وہ سیدھا سادا مزدور آدمی تھا۔ بامشکل گھر کا خرچہ چلا پا
رہا تھا۔ غربت و عسرت کے سبب گھر میں ہر وقت کل کل چلتی رہتی۔ وہ اپنی حد
تک تو مشقت اٹھا رہا تھا۔ یہ ہی اس کے بس میں تھا۔ وافر کہاں سے لاتا۔ باپ
بھی مشقتی تھا۔ اس نے بھی اسی طرح محنت مشقت سے انہیں پالا پوسا تھا۔ بھوک
اور ہمہ وقت کی تو تکرار نے اس کے ذہن کو تقریبا معطل سا کر دیا تھا۔ اس کی
ہر سوچ کی تان روٹی پانی پر ہی ٹوٹتی تھی۔
یہ اس نے کوئی پہلی بار مسجد میں قدم نہ رکھا تھا۔ اس سے پہلے بھی وہ کئی
بار مسجد میں عید نماز پڑھنے آ چکا تھا۔ ہر بار اسے نصیحتوں سے پالا پڑا
تھا۔ مولوی صاحب نے کبھی بھوک سے نجات کا کبھی کوئی طریقہ یا رستہ بیان نہ
کیا تھا۔ مولوی صاحب کو کھلا اچھا اور ون سوونا کھانے کو مل جاتا تھا۔ نئی
پرانی علاقے کی حوریں دم اور تعویز دھاگے کے لیے آتی تھیں۔ پرہیزی سہی‘
ٹھرک جھاڑنے کا موقع مل جاتا۔ عادت سے مجبور اپنے اور دوسرے گھروں کے اندر
کے بھید سنا جاتیں اس لیے اسے کسی قسم کی بھوک پیاس ہی نہ تھی۔ بھوک یا
کاروباری قسم کی باتیں اس کے مطلب کی نہ تھیں۔
یہ پہلی بار تھی جو مولوی صاحب کو کوئی کاروباری بات کرنے کی توفیق ہوئی۔
مولوی صاحب نے جنت کی حوروں کا بڑے ہی رومانی اور دلکش انداز میں تذکرہ کیا۔
مولوی صاحب نے کہا کہ وہ انڈے کی طرح سفید ہوں گی اور ہر جنتی کو تعداد میں
ستر ملیں گی۔ مولوی صاحب نے تو ان کی رنگت بیان کی لیکن اس کی سمجھ میں یہ
آیا کہ حوریں انڈے دیں گی۔ مولوی صاحب جانے اور کیا کچھ کہتے رہے لیکن بھوک
نے اس کے سوچ کو انڈوں کے گرداب سے باہر نہ آنے دیا۔
اس نے سوچا سب لوگ تو جنت میں نہیں جائیں گے۔ اچھا کرنے والے ہی جنت میں جا
سکیں گے۔ وہ ستر انڈے ابال کر بےحوری علاقہ میں ہر روز بیچا کرے گا۔ ایک
انڈا اگر دس روپے میں فروخت ہوا تو سات سو روپیے سیدھے ہو جائیں گے۔ سات سو
روپیے منہ سے ہی کہنا ہے ہاتھ آنا اتنا آسان نہیں ہوتا۔ سوچ ذرا پھیلی تو
مایوسی کا دوبارہ سے دروازہ کھل گیا۔ سات سو میں ستر وہ اور ایک یہ گویا
اکہتر کا ناشتہ پانی ہی نہیں ہو سکے گا۔ باقی کا خرچہ کہاں سے آئے گا۔ یہاں
ایک کے لیے سارا دن مشقت اٹھاتا ہے پھر بھی پوری نہیں پڑتی اور رات گئے تک
ہاجاں کے کوسنے سنتا ہے۔ وہاں ستر کے طعنے مینے کیسے سن سکے گا۔
اسے مولوی صاحب کے اس ڈنڈی مار رویے پر سخت افسوس ہوا۔ خود پیٹ بھر کھاتا
ہے اور اوروں کے لیے پیٹ بھر کھانے کا رستہ تنگ اور مشکل بنا رہا ہے۔ پھر
اس کے منہ سے نکل گیا واہ مولوی صاحب واہ کیا کہنے آپ کے خود پیٹ بھر کھاتے
ہو اور گریبوں کے لیے جنت میں بھی مشقت اور وہ ہی زمینی فاقہ۔
ابوزر برقی کتب خانہ
مئی ٢٠١٧ |