کر حرام کہنے لگتے ہیں۔ لفظِ بدعت،
چونکہ بَدَعَ سے ہے جس کے معنی ’’نیا کام‘‘ کے ہیں۔ اسلئے لُغوی اعتبار سے
ہر نئے کام کو خواہ اچھا ہو یا برا، صالح ہو یا فاسد، مقبول ہو یا نا مقبول
بدعت کہہ دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علماء اسلام نے بدعت کی ایک اصولی
تقسیم یہ کی ہے کہ اسے بنیادی طور پر بدعت لغوی اور بدعتِ شرعی، دو اقسام
میں منقسم کیا ہے اور بدعت کو بلا امتیاز و بلا تفریق صرف ایک ہی اکائی
سمجھ کر ہر نئے کام کو جو عہدِ رسالتِ مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا عہدِ
صحابہ کے بعد ایجاد ہوا یا رواج پذیر ہوا، مذموم، حرام اور باعث ضلالت قرار
نہیں دیا۔ بلکہ کسی نئے کام کو ’’بدعۃِ لغویہ‘‘ کے زمرے میں لکھا ہے اور
کسی کو ’’بدعۃِ شرعیۃ‘‘ کے زمرے میں اور صرف بدعتِ شرعیۃ کو ہی بدعتِ ضلالت
قرار دیا ہے جبکہ بدعتِ لغویہ کو بالعموم بدعتِ حسنہ تصور کیا ہے۔
اس تقسیم کو صراحۃً بیان کرنے والوں میں منجملہ کثیر ائمہ دین اور علماء
اعلام کے ابن تیمیہ، ابن کثیر، ابن رجب حنبلی، علامہ شوکانی اور علامہ
بھوپالی سے لیکر شیخ عبد العزیز بن باز تک ایک خاص نقطۂ نظر رکھنے والے
علماء بھی شامل ہیں۔ لہٰذا کسی بھی نئے عمل کی حلت و حرمت کو جانچنے کے لئے
اسے دلیلِ شرعی کی طرف لوٹایا جائے گا۔ اگر وہ عمل موافقِ دلیل ہو تو
’’بدعتِ حسنہ‘‘ کہلائے گا اور اگر مخالفِ دلیل ہو تو ’’بدعتِ سیئہ‘‘ یا
’’بدعتِ مذمومہ‘‘۔
مختصراً یہ کہ بدعت کے در اصل دو اِطلاقات ہیں : ایک شرعی اور دوسرا لغوی۔
شرعی اِطلاق میں بدعت ’’محدثات الامور‘‘ کو شامل ہے اور یہی ’’بدعتِ
سیّئہ‘‘ ہے۔ سو اس معنی میں ’’کل بدعۃ ضلالۃٌ‘‘ درست ہے، کیونکہ اس کا معنی
و مراد ہی ’’کل بدعۃٍ سیّئۃٍ ضلالۃٌ‘‘ ہے۔ لیکن لغوی اِطلاق میں بدعت کی
تقسیم ہوگی۔ اگر وہ مخالفِ دلیلِ شرعی یا منافی و ناسخِ سنّت ہو تو خود
بخود ’’بدعت شرعی‘‘ ہو جائے گی اور وہی ’’بدعتِ سیّئہ‘‘ ’’بدعتِ مذمومہ‘‘
یا ’’بدعتِ ضلالۃ‘‘ ہوگی اگر مخالفِ شریعت نہ ہو اور نہ ہی ناسخِ سنّت ہو
تو وہ مباح اور جائز ہوگی۔ پھر اس کی اہمیت و ضرورت اور افادیت و مصلحت کے
اعتبار سے اس کی مزید درجہ بندی ہوگی، سو یا وہ فقط بدعتِ مباحہ ہوگی، یا
بدعتِ مندوبہ (مستحبّہ) ہوگی یا بدعتِ واجبہ یعنی صورۃً وھیئۃً تو وہ کوئی
نیا کام ہوگا مگر اصلًا و دلالۃً وہ امرِ خیر اور امر صالح ہوگا جسے شریعتِ
اسلامیہ کے عمومی دلائل و احکام کی اصولی تائید میسّر ہوگی۔ اسی لئے تمام
ائمہ و محدثین اور فقہاء و محققین نے ہر زمانے میںبدعت کی یہ تقسیم بیان کی
ہے۔
جاری ہے۔۔۔ |