لازوال قسط نمبر 3

بہت زیادہ سوچ و بچار کے بعد آخر اس نے فیصلہ کر ہی لیا کہ وہ محض اپنے والدین کی خواہش کی خاطر جاب ضرور کرے گی مگر اس سلسلے میں وہ کسی کی مدد نہیں لینا چاہتی تھی۔ وہ اپنا مقام خود بنانا چاہتی تھی۔ کسی دوسرے کی سفارش پر کی گئی نوکری سے بہتر ہے انسان محنت مزدوری کر لے۔ کسی کا احسان لینے سے تو بہتر ہے۔ اس نے جاب کرنے کا ذہن ضرور بنا لیا تھا مگر وہ اب بھی اسلام کے اسلاف پر قائم تھی۔ وہ کوئی ایسی جاب نہیں کرنا چاہتی تھی کہ جواس کی ذات کے منافی ہو۔ جس جاب کو کرنے سے اس کا ضمیر اسے ملامت کرے۔ اگرچہ اس کے پاس قانون کی ڈگری تھی اور باآسانی عدالت میں ایک وکیل کی حیثیت سے اپنے فرائض کو سرانجام دے سکتی تھی۔ لیکن وہ وکیل بن کر اپنی آواز کو نامحرم کے کانوں تک نہیں پہنچانا چاہتی تھی۔ وکیل کا کام دوسرے کو اپنے دلائل سے متفق کرنا ہوتا ہے اور اس کے لئے اس کی آواز کا اتارچڑھاؤ بدلتا رہتا ہے۔کبھی آواز کو بادولوں کی سی گرج دینی پڑتی ہے تو کبھی شہد کی سی مٹھاس سے دوسروں کی چاپلوسی کرنا پڑتی ہے مگر وہ ان میں سے کسی کے بھی حق میں نہ تھی۔ اس کے نزدیک اپنی عزت و ناموس سب سے زیادہ اہمیت رکھتی تھی۔ حجاب صرف چہرے کا ہی نہیں ہوتا، حجاب تو جسم کے ایک ایک عضو کا ہوتا ہے۔آنکھوں کا بھی پردہ ہوتا ہے۔ آنکھوں کا پردہ یہ ہے کہ اس کے ذریعے کسی نامحرم کو نہ دیکھا جائے۔ کانوں کا بھی پردہ ہوتا ہے۔ کانوں کا پردہ یہ ہے کہ اس کے ذریعے کسی نامحرم کی آوازنہ سنی جائے،ہاتھوں کا بھی پردہ ہوتا ہے۔ ہاتھوں کا پرد ہ یہ ہے کہ یہ کسی نامحرم کے جسم سے مس نہ ہو،پاؤں کا بھی پردہ ہوتا ہے۔ پاؤں کا پردہ یہ ہے کہ وہ کسی بھی نامحرم کی طرف چل کر نہ جائیں۔ذہن کا بھی پردہ ہوتا ہے ۔ذہن کا پردہ یہ ہوتا ہے کہ اس میں کسی نامحرم کا خیال نہ آئے اور دل کا پردہ تو سب سے بڑھ کر ہوتا ہے۔دل کا پردہ یہ ہے کہ اس میں نامحروموں کو دیکھنے کا ذوق پروان نہ چڑھے۔ اکثر لڑکیوں کو اپنی سہیلی کا دولہا دیکھنے کی بڑی چاہ ہوتی ہے، پہلے پہل تو کن انکھیوں سے دیکھا جاتا تھا اور پھر رفتہ رفتہ سب کے سامنے اس کے چہروں کو دیکھا جانے لگا اور پھر اس کے ساتھ بیٹھ کر تصویریں بنائی جانے لگیں۔یہ بے حیائی نہیں ہے تو اور کیا ہے۔؟ نامحرموں کے ساتھ ہنسی مذاق کرنے سے دل میں صرف نفاق ہی جنم لیتا ہے اور پھر یہی نفاق آگے بڑھ کر سیاہی کی شکل اختیار کر لیتا اور پھر ایک وقت ایسا ہوتا ہے جب بڑے سے بڑا گناہ بھی معمولی لگتا ہے اور اگر وہ اس حد کو بھی پار کرجائے تو گناہ بھی نہیں سمجھا جاتا لیکن وہ ایسا کچھ بھی نہیں کرنا چاہتی تھی۔آج تک کبھی اس نے ایسے فنکشن میں شرکت نہیں کی جہاں مرد اور عورت کا اخلاط ہو۔اور وکیل میں تو ایسا بہت کم ممکن ہے۔ وہاں تو اکثر مردوں کے ساتھ ہی کام کرنا پڑتا ہے اور اگر نہ بھی کیا جائے تو جج کے سامنے بھری عدالت میں چیخ چیخ کر اپنی آواز کو نامحرموں تک پہنچایا جاتا ہے۔

صبح کو جلدی اٹھ کر اس نے سیاہ عبایا پہنا اور پھر چادر سے اپنے سر کو ڈھانپ کر گھر سے نکل پڑی۔ گھر میں سب سو رہے تھے۔ اس لئے بنا کسی کو کچھ کہے وہ گیٹ کو بند کر کے باہر آئی۔ باہر کی دنیا اسے بہت عجیب لگی۔ آج کافی عرصہ بعد اس نے گھر سے باہر قدم رکھا تھا۔ انسان جہاں کافی عرصہ بعد جائے تو اسے کچھ نہ کچھ عجیب ضرور لگتا ہے۔ چاہے وہ جگہ اس کی من پسند ہی کیوں نہ ہو لیکن وہ تو اس جگہ کو پسند بھی نہیں کرتی تھی پھر بھلا وہ کیسے اس جگہ کو پسند کر سکتی تھی۔صبح کے وقت ہر طرف چہل قدمی تھی۔ مائیں اپنے بچوں کا ہاتھ پکڑ کر سکول چھوڑنے جا رہی تھیں، باپ اپنے بچوں کو بائیک پر بٹھا رہا تھا۔سکول کے دروازے پر بھی بچوں کا رش تھا۔ وہ نظریں جھکائے بس آگے بڑھتی جا رہی تھی۔ ہر طرف گہما گہمی تھی۔ سب کو صرف اپنی اپنی پڑی ہوئی تھی۔ لیکن لوگوں کے اس ہجوم میں بھی اس کا وجود نمایاں تھا۔ سر تا پا سیاہ حجاب تھا۔ ہاتھوں میں سیاہ دستانے، پاؤں میں سیاہ جرابیں، صرف اس کی آنکھیں تو جو دیکھی جا سکتی تھیں۔ یہ پھر ہلکا ہلکا سا گندمی رنگ تھا جو آنکھوں کے ارد گرد تھا۔سب کی نگاہیں اس پر اٹھ تو ضرور رہی تھیں مگر ناکام لوٹ جاتی۔ وہ دوسری لڑکیوں سے یکسر مختلف تھی۔ اس نے دوسری لڑکیوں کی طرح اپنے آپ کو نمائش کے لئے نہیں پیش کیا تھا۔ایک بار جو اس کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھتا دوسری اٹھانے کی جرات نہ کرتا۔ کوئی بھی اس کے وجود کی تابناکی کو برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ ایک غائبانہ طاقت سب کو اپنی نظریں جھکانے پر مجبور کر رہی تھی۔ لیکن وہ چلتی جا رہی تھی۔ فٹ پاتھ پر۔ جب کوئی آدمی سامنے سے آتا تو خود بخود فٹ پاتھ سے اتر جاتا اور اسے راستہ دیتا۔پیچھے سے آنے والے بھی اسی طرح کرتے، فٹ پاتھ سے اتر کر آگے چلے جاتے۔ کسی نے اسے میلی آنکھ سے نہ دیکھا۔ جب انسان کے اندر کوئی میل نہیں ہوتا تو حالات بھی اس کا ساتھ دیتے ہیں۔دنیا کی ہر شے اس کے تابع ہوتی ہے لیکن جب انسان کے دل میں میل ہو تو اس کا ضمیر خود اس کو ملامت کرتا ہے۔ وہ خود اپنے پاؤں سے چل کر گناہ کی طرف جاتا ہے اور پھر چلتا ہی جاتا ہے۔لیکن اس کے دل میں نہ ہی کوئی کھوٹ تھا اور نہ ہی کوئی میل۔ وہ آدھ گھنٹے میں اپنی منزل پر تھی۔ کل شام وہ لان میں ٹہل رہی تھی تو کوئی ایک پمفلٹ دروازے کے نیچے سے پھینک کر چلا گیا۔ وہ کسی برائٹ انڈسٹری کا اشتہار تھا۔جنہیں اپنی نئی برانچ کے لئے سٹاف کی ضرورت تھی۔پوسٹ بھی اچھی تھی اور سب سے بڑی بات وہ پوسٹ صرف خواتین کے لئے خاص تھی۔انٹرویو کا ٹائم آٹھ بجے تھا۔اس لئے اس نے صبح اٹھتے ہی وہاں جانے کا فیصلہ کیاتھا۔ ناشتہ بھی ہلکا پھلکا کیا۔بس وہ جتنی جلدی ہوسکے وہاں پہنچ جانا چاہتی تھی کیونکہ وہ جتنی دیر سے وہاں پہنچتی، اتنی دیر ہی اسے انتظار کرنا پڑتا ۔وہ مضبوط قدموں کے ساتھ بلند و بالا عمارت میں داخل ہوئی۔ اس کی نظریں صرف بلڈنگ کے باہر ایک بار اوپر اٹھی تھیں وہ بھی نام دیکھنے کے لئے۔ اندر آئی تو وہ ٹائل میں اپنا عکس دیکھ سکتی تھی۔ اسے ایسا لگا کوئی نیچے ٹائیل میں سے اس کا چہرہ دیکھ لے گا۔ اس نے اپنی چادر کو کس لیا۔ اور ریسپشن کی طرف بڑھی۔وہاں ایک بیس بائیس سالہ لڑکی، کھلے بالوں کے ساتھ فون پر کسی کے ساتھ ہنستے ہوئے بات کر رہی تھی۔چہرے پر سرخ لپ سٹک، آنکھوں کا کاجل کسی کا بھی دل مائل کر نے کے لئے کافی تھا۔
’’ انسان گناہ کی طرف ابھرتا نہیں ہے بلکہ ابھارا جاتا ہے۔‘‘ اس کے دل نے کہا تھا، مگر وہ یہاں کسی کو ملامت کرنے نہیں آئی تھی۔
’’السلام علیکم!‘‘ وجیہہ کے سلام کرنے پر اس نے ایک حیرت سے بھری نگاہ اس کے وجود پر ڈالی۔ اس کے ہونٹ کھلے ہوئے تھے، جیسے اس نے کوئی لفظ بولنے کے لئے کھولے ہوں مگر اس کا وجود دیکھ کر بول نہ پائی ہو۔اس نے ریسیور کو کریڈل پر رکھا اور استفہامیہ انداز میں اس کی طرف دیکھا
’’وعلیکم السلام۔۔ جی فرمائیے ۔میں آپ کی کیا مدد کر سکتی ہوں۔۔‘‘ اس کا لہجہ بہت شیریں تھا، جو کسی بھی نامحرم کو اس کی طرف کھینچ سکتا تھا
’’میں وجیہہ عظمت ہوں اور جاب کے سلسلے میں آئی ہوں۔‘‘یہ سن کر وہ لڑکی سکتے میں آگئی جیسے اسے اپنے کانوں پر یقین نہ آرہا ہو، وہ یک ٹک اس کے عبایا کو دیکھ رہی تھی، اور پھر اس پر لپٹی ہوئی چادر کو۔
’’سس سی۔وی۔‘‘اس کے لب لڑکھڑائے
’’ جی؟؟‘‘ وجیہہ اس کا مطلب سمجھ نہ سکی
’’ میرا مطلب ہے آپ مجھے اپنی سی وی دے دیں، میڈم آتی ہیں تو میں ان کو دے دیتی ہوں‘‘ اس لڑکی نے اپنا ہاتھ سی وی پکڑنے کے لئے آگے بڑھایا تو کوئی کپڑا حائل نہ تھا۔ اس نے ہاف سلیو قمیض پہنی ہوئی تھی۔ دودھیا بازو دوپٹے سے بھی عاری تھی۔دیکھنے والے کے دل میں خودبخود چھونے کی حرص پیدا ہوسکتی تھی۔
’’ آپ اتنے وہاں بیٹھ کر انتظار کر سکتی ہیں۔‘‘اس نے مسکراہٹ کے ساتھ سامنے صوفے پر اشارہ کیا ، مسکراہٹ بھی دلنشین تھی۔وجیہہ وہاں جا کر بیٹھ گئی۔ بلڈنگ میں صرف خواتین تھیں، کوئی مرد نظر نہیں آیا ۔ اس کے ساتھ دوسری خواتین بھی انٹرویو کے لئے آئی تھیں۔کچھ بہت ینگ تھیں تو کچھ ذرا اولڈمگر ان سب میں اس کا وجود نمایاں تھا۔ وہ اب پہلے کی طرح نیچے نگاہ نہیں کئے ہوئے تھی بلکہ نگاہیں اٹھا کر بلڈنگ کا جائزہ لے رہی تھی۔پوری بلڈنگ شیشے کی طرح چمک رہی تھی۔کیبن بھی گلاس کے تھے۔ کام کرنے والے تمام اپنے کولیگز کو دیکھ سکتے تھے۔سامنے ایک کیبن تھا۔وہاں ایک چالیس سالہ عورت پیپر پر کچھ لکھ رہی تھی مگر اپنا کام کرتے ہوئے وجیہہ کی طرف دیکھنا بھی وہ اپنے کام کا حصہ سمجھ رہی تھی۔ریسیپشن پر موجود لڑکی نے وجیہہ کی سی۔ وی کو بغور پڑھا اور پھر یک ٹک بس اسے ہی دیکھتی رہی۔ تقریباً آدھا گھنٹا انتظار کے بعد وہ لڑکی انٹرویو کے لئے آئیں خواتین کے پاس آئی۔
’’ سوری! میڈم تو آج کسی وجہ سے نہیں آسکتیں مگر انہوں نے انٹرویو کے لئے اپنے بیٹے کو بھیجا ہے، وہ صرف پانچ منٹ میں یہاں آتے ہی ہونگے۔ آپ کچھ دیر انتظار کیجیے۔۔‘‘یہ کہہ کر وہ تو چلی گئی مگر وجیہہ کے چہرے کے رنگ متغیر ہوگئے۔یہاں آنے کے بعد جب اس نے دیکھا کہ کوئی مرد نہیں ہے تو اس نے اپنا نقاب اتار دیا تھا۔لیکن کسی نامحرم کے آنے کی خبر کا سن کر اس نے ایک بار پھر نقاب کر لیا۔ ریسپشن پر موجود لڑکی نے دوبارہ اس کی طرف نگاہ دوڑائی۔ وہ وجیہہ کی آنکھوں میں موجود بے چینی پڑھ سکتی تھی۔
’’ انٹرویو ایک مرد لے گا۔۔ایک نا محرم۔۔ایک بند کیبن میں۔۔وہ اور میں ۔۔۔ اور ۔۔ تیسرا شیطان۔۔‘‘وہ یہی سوچتے ہوئے ریسیپشن پر گئی اور اپنی سی وی واپس طلب کی
’’مگر کیوں؟‘‘ اس نے حیرت سے استفسار کیا
’’آپ کے پمفلٹ پر لکھا تھا کہ عورت انٹر ویو لے گی لیکن اب آپ نے اچانک جو خبر دی توبس اس لئے۔۔ سوری میں کسی مرد کے ساتھ اکیلے بند کیبن میں ایک سیکنڈ کے لئے بھی وقت نہیں گزار سکتی۔‘‘ اس نے صاف گوئی سے کام لیا
’’لیکن آپ نے یہاں کے کیبن تو دیکھ ہی لئے ہیں۔ باہر سے سب کچھ نظر آتا ہے۔۔‘‘شائد وہ جانتی تھی ، اسی لئے وجیہہ کی بات مکمل ہوتے ہی جواب دیا
’’ٹھیک ہے یہاں تقریباً تمام کیبن گلاس کے ہیں اور اندر کیا کچھ ہورہا ہے سب نظر آتا ہے لیکن ہے تو ایک بند کمرہ ہی، اندر کیا بول رہے ہیں وہ تو سنائی نہیں دیتا ناں۔۔آپ برائے مہربانی مجھے میری سی وی دے دیں۔۔‘‘
’’ اگر یہی وجہ ہے تو آپ کو جانے کی کوئی ضرورت نہیں، میں آپ کے ساتھ سر کے کیبن میں آجاؤں گی۔‘‘وہ لڑکی بس یہ چاہ رہی تھی کہ وجیہہ یہاں سے انٹرویو دئیے بغیر نہ جائے۔ پتا نہیں کیوں وہ اس کی شخصیت سے بہت متاثر ہوئی تھی۔ اگرچہ وہ خود حسن پرست تھی مگر وجیہہ کی سادگی اس کے دل میں اتر چکی تھی۔اس لڑکی کے اصرار پر وجیہہ مان گئی اور اپنی جگہ پر دوبارہ آکر بیٹھی ہی تھی کہ مردانہ کھنکار اس کے کانوں میں گونجی۔اس نے اپنے آپ کو مزید سمیٹ لیا۔ وہ شخص بڑے ٹھاٹ کے ساتھ دائیں طرف موجود گلاس کے کیبن میں چلا گیا اور پھر انٹرویو شروع کر نے کے لئے ریسپشن پر کال کی ۔ وہ لڑکی آگے بڑھ کر آئی اور وجیہہ کے ساتھ بیٹھی لڑکی کو اندر کیبن میں بھیجا۔ وہ آدھ گھنٹے تک اپنی باری کا انتظار کرتی رہی۔ پھر وہ وجیہہ کو لینے آئی تو وجیہہ نے استفہامیہ انداز میں اس کی طرف دیکھا تو اس نے اثبات میں سر ہلادیا اور اس کے پیچھے پیچھے چل دی
’’کیا میں آسکتی ہوں ؟؟‘‘
’’ جی آئیے۔۔‘‘ وہ سیاہ پینٹ کوٹ میں ملبوس تھا۔ اپنے کام میں مگن تھا۔وہ اندر داخل ہوئی تو اس کے پیچھے پیچھے وہ لڑکی بھی اندر آگئی۔اور بہانے سے ایک فائل ڈھونڈنے لگی
’’جی آپ کا نام ؟‘‘ اس نے ابھی تک نگاہ اوپر نہیں اٹھائی تھی۔اس نے اپنا نام بتانے کی بجائے اپنی سی وی آگے ٹیبل پر رکھ دی۔اس نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور سی وی کو پڑھنے لگا مگر اس لڑکی کے قدموں کی آواز بار بار مخل ہو رہی تھی۔
’’ تم یہاں کیا کہہ رہی ہو؟ باہر جاؤ ۔۔‘‘ اس نے قدرے غصے میں کہا تو وہ سہم گئی
’’ جی میں فائل ڈھونڈ رہی ہوں۔۔۔‘‘
’’ بعد میں تلاش کرنا ۔۔۔ جاؤ اب یہاں سے ۔۔‘‘وہ بنا کچھ کہے وہاں سے چلی گئی۔
’’بہت خوب۔۔۔‘‘اس نے ابھی تک وجیہہ پر نگاہ نہیں دوڑائی تھی۔
’’ ویلڈن وجیہہ۔۔۔‘‘لیکن جیسے ہی اس نے وجیہہ پر نگاہ دوڑائی تو اس نے نفی میں سر ہلادیا۔وہ اس کے نفی میں ہلتی گردن کے عکس کو شفاف شیشے میں سے دیکھ سکتی تھی۔ریسپشن پر موجود لڑکی کی نگاہیں ابھی بھی اندر ہی مرکوز تھیں
’’لیکن ابھی تو آپ نے کہا۔۔۔‘‘
’’سوری مگر ہم آپ کو یہ جاب نہیں دے سکتے۔۔۔‘‘ وہ ابھی بھی اپنی بات پر قائم تھا
’’ لیکن۔۔۔‘‘
’’ ٹھیک ہے اگر آپ سننا چاہتی ہیں تو سنیں۔۔‘‘ اس نے اپنی نگاہیں وجیہہ سے ہٹا کر ٹیبل پر مرکوز کر لیں
’’آپ نے جس پوسٹ کے لئے اپلائے کیا ہے ، وہ ایک جنرل پوسٹ ہے۔اور اس پوسٹ پر جو بھی کام کرے گا اس کا لوگوں کے ساتھ انٹریکشن بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے اور میرا نہیں خیال یہ جاب آپ کے لئے مناسب ہے۔ ہمیں ایک بریو گرل چاہئے، اس جیسی۔۔‘‘ اس نے باہر ریسپشن والی لڑکی کی طرف اشارہ کیا
’’ ناکہ سات پردوں میں چھپی ہوئی۔۔آگے آپ سمجھ گئی ہونگی کہ میں کیا کہنا چاہتا ہوں۔۔‘‘وہ بنا کچھ کہے باہر آگئی۔ اور دروزے کے طرف بڑھنے لگی
’’ آئی ایم سوری۔۔۔ میں آپ کے ساتھ اندر نہ رہ سکی۔۔‘‘ یہ اسی لڑکی کی آواز تھی
’’ لیکن میں آپ کو ایک بات کہوں گی کہ ایک لڑکی کو اپنی عزت اپنے ظاہر سے زیادہ پیاری ہوتی ہے۔‘‘ وہ یہ کہنے پلٹی تھی اور پھر بنا کچھ کہے وہاں سے چلی گئی۔ وہ ایک ثانیے کے لئے اسی جگہ پر کھڑی رہی اور اس کے جاتے وجود کو تراشتی رہی۔
صرف اس کے عبایا کو یہاں ہی نشانہ نہیں بنایا گیا بلکہ وہ جہاں بھی گئی یہ الفاظ اس کا پیچھا کرتے رہے مگر اتنا کچھ سننے کے بعد بھی اس کے حوصلے پست نہیں ہوئے۔ ایک آس اب بھی باقی تھی۔جو کہ خدا کی رحمت تھی۔ جب بھی اس کے قدم ڈگمگانے لگتے تو دادی کے یہ الفاظ اس کی ڈھارس باندھتے۔
’’منزل ہمیشہ دو راستوں پر چل کر ملتی ہے۔ ایک راستہ پھولوں کی سیج سے بنا ہوتا ہے اور دوسرا کانٹوں کی سیج سے۔پھولوں کی سیج پر چل کر تو ہر کوئی منزل کو پا لیتا ہے۔لیکن منزل کی اصل قدرو قیمت وہی جانتا ہے جس نے کانٹوں پر چل کر چاہ کو حاصل کیا ہو۔۔‘‘
یہی سوچ اس کو آگے بڑھنے کے لئے ہمت فراہم کرتی۔ وہ آگے بڑھتی جا رہی تھی۔یکے بعد دیگرے وہ کئی دفاتر میں گئی مگر کہیں سے مثبت جواب نہ ملا۔ ایک جگہ سے تو وہ الفاظ اس کو سننے میں ملے جو اس نے اپنے خیال میں بھی گمان نہیں کئے تھے۔
’’آپ جیسی لڑکی سوچ بھی کیسے سکتی ہے جاب کرنے کا؟بلکہ مجھے تو حیرت اس بات پر ہو رہی ہے کہ آج کے دور میں بھی آپ جیسی کم ظرف لڑکیاں ہیں جو ابھی بھی پرانی روایات کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔۔‘‘
’’مسٹر! اگر آپ کو یہ جاب نہیں دینی تو نہ دیں لیکن کم سے کم میرے اس حجاب کو برا مت کہیں اور آپ کے علم کے لئے یہ بات عرض کرتی چلوں کہ مذہب آج بھی زندہ ہے اور جب تک یہ مذہب زندہ رہے گا تب تک ہم جیسی لڑکیاں پیدا ہوتی رہیں گی جو اپنی عزت و ناموس کو چند پیسے کے عوض کبھی داؤ پر نہیں لگائیں گی۔۔‘‘
یہ جواب سن کر اس کے ہوش ہی اڑ گئے اور مزید کچھ نہ بول سکا مگر منزل اب بھی دور رہی۔ تقریباًہر آفس میں وہ جاچکی تھی جو اس کے علم میں تھے ۔ سائے بھی اب لمبے ہونے لگ گئے۔ظہر کی نماز بھی اس نے ایک آفس میں ادا کی۔اب وہ گھر کی طرف جانے لگی تھی۔آنکھوں میں قدرے نمی تھی مگر حوصلے اب بھی مردہ نہیں ہوئے تھے۔واپسی پر اس کی نظر ایک کالج کے گیٹ پر لگے بینر پر پڑی۔ادھر بھی ایک ٹیچر کی ضرورت تھی۔ اس نے آج کے لئے آخری بار قسمت آزمائی کرنا چاہی۔وہ مضبوط قدموں کے ساتھ دو سٹیپ چڑھی جو اسے کالج کے اندر لے گئے۔
’’ السلام علیکم! آپ نے باہر بینر لگایا تھا۔۔‘‘ کالج میں داخل ہوئی تو سامنے ایک لڑکی سر پر دوپٹہ لئے بیٹھی تھی۔اس کے سامنے پڑی ٹیبل کے نیچے انگلش میں ریسیپشن لکھا ہوا تھا۔
’’وعلیکم السلام! مجھے افسوس ہے مگر آپ نے دیر کر دی، ابھی کچھ دیر پہلے ہی میڈم نے کسی کو جاب دے دی ہے۔‘‘ یہ سنتے ہی وہ بنا کچھ کہے باہر جانے لگی۔ شائد آج کے دن میں اس کے لئے کہیں جاب نہیں لکھی تھی۔ وہ دروازے کی طرف آئی تو پیچھے ایک آواز نے اس کو پلٹنے پر مجبور کردیا
’’رکو۔۔! میرے کمرے میں بھیجو اسے۔۔‘‘و ہ پلٹی تو ایک عورت کا عکس نظر آیا جو اپنے کیبن میں جاچکی تھی۔ریسپشن پر موجود لڑکی نے اسے کمرے کی طرف جانے کو کہا
’’ کیا میں اندر آسکتی ہوں؟‘‘
’’ جی ۔۔ آئیے ۔۔ بیٹھیے۔۔‘‘اسے یہاں ایک عجیب سا سکون ملا
’’السلام علیکم! یہ میری سی وی ہے۔۔‘‘ کرسی پر بیٹھتے ہوئے اپنی سی وی اس خاتون کی طرف بڑھائی
’’ وعلیکم السلام ۔۔‘‘ ایک سرسری نگاہ سی وی پر دوڑائی پھر فائل کو واپس کر دیا
’’ آپ دو دن بعد کالج آسکتی ہیں۔‘‘یہ سن کر اس کی خوشی کی انتہا نہیں رہی۔ دن بھر کی تھکان اس ایک جملے نے دور کر دی۔
’’مگر آپ نے تو اچھی طرح میری سی وی دیکھی ہی نہیں۔۔ صرف سرسر ی طور پرجائزہ لیا ہے۔‘‘
’’ وہ تو سب فارمیلیٹی ہوتی ہے۔۔‘‘ انہوں نے مسکراتے ہوئے اسکے چہرے کی طرف دیکھا تھا
’’لیکن آ پ نے تو وہ فارمیلیٹی بھی پوری نہیں کی اور پھر مجھے تو باہر کہا گیا تھا کہ یہ پوسٹ تو پہلے ہی کسی اور کو آفر کر دی گئی ہے۔۔‘‘
’’ بہت خوب۔۔۔ گہرائی میں جاتی ہو۔۔نائیس۔۔‘‘ انہوں نے اس کی تعریف کی
’’شکریہ۔ لیکن یہ میرے سوال کا جواب نہیں ہے۔۔‘‘
’’ جواب بھی مل جائے گا لیکن اس وقت یہ جاننا ہی کافی ہے کہ آپ کو یہ جاب آفر کر دی گئی ہے ، آپ اس طرح کیجیے گا کہ جاتے وقت اپنا نام ، موبائل نمبر اور ایڈریس ریسیپشن پر دے دیجئے گا ، کل تک آپ کو اپائنمنٹ لیٹر اِشو کر دیا جائے گا۔۔‘‘ وہ ٹیبل سے کچھ کاغذات کو اکٹھا کررہی تھیں۔
’’مگر۔۔۔‘‘
’’ دیکھیے۔۔۔ بعض اوقات انسان کی شخصیت سب کچھ بتا دیتی ہے۔اور پھر ا ب تو ویسے بھی آپ کو دیر ہورہی ہے۔ عصر ہونے والی ہے اور پھر عصر کے بعد تو سورج ڈھلتے دیر بھی نہیں لگتی۔۔‘‘ ان کے چہرے پر ہلکی سی تبسم تھی۔
’’ اچھا ! اب میں چلتی ہوں۔۔ آپ یاد سے اپنا نمبر دے کر جانا۔۔‘‘ اس سے پہلے کے وجیہہ کرسی سے اٹھتی، وہ برق رفتاری سے کیبن سے باہر چلی گئیں۔ وجیہہ کے ذہن میں کئی سوال غوطہ کھانے گے۔ وہ گھر تو پہنچ گئی مگر کئی سوال اس کے ذہن میں غوطہ کھا رہے تھے۔
’’کہاں تھی تم سارا دن؟‘‘وہ کھوئی کھوئی ٹی وی لاؤنج میں داخل ہوئی۔ پرس کو اتارکر صوفے کے سامنے ٹیبل پر رکھاتو علی عظمت نے فوراً سوال داغا
’’ چلو۔۔ جہاں بھی گئی ہو لیکن اس بات کا تو شکر ادا کر لو پہلے کہ گھر سے تو نکلی۔ ورنہ سارا دن گھر میں ہی رہتی تھی میری بیٹی۔۔تم بیٹھو۔۔ میں تمہارے لئے چائے بنا کر لاتی ہوں۔‘‘رضیہ بیگم نے ایک کپ چائے کا علی عظمت کو دیا اور پھرکچن میں چلی گئیں، وجیہہ ادھر ہی صوفے پر دھڑام سے بیٹھی تو اسے ایسا محسوس ہوا جیسے ایک محاز سے ہو کر آئی ہو۔
’’ آج تو مرغی بھی اپنے کھڈے سے باہر نکل گئی۔‘‘ ہینڈ فری کانوں میں لگائے وہ سیڑھیوں سے نیچے اتر رہا تھا۔ وجیہہ نے جیسے ہی اس کی طرف دیکھا تو اس نے گردن کو جھٹکے کے ساتھ دوسری طرف کیا۔
’’ بس تمہاری ہی کمی تھی۔۔۔‘‘ علی عظمت نے انمول کے طنز کا جواب بھی طنزیہ دیا۔ لیکن انمول نے کچھ نہ سنا بس سیڑھیاں اتر کو وجیہہ کے ساتھ بیٹھ گیا ، اس کا سارا دھیان سمارٹ فون پر گانا سیلکٹ کرنے میں تھا۔
’’ یہ لو چائے۔۔‘‘ ایک کپ وجیہہ کے سامنے رکھا اور دوسرا وجیہہ کے ہاتھ میں تھمایا
’’ میں جاب ڈھونڈنے گئی تھی۔۔‘‘یہ سن کر سب کو ایک جھٹکا لگا۔ رضیہ بیگم کو تو ایسا شاک لگا کہ وہ جھکی کی جھکی رہ گئیں۔ وہ دونوں کپ پہلے ہی سرو کر چکی تھیں ، اس لئے گرنے سے بچ گئے ۔ ورنہ وہ ضرور بے مو ت مارے جاتے۔علی عظمت کے گلے میں بھی چائے کا ایک گھونٹ اٹک گیا۔انمول نے بھی پتا نہیں کیسے اس کے یہ الفاظ سن لئے۔ اس نے ہینڈ فری نکال کر یقین کرنا چاہا
’’کیا؟؟ تم سچ کہہ رہی ہو۔۔‘‘ علی عظمت نے دوبارہ استفسار کیا
’’جی ابو۔۔جاب بھی مل گئی اور کل تک اپائنمنٹ لیٹر بھی اِشو ہو جائے گا۔۔‘‘ انہیں ابھی بھی اپنے کانوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔انمول بھی منہ کھولے وجیہہ کے چہر کو دیکھتا جا رہا تھا۔
’’ مبارک ہو۔۔‘‘ رضیہ بیگم نے خوشی میں اسے گلے لگایالیا۔ لیکن دماغ اب بھی ماننے کو تیار ہی نہیں تھا کہ وجیہہ جاب کی تلاش میں گھر سے باہر نکلی تھی
’’ بڑی بات ہے۔۔‘‘ انمول نے طنزیہ شانے اچکائے تھے
’’ بیٹا ۔۔ کہاں ملی جاب؟ ‘‘ علی عظمت نے پوچھا
’’ایک پرائیویٹ کالج ہے۔۔ براق گروپس آف کالجز کی مین برانچ میں۔۔‘‘دھیمے لہجے میں بتایاتو انمول کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی
’’ کیا کہا تم نے؟ براق گروپس آف کالجز۔۔؟؟ وہ تو اتنا فیمس کالج ہے ادھر؟؟‘‘انمول کو تو جیسے اپنے کانوں پر یقین ہی نہیں آرہا تھا۔
’’ ہاں۔۔۔‘‘ اس نے ایک بار پھر اثبات میں گردن ہلائی
’’ لیکن بیٹا۔۔۔ تمہاری کوالیفیکیشن تو زیادہ ہے ناں۔۔ ایز کمپئیر ٹو دِس جاب۔۔۔؟‘‘علی عظمت نے استفسار کیا
’’ علی عظمت ۔۔ اس بات کو چھوڑو۔۔جاب جہاں بھی ملی ہو۔۔ میرے لئے تو یہی بات خوشی کی ہے کہ یہ جاب کے لئے تیار ہوگئی۔۔اب گھر سے باہر نکلے گی تو جانے گی کہ باہر کی دنیا کیسی ہے؟ اور شائد باہر جانے سے ہی اس کی یہ کالی چادریں بھی اتر جائیں۔۔‘‘رضیہ بیگم لاڈ کرتے نہیں تھک رہی تھی مگر شائد وہ خود تھک چکی تھی۔ اسی لئے اپنے کمرے میں چلی گئی

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

Muhammad Shoaib
About the Author: Muhammad Shoaib Read More Articles by Muhammad Shoaib: 64 Articles with 106987 views I'm a student of Software Engineering but i also like to write something new. You can give me your precious feedback at my fb page www.facebook.com/Mu.. View More