قاتل کوتختہ دارپرلٹکانے کاوقت آپہنچاتھا،اس نے ملک میں
رائج قوانین کے تحت تنہائی میں اپنی ماں سے ملنے کی خواہش کااظہارکیا ۔سزائے
موت کے قیدی کی خواہش پورا کرنا جیل حکام کافرض منصبی تھا لہٰذاء نوجوان
قاتل کی ماں کو اس سے ملنے کیلئے مقررہ وقت پرجیل پہنچادیاگیا ۔قاتل بیٹے
نے ماں کے کان میں کوئی اہم بات کرنے کیلئے اسے کال کوٹھڑی کی سلاخوں کے
پاس بلایا اور اپنے دانتوں سے ماں کا کان زورسے کاٹ دیا جس سے خون بہنا
شروع ہوگیا ۔جیل اہلکاروں نے فوری مداخلت کرتے ہوئے قاتل کی گرفت سے ماں
کاکان چھڑایا اورقاتل بیٹے کی بازپرس کرتے ہوئے اسے اپنی ماں کانافرمان
قراردیا جس پرقاتل نے جواب دیا،''میں یتیم ہوں ،میری پرورش ماں نے کی
ہے''۔تاہم میرے اس انجام میں درحقیقت میری ماں کاہاتھ ہے۔جس دن میں نے
زندگی میں پہلی بارچوری کی تھی اگراُس روزمیری ماں نے مجھے
روکااورسمجھایاہوتایاسزادی ہوتی تومیں ایک پیشہ ور چوربنتااورنہ واردات
کرتے ہوئے مجھ سے کسی بیگناہ کا خون ہوتا ۔میری ماں کوبھی میرے ساتھ تختہ
دار پر لٹکادیاجائے ۔ماں نے یہ سن کردھاڑیں مارمارکرروناشروع کردیامگر اب
اس کاماتم جوان بیٹے کودردناک موت سے نہیں بچاسکتا تھا ۔بعدازاں قاتل
کوتختہ دارپرلٹکادیا گیا اورضروری کاروائی کے بعد میت ماں کے سپردکردی گئی
۔اپنے جوان اوراکلوتے بیٹے کی میت پرماں نے پھوٹ پھوٹ کر رو تے ہوئے کہا
کاش میں نے اس وقت اپنے بیٹے کے کان کھینچے ہوتے جس وقت اس نے چوری
کازیورمجھے دیا تھا توآج یہ میرے کان پر کا ٹتااورنہ ہمارے خاندان کی ناک
کٹواتا ۔اِنسان کابروقت اوردرست اِقدام یقینا اسے اوراس کے پیاروں کو برے
انجام سے بچاتا ہے۔اگر بچوں کوبچپن میں چوری سے نہیں روکاجائے گاتو پچپن تک
ان کاڈاکوبننا یقینی ہے ۔کسی بھی برائی کوشروعات میں روکنا یاکچلنا آسان
ہوتا ہے ۔
یہ کہانی پڑھ کرمجھے ایک شریف آدمی یادآگیا جس نے بظاہر اپنی بیٹی کو سزاسے
بچالیا تھامگرلوگ گلی محلے سمیت ہرمحفل میں باپ اوربیٹی دونوں کو پل پل سزا
دے رہے تھے۔ ہمارے ہاں کچھ لوگ جس کام کو اپنی رفعت اور نصرت سمجھ رہے ہوتے
ہیں وہ اس میں چھپی نفرت کومحسوس نہیں کرتے ۔نفرت اورحقارت کی قیمت پرملی
نصرت کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ایک باضمیر انسان کیلئے دوسروں کی نفرت اورمذمت
سے بڑھ کرکوئی سزانہیں ہوسکتی ۔کسی کاتاج اچھالنا ،تخت الٹانا یاکسی کی
حکومت گراناکوئی سزانہیں بلکہ کسی کو عوام کی نگاہوں سے گرانا بدترین سزاہے
۔اپنے عوام کی نظروں سے گرجانے کے بعدسنبھلنا اوردوبارہ اٹھنا آسان نہیں
ہوتا۔دھونس دھاندلی یابیرونی قوتوں کے آشیرباد سے حکومت میں آنا نہیں بلکہ
اپنے کردار سے عوام کواپناگرویدہ بنانااہم ہے۔اپنے گناہوں کاملبہ دوسروں
پرڈالنا آسان مگریہ عارضی حل ہوتا ہے کیونکہ ایک انسان کے گناہوں کابوجھ
دوسرانہیں اٹھاسکتا۔انسان کوزندگی میں بار بار اپنے گناہوں کاسامنا
کرناپڑتا ہے،انسان مرجاتا ہے مگراس کے گناہ نہیں مرتے۔گنہگارانسان کی موت
کے بعد بھی اس کے گناہوں کاتذکرہ ہوتا رہتا ہے ۔سچے دل سے توبہ یاکفارہ
اداکرنے تک انسان کے گناہ اس کاتعاقب کرتے ہیں۔گنہگار خودتوقبرمیں اترجاتا
ہے مگراس کے گناہ اسے روز انہ زندہ کرتے اورمارتے ہیں ۔ اس بیٹی یابیٹے
کامستقبل ہرگز روشن نہیں ہوسکتا جس کو اس کی غلطی پرسزانہیں ملتی کیونکہ اس
طرح ہم لوگ مزید اورسنگین غلطیاں کرتے چلے جاتے ہیں لیکن کوئی طاقتورسے
طاقتورباپ بھی ہربار اپنے بچوں کوسزاسے نہیں بچاسکتا۔کسی فرد یاریاست
کارازبھی امانت ہوتا ہے اس میں خیانت کے مرتکب کوصادق وامین قرارنہیں
دیاجاسکتا۔جوانسان قومی رازفاش اورانہیں اپنے مذموم مفادات کی تکمیل کیلئے
دانستہ ریاستی اداروں کیخلاف استعمال کرے وہ کسی آئینی منصب کااہل نہیں
ہوسکتا ۔ہمارے ہاں لوگ اپنے بچوں کی غلطیوں کوشرارتوں کانام دے کران سے چشم
پوشی کرجاتے ہیں مگر ان کی یہ مجرمانہ غفلت اور پردہ پوشی ان کے شریربچے کو
بندگلی میں یاپھرتختہ دارتک لے جاتی ہے ۔اپنے شریر بچوں کی غلطیاں چھپانے
اورانہیں سزاسے بچانے والے ماں باپ درحقیقت ان سے دشمنی کررہے ہوتے
ہیں۔بچوں کوسنوارنے اوربگاڑنے میں ماں باپ کلیدی کرداراداکرتے ہیں۔ عہدحاضر
میں کچھ لوگ ضرورت نہیں بلکہ فطرت کے تحت مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہوجاتے
ہیں۔طاقتورطبقہ قانون شکنی کواپناحق اورتفریح سمجھتا ہے۔پاکستان میں قانون
سے صرف کمزورڈرتے ہیں ،قانون بنانے والے منتخب نمائندوں کی طرف سے زیادہ
قانون شکنی اورسکیورٹی فورسز کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔
سراپارحمت ، سرورکونین حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے جب ایک فاطمہ نامی
خاتون کو چوری کے ارتکاب پر ہاتھ کاٹنے کی سزاسنائی توایک قبیلے کے کچھ
بااثر لوگ اس خاتون کوسزاسے بچانے کیلئے سفارش لے کربارگاہ رسالت میں حاضر
ہوئے، جس پراﷲ پاک کے محبوب شفیق ومہربان حضرت محمدصلی اﷲ علیہ وسلم نے
فرمایا ،" اگر اس فاطمہ کی بجائے فاطمہ بنت ِ محمدبھی ہوتی تومیں اس کے بھی
ہاتھ کاٹنے کی سزاسناتا"۔ان اقوام کی بربادی کاحال تاریخ کے اوراق سے معلوم
ہوتا ہے جہاں طبقاتی نظام رائج تھا ۔معاشرے کے طاقتورطبقات قانون کی دھجیاں
بکھیرتے تھے جبکہ کمزور وں کوسخت سزاؤں کاسامنا کرناپڑتا تھا۔سزاسے
بچناکوئی کامیابی نہیں بلکہ گناہ یعنی مجرمانہ سرگرمیوں سے بچنا کامیابی ہے
۔معاشروں کی بربادی میں ظلم وستم سے زیادہ انصاف کی عدم دستیابی کادخل ہوتا
ہے ،پاکستان میں قانون کی حکمرانی اورانصاف کی فراوانی یقینی بنائی جائے
۔انصاف تک رسائی سہل بنانے کی ضرورت ہے ۔
پاکستان میں چورصرف زندانوں میں نہیں بلکہ ایوانوں میں بھی پائے جاتے ہیں۔
چوری اورسینہ زوری کامحاورہ پاکستان میں کئی کرداروں پرپوری طرح صادق آتا
ہے،بدعنوان عناصر دوسروں سے زیادہ بدزبان ہیں۔پاکستان میں جوزیادہ بڑی
اورمہارت سے چوریاں کرتاہے اسے کیفرکردارتک پہنچانے کی بجائے الٹا وزارتوں
کی صورت میں چُوریاں پیش کی جاتی ہیں۔چوروں کے شورمیں احتساب کی صدادب کررہ
گئی ہے،مجھے ڈر ہے اگرچوروں کااحتساب نہ ہواتوملک میں خونی انقلاب آجائے گا
۔ہمارے ہاں جس کام کوتعمیروترقی کانام دیا جارہا ہے وہ پراجیکٹ درحقیقت
شعبدہ بازی کے زمرے میں آتے ہیں ۔شاہراہیں بنانے سے زیادہ شہریوں
کامعیارزندگی بلندکرنے کی ضرورت ہے۔بدقسمتی سے اختیارواقتدار اورمقروض ملک
کے قومی وسائل شوبازوں کی دسترس میں ہیں۔ناقص ترجیحات کے ساتھ کوئی ریاست
ترقی کاسفرطے نہیں کرسکتی ۔حکمرانوں کامزاج جمہوری ہے اورنہ وہ اپنے مشیروں
کی ٹیم میں سے کسی کے ساتھ رسمی مشاورت کرتے ہیں۔ماضی میں آئینی مدت پوری
نہ ہونے کاماتم کرنیوالے بھی اداروں کے ساتھ چھیڑچھاڑ سے بازنہیں آتے
۔حکمرانوں کاآناجانالگارہتا ہے مگر ملک روزروزمعرض وجودمیں آتے ہیں اورنہ
کوئی ریاستی ادارہ مہینوں میں تیارہوتاہے ۔ ریاست کا ستون افرادنہیں اداروں
کوقراردیاجاتاہے،ریاست کے کسی بھی ستون پرحملے میں ملوث عناصر پرہرگزاعتماد
نہیں کیا جاسکتا۔پاک فو ج سے پاکستانیوں کی والہانہ محبت فطری اورابدی ہے ،
ایک ٹوئیٹ کی واپسی سے اس میں کمی نہیں آسکتی۔پیچھے ہٹ جانے یاپلٹ جانے
کوشکست قرارنہیں دیاجاسکتا ۔پاک فوج کی کمانڈ ایک پروفیشنل سپہ سالار کے
ہاتھوں میں ہے۔جنرل قمرجاویدباجوہ بیک وقت مختلف چیلنجز سے نبردآزما
اورخطرات کامردانہ وار مقابلہ کررہے ہیں۔ پاک فوج مصلحت پسند نہیں بلکہ
پاکستان کے اندراورباہرسے حملے کرنیوالی ملک دشمن قوتوں کیخلاف سربکف
ہے۔آرمی چیف جنرل قمرجاویدباجوہ پاکستان میں پائیدارامن اوراستحکام کیلئے
کمربستہ ہیں ۔مٹھی بھرسیاستدانوں اورصحافیوں کوایک سائیڈ پرکردیں تومجموعی
طورپرپاکستانیوں میں آج بھی 1965ء والے صادق جذبے بیدار ہیں،سچے پاکستانیوں
کادل آج بھی پاک فوج کے ساتھ دھڑکتا ہے ۔پاک فوج سے پاکستانیوں کومتنفر
یابیزار کرنے کی سازش کے ڈانڈے ایک پڑوسی ملک سے ہوتے ہوئے سات
سمندرپارجاملتے ہیں۔پاکستان کے اندرسے میرجعفر اورمیرصادق کی باقیات بھی
سرگرم ہیں مگران کاکوئی وار پاکستانیوں اورپاک فوج کے درمیان دراڑپیدانہیں
کرسکتا ۔پاک فوج کوکمزوراورمحدودکرنے کی منصوبہ بندی کاماسٹر مائنڈ ملک
درحقیقت ہمارے ایٹمی پروگرام کادشمن اوراس تک رسائی کیلئے کوشاں ہے۔پاکستان
کی دشمن قوتوں کوادراک ہے کہ وہ پاک فوج کی پشت پرکھڑے عوام کووہاں سے
ہٹائے بغیر اپنے ناپاک ارادوں میں ہرگزکامیاب نہیں ہوسکتے ۔پاک فوج آج بھی
1965ء والی فوج ہے ،فرق یہ ہے کہ 1965ء میں دشمن کی جارحیت کادفاع اوراسے
پسپائی پرمجبورکرنے کیلئے اس وقت جنرل (ر)ایوب خان جیسی نڈراورباضمیرقیادت
تھی جبکہ 1972ء میں سیاستدان فیصلے کررہے تھے جبکہ شکست اورسرنڈرسے
ہونیوالی خفت کاملبہ جنرل (ر) نیازی پرگرادیا گیا ۔پاک فوج کیخلاف زہریلے
اوربے بنیاد پروپیگنڈے میں عوام نہیں مخصوص عناصر ملوث ہیں۔جولوگ نیوزلیک
کرسکتے ہیں ان سے کچھ بھی بعید نہیں ہے۔عوام سوشل میڈیا پرپاک فوج کیخلاف
ہرزہ سرائی کرنیوالے عناصر کی ریاستی اداروں کواطلاع دینے کے ساتھ ساتھ
انہیں بلاک کردیں۔
میر جعفر اورمیرصادق کی باقیات حبیب جالب مرحوم کے اس شعر پرضرورغورکریں۔
گماں تم کوکہ رستہ کٹ رہا ہے
یقیں مجھ کوکہ منزل کھورہے ہو
|