اسلامی سال کا آٹھواں مہینہ شعبان المعظم اختتام پزیر ہے۔
چند دنوں بعد رمضان المبارک کا آغاز ہوگا۔ یہ کوئی نہی یا اچنبھے کی بات
نہیں ہرسال یہ مہینہ آتا ہے اور گزرجاتا ہے۔ جہاں تک اس کے فضائل اور برکات
کا تعلق ہے وہ بھی ہم میں سے کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔آج تو دور ہی میڈیا
کاہے۔ الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا پر بے شمار مواد موجود ہے جسے ہم
پڑھتے، سنتے اور دیکھتے ہیں۔ مجھے معلوم ہے کہ اپنی ان معروضات میں برکات
رمضان المبارک کے حوالے سے آپ کی معلومات میں کوئی اضافہ نہیں کرسکوں گا ۔
لیکن اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ صرف معلومات ناکافی ہیں جب تک
دلوں میں عمل کا جذبہ موجود نہ ہو۔ رمضان المبارک کا مہینہ ماہ احتساب کے
طور پر ہرسال آتا ہے ۔ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو فکرِ آخرت کے ساتھ عبادت و
ریاضت میں اس ماہ مبارک کے شب و روز گزارتے ہیں۔ دامان طلب کو بارگاہ ایزدی
میں پھیلا کر اپنے جھولیوں کو گوہر ہائے مراد سے بھر لیتے ہیں۔ یاد دہانی
کے طور پر عرض ہے کہ ہم اس دنیا میں مسافر ہیں۔ ہم یہاں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے
گزر بسر کرنے نہیں آئے۔ ایک مخصوص وقت تک کیلئے نیابت الہی کے منصب جلیلہ
پر فائز ہوکرہم نے مقصد تخلیق کو پورا کرنا ہے۔اور پھرایک وقت مقررہ پر
اپنی زندگی کی اگلی منزل کی طرف رواں دواں ہوجانا ہے۔ احکم الحاکمیں کے
تشکیل دئیے گئے نظام ہستی میں یہ سلسلہ ازل سے چلا اور ابد تک جاری رہے
گا۔اس وقت اس زمین پر موجود انسانوں کی کل تعداد ساڑھے سات بلین ہے۔ ہر روز
لوگ پیدا ہورہے ہیں اوردار فانی سے دار بقا کی طرف منتقل بھی ہو رہے ہیں۔
جدید ترین شماریات کے مطابق ایک دن میں (153,400) ایک لاکھ ترپن ہزار چار
سو کے لگ بھگ لوگ موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں ۔ اس طرح ایک منٹ میں ایک سو
سات لوگ اور ایک گھنٹے میں چھ ہزار تین سو بانوے (6391) لوگ فوت ہوتے ہیں۔
گویا ہمارے ایک مرتبہ سانس لینے کی مدت میں کم و بیش دو لوگوں کی روح قبض
ہو جاتی ہے۔ دنیا کا سارا کھیل اور رنگینیاں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں اور
وہ اپنی اگلی منزل کی طرف رواں دواں ہوجاتے ہیں۔ جینا اور مرنا ایسی حقیقت
ہے جس کا انکار کوئی ذی شعور نہیں کرتا۔ جو خدا کی ذات کا منکر ہے وہ بھی
موت کو شعوری طور پر مانتا ہے۔ لیکن کسی ملحد کے ماننے اور بندہ مومن کے
ماننے میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ وہ مانتا ہے کہ مرجانا ہے لیکن مومن
آدمی کا یہ عقیدہ ہے کہ مرنا ہی نہیں بلکہ مرنے کے بعد اٹھنا بھی ہے (والبعث
بعد الموت) ۔ ا ور اپنے کیے پر بارگاہ رب العزت میں جواب دہ بھی ہونا ہے۔
دنیا کی زندگی کا حسن عمل ہی اخروی کامیابی کا ضامن ہے۔ ہرروز کا عبادات کا
ایک نظام الاوقات متعین ہے۔ اس کے علاوہ نفلی عبادات، صدقات و خیرات اور
خدمت خلق کے بیشمار مواقع سال بھر میسر آتے رہتے ہیں۔ لیکن رمضان المبارک
کا مکمل مہینہ اور اور اس کی ایک ایک ساعت رحمتوں اور برکتوں سے بھرپور
ہے۔خوش بختوں کیلئے یہ نیکیوں کا موسم بہار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رمضان شریف
کے شروع ہونے سے پہلے ہیں ہمارے آقا و مولی محمد رسول اﷲﷺ اپنے ہم نشینوں
کواس ماہ مبارک کی رحمتوں اور لطافتوں سے آگاہ فرماتے۔ خود بھی کمر ہمت
باندھ لیتے اور اپنے اہلخانہ کو بھی اس ماہ مبارک میں عبادات و ریاضیات
کیلئے پابند کرتے۔ ابھی اس ماہ مبارک کی آمد میں دو ماہ کا عرصہ باقی ہوتا،
توآپ رجب المرجب کے مہینے میں بارگاہ رب العزت میں التجائیں کر تے کہ اے
ہمارے پروردگار ! رجب اور شعبان کو ہمارے لئے باعث برکت بنانا اور ہمیں
رمضان شریف کے بابرکت اور مطہر مہینے تک پہنچانا۔ حضرت سلمان فارسی رضی اﷲ
عنہ سے روایت طویل حدیث مبارکہ ہے جس کو ہم ’’حدیث استقبال رمضان‘‘ بھی
کہیں تو بجا ہو گا۔ نبی رحمت، شفیع امت ﷺ نے شعبان کے آخری دن فرمایا کہ ’’
اے لوگو تم پر ایک عظیم مہینہ سایہ فگن ہونے والا ہے۔ اس میں ایک رات (لیلۃالقدر)
ہزارمہینوں کی راتوں سے بہتر ہے۔ اس ماہ کے روزے فرض ہیں جبکہ رات کا قیام
مستحسن عمل ہے۔ اس ماہ کی نفلی عبادت کا عام مہینوں کے فرائض کے برابراجر
ملتا ہے۔ ایک فرض ستر فرائض کے برابر ہے۔یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا اجر
جنت ہے۔ یہ( غرباء، مساکین اور معاشرے کے مفلوک الحال لوگوں سے)غم گساری
اور ہمدردی کا مہینہ ہے‘‘۔ رمضان شریف وہ مہینہ ہے جس میں میں گنہگاروں کے
دل بھی اﷲ کریم کی جانب مائل ہوجاتے ہیں۔ ہزارہا گناہوں میں ڈوبے ہوئے لوگ
اس ماہ مبارک کی لطافتوں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے تائب
ہوجاتے ہیں۔ مسجدوں کی رونقیں بڑھ جاتی ہیں اور گھر گھر سے قرآن پاک کی
تلاوت کی صدائے دل نواز بلند ہوتی سنائی دیتی ہے۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ
کچھ وہ بھی ہیں جو گناہوں میں اس قدر منہمک ہوچکے ہیں کہ اس ماہ مبارک کو
بھی فسق و فجور میں گزار دیتے ہیں۔رمضان شریف کی فیضان بخش ساعتوں میں بھی
ان کا کاسہ طلب اوندھا پڑا دکھائی دیتا ہے۔ کچھ وہ ہیں جو رمضان شریف کے
شروع میں تو بہت جوش و خروش دکھاتے ہیں۔ لیکن چند ہی دنوں کے بعد جذبے سرد
پڑ جاتے ہیں۔نمازوں میں کوتاہی ہونی شروع ہوجاتی ہے اور تلاوت چھوٹ جاتی
ہے۔چند دن آباد رہنے کے بعد مسجدوں کی پچھلی خالی صفیں ان کی شومی قسمت پہ
نوحہ کناں ہوتی ہیں کہ کاش یہ لوگ اس ماہ مبارک میں رحمتوں، مغفرتوں اور آگ
سے آزادی کے کھلے دروازوں پہ دستک دے سکتے! سرکش شیاطین تو پابند سلاسل ہیں
الزام بھی دیں تو کس کو؟ ہماری اس روش کی تبدیلی کیلئے خوف خدا کے ساتھ
توبہ کے چند آنسو درکار ہیں ۔ فکر آخرت کے ساتھ موت کی یاد اور اپنی مستقل
رہائش گاہ (پانچ چھ فٹ گہری قبر) کا تصور ہی شاید ہماری زندگیوں میں انقلاب
لا سکے۔ اس کے ساتھ سا تھ غمگساری کے اس مہینے میں اپنے ان غریب اور نادار
بہن بھائیوں اور بزرگوں کو ہرگز فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ ہمارا دین غریب
پرور ہے۔ صدقہ فطر کا وجوب بھی اسی لئے ہے کہ وہ لوگ جوخود اور ان کے بچے
اپنی مفلسی کی وجہ سے عید کی خوشیوں اور رمضان کی بہاروں میں شریک نہیں
ہوسکتے، ان کو بھی یہ مواقع میسر آئیں۔ آؤ! ہم اس رمضان المبارک میں عہد
کریں کہ خالص توبہ کرکے ہمیشہ کیلئے پاکیزہ زندگی گزارنے کا عہد کریں
گے۔جتنا وقت’’ فیس بک ‘‘کو دیتے ہیں اس کا پانچ فیصد بھی ’’بک آف اﷲ‘‘ کو
دے دیں تو ایک اندازے کے مطابق کم از کم ایک ماہ میں دو قرآن ختم ہوسکتے
ہیں ۔آخر میں دعا ہے کہ یہ رمضان شریف امت مسلمہ کیلئے بھلائی اور خیر کا
باعث بنے۔ غلامی اور جبر و استبداد کے سائے میں زندگی گزارنے والے ہمارے
بہن بھائی آزادی اور خوشحالی کی زندگی گزاریں۔( آمین ثم آمین) |