مثبت اور منفی

اسلام علیکم باجی جی،
میں کچن میں کھانا بناتے ہوئے اپنے خیالات کی دنیا میں محو تھی جب کسی کے ا س طرح جا ہلانہ تلفظ میں سلام کرنے پہ جونک کر اپنے پاس کھڑی اس سلام کرنے والی نحیف سی لڑکی کو دیکھا،،
وہ بہت میلے کچیلے سے کپڑوں میں ملبوس ایک گاؤں کی لڑکی تھی جسے دیکھ کر لگتا تھا کہ حد سے ذیادہ محنت و مشقت نے اسے وقت سے پہلے عورت بنا دیا ہے،
جو کہ۔میرے لیے اتنے تعجب کی بات نہیں تھی کیوں کہ میرا تعلق بھی ایک پسماندہ گاؤں سے ہی ہے جہاں ہر عورت مردوں سے کئی گنا ذیادہ مشقت کے باعث وقت سے بہت پہلے بوڑھی ہو جاتی ہے،،
و علیکم السلام، خیر میں نے اسے بغور دیکھتے ہوئے سلام کا جواب دینے کے ساتھ اپنی یاداشت کی تہوں میں اس کا وجود کھنگالنے کی کوشش کی لیکن جواب نہیں میں موصول ہوا مطلب میں اسے پہلی بار دیکھ رہی تھی ،،
اس نے میرے چہرے کے تاثرات بھانپتے ہوئے فورا اپنا تعآرف کرایا، باجی جی میں بھاگ بھری دی نوں (بہو)آں،،
اچھا اچھا میں نے سر کو اوپر سے نیچے ہلاتے ہوئے جواب دیا،
خیر اے؟
میں نے اس کے آنے کی وجہ دریافت کرنے کے کیلئے سوال کیا،
اوو،،، باجی جی میرا بچہ بیمار ہے ہسپتال داخل ہے اوہدے لئی کوئی اللہ اللہ کر دیوو،
کیوں کیا ہوا تمہارے بچے کو اور کیا عمر ہے اس کی،؟
میں چہرے پہ تفکر لاتے ہوئے پوچھا،
وہ جی دو سال دا ہے اور ڈاکٹر کہتا ہے اونہوں ٹھنڈ لگ گئی اے،
اس نے بڑے پر سکون انداز میں جواب دیا،
کوئی بات نہیں اللہ سوہنا خیر کرے گا،
میں نے حسب روایت تسلی دیتے ہوئے کہا،
کیسے ٹھنڈ لگ گئی اسکو ،؟
میں نے پوچھا ،
اوہ جی بچے ٹک کے بیٹھتے کہاں ہیں اور پھر اسی وی روزی روٹی کمانے صبح گھر سے نکلے شام واپس آتے ہیں ،
اس نے جواب دیا،
صحیح ،،
میں نے اس کی بات سمجھتے ہوئے کہا،
کتنے بچے ہیں تمہارے ؟
میں نے مزید پوچھا ، تن(3) ہیں جی۔ ایک بیٹی اور دو بیٹے اور ایک جو سب سے پہلے بچہ ہوا تھا وہ فوت ہو گیا تھا،
اوہہہہ ھووو،،
میں نے افسوس کیا،
بس جی اللہ سائیں دی مرضی ،
بھاگ بھری کے اور کتنے بیٹے بیٹاں ہیں میں نے انٹرویو جاری رکھتے ہوئے ایک اور سوال کیا، اوہ جی بس دو ای پتر (بیٹے ) ہیں اور تین نوواں(بہوئیں ) اس نے میری طرف دیکھتے ہوئے کافی معنی خیز انداز میں بتایا ،
ہائیں،،،،🙄
کیونکہ ہم عرب معاشرے میں نہیں رہتے اس لئے اسکا یہ جواب میرے لئے خاصا حیران کن اور غیر معمولی تھا،
ساتھ ہی ساتھ یہ ان پڑھ اور پینڈو عورت مجھے خاصی دلچسپ بھی لگی،
اور ویسے بھی میرے خیال سے ہمارے ارد گرد موجود ہر انسان اپنے اندر ایک کہانی ہے اور ان کہانیوں میں مجھے خاصی دلچسپی رہتی ہے کتابوں میں پڑھی جانے والی کہانیوں سے ذیادہ ،
کیونکہ ان سے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے مومن کی علامات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ جب بھی کسی انسان سے ملے تو اس کی نیت کچھ سیکھنے کی ہو،
تبھی میری ہر ایک سے بات کرتے وقت یہی نیت ہوتی ہے کہ کچھ نہ کچھ نیا سیکھ اور سمجھ سکوں،
میری حیرت کو دیکھتے ہوئے وہ خاصی محظوظ ہوئی جس کا پتہ اس کے چہرے پہ آئی مسکراہٹ سے ہو رہا تھا،
وہ با جی جب میرا پہلا بچہ ہو کر فوت ہو گیا تھا تبھی میرا میاں نئی ووہٹی (بیوی )لے آیا تھا ان سب کو لگتا تھا ہ کہ اسے کوئی بیماری ہے تو یونہی اسکے بچے مرتے رہے گے، اس نے مجھے میرے پوچھے بنا ہی تفصیل سے آگاہ کیا، جو میری لئے خاصا عجیب تھا،
کیونکہ کہ ابھی تک میں اس کی باتوں سے یہ اندازہ نہیں کر پائی تھی کہ اسے اپنے شوہر سے کوئی شکایت ہے یا نہیں ،
تو تم نے کوئی احتجاج نہیں کیا؟
میں نے اسے کریدنے کے سوال پوچھا،
نہ باجی میں کی کہنا سی، مجھے تو پتہ ہی تب چلا جب وہ اپنی نوی ووہٹی کو ویاہ (بیاہ) کر گھر لے آیا تھا،
تب تک میرے پاس ایک بیٹی بھی ہو گئی تھی ،
میرے ماں پیو(ماں باپ) کو جب پتہ لگا تو وہ مجھے لینے آ گئے تھے کہ ان لوگوں نے چنگا (اچھا) نئیں کیتا تیرے ساتھ ، تو چل ہمارے ساتھ ساڈی دھی(بیٹی) کوئی لا وارث تو نہيں ،
پر با جی میں نئیں گئی ،
کیوں نہيں گئی،؟
میرا سسپینس تھوڑا اور بڑھا تھا،
وہ جی کیسے جاتی وہ تو مرد ہے اسکا کیا بگڑنا تھا اس کے پاس تو بیوی بھی تھی اور بچے بھی ہو جاتے ، رل (در بدر) تو میں اور میری دھی جاتی،
چلو میرے ماں باپ میرا بھی کہیں اور ویاہ کر دیتے پر میری معصوم بچی کا کیا قصور اس کا کیا بنتا،
مجھے اس ان پڑھ عورت کی باتیں حیران ہونے پہ مجبور کر رہی تھی اور میں سوچ رہی تھی کہ اگر اس کی جگہ کوئی well educated لڑکی ہوتی تو اس کی کیا سوچ ہوتی،
پھر کیا ہوا؟ میں نے مزید پوچھا ، بس باجی میرے ماں پیو ناراض ہو کے چلے گئے کہ تجھے ہم سے ذیادہ اپنا سسرال عزیز ہے،
اور دو سال تک مجھے نہیں بلایا پر اب خیر سے میں آتی جاتی ہوں ،
بھلا ماں پیوں وی کدی اولاد کو چھوڑ سکدا اے،
ہن اللہ سوہنے دے کرم نال میرے کول دو پتر نے،
ما شاءاللہ اور تمہاری سوتن کے پاس،؟
مجھے تجسس ہوا تو سوال پوچھا،
اس شوہدی(بیچاری) نوں اولاد نئیں ہوئی باجی اس نے خاصے افسوس سے کہا ،
اوہ،، تم دونوں کی آپس میں لڑائی نہیں ہوتی ؟
میں نے مزید اپنے حسب خواہش جواب جاننے کے لئے اسے کریدا ،
نہ باجی لڑائی کس لئے بڑی اچھی ہے میرے ساتھ وہ تو،
اور تمہارا میاں اور باقی سسرال والے،؟
مجھے وہ سادہ اور بظاھر ان
پڑھ سی عورت حیران ہی کیے جا رہے تھی، کیونکہ اتنی طویل گفتگو میں اس نے ایک دفعہ بھی کسی کی برائی نہیں کی تھی جو میں ہر روز ہر عورت سے سننے کی عادی تھی،
اور جن کو میں بعد میں صبر اور سب سے حسن سلوک کی تلقین کرتی تھی،
اور ایک یہ تھی کہ جو مجھے میرا حسن سلوک کا فلسفہ جھاڑنے سے محروم رکھ رہی تھی،
آخر کسی کے بارے میں تو بتائے کہ اچھا نہیں ہے ،
وہ سب تو میرا بڑا کرتے ہیں جی،
احسان مانتے ہیں میرا کہ ہم نے تیرے ساتھ اتنی ذیادتی کی فیر وی تو نے گھر نہیں چھوڑا،
اور تمہاری ساس؟
اب میرے پاس یہیں آخری ایک سوال بچا تھا جس پہ ہر عورت تلملا کر کچھ نہ کچھ دکھ بیان کر ہی جاتی ہے،
وہ تو میری ما ں جیسی ہے باجی بلکہ ما ں سے بڑھ کر کیونکہ کے اس کے پتر کا ہی تو کھاتی ہوں اسی کے گھر میں رہتی ہوں اس کے بچوں کی ماں ہوں تو وہ میرے لئے بری کیسے ہو سکتی ہے،
نام کیا ہے تمہارا بلآخر مجھے اس کے نام پوچھنے کا خیال آیا،
سمیرا نام ہے جی میرا،
سمیرا تمہیں پتہ ہے آج تم نے مجھے بہت ذیادہ حیران کر دیا ہے تم بہت اچھی ہو اور تمہاری باتيں بھی بڑی دلچسپ ہیں ورنہ کوئی گاؤں کی ان پڑھ تو کیا شہر کی پڑھی لکھی عورت بھی ان حالات میں ایسا نہ سوچتی جو تم نے سوچا ،
اسی لئے اللہ نے تمہارے ساتھ کچھ بھی برا نہیں ہونے دیا،
لو باجی آآ کی گل ہوئی ،(یہ کیا بات ہوئی ) بھلا جب ہم لوگ کہتے ہیں کہ چنگیاں نال ہر کوئی چنگا(اچھوں کے ساتھ سب اچھے ہوتے ہیں ) تے بھلا رب سوہنا چنگا کیسے نہیں ہو گا جو بروں کو بھی مہلت دیتا رہتا ہے، بڑا کرم اے جی میرے سوہنے رب دا میرے تے، وہ اللہ کا نام اتنے پیار اور سرور سے لے رہی تھی کہ میں اس کا سانولا سا چہرہ دیکھتی ہی رہ گئی ،
تمہیں اتنی باتیں کس نے سکھائی ہیں سمیرا،؟
میرے اس سوال پہ وہ خوش ہو کہ مسکرائی اور بولی میری ما ں نے جی،
اور کچھ ویلا وقت وی بندے نوں بڑا کچھ سمجھا دیتا ہے،
اوہ باجی میں تے بھل ای گئی کہ میں کوئی الله الله کرانے آئی تھی اپنے بیٹے لئی ، کوئی تعویذ ای دے دیو وہ جلدی ٹھیک ہو جائے ، اس نے یاد آنے پر پھر سے اپنا مدعا بیان کیا،
میں نہيں امی جی کرتی ہیں تم ان کے پاس چلی جاؤ اندر میں نے اسے بتاتے ہوئے کہا ،
اچھا باجی یہ کہ کر وہ باہر چلی گئی ،
اور میں یہ سوچنے پہ مجبور ہو گئی علم محض کتابوں کا محتاج نہیں کچھ ان پڑھ لوگ بھی بہت علم والے ہوتے ہیں اور کچھ ڈگریوں والے بھی جاہل، اس عام سی عورت کی مثبت سوچ اور رویہ سچ میں قابل تعریف تھا، کیوں کہ یہی سب با تیں وہ منفی انداز سے بھی کہ سکتی تھی،
اللہ کریم ہم سب کو اپنے بند وں کےمتعلق مثبت سوچ عطا فرما دے تو ہمارے آدھے سے ذیادہ مسائل خوو بہ خود حل ہو جائیں ،،
 

Nighat Qayuom
About the Author: Nighat Qayuom Read More Articles by Nighat Qayuom: 7 Articles with 5878 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.