پرانا دور بڑا پیارا دور تھا سچے لوگ تھے سچی باتیں کرتے
تھے. لوگوں میں اتفاق و اتحاد ہوتا تھا لوگ ایک دوسرے پر مر مٹتے تھے سب
کچھ خوبصورت تھا اور خوبصورتی سے ہوتا تھا لوگ کم امدنی کے باوجود خوش ہوتے
تھے برکت ہوتی تھی خوشجالی ہوتی لوگوں کے پاس وقت ہوتا تھا شام کو ایک جگہ
اکھٹے بیٹھ کر ایک دوسرے کے دکھ درد محسوس کرتے تھے منافقت حسد نہیں کرتے
تھے انسانیت ان کے اندر کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی تھی اور وزن پورا تولتے تھے
مہنگای نہیں ہوتی تھی سب ہنسی خوشی رہتے تھے اور ایک دوسرے کی ترقی پر خوش
ہوتے تھے ایک بھای اگر کسی مسلے کا شکار ہوجاتا تھا تو سارے ملکر اس کو
اسکے پاوں پر کھڑا کر دیتے تھے حوشی غمی میں ایک دوسرے سے کندھے سے کندھا
ملاکر چلتے تھے دوسروں کی خوشی اور غم کو اپنی خوشی اورغم سمجھتے تھے بہت
سادہ دور تھا ایک دوسرے کی بغیر کسی اجرت کے مدد کردیتے تھے. لالچ نہیں
ہوتی تھی اور سب پرامن زندگی گزارتے تھے اور جب کوی بیمار ہوتا تو سب
تیمارداری کیلیے جاتے تھے اور کسی کو کسی چیز کی ضرورت ہوتی تو سب. کچھ
بھای کی خدمت میں پیش کردیتے تھے عبادت خشوع و خضوع سے کرتے تھے پیدل حج
کرتے تھے. سب اچھا تھا سونے پے سہاگا تھا مگر جوں جوں انسان نے ترقی کی اور
جوں جوں. انسانوں کی تعداد بڑھی. لالچ نے جنم لیا. اجتماعت کی بجاے
انفرادیت آگی اتفاق خوشی برکت جاتی رہی حوشی غمی میں ایک دوسرے کا ساتھ
جاتا رہا اور عبادت دیکھاوے کا نام بن گیا پہلے لوگ نیکی کرکے دریا میں ڈال
دیتے اب نیکی کرکے پلوں سے باندھ لیتے ہیں اور جب سے فیس بک اور ٹویٹر ایا
ہے نوجوان تو ہوش کھو بیٹھے ہیں سارا دن فیس بک اور نیٹ. کا. پتہ ہمساے تک
کا پتہ نہیں وہ کیسے زندگی گزار رہا ہے انسان کے پاس سب کچھ ہے مگر سکون
نہیں خوشی نہیں برکت نہیں خوشجالی نہیں شکر نہیں. اور جو جہاں ہے اپنی
پریشانیوں. میں غرق ہے اور اتفاق. واتحاد کا جنازہ اٹھ چکا ہے موجودہ دور
نفسانفسی کا دور ہے سب پیسے کے پیچھے دوڑ پڑے رہے اور اپنے اس دنیا میں انے
کے مقصد کو. بھول بیٹھے ہیں اس لیے کہناپڑتا ہے کہ پرانا دور اچھا سچا
بابرکت دور تھا. اللہ پاک سب کو پکا سچا مسلمان بناے اور اسلام و قرآن کی
تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق دے امین |