ابراہیم نخعی ؒعلم کی وسعت ’فقہی بصیرت میں نمایاں مقام
رکھنے کے ساتھ ساتھ نہایت متواضع اور پرہیز گار بھی تھے ۔ شہرت طلبی سے دور
بھاگتے تھے جیسے انسان موزی جانور سے دور بھاگتا ہے ۔ کبھی مجلس میں ستون
سے ٹیک لگاکر نہیں بیٹھتے اور اسے پسند نہیں کرتے تھے ۔ اعمش ؒ کہتے ہیں کہ
میں ایک مرتبہ ابراہم نخعی ؒ ے پاس بیٹھا تھا اور وہ قرآن پاک کی تلاوت میں
مشغول تھے اچانک ایک شخصنے اندر آنے کی اجازت چاہی تو ابراہیم نخعی ؒ نے
فوراً قرآن پاک پر کپڑ ا ٹال دیا اور اسے چھپا دیا اور کہنے لگے کہ وہ دیکھ
کریہ نہ سمجھے کہ میں ہر وقت قرآن ہی پڑھتا رہتا ہوں ۔ ابراہیم نخعی ؒ کی
بیوی بیان کرتی ہے کہ یہ ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن روزہ نہ رکھتے
یعنی صوم داؤدی کا معمول تھا جیسے احادیث رسول ﷺ میں سب سے افضل اور بہتر
قرار دیا گیا ہے۔ زہد و تقویٰاور پرہیزگاری کا یہ حال تھا کہ شکوک و شبہات
کے مواقع سے بچتے بیوی کا جب انتقال ہوا تو اس کا جو مال تھا اس کے گھر
والوں کو دے دیا کہ اس کے ورثاء میں تقسیم کر دیا جائے ۔ ان سے پوچھا گیا
کہ کیا تم کو اس نے ہبہ نہیں کیا تھا؟ انہو ں نے جواب دیا کہ ہاں کیاتو تھا
لیکن وہ بیمار تھی اور اس حال میں ھبہ کا کیا اعتبار۔
ایک مرتبہ سواری کیلئے جانور کرایہ پر لیا راہ چلتے ہوئے کوڑا ہاتھ سے گر
گیا سواری سے اتر کر اسے باندھا اور پیچھے پلٹ کر پیدل گئے اور کوڑا اٹھایا
لوگوں نے تعجب سے پوچھا کہ اگر سواری کو موڑ کر پیچھے لے جاتے اور اس جگہ
اتر کر اٹھا لیتے تو کیا یہ آسان نہ تھاجواب میں کہنے لگے ’’ میں نے جانور
کو اس طرف کرایہ کیلئے لیا ہے نہ کہ پیچھے کی طرف ‘‘ کہتے ہیں کہ ہم سے
پہلے سلف و صالحین کا یہ حال تھا کہ ان میں جب کوئی جنازہ ہوتا تو کئی دن
تک غمگین رہتے کہ ان کے چہروں سے غم ظاہر ہوتا تھا ۔ ایک مرتبہ لوگوں کو
نصیحت کرتے ہوئے کہنے لگے کہ ہم جب کسی جنازہ میں شریک ہوتے ہیں یا کسی کے
انتقال کی خبر سنتے ہیں تو کئی دن تک ہم پر اس کا اثر رہتا ہے کیونکہ اب وہ
ایسی جگہ پہنچ گیا ہے جہاں اس کیلئے جنت ہے یا دوزخ اورتم لوگوں کا یہ حال
ہے کہ تم اپنے جنازوں میں بھی دنیاوی باتیں کرتے ہو ۔ ایک شخص پہلے اچھی
حالت میں تھا پھر اس جگہ بگاڑ آگیا تو اس کے ساتھیوں نے اسے چھو ڑ دیا اور
اس سے کنارہ کش ہو گئے ۔ ابراہیم نخعی ؒ تک یہ بات پہنچی تو کہنے لگے ’’ اس
کو نصیحت کرو اصلاح کی کوشش کرو اور اس سے قطع تعلق نہ کرو ‘‘ خود ان کی
عادت یہ تھی کہ کسی کے اندر کوئی برائی اور کمزوری دیکھتے تو اصلاح کی کوشش
کرتے اور نصیحت کرتے لیکن برائی کی وجہ سے اس کی تحقیر نہ کرتے نہ اسے عار
دلاتے اور نے برائی کے ساتھ اس کا ذکر کرتے اس ڈر سے کہکہیں میں خود اس
برائی میں مبتلا نہ ہو جاؤں۔
انتقال سے قبل رونے لگے لوگوں نے وجہ پوچھی فرمایا ’’ کیسے نہ روؤں ؟ ملک
الموت کا انتظار کر رہا ہوں پتہ نہیں وہ مجھے جنت کی خوش خبری دے گا یا
جہنم کی ؟ ‘‘ بیماری کی شدت بڑھ گئی تو زبان پر کلمہ توحید کا ورد تھا اسے
پڑھتے ہوئے اس دنیا ئے فانی سے رخصت ہو گئے۔ (انا ﷲ و انا الہ راجعون) |