اگر ہر نیا کام جو عہدِ رسالت
مآب اور عہدِ صحابہ میں متداول اور معمول بہ نہ تھا محض اپنے نئے ہونے کی
وجہ سے ناجائز قرار پائے تو تعلیماتِ دین اور فقہ اسلامی کا بیشتر حصہ
ناجائز کے زمرے میں آجائے گا اور اجتہاد کی ساری صورتیں، قیاس، استحسان،
مصالح مرسلہ، استحصاب، استدلال اور استنباط کی جملہ شکلیں ناجائز کہلائیں
گی۔ اسی طرح دینی علوم و فنون مثلاً اُصولِ تفسیر، اصول حدیث، فقہ و اُصولِ
فقہ، ان کی تدوین، اور ان کو سمجھنے کے لئے صرف و نحو، بلاغت و معانی، منطق
و فلسفہ اور دیگر معاشرتی و معاشی جملہ علوم خادمہ جو فہمِِ دین کے لئے
ضروری اور عصری تقاضوں کے مطابق لابدی ہیں ان کا سیکھنا، سکھانا بھی حرام
قرار پائے گا کیونکہ یہ سب علوم و فنون اپنی موجودہ شکل میں نہ عہدِ رسالت
میں موجود تھے نہ ہی عہدِصحابہ کرام میں، انہیں تو بعد میں ضرورت کے پیش
نظر وضع اور مرتب کیا گیا۔ یہ تمام علوم و فنون اپنی ہیئت، اصول، اصطلاحات،
تعریفات اور قواعد و ضوابط کے اعتبار سے نئے ہیں اس لئے بلا شک و شبہ بدعتِ
لغوی کے زمرے میں آتے ہیں۔
اگر ہر نیا کام بدعتِ شرعی اور ضلالت و گمراہی قرار پائے تودینی مدارس کی
مروجہ تعلیم و تدریس اور نصابات کا بیشتر حصّہ بھی گمراہی قرار پائے گا
کیونکہ موجودہ درس نظامی کے نصابات کے مطابق درس و تدریس نہ تو حضور صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ اقدس میں تھی اور نہ ہی اس طرح کسی صحابی نے
تعلیم حاصل کی تھی ان کا طریقہ نہایت سادہ تھا فقط قرآن و حدیث کا سماع و
روایت، بلکہ قرآن حکیم کی موجودہ شکل میں طباعت و زیبائش سے لیکر حرم کعبہ
اور مساجد کی پختہ تعمیر اور تزئین و آرائش تک بہت سے معاملات کا جواز بھی
مجروح اور ساقط ہو جائے گا۔
اسی طرح یہ امر بھی نہایت اہم ہے کہ اگر کسی مسئلہ کا کوئی حل قرآن مجید
اور سنّت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دونوں سے نہ ملے تو ’’اجتہاد‘‘ کرنا،
یہ حکم نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے اور یہ حکم از خود نئے کام کو جو
قرآن و سنّت میں نہ تھا محض خیر اور دینی ضرورت و مصلحت کی بنا پر نہ صرف
جواز فراہم کر رہا ہے بلکہ خود اس عملِ اجتہاد کو بھی سنّت بنا رہا ہے۔ اس
حقیقت پر حدیثِ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ شاہد عادل ہے۔ حضرت معاذ بن جبل
رضی اللہ عنہ کو یمن کا قاضی بنا کر بھیجتے وقت حضور نبی اکرم صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم نے اُن سے پوچھا :
کيف تقضي إذا عرض لک قضاء قال : أقضي بکتاب اﷲ قال : فإن لم تجده في کتاب
اﷲ قال : أقضي بسنة رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم قال : فإن لم تجده في
سنة رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم قال : أجتهد برأي لا آلو قال : فضرب
بيده في صدري و قال : الحمد ﷲ الذي وفّق رسول رسول اﷲ صلي الله عليه وآله
وسلم لما يرضي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم.
’’(اے معاذ) جب آپ کے سامنے کوئی معاملہ پیش کیا جائے گا تو آپ کس طرح اس
کا فیصلہ کریں گے؟ تو انہوں نے عرض کیا : میں کتاب اﷲ کے مطابق فیصلہ کروں
گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تو اس معاملے کو کتاب اﷲ
میں نہ پائے تو اس پر حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ پھر میں سنت
رسول کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ پھر حضور علیہ الصلاۃ و السلام نے فرمایا :
اگر تو اس معاملے کا حل سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بھی نہ پائے
تو انہوں نے عرض کیا کہ پھر میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا اور کوئی
کوتاہی نہیں کروں گا۔ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پھر آپ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دستِ شفقت میرے سینے پر مارا اور فرمایا تمام
تعریفیں اس خدا کی ہیں جس نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نمائندہ
کو ایسی توفیق بخشی جو اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضا کا سبب
ہے۔‘‘
1. ترمذي، الجامع الصحيح، ابواب الأحکام، باب ما جاء في القاضي، 3 : 616،
رقم : 1327
2. بيهقي، السنن الکبريٰ، 10 : 114، رقم : 20339
مذکورہ حدیثِ مبارکہ میں حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے الفاظ ’’أَجْتَهِدُ
بِرَأْي‘‘ اور اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان
’’الحمد ﷲ الَّذي وفّق رسول رسول اﷲ لما يرضٰی رسول اﷲ صلي الله عليه وآله
وسلم‘‘ سے ثابت ہوتا ہے کہ جو امر قرآن و سنت میں نہ ہو بلکہ اِجتہاد اور
رائے محمود کی بنیاد پر طے کیا جائے تو یہ نہ صرف مستحسن ہے بلکہ بارگہِ
رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا منظور شدہ طریق ہے۔ یہی اصول ’’بدعت
حسنہ‘‘ میں کار فرما ہے جو اس حدیثِ مبارکہ سے ثابت ہے۔
اس سے یہ اصول وضع ہوتا ہے کہ اگر نفس الامر اور اس کا حل خود قرآن و سنّت
سے ثابت نہیں تو اس کے حل کا طریق جو مبنی بر ’’رایء و اجتہاد‘‘ ہے وہ تو
سنّت سے ثابت ہے۔ لہٰذا ’’نفس الامر اور اس کا حل‘‘ نیا ہونے کی بنا پر تو
’’بدعت‘‘ ہوئے مگر اس حل کا طریقِ مشروع ہے اس لئے تابع سنّت ہوا۔ سو ’’نئے
پن‘‘ نے اس عمل کو بدعتِ لغوی بنایا تھا اور طریق کی مشروعیت نے اسے بدعت
حسنہ بنا دیا۔ یہی وہ دائمی اصول ہے جو دین اسلام کی تعلیمات کو زمانوں اور
معاشروں کے بدلتے ہوئے حالات اور زندگی کے نئے تقاضوں کی تکمیل کے لئے
ابدالاباد تک تحرک اور تسلسل دیتا ہے، اسی اصول کے باعث اسلامی نظام حیات
میں جمود پیدا نہیں ہونے پاتا۔ یہی اصول اسلامی احکام کی دائمی اور متحرک
عملیّت اور لا یزال مطابقیت برقرار رکھتا ہے جس سے اس نظام کی تازگی ہمیشہ
قائم رہتی ہے۔
اسی وجہ سے جب کوئی مجتہد حاکم خلوص نیت کے ساتھ کوئی حکم استنباط کرتا ہے
اور وہ حکم درست ہوتا ہے تو اسے اﷲ کی طرف سے دو اَجر ملتے ہیں اور اگر وہ
حکم درست نہ ہو بلکہ غلط ہو تو بھی اس مجتہد کو اپنے اجتہاد پر ایک اجر
ملتا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
إذَا حَکَمَ الحَاکِمُ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ اَصَابَ فَلَه اَجْرَانِ وَ اِذَا
حَکَمَ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ اَخْطَأَ فَلَه اَجْرٌ.
’’جب کوئی حاکم اجتہاد سے فیصلہ کرے اور صحیح فیصلہ کردے تو اس کے لئے دو
اجر ہیں اور جب اجتہاد سے فیصلہ کرے اور اس سے غلطی ہو جائے تو بھی اس کے
لئے ایک اجر ہے۔‘‘
بخاري، الصحيح، کتاب الاعتصام، باب اجر الحاکم اِذا اجتهد، 6 : 2676، رقم :
6919
سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس قدر حوصلہ افزائی کیوں؟ کہ غلطی اور خطا پر بھی
’’اجر‘‘ ملے۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ اگر مجتہدین و محققین نظام الاحکام کو
صرف عہدِ رسالت اور عہدِ صحابہ کے قضایا اور نظائر تک محدود رکھتے اور نئے
اقدامات کو بدعت سمجھ کر چھوڑ دیتے تو قدیم اور جدید میں فاصلے بر قرار
رہتے۔ نتیجۃً اس فاصلے کے باعث اسلامی طرزِ زندگی میں جمود آسکتا تھا،
چونکہ مجتہد نئے فیصلوں کے ذریعے امکانِ جمود کو ختم کرتا ہے، احکامِ شریعت
کے تحرک و تسلسل کے برقرار رہنے کا باعث بنتا ہے۔ سو اخلاص اور نیک نیتی پر
مبنی اس کی اس جرات کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔ فیصلہ صاف ظاہر ہے ایک
’’نیا قدم‘‘ ہی ہوگا۔ اگر نصوصِ قرآن و سنّت یا عہدِ رسالت و عہدِ صحابہ سے
ثابت ہوتا تو اجتہاد نہ کہلاتا بلکہ وہ حکم منصوص ہی ہوتا۔ چونکہ وہ اساسی
مصادر سے یا زمانہ تشکیلِ سنّت سے ثابت نہیں ہے اس لئے لغّۃً بدعت ہے،
طریقۃً اجتھاد ہے، ضرورۃً مصلحت ہے اور حکمًا ’’حسنہ‘‘ ہے۔ اسے بدعت حسنہ
کہتے ہیں۔ یہی ’’اجتہادِ ماجور‘‘ ہے اور یہ حکم رسول صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم ہے۔ اور اصلًا سنّتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تابع ہے۔
بدعت کے اس تصور اور تقسیم کی بنیاد بھی خود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے قائم فرمائی ہے۔ جو اس حدیث صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے صاف
ظاہر ہے۔
من سن فی الاسلام سنة حسنة فله أجرها و أجر من عمل بها بعده من غير أن ينقص
من أجورهم شئ ومن سن في الاسلام سنة سيئة کان عليه وزرها و وزر من عمل بها
من بعده من غير أن ينقص من أوزارهم شيئ.
’’جس شخص نے اسلام میں کسی نیک کام کی ابتداء کی اس کو اپنے عمل کا بھی اجر
ملے گا اور بعد میں عمل کرنے والوں کے عمل کا بھی اجر ملے گا اور ان عاملین
کے اجر میں کوئی کمی نہیں ہوگی اور جس نے اسلام میں کسی برے عمل کی ابتدا
کی اسے اپنے عمل کا بھی گناہ ہوگا اور بعد میں عمل کرنے والوں کے عمل کا
بھی گناہ ہوگا اور ان عاملین کے گناہ میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔‘‘
1. مسلم، الصحيح، 2 : 705، کتاب الزکوٰة، باب الحث علي الصدقه، رقم : 1017
اگر کچھ تعمّق اور تفکّر سے کام لیا جائے تو یہ واضح ہو جائیگا کہ یہاں لفظ
’’سنّت‘‘ سے مراد سنّتِ شرعی نہیں ہے بلکہ یہ سنّتِ لغوی ہے۔
گویا لفظ بدعت کی طرح لفظ سنّت کا استعمال دو طرح پر ہے۔ اگر ’’من سنَّ فی
الاسلام سنّۃً‘‘ سے مراد یہاں پر شرعی معنی میں سنّتِ رسول صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم یا سنّتِ صحابہ ہوتی تو اسے ’’سنۃ حسنۃ‘‘ اور ’’سنۃ سیّئۃ‘‘ میں
ہرگز تقسیم نہ کیا جاتا۔ کیونکہ سنّتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو
ہمیشہ ’’حسنۃ‘‘ ہی ہوتی ہے۔ اس کے سیّئہ ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں
ہوتا۔ یہاں پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لفظ تو ’’سنّت‘‘ کا استعمال
فرمایا ہے مگر اس کے اطلاق میں حسنہ اور سیّئہ دو اقسام بیان کی ہیں اور
ایک پر اجر اور دوسری قسم پر گناہ مترتب فرمایا گیا ہے۔ سو معلوم ہوا یہاں
پر ’’سنّت‘‘ کی تقسیم تو حسنہ اور سیّئہ میں صراحتًا کر دی گئی ہے۔ اس سے
انکار کی بھی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔ اب اس کی وجہ تلاش کرنا ہوگی۔ تو
سوائے اس کے اور کوئی وجہ نہیں کہ یہاں لفظ سنّت اپنے لغوی معنی میں
استعمال ہوا ہے نہ کہ شرعی معنی میں۔ اور اس سے مراد کوئی ’’نیا راستہ‘‘
نکالنا ہے۔
جاری ہے۔۔۔۔ |