اس بات سے تو ہر مسلمان متفق ہے
کہ ہمارے دین کی بنیاد قرآن و سنت ہونی چاہیے ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کی
صورت میں ہمیں ایک مکمل ضابطہ عطا کر دیا اور جہاں کہیں ہمیں کسی دینی یا
دنیاوی مسایل میں مزید رہنمائی کی ضرورت پڑی وہاں نبی کا فرمان ہماری کے
لیے موجود ہے۔ جہاں تک قران کا تعلق ہے اس کا اعجاز یہ ہے کہ اس میں قیامت
تک کوئی تبدیلی ممکن نہیں۔ اور نہ ہی کوئی اس جیسی کوئی سورت بنا سکا اور
نہ ہی قیامت تک بنا سکے گا۔
جہاں تک احادیث کا سوال ہے تو احادیث کی جو کتابیں مستند سمجھی جاتی ہیں
اور جن کے بارے آج تک کوئی یہ اعتراض نہیں کر سکا کہ ان میں کسی ضعیف راوی
سے احادیث روایت کی گئیں ہیں۔ جیسے مسلم، بخاری وغیرہ ۔ کچھ مصنفین نے اگر
کوئی ضعیف روایت نقل کی تو اس کے بارے میں وضاحت بھی فرما دی کہ اس میں
فلاں راوی ضعیف ہے۔ مگر کچھ نام نہاد علماء ایسے بھی گزرے جنہوں نے ہر
جھوٹی سچی روایت کو بغیر تنقید کے اپنی کتب میں تحریر کر دیا اور۔ اور پھر
یہ روایات امت مسلمہ میں انتشار کا سبب بنیں۔ بعد میں آنے والے بہت سے
علماء نے ان روایات کا تعاقب کیا اور ضعیف روایات کو صحیح روایات سے الگ
کیا۔ اسی طرح کی ایک مشہور روایت یہاں آپ سب کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔ اس
روایت کے ضعیف ہونے کے بارے میں کافی عرصہ پہلے پڑھا تھا۔ آج ایک رسالے میں
اس کی تفصیل پڑھی جسے آپ سب کے ساتھ شیر کرتا ہوں۔
"ابن عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ عمر بن خطاب نے ایک لشکر بھیجا
اور اس کا سالار ساریہ کو بنایا۔ ایک دن جمعہ کے خطبہ کے دوران انہوں نے
یکایک یہ پکارنا شروع کر دیا (اے ساریہ پہاڑ- پہاڑ) اس طرح تین مرتبہ کہا۔
پھر اس لشکر کا پیغامبر مدینہ آیا۔ اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس لشکر
کا حال دریافت کیا تو اس نے کہا کہ اے امیر المومنیین ہم لوگ شکست کھا گئے
اور اس شکست کی حالت میں تھے کہ ہم نے یکایک ایک آواز سنی جس نے تین بار
کہا کہ اے ساریہ پہاڑ کی طرف رخ کرو۔ ہم نے پشت پہاڑ سے لگا دی اور اللہ
تعالیٰ نے ہمارے دشمن کو شکست دیدی۔ لوگوں نے کہا کہ اے امیر المومنین آپ
ہی تو تھے جو اس طرح چیخے تھے۔ (رواہ البیہقی- مشکوہ)
اس روایت کی علتیں : پہلی غور طلب بات یہ ہے کہ نبی پاک کی وفات کے 400 سال
بعد تک یہ واقعہ صحاح ستہ سمیت حدیث کی کسی قابل ذکر کتاب میں نہیں ملتا۔
راوی کے مطابق یہ واقعہ خطبہ جمعہ کے دوران پیش آیا۔ اور کتنی عجیب بات ہے
کہ سوائے عبداللہ بن عمر کے کسی اور صحابی یہ تابعی نے اسے کہیں بھی روایت
نہیں کیا۔ کتنے صحابہ اور تابعین اس خطبہ کے دوران وہاں موجود ہوں گے۔ اس
واقعہ کو پانچویں صدی میں بیہقی نے اپنی کتاب دلایل النبوت میں اور پھر ابن
مردویہ کے ذکر کیا۔
یہ روایت دو سندوں سے آئی ہے ۔ پہلی سند ( عن ابن وھب عن یحی بن ایوب عن
ابن عجلان عن نافع عن ابن عمر) اابن عجلان راوی نافع سے روایت کرتا ہے اور
اس محمد بن عجلان کے بارے میں امام عقیلی کہتے ہیں کہ یہ نافع کی روایتوں
میں اضطراب کا شکار رہتا ہے ( تہذیب التہذیب ج 9 ص342
امام بخاری نے اس کا ذکر ضعفاء میں کیا ہے (خلاصہ تہذیب کمال للخزرجی 290)
یحی القطان کہتے ہیں کہ نافع سے روایت میں یہ مضطرب ہے (میزان الاعتدال ج 3
ص 102) . امام مالک کہتے ہیں کہ ابن عجلان حدیث کے معاملات جاننے والا عالم
نہیں تھا (میزان جلد 3 ص 102)۔
ابن عجلان کا شاگرد یحی بن ایوب المصری بھی جو اس روایت کا ایک فرد ہے سخت
ضعیف راوی ہے۔ ابو حاتم کہتے ہیں کہ اس کی حدیث لکھی تو جا سکتی ہے مگر اس
سے حجت لانا روا نہیں۔ امام نسائی کہتے ہیں کہ یہ قوی نہیں۔ ابن سعد کا
کہنا ہے کہ وہ منکر الحدیث ہے۔ الدار قطنی کہتے ہیں کہ اس کی بعض روایتوں
میں اضطراب ہے۔ امام احمد کہتے ہیں کہ وہ بہت زیادہ غلطیاں کرتا ہے۔ عقیلی
نے اس کو ضعفاء میں شمار کیا ہے۔
دوسری روایت کچھ ایسے ہے۔ (عن ابی بکر احمد بن موسی بن مردویہ قال حدثنا
عبداللہ بن اسحق بن ابراھیم اخبرنا جعفر الصایغ حدثنا حسین بن محمد الروذی
اخبرنا فرات بن السایب عن میمون بن مھران عن ابن عمر عن ابیہ۔۔۔۔۔) اس
روایت میں فرات بن السایب راوی جو میمون بن مھران کا شاگرد ہے جھوٹا اور
روایت گڑھنے والا تھا۔ امام بخاری کہتے ہیں کہ منکر الحدیث تھا محدثین نے
اسے چھوڑ دیا (التاریخ الکبیر ج1 ص 304) یحی بن معین کہتے ہیں کہ اس کی کچھ
حیثیت نہیں۔ الدار قطنی متروک کہتے ہیں۔ امام احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ وہ
محمد بن زیاد بن الطحان کی طرح ہے۔ اور اس پر بھی میمون بن مھران سے روایت
کرنے میں وہی تہمتیں ہیں جو محمد بن زیاد پر ہیں محمد بن زیاد کو امام احمد
کانا کذاب کہتے ہیں۔ ابن المدینی کہتے ہیں کہ میں نے جو کچھ اس سے حاصل کیا
تھا اس کو میں نے پھینک دیا۔ ابو زرعہ کہتے ہیں کہ وہ جھوٹ بولتا تھا۔ (
لسان المیزان ج4 ص 430-431 ، میزان الاعتدال ج 2 ص 325 ج 3 ص60)
اس خاکسار نے محدثین کی تحقیق اس حدیث کے بارے میں نقل کر دی ہیں تاکہ میرے
تمام مسلمان بھائی اس روایت کی حقیقت تک پہنج جائیں۔ |