کیسی ہے اب نبیلہ کی طبعیت
ٹھیک نہیں ہے احمد ۔۔۔ پتہ نہیں میری بچی کو کیا ہوگیا ہے ۔۔۔ کل تک تو پھر
بھی بات کر رہی تھی ۔۔۔۔ اب تو بالکل چپ ہو کر رہ گئی ہے ۔۔۔
شکیلہ بیگم رودینے والے انداز میں اپنے شوہر سے بولی تھیں ۔۔۔ احمد یار خان
ایک متوسط طبقے سے تعلق رکھتے تھے ۔۔ ایک چھوٹی سی غلے کی دکان تھی ۔۔۔۔ جس
پر گزر بسر ہورہی تھی ۔۔۔۔ کفایت شعار تھے بیگم بھی ایسی ہی ملی تھیں۔۔۔ دو
ہی بیٹیاں تھیں نبیلہ اور ازمینہ ۔۔۔۔ نبیلہ شوخ و چنچل سی تھیں ۔۔۔۔ بڑے
بڑے خواب تھے ان کے ۔۔۔۔ جب سے یونیورسٹی میں ابا سے ضد کر کے ایڈمشن لیا
تھا ۔۔۔ اس وقت سے سوچ بھی شاہانہ ہوگئی تھی ۔۔۔ خوبصورت تھیں اور تھوڑی
نکچڑی بھی اوپر سے سہیلیوں نے دماغ بھی خراب کر کے رکھ دیا تھا ۔۔۔ ساری
دوستیں ہی اپر کلاس سے تعلق رکھتی تھیں ۔۔۔ اور بس یہی بات انہیں کھلتی تھی
کہ وہ خود اس سوسائیٹی کا حصہ کیوں نہیں ۔۔۔ گوکے اماں ابا نے ان کی ہر ضد
ہی پوری کی تھی ۔۔۔ اپنی حیثیت سے بڑھ کر انکی خواہشات کو پورا کیا تھا
۔۔۔۔ مگر انکی ڈمانڈز ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی تھیں ۔۔۔ دوسری طرف
چھوٹی بہن ازمینہ تھی ۔۔۔ نمازی پرہیزگار اپنی بہن سے بالکل الٹ ۔۔۔ ابا
اماں سے کبھی کسی قسم کی فرمائیش نہیں کی تھی ۔ صابر و شاکر قسم کی ۔۔۔
اپنی بڑی بہن کو اکثر سمجھاتے رہتیں ۔۔۔ لیکن جب وہ اپنے ابا اماں کی نہیں
سنتی تھیں تو وہ چھوٹی بہن کو کیا خاطر میں لاتیں۔۔۔۔۔ عجیب سی خودسر طبعیت
پائی تھی انہوں نے ۔۔۔۔ مگر اب دو مہینے سے کچھ عجیب حرکات کرہی تھیں ۔۔
روز نہانے کی عادت تھی انہیں پہلے مگر دو مہینے سے وہ صفائی سترائی سے کوسو
دور ہوگئی تھیں ۔۔۔۔ نماز کی پابند تو پہلے بھی نہیں تھی مگر اب تو بالکل
ہی پڑھنا چھوڑدیا تھا انہوں نے ۔۔۔ جو جوڑا ایک دفع پہن لیتیں دو تین ہفتے
سے پہلے بدن سے نہ اترتا ۔۔۔ خوبصورت چہرے پر وحشت سی چھاگئی تھی ۔۔۔ ساری
ایکٹیوٹیز چھوڑ دی تھیں ۔۔۔ اور اپنے کمرے تک ہی محدود ہوکر رہ گئی تھیں
۔۔۔۔ اماں ابا سخت پریشان تھے کہ بیٹی کو کیا ہوگیا ہے ۔۔۔
ابا نفسیاتی مرض سمجھ رہے تھے ۔۔۔ اور اماں جن بھوت کی کارستانی ۔۔۔
نفسیاتی علاج بھی کرواکر دیکھ لیا تھا ۔۔۔
اور جھاڑ پھونک بھی ۔۔۔ مگر ان کی حالت سنبھلنے کی بجائے دن بدن خراب ہوتے
ہی چلے گئی ۔۔ آدھی رات کو چیخ کر اٹھ بیٹھتیں ۔۔۔۔ اور خوفزدہ نظروں سے
ایک ہی سمت ٹککی باندھ کر دیکھتی رہتیں ۔۔۔۔ پوچھنے پر زبان سے کچھ نہ
کہتیں ۔۔۔ سائیکیٹرس سکنزوفرنیا کی بیماری بتاتے ۔۔۔ اور مولوی صاحب ہوائی
مخلوق کی کارستانی ۔۔۔۔ مگر نہ دوائی اثر کر رہی تھی نہ دعا ۔۔۔۔ صرف وہی
جانتی تھیں کہ دومہینے پہلے ان کے ساتھ کیا ہوا تھا ۔۔۔ جس کی بدولت ان کی
یہ حالت ہوگئی تھی ۔۔۔
**********************
میں ایک ٹک ان خاتون کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔ جو کہیں سے بھی ساٹھ ستر کی
دکھائی نہیں دے رہی تھیں ۔۔۔ سفید میکسی ٹائیپ کپڑے اور سفید ایک بڑے دوپٹے
سے اپنے سر سے پیر تک کو ڈھانکے ہوئے تھیں ۔۔۔ با وقار اور شاہانہ انداز
۔۔۔ اور چہرہ پُرنور ۔۔۔۔ وہ قدرت کا شاہکار تھیں ۔۔۔۔ ان کی آنکھوں میں
ایک خواص چمک تھی ۔۔۔۔ اور اس نیم تاریک رات میں بھی ان کی آنکھیں چمک رہی
تھیں ۔۔۔ وہ بڑے غور سے مجھے دیکھ رہی تھیں ۔۔۔ اور میں انہیں دیکھ رہی تھی
۔۔۔۔
کیا تم میری بیٹی فاطمہ کو جانتی ہو ۔۔۔۔
جی ہاں کسی حد تک میں انہیں جانتی ہوں ۔۔۔۔
ان کے پوچھنے پر میں ان سے بولی تھی ۔۔۔ میری بات سن کر ان کا چہرہ ایک دم
کھل اُٹھا تھا ۔۔۔
لیکن معاف کیجئے گا وہ کہاں رہتی ہیں یہ مجھے معلوم نہیں ۔۔۔ البتہ وہ خود
مجھ سے ملنے آتی رہتی ہیں ۔۔۔۔ لیکن شاید اب یہ بھی سلسلہ بند ہوجائے گا
۔۔۔
کیا مطلب ؟ بند ہوجائے گا سے کیا مراد ہے تمہاری ؟
میری بات پر چونک کر مجھسے پوچھا تھا انہوں نے ۔۔۔۔ تو میں زخمی سی مسکراہٹ
سے انہیں دیکھے گئی ۔۔۔
کچھ معاملات ایسے ہوتے ہیں ۔۔۔ جن پر پردہ پڑا رہے تو بہتر ہوتا ہے ۔۔۔ اس
لئے آپ مجھ سے یہ بات نہ پوچھیں تو بہتر ہوگا ۔۔۔ آپ کے لئے بھی اور میرے
لئے بھی ۔۔۔ ویسے اگر آپ اپنے قبیلے میں واپس لوٹ جائیں تو شاید آپ کو بیٹی
کے بارے میں بہت کچھ پتہ چل جائے ۔۔۔ اور وہ آپ سے آن ملیں ۔۔۔ اللہ حافظ
۔۔۔۔
یہ کہہ کر میں جانے لگی تھی کہ انہوں نے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر مجھے روکا
تھا ۔۔۔
میں تمہیں اکیلے جانے کی اجازت نہیں دے سکتی ۔۔۔ دشمن اب بھی تاک میں ہوگا
۔۔۔ اس لئے بہتر یہی ہے کہ تم میرے ساتھ ہی چلو ۔۔۔۔
ایسا ممکن نہیں ہے ۔۔۔ اور نہ میں ایسا چاہتی ہوں ۔۔۔۔ ویسے زندگی اور موت
اللہ کے ہاتھ میں ہے ۔۔۔۔ اور میں نے اللہ پر توکل کر کے ہی گھر سے باہر
قدم رکھا ہے ۔۔۔ انشاء اللہ مجھے کچھ نہیں ہوگا اور میں آپ کے لئے بھی دعا
گو ہوں ۔۔۔ ۔۔۔ زندگی رہی تو پھر ملاقات ہوگی ۔۔ فی امان اللہ ۔۔۔
میں یہ کہہ کر تیزی سے نامعلوم منزل کی طرف چلنے لگی ۔۔۔ انہوں نے پھر مجھے
روکا نہیں ۔۔۔ بس حیرت سے مجھے دیکھتی رہ گئیں ۔۔
×××××××××××××××××××
عمر اور سردار یوسف انسانی بھیس میں حرم میں موجود تھے ۔۔۔ سردار یوسف
تسبیح پڑھنے میں مشغول تھے اور عمر قرآن کی تلاوت کرنے میں ۔۔۔ عمر کو اپنی
بیٹی حوریہ تلاوت کے دوران یاد آگئی تو بے اختیار آنسو نکل آئے ۔۔۔ کتنا
عرصہ بیت گیا تھا اسے دیکھے بغیر ۔۔۔ پتہ نہیں کس حال میں تھی ۔۔۔ زندہ بھی
تھی یا موت کے بے رحم ہاتھوں نے اس کی زندگی کی ڈور کاٹ ڈالی تھی ۔۔۔ کچھ
پتہ نہیں تھا ۔۔۔ انہیں اپنے داماد پر بھی بہت غصہ تھا ۔۔۔ غیر کی باتوں پر
یقین کر کے انکی بیٹی کو زندہ درگور کردیا تھا ۔۔۔ نکاح کے وقت جو وعدہ کیا
تھا ان سے اس کا بھی پاس نہیں رکھا ۔۔۔ وہ جن تھے صبر اور معاف کردینے کی
صفت جنات میں بہت کم ہوتی ہے ۔۔۔ وہ چاہتے تو جمال کی زندگی جہنم بنا سکتے
تھے ۔۔۔ مگر بے بے نے جب انہیں حوریہ کا پیغام پہنچایا کہ وہ اور انکا
قبیلہ جمال کی حفاظت مرتے دم تک کرے گا تب انہوں نے جمال کو اپنی بیٹی کی
خاطر معاف کر دیا تھا ۔۔۔ اور اس کی خواہش کے مطابق جمال کی حفاظت کا ذمہ
لے لیا ۔۔۔فاطمہ میں تو ان کی جان تھی ۔۔۔ وہ بالکل ان کی بیٹی کا پرتو تھی
۔۔۔ ویسی ہی معصوم اور سیدھی سادھی سی ۔۔۔ مگر جب جمال کی آنکھوں پر شک کی
پٹی بندھی اور انہوں نے اسے بھی اپنی زندگی سے خارج کرنے کا سوچا تو عمر نے
بڑھ کر اپنی نواسی کو تھام لیا اسے سینے سے لگا لیا ۔۔۔ پھر جب انہیں اس
بات کا پتہ چلا کہ وہ امید سے ہے تو بڑے خوش ہوئے تھے ۔۔۔ مگر جب میاں جی
نے ان سے اور فاطمہ سے کہا کہ اسے انسانوں کے درمیان پرورش پانا چاہئے تب
انہوں نے اور فاطمہ نے دل پر جبر کر کے ایک مسلم خاندان کو عائیشہ کے لئے
چن لیا ۔۔۔ اور فاطمہ کا یہ انتخاب آنے والے دنوں میں بہترین ثابت ہوا ۔۔۔۔
ابھی وہ یہی باتیں سوچ رہے تھے کہ ان کی نظر طواف کرتی ایک عورت اور بچے پر
پڑی تو وہ ٹٹھک سے گئے ۔۔۔ بچہ تو انکے لئے اجنبی تھا مگر وہ عورت ۔۔۔۔ وہ
تیزی سے آخری طواف کا چکر مکمل کرتی عورت کے قریب پہنچے تھے اور اس کا ہاتھ
بے اختیار تھام لیا تھا ۔۔۔ اس عورت نے بھی چونک کر انہیں دیکھا تھا ۔۔۔۔
حوریہ میری بچی ۔۔۔۔
بابا ۔۔۔
عمر کے نام لینے پر وہ بھی بے اختیار انہیں بابا کہہ اٹھیں ۔۔۔۔ سردار یوسف
بھی اب قریب پہنچ چکے تھے اور خوشی سے کبھی اپنے بیٹے اور کبھی پوتی کو
دیکھنے لگے ۔۔۔۔ دونوں کو یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ جیتی جاگتی حوریہ ان کے
سامنے کھڑی ہے ۔۔۔۔ پھر سردار یوسف نے بیٹے اور پوتی کا ہاتھ تھاما تھا اور
طواف کرتے لوگوں کے درمیان سے نکالتے ہوئے مسجدالحرام کے ایک خاموش گوشے
میں لے آئے ۔۔۔۔
ہم نے تمہیں پوری دنیا میں ڈھونڈا ۔۔۔ تم ہمیں کہیں نہیں ملیں بیٹا تم کہاں
چلی گئی تھیں ۔۔۔۔۔
یہ بہت لمبی کہانی ہے بابا ۔۔۔ لیکن مختصراً آپ کو اتنا بتا دوں کہ میں
ابھیمنیو کی قید میں تھی ۔۔۔ بس اللہ کا کرم ہوا اور اس نے اس قید سے نکلنے
کا موقع فراہم کر دیا ۔۔۔۔ پھر ایک نیک دل اللہ کے بندے کے گھر تین مہینے
گزاررے ۔۔۔ افسوس ان کی زندگی مختصر اللہ نے رکھی تھی ان کے انتقال کے بعد
شمشیر میاں کو ساتھ لے کر سیدھا کراچی پہنچی ۔۔۔۔۔
یہ شمشیر کون ہے ؟
سردار یوسف نے پوچھا تو ذرا دور کھڑے شرمائے شرمائے سے بچے کی طرف انہوں نے
اشارہ کیا تھا ۔۔۔۔
اوہ یہ تو جن کا چھوٹا سا بچہ ہے یہ تمہیں کہاں سے مل گیا ؟
جس پر حوریہ نے اپنے ندی میں گرنے سے لے کر عائیشہ سے ملاقات کے ذکر تک کی
پوری کہانی سنا ڈالی ۔۔۔۔
عائیشہ کے ذکر پر دونوں چونکے تھے ۔۔۔
تمہیں عائیشہ ملی تھی ؟ وہ وہ اب کہاں ہے ۔۔۔
کیا آپ جانتے ہیں اسے ؟
ان دونوں کے پوچھنے پر الٹا انہوں نے ان سے پوچھا تھا ۔۔۔۔
ہاں بیٹی وہ تمہاری نواسی ہے ۔۔۔ فاطمہ کی بیٹی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ سنتے ہی وہ ایک دم پریشانی سے اٹھ کھڑی ہوئیں ۔۔۔۔
سردار دادا ہمیں واپس پاکستان جانا ہوگا ۔۔۔۔ عائیشہ کی زندگی خطرے میں ہے
۔۔۔ کاش میں اسے روک لیتی ۔۔۔ کاش ۔۔۔۔
ان کے بولنے پر وہ دونوں بھی پریشان ہوگئے تھے اور ایک لمحہ بھی ذائع کئے
بغیر اٹھ کھڑے ہوئے تھے ۔۔۔۔اور پھر سب کے ہی وجود ہوا میں تحلیل ہوگئے ۔۔۔
×××××××××××××××
باقی آئندہ ۔۔۔۔ |