نام و نسب :اسم گرامی آپ کا سیدہ عاتکہ ،والد کا نام خالد
بن خلیف ،جس وقت رسول اﷲ ﷺ کو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت
فرمانے کا حکم ہوا تاکہ حضور اکرم ﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہ کرام مشرکوں کی
اذیتوں اور تکلیفوں سے بچ جائیں ۔تو جناب رسول اﷲ ﷺ مکہ مکرمہ سے حضرت ابو
بکر صدیق رضی اﷲ عنہ کی معیت میں (جو سب سے پہلے آپ ﷺ کی رسالت پر ایمان
لائے تھے حضور اکرم ﷺ کی دعوت کی تصدیق فرمائی تھی) نکل کھڑے ہوئے اور ثور
پہاڑ کی ایک غار میں جا چھپے اور جناب ابو بکر رضی اﷲ عنہ جناب نبی اکرم ﷺ
سے پہلے غار کے اندر گئے تاکہ اچھی طرح سے دیکھ بھال فرما لیں کہ غار کے
اندر کوئی ایسی چیز نہ ہو جو حضور اکرم ﷺ کو اذیت پہنچائے اگر کچھ ہونا
ہوتو پہلے انہی کو ہو جائے ۔پھر تین روز تک یہ حضرات اسی غار میں رہے ۔
اس دوران حضرت عبد اﷲ بن ابی بکر قریش کی خبریں اور ان کی سرگرمیاں ان
حضرات کو پہنچایا کرتے تھے اور ان کی بہن سیدہ اسماء ان دو حضرات کیلئے
کھانے پینے کا سامان لے کر آیا کرتی تھیں۔ جب ان دونو ں حضرات نے مدینہ
منورہ کی طرف جانے کا قصد فرمایاتو حضرت ابو بکر رضی اﷲ عنہ کے غلام عامر
بن فہیرہ اور ان لوگوں کو راستہ دکھانے والے عبد اﷲ بن اریقط ان کے ساتھ ہو
لیے ۔
سورج کی سخت گرمی پڑ رہی تھی اور صحراء آگ کی بھٹی کی طرح تپ رہا تھا۔
ابھی جناب رسول اﷲ ﷺ اور آپ ﷺ کے ساتھیوں نے صحراء میں کچھ سفر طے کیا تھا
کہ دور سے انہیں تپتی ہوئی ریت پر ایک خیمہ دکھائی دیا تو حضور اکرم ﷺ کی
مبارک سواری اس طرف چل پڑی اور یہ خیمہ سیدہ ام معبد رضی اﷲ عنہا کا تھا ۔جس
کا نام سیدہ عاتکہ تھا اور ان کے شوہر کی کنیت ابو معبد تھی ۔یہ خیمہ ان
دونوں میاں بیوی نے مسافروں کے راستے پر لگارکھا تھا ۔تاکہ ان کی مہمان
نوازی کر سکیں اور ان کے تحفوں اور عطیوں سے اپنی گذر بسر کر سکیں۔
امام بیہقی رحمۃ اﷲ علیہ نے روایت درج فرمائی ہے کہ جس رات کو جناب رسول اﷲ
ﷺ نے جناب ابوبکر رضی اﷲ عنہ اور ان کے غلام عامر بن فہیرہ اور اپنے راہنما
عبد اﷲ بن اریقط اللیثی کے ہمراہ ہجرت فرمائی تو ان لوگوں کا گذر ام معبد
سیدہ عاتکہ بنت خالد الخزاعیہ رضی اﷲ عنہا کے خیمہ سے ہوا اور سیدہ ام معبد
رضی اﷲ عنہا ایک نمایاں اور جفا کش عورت تھیں جو اپنے خیمہ کے صحن میں
بیٹھی ہوئی تھیں وہ اپنے پاس سے گذرنے والوں کو کھلایا پلایا کرتی تھیں۔
ان لوگوں نے اس سے پوچھا کیا تمہارے پاس گوشت یا دودھ ہے ۔وہ خرید نا چاہتے
ہیں تو اس کے پاس انہیں کچھ نہیں ملا ۔وہ کہنے لگیں اﷲ کی قسم اگر ہمارے
پاس کوئی چیز ہوتی تو ہم تمہاری مہمان نواز ی میں ذرا کوتاہی نہ کرتے ۔وہ
لوگ اس وقت تنگ دست اور قحط زدہ تھے ۔جناب رسول اﷲ ﷺ نے نظر دوڑائی تو حضو
ر اکرم ﷺ کو خیمہ کے ایک کونے میں بکری دکھائی دی تو حضور اکرم ﷺ نے ارشاد
فرمایا اری ام معبد! یہ بکری کیسی ہے ۔انہوں نے عرض کیا یہ بکری کمزوری کی
وجہ سے بکریوں کے ریوڑ سے پیچھے رہ گئی ہے ۔جناب رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد
فرمایا:’’فھل فھیا من لبن؟‘‘کیا اس میں کچھ دودھ ہے ۔تو انہوں نے عرض کیا
یہ اس قابل نہیں ہے ۔حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا اگر آپ اجازت دیں تو میں
اسے دوہ لوں؟اس نے عرض کیا اگر اس میں دودھ ہے تو دوہ لو اور ایک روایت میں
ہے کہ انہوں نے عرض کیا ہاں میرے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان ہوں اگر آپ ﷺ کو اس
میں دودھ نظر آتا ہے تو دوہ لیں۔
سیدہ ام معبد رضی اللّٰہ عنہا جناب محمد مصطفےٰ ﷺ کے فیض سے مستفید ہوتی
ہیں:جناب رسول اﷲ ﷺ نے بکری کو بلایا ،اس پر ہاتھ پھیرا اور اﷲ تعالیٰ کا
نام لیا اور اس کے شیردان کو چھوا اور ایک روایت میں ہے کہ اس کی پیٹھ پر
ہاتھ پھیرا اور اﷲ تعالیٰ کا نام لیا اور برتن منگواکر تمام جماعت کو سیراب
فرمادیا۔ اس کے پیروں کو کھولا تو وہ دودھ دینے لگی اور ایک روایت میں ہے
کہ اس نے کثرت سے دودھ دیا اور برتن میں دھاروں دودھ گرنے لگا۔یہاں تک کہ
حضور اکرم ﷺ نے برتن بھر لیا ۔ام معبد کو پلایا اپنے ساتھیوں کو پلایا، سب
نے باری باری پیا یہاں تک کہ تمام لوگ شکم سیر ہو گئے اور سب سے آخر میں
حضور اکرم ﷺ نے نوش جان فرمایا اور ارشاد فرمایا ۔’’لوگوں کو پلانے والا سب
سے آخر میں پیتا ہے ۔‘‘پھر حضور اکرم ﷺ نے اس برتن میں دوبارہ دودھ دوھا
پھر دوھا اور اُسے ام معبد کے پاس رکھ دیا اور ایک روایت میں ہے کہ حضور
اکرم ﷺ نے سیدہ ام معبد رضی اﷲ عنہا سے ارشاد فرمایا :’’یہ اٹھا کر ابو
معبد کیلئے رکھ دو‘‘جب وہ آئے (تو اسے پلا دینا)۔پھر ان لوگوں نے وہاں سے
کوچ فرمایا تو تھوڑی دیر بعد سیدہ ام معبد رضی اﷲ عنہا کے شوہر ابو معبد
کمزور سی بکریوں کو جولاغر ی کی وجہ سے آہستہ آہستہ چل رہی تھیں اور ان کی
ہڈیوں میں تھوڑا سا مغز تھا کو ہانکتے ہوئے تشریف لے آئے ۔جب انہوں نے دود
ھ دیکھا تو حیران رہ گئے اور پوچھا اری ام معبد رضی اﷲ عنہا یہ دودھ کہاں
سے آگیا اور گھر میں تو دودھ دینے والی کوئی بکری نہیں ہے اور بکریاں تو سب
بے دودھ ہیں۔وہ فرمانے لگیں اﷲ تعالیٰ کی قسم یہ ایک مبارک آدمی کا گذر
ہمارے پاس سے ہوا ہے اور ان کا مزاج اس طرح سے ہے تو انہوں نے کہا اری ام
معبد اس کا حلیہ میرے سامنے بیان کرو۔
حضور اکرم ﷺ کے نہایت حسین و جمیل سراپا کا بیان: حضرت ام معبد رضی اﷲ عنہا
کہنے لگیں کہ میں نے ایسے شخص کو دیکھا ہے جو نہایت خوبصورت تھا ۔اس کا
چہرہ مبارک روشن تھا ۔وہ جسمانی طور پر حسین تھا۔دبلا پتلا اور کمزور نہیں
تھا ۔اس کی کمر پھولی ہوئی نہیں تھی اور نہ پتلی اور کمزور تھی ۔ اعضاء میں
تھکاوٹ کے آثار نہیں تھے ۔ ان کا سر مبارک بھی چھوٹا نہیں تھا ۔وہ حسنِ
ظاہری سے مالا مال تھا ۔آنکھوں کی پتلیاں سیاہ تھیں اور پلکیں لمبی
تھیں۔آواز بھاری نہیں تھی ۔گردن بلند تھی ۔ داڑھی مبارک گھنی تھی ،بھویں
باریک تھیں۔یہ شخص خاموش ہوتا تو باوقار لگتا تھا اور گفتگو کرتا تو
خوبصورت معلوم ہوتا تھا ۔دیکھنے سے اُس کا حسن نمایاں ہوتا تھا ۔قریب سے
دیکھیں تو اس کے سراپا سے مٹھاس اور حسن ظاہر رہتا تھا اور دور سے دیکھیں
تو جمال نمایاں دکھائی دیتا تھا ۔بات میں شرینی تھیں۔ہر لفظ جدا جدا ادا
ہوتا تھا ۔نہ بات اتنی مختصر تھی کہ کوئی سمجھ نہ پائے اورنہ ضرورت سے
زیادہ طویل و دراز ۔ الفاظ مبارک موتیوں کی طرح پروئے ہوئے محسوس ہوتے تھے
اور منہ سے موتیوں کی طرح گرتے ہوئے لگتے تھے ۔ظاہر نظر میں قد دراز دکھائی
نہیں دیتا تھا اور قد مبارک چھوٹا بھی نہیں تھا ۔لگتا تھا وہ شاخوں کے
درمیان ایک شاخ کی طرح ہیں۔تینوں آنے والے اشخاص میں سے زیادہ دل پسند نظر
آتا تھا اور سب سے زیادہ نرالی شان والا تھا ۔اس کے ساتھی اُسے ہمہ وقت
گھیرے رہتے تھے ۔اگر وہ گفتگو کرتا تو خاموشی سے سنتے اور اگر وہ کوئی حکم
انہیں دیتا تو وہ فوراً اس کی تکمیل کرتے وہ شخص مخدوم تھا ۔اس کے ساتھ اس
کے ساتھی ہر وقت کمر بستہ تیار رہتے تھے ۔اس کے چہرہ پر تُرش روئی کا ذرا
بھر اثر نہیں تھا اور نہ اس پر بڑھاپے کے آثار تھے ۔
تو ابو معبد نے فرمایا اﷲ کی قسم یہ تو وہ صاحب ہیں جنہیں قریش مکہ تلاش کر
رہے ہیں ۔اگر میں انہیں پا لوں تو میری خواہش ہے کہ میں ان کے ساتھ ہو جاؤں
اور ایک روایت میں ہے اگر میں حضور اکرم ﷺ دیکھ لوں تو ان کا پیروکار ہو
جاؤں ۔پھر انہوں نے فرمایا اﷲ تعالیٰ کی قسم ہے کہ میں اس کا راستہ نکالنے
کی پوری کوشش کروں گا۔
سیدہ ام معبد رضی اﷲ عنہا کی مدینہ منورہ کو روانگی اور قبول اسلام:پھر
سیدہ ام معبد رضی اﷲ عنہا اپنے شوہر کے ساتھ ہجرت کر کے جناب نبی اکرم ﷺ کی
خدمت میں پہنچیں اور دونوں نے اسلام قبول فرمایا اور حضور اکرم ﷺ سے بیعت
فرمائی ۔
اسی دوران میں ایک زور دار آواز سنی گئی جو لوگوں نے کانوں سے سنی اور یہ
معلوم نہ کر سکے کہ یہ آواز کہاں سے آ رہی ہے اور نہ اس آواز والے کو پہچان
سکے جو کہہ رہا تھا ـ:ترجمہ’’اﷲ کریم جو تمام لوگوں کا رب ہے ان دوساتھیوں
کو جزائے خیر عطا فرمائے ۔جو سیدہ ام معبد رضی اﷲ عنہا کے خیموں میں قیام
پذیر ہوئے وہ نیکی کے ساتھ آئے اور خیر کے ساتھ رخصت ہوئے ۔وہ شخص کامیاب
ہو گیا جو جناب محمد ﷺ کا ساتھی بنا اے قصی کی اولاد تم سے اﷲ تعالیٰ نے
اتنی بڑی نعمت کو دور کر دیا کہ کردار اور سرداری میں جس سے بڑھ کر کوئی
نہیں۔اپنی بہن (ام معبد) سے پوچھ اس کی بکری اور برتن کا حال اگر تم اس سے
پوچھو گے تو وہ بھی حضور اکرم ﷺ کے کردار اور سرداری کی گواہی دے گی ۔جنہوں
نے بے دودھ کی بکری کو بلا کر اس کا دودھ دوہ لیا اور دودھ بھی خالص جھاگ
مارتا ہوا اور انہوں نے اس بکری کو انہیں کے پاس چھوڑ دیا کہ اس کا دودھ
پیتے رہیں جو دو ہنے والے کو بار بار دودھ دیتی ہے ۔‘‘
جب حضرت حسان بن ثابت رضی اﷲ عنہ نے مکہ مکرمہ میں جو غیبی اشعار سنے تو
ہاتف کو ان کا جواب دیتے ہوئے جسے وہ پہچانتے نہیں تھے ۔یہ اشعار کہے جن کا
ترجمہ یہ ہے :’’حق بات یہ ہے کہ اے سیدہ ام معبد رضی اﷲ عنہا تو نے جناب
رسول اﷲ ﷺ کے سراپا کے بیان کرنے میں کمال کر دکھایا اور نہایت احسن طریقے
سے اسے بیان فرمایا ہے اور حضور اکرم ﷺ کا حلیہ بیان کرنے میں سب سے آگے
نکل گئی ہیں اور نہایت ہی حسن بیان سے اسے نبھانے کی تمہیں توفیق نصیب ہوئی
ہے ۔‘‘
جب ان سے پوچھا گیا اری ام معبد رضی اﷲ عنہا تم نے تو حضور اکرم ﷺ کا حلیہ
بیان کرنے میں مردوں کو بھی مات دے دی ہے تو انہوں نے فرمایا کہ تم نہیں
جانتے کہ عورت مردوں کے خصائل اور خوبیوں کو مردوں سے بہتر جانتی ہے۔
عجیب بات ہے بلکہ نہایت ہی حیرت کا مقام ہے کہ ایسا گہرا اور اعلیٰ درجے کا
مطالعہ جناب رسول اﷲ ﷺ کی ذات گرامی میں سیدہ ام معبد رضی اﷲ عنہا کو حضور
اکرم ﷺ کی ایک ہی بار کی ہمنشینی سے حاصل ہو گیا ۔کیونکہ حضور اکرم ﷺ کی
مبارک سواری کے سیدہ ام معبد رضی اﷲ عنہا کے خیمہ سے رخصت ہونے کے فوراً
بعد ان کے شوہر ابو معبد رضی اﷲ عنہ کے وہاں پہنچ گئے تھے اور آتے ہی انہوں
نے حضور اکرم ﷺ کا حلیہ مبارک پوچھا تھا ۔
اور میرا خیال ہے کہ جناب رسول اﷲ ﷺ کا سراپائے مبارک اس خوبی سے بیان کرنا
اس دودھ کی برکت ہی ہو سکتی ہے جو رسول اﷲ ﷺ نے اپنے مبارک ہاتھوں سے دوھ
کر سیدہ ام معبد رضی اﷲ عنہا کو پلایا تھا کہ اس کے پیتے ہی سیدہ ام معبد
رضی اﷲ عنہا کی زبان اﷲ تعالیٰ کے حبیب پاک ﷺ کی خوبیاں بیان کرنے میں
فصاحت و بلاغت سے رواں ہو گئی ۔اﷲ تعالیٰ سیدہ ام معبد رضی اﷲ عنہا کو
جزائے خیر عطا فرمائے ۔
حضرت سیدنا علی المرتضیٰ بن ابی طالب کرم اﷲ وجہہ الکریم جو فصاحت و بیان
میں امیر مانے گئے ہیں سے ایک دفعہ پوچھاگیا کہ جناب رسول اﷲ ﷺ کے سراپا
اقدس میں سب سے بڑھ کر بیان کس نے کیا ہے تو حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے جواب
دیا کہ سب سے اجمل و احسن اور بلیغ ترین سراپا رسول اﷲ ﷺ جو کسی نے بیان
کیا ہے وہ سیدہ ام معبد رضی اﷲ عنہا الخزاعیہ نے بیان فرمایا ہے ۔
حضرت سیدناعلی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ سے پوچھا گیا کہ سیدہ ام معبد رضی اﷲ
عنہا جیسا سراپائے اقدس کوئی اور بیان کیوں نہیں کر سکا تو انہوں نے جواب
میں فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ نے جو دانش اور صواب رائے عورتوں کے جذبات میں
رکھی ہے اور جو ان کے جذبات میں صفائی ہوتی ہے وہ مردوں میں نہیں ہوتی ۔
جناب رسول اللّٰہ ﷺ اور دین اسلام کی طرف سے سیدہ ام معبد رضی اللّٰہ عنہا
کا دفاع:جب قریش مکہ کو معلوم ہوا کہ جناب رسول اﷲ ﷺ اور ان کے رفیق کار
ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ ام معبد رضی اﷲ عنہا کے خیمہ میں مہمان بن کر
ٹھہرے ہیں تو انہوں نے اپنے چند نادانوں کو ان کے تعاقب میں روانہ کیا جب
وہ حضرت ام معبد رضی اﷲ عنہا کے ہاں پہنچے تو ان کے اچانک آنے پر وہ پریشان
ہو گئیں کیونکہ ان لوگوں کی آنکھوں سے شرنمایاں طور پر دکھائی دے رہا
تھا۔اُن میں سے ایک نے پوچھا اری ام معبد بتاؤ محمدﷺ کہاں ہیں۔تو انہوں نے
حضور اکرم ﷺ کیلئے خطرہ محسوس کرتے ہوئے ان سے فرمایا تم جس بات کے بارے
میں مجھ سے پوچھ رہے ہو وہ تو میں نے اب تک سنی تک نہیں ہے تو انہوں نے کہا
یقینا تم جانتی ہو کہ وہ کہاں گئے ہیں۔ انہوں نے فرمایا میری سمجھ میں نہیں
آ رہا کہ تم کیا کہہ رہے ہو ۔جب انہوں نے نہایت ہی اصرار سے پوچھا اور شران
کے چہروں سے ظاہر ہونے لگا تو سیدہ ام معبد رضی اﷲ عنہا نے ان سے فرمایا تم
یہاں سے جاتے ہو یا کہ میں اپنی قوم کے آدمیوں کو بلاؤں اور تم کان کھول کر
یہ بات سن لو کہ پھر تم سلامت واپس نہیں جا سکو گے ۔پھر ان لوگوں نے آپس
میں مشورہ کیا کہ ہمیں واپس چلے جانا چاہیے کیونکہ سیدہ ام معبد رضی اﷲ
عنہا اپنی قوم میں قابل احترام اور عزیز ہیں۔اگر انہوں نے ایک ہی آواز دے
دی تو ہمارا یہاں سے سلامت جانا محال ہو گا۔ پھر وہ ذلیل و خوار ہو کر وہاں
سے واپس چلے گئے ۔
وہ مبارک دودھ جو سیدہ ام معبد رضی اﷲ عنہا کو جناب رسول اﷲ ﷺ نے اپنے
مبارک ہاتھوں سے دوھ کر پلایا تھا اس سے آپ ظاہری طور پر ہی شکم سیر نہیں
ہوئیں بلکہ اس دودھ نے ان کے اندر نور ایمان کو بھی بھر دیا جو ان کی رگ رگ
میں سرایت کر گیا اور جسمانی سیرابی کے ساتھ ساتھ انہیں روحانی اور ایمانی
سیرابی بھی حاصل ہو ئی اور اس کے اثر سے دونوں میاں بیوی اسلام کے راستے پر
چل پڑے ۔اتنی عظیم بھلائی اور خوش نصیبی تھی جو ان خیمہ والوں کو ایک عظیم
اور کریم مہمان کے آنے سے حاصل ہوئی تھی ۔اﷲ تعالیٰ سیدہ ام معبد رضی اﷲ
عنہا اور جناب ابو معبد رضی اﷲ عنہ پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے اور اپنے
نیک بندوں کی طرح سے انہیں جزائے خیر عطا فرمائے ۔آمین۔ |