یوپی سوسائٹی کا کباڑ بازار

جہاں پیچ کش سے لے کر موٹر سائیکل کا انجن تک مل جاتا ہے، بس تلاش کرنے کی ضرورت ہے

میگا سٹی کراچی میں ڈیڑھ سو سے زیادہ چھوٹے بڑے بازار ہیں جن میں زندگی کی ضرورتوں سے متعلق تمام اشیا باآسانی دستیاب ہیں، ان کے علاوہ شہر کے صاحب ثروت علاقوں میں کئی ایکڑ پر پھیلے ڈپارٹمنٹل اسٹورز، ہر سڑک، گلی، فٹ پاتھ اور سڑک کے اطراف آئی لینڈ پر موجود، پتھاروں اور ٹھیلوں پر ہرزندگی کی ضرورت کی ہر شے دستیاب ہوتی ہے لیکن ایک بازار ایسا بھی ہے جس میںاستعمال شدہ پرانی اور نادر اشیا انتہائی سستے نرخوں پر ملتی ہیں ، وہ ہے یوپی سوسائٹی کا کباڑ بازار۔ اس بازار کو کراچی کے سب سے بڑے کباڑ بازار کا نام دیا گیا ہے۔ پہلے یہ اعزاز شیرشاہ کی کباڑی مارکیٹ کے پاس تھا جس میں موٹر سائیکل، اسکوٹرکے پرزوں اور انجن سے لے کر ٹریکٹر اور ٹرالر کے انجن ، باڈی اور پرزے تک دستیاب ہوتے ہیں اور یہ زیادہ تر سامان چوری شدہ گاڑیوں کو کھول کر نکالا جاتا ہے جن کے چیسز، انجن،باڈی، ٹائر، ٹیوب اور پرزے الگ کرکے یہاں فروخت ہوتے ہیں، لیکن یہاں فائرنگ کے واقعات میں کئی ہلاکتوں کے بعد لوگوں کا اس بازار میں آنا کم ہوگیا ہے۔ رنچھوڑ لائن کی کباڑ مارکیٹ بھی اس سلسلے میں مشہور ہے ۔ اس کے علاوہ بھی کئی کباڑ بازار کراچی کے متعدد علاقوں میں موجود ہیں، لیکن نارتھ کراچی کی یوپی سوسائٹی کے ایک بڑے میدان اور یوپی کے پارک کے سامنے پتھاروں پر اسٹالوں کی صورت میں ہر اتوار کویہ بازار لگتا ہے جہاں ہفتہ وار تعطیل کا فائدہ اٹھا کر شہر بھر سے لوگ یہاں اپنی پسندیدہ اشیا ، پرزوں اور آلات کی تلاش میں آتے ہیں ۔ ہفتے کے چار دن اس میدان میں مختلف ہفتہ وار بازار لگتے ہیں، جن میں ، بدھ بازار، کافی مشہور ہے، لیکن اتوار کا دن کباڑ بازار کے لیے مخصوص ہوگیا ہے۔ پرانے سامان کا مذکورہ بازار تقریباً 25سال سے اس علاقے میں لگتا ہے لیکن پہلے یہ یوپی سوسائٹی سے نیو کراچی کے بسم اللہ موڑ کی جانب جانے والی سڑک پر لگا کر کرتا تھا اور سڑک کے دونوں ٹریک ،ٹھیلوں اورپتھاروں اور کباڑ کے سازو سامان کی وجہ سے ٹریفک کے لیے ناقابل گزر ہوگئے تھے جب کہ اس پر مختلف روٹس کی بسیں، ویگنیں چلا کرتی تھیں ، جن کے مسافروں کو ذہنی اذیت کا سامان کرنا پڑتا تھا۔ ان مسائل کو دیکھتے ہوئے انتظامیہ نے اسے پارک کے سامنے وسیع و عریض میدان میں منتقل کردیا۔

یہ بازار تقریباً ڈیڑھ مربع کلومیٹررقبے پر محیط ہے اور اس کا ایک سرا یوپی سوسائٹی کے اسٹاپ سے شروع ہوتا ہے اور ٹاؤن میونسپل ایڈمنسٹریشن کے چوراہے تک جاتا ہے جب کہ دوسرا سرا سندھ گورنمنٹ اسپتال کی دیوار سے شروع ہوکر، پوسٹ آفس ، سرد خانےاور ٹاؤن ایڈمنسٹریشن کی عمارت کے ساتھ ساتھ نارتھ کراچی کی مرکزی شاہراہ کے سروس روڈتک پھیلا ہوا ہے۔ صبح گیارہ بجے سے سوزوکی اور مختلف گاڑیوں میں کباڑ کا سامان آنا شرو ع ہوتا ہے اوراس کے مالکان ’’الاٹ شدہ‘‘ جگہوں پر اپنے اسٹال لگانا شروع کرتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر سامان گھروں کا کاٹھ کباڑ ہوتا ہے جب کہ کچھ چیزیں مختلف، کمپنیوں اور فیکٹریوں کی مسترد کردہ ہوتی ہیں۔پرانا سامان خریدنے والے ٹھیلوں پر ، گلیوں گلیوں گھوم، پھر کر لوہے کے نرخوں پر یہ سامان خریدتے ہیں جب کہ پرانا فرنیچر خریدنے والے بھی گلیوں کا چکر لگاتے ہیں۔ یہ سارا سامان اکٹھا کرکے کباڑیوں کی بڑی دکانوں پر فروخت کردیتے ہیں جوہر شے کو الگ الگ کرکے اور ان کی مرمت اور رنگ روغن کرا کے،اس بازار میں فروخت کے لیے لاتے ہیں۔ اس کے لیے انہوں نے مختلف مکینکس حضرات کی خدمات بھی حاصل کی ہوئی ہیں۔ اس بازار میں پرانے سامان کے تقریباً دو ہزار اسٹال لگتے ہیں جب کہ، ان کے ساتھ کھانے پینے کا سامان لے کر ٹھیلے، خوانچہ فروش، اور چھابڑی والے بھی اپنے پتھارے لگا لیتے ہیں۔ اس بازار میںدوپہر بارہ بجے سے لوگ آنا شروع ہوتے ہیں اور شام تک یہ صورت حال ہوتی ہے کہ یہاں سے گزرنے کی جگہ نہیںہوتی۔ تمام اسٹالوں پر مرد، خواتین، بچوں اور بوڑھوں کا ہجوم ہوتا ہے جو اپنی مطلوبہ چیزوںکی تلاش میں یہاں آتے ہیں اور زیادہ تر کامیاب ہوکرجاتے ہیں۔ اگرچہ ٹی وی چینلز کیبل نیٹ ورک پر منتقل ہوگئے ہیں اور علاقوں میں موجود کیبل آپریٹرز معقول رقم لے گھروں میں کیبل کنکشن دیتے ہیں جن سے استفادہ کرکے ناظرین اپنے ٹی وی سیٹس پر ملکی و غیرملکی نشریات دیکھتے ہیں لیکن اس بازار کے شروع میں سڑک کے ساتھ ٹھیلے پر موجود چار اسٹالوں پر جہازی سائز کےپرانے ڈش انٹینا فروخت ہوتے ہیں جو 1200 سے 2000روپے تک میں دستیاب ہیں لیکن یہ ڈی کوڈر کے بغیر ہوتے ، انہیں خریدنے کے بعد شائقین، مذکورہ آلے کی تلاش میں نکلتے ہیں لیکن سارے بازار میں ڈھونڈنے کے باوجود ہمیں بھی یہ آلہ نظر نہیں آیا۔ ڈش انٹینا کی خریداری کرنے والے اس کی تلاش میں صدر پر ریگل کی الیکٹرونک سامان کی مارکیٹوں کا رخ کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ پرانے ٹی وی سیٹس کی دکانیں ہیں جن پربارہ سو سے دو ہزار میں ٹیلی ویژن سیٹ مل جاتے ہیں۔ ان کے بالمقابل ماضی کی کئی مشہور کمپنیوں کی برانڈڈ استعمال شدہ سلائی مشینیں دستیاب ہیں، جو اسٹال کا مالک ڈھائی ہزار سے ساڑھے تین ہزار روپےتک میں فروخت کرتا ہے ، اسی کے ساتھ زمین پر چادر بچھائے ایک شخص پرانی کیسٹس فروخت کرنے والا بیٹھا ہے۔ کیسٹ ریکارڈر رکھنے والے زمین پر بیٹھ کر اپنی مطلوبہ کیسٹیں تلاش کرتے ہیں۔ اس سے متصل دو اسٹالوں پر پرانے ریموٹ، موبائل فونز، استری، لوگوں کے مسترد کردہ چارجر، ہینڈ فری، اسپیکرز بکھرے ہوئے ہیں۔

انجن والی چھوٹی موٹر سائیکلیں، بیٹری سےچلنے والی کھلونا کاریں اور معذور افراد کے استعمال کے لیے پٹرول سے چلنےوالی گاڑیاں بھی ایک’’عارضی شو روم ‘‘ پر زمین پر رکھی ملیں گی، جن کی قیمت سات ہزار سے دس ہزار تک ہیں، جب کہ یہی گاڑیاں بندرروڈ اور لائٹ ہاؤس پر دس سے پندرہ ہزار میں نسبتاً بہتر حالت میں مل جاتی ہیں۔ اس کے ساتھ کی دکان پر انجینئرنگ اور مرمت کے کاموں میں استعمال ہونے والے مختلف النوع کے اوزار، جن میں پانے، رنچ پانا، اسکرو پانے، پیچ کش، چھوٹے بڑے اسکرو ڈرائیور، چھینی، ہتھوڑے، بسولے، پلاس، گرپ پلائیر، لوہا اور لکڑی کاٹنےوالی آریاں،لوہے کا ریگ مال سمیت دیگر آلات پچاس روپے سے تین سو روپے تک میںدستیاب ہیں ۔ گیس کے چھوٹے سیلنڈر بھی یہاں ملتے ہیں جن کی الگ الگ قیمتیں ہیں۔ ان کے ساتھ پرانے ٹائرز اور رم کی دکانیں ہیں جب کہ بعض دکانوں پرموٹر سائیکل کے رم، ڈرم، تیلیاں،بریک شو لگے ہوئےپرانے ٹائر بھی مناسب قیمت میں مل جاتے ہیں۔ پرانی کتابوں والے نے بھی یہاں اپنا ٹھیلا کھڑا کیا ہوا ہے، جہاں کتابوں کے رسیا اپنے پسندیدہ موضوعات کی کتابیں تلاش کرتے نظر آتے ہیں۔ ایک ٹھیلے پر پرانے پنکھے، کمپیوٹر کےپرنٹر، کار کی بیٹری ،فروخت ہورہی تھی، زمین پر بنے ایک اسٹال پرپرانے کھلونے، پنکھے کا جال، لوہے کے پائپ، بجلی کی استری، چھوٹا لیپ ٹاپ، چھوٹا فریج،ویکیوم کلینر، جوسر مشین کا نچلاحصہ رکھے ایک شخص بیٹھا تھا۔ اس کے نزدیک میوزیکل کی بورڈ، دیوار گیر گھڑیاں، لوہے کی جالیاں، بجلی کی استری لیے ہوئے ایک دکاندار اپنے گاہکوں کا منتظر تھا۔ یہاں پر پرانے لیکن اچھی حالت میں گدے روئی اورپولیسٹر کی رضائیاں بھی ملتی ہیں جو نئی رضائیاں اور قالین خریدنے کی سکت نہ رکھنے والے غریب لوگ اپنے اہل خانہ کو سردی کی شدت سے محوظ کرنے کے لیے خریدکر لے جاتے ہیں۔ ایک دکان پر پرانے قالین، بیڈ شیٹس بک رہے تھے۔ اسپتال کی دیوار کے ساتھ ٹوٹی پھوٹی جھونپڑیوں کے ساتھ لوہے کے دروازے، گیٹ اور جالیاں فروخت ہورہی تھیں۔ اس کےبرابر میں اسپورٹس، اولمپک، گئیروالی اور سادہ سائیکلیں فروخت ہورہی تھیں، جن کی دکانوں پر بچے اور بڑوں کا خاصا رش تھا۔ یہ سائیکلیں یہاں دوسے آٹھ ہزار تک میں دستیاب ہیں جو نئی سے آدھی قیمت ہے لیکن یہ کافی اچھی حالت میں تھیں جب کہ ان کے ایک اسٹال کے ساتھ سائیکلوں کا مکینک ان کی مرمت اور تزئین و آرائش کا کام بھی کررہا تھا۔

یہاں چمڑے کےسفری سوٹ کیس بھی دستیاب ہیں جو صدر اور بندر روڈ میں بکنے والے سوٹ کیسوں سے آدھی سے بھی کم قیمت میں دستیاب ہیں۔ ان کے ساتھ گلی میںپرانے فرنیچر کا بازار ہےجہاں اسٹیل اور لکڑی کی الماریاں، لکڑی، فوم اور چمڑے کےسات سے نوسیٹرصوفہ سیٹ، شو کیس ، سلیپگ بیڈزفروخت ہوتے ہیں۔ اس بازار میں ضرورت مند لوگوں کے علاوہ کاروباری ذہن رکھنے والے افراد بھی خریداری کرتے ہیں جو سستے داموں چیزیں خرید کر سندھ اور پنجاب کے علاقوں میں مہنگے نرخوں پر فروخت کرتے ہیں۔ ایک چہار دیواری کے اندر چھوٹے سے میدان میںہم نے ایک ٹرک پرمختلف اقسام کا فرنیچر لدا ہوا دیکھا۔ ٹرک کے ساتھ کھڑے شخص نے بتایا کہ وہ فرنیچر کا بیوپاری ہے۔ اس نے یہاں موجود پرانے فرنیچر کی مختلف دکانوں سے میز، کرسیاں، ڈائننگ اور ڈریسنگ ٹیبلیں، ہمہ اقسام کے صوفہ سیٹس، لوہے اور لکڑی کی الماریاں اور دیگرسامان لاکھوں روپے کے عوض خریدا ہے اور انہیں کرائے کے ٹرک پر لاد کر عمر کوٹ لے جارہا ہے، جہاں وہ سامان کی قیمت، باربرداری کا خرچہ اور اپنے سفری اخراجات نکالنے کے لیےمہنگے داموںپر فروخت کرے گا۔ پرانے فرنیچر کی مذکورہ مارکیٹ یوپی اسپتال کے ساتھ یوپی موڑ کے روڈ تک پھیلی ہوئی ہے۔ اس کے دائیں ہاتھ پر زمین پر قائم اسٹالوں پر قالین صاف کرنے والے ویکیوم کلینر، واشنگ مشینیں، روم کولر، پرانے موبائل فون، مینوئل اور ڈیجیٹل کیمرے فروخت ہورہے تھے جو انتہائی کم قیمت تھے۔ یہاں ایک اسٹال پرایئر کولر ، ایگزہاسٹ فین، چھوٹے بڑے پنکھے، سی ڈی پلئیر، ڈی وی ڈی، وی سی آر، ان کی کیسٹیں بھی رکھی ہوئی تھیں جہاں کھڑے خواتین و حضرات بھاؤ تاؤ میں مصروف تھے۔ ایک دکان پر گاڑیوں اور جنریٹر کے سائلنسر، ویڈیو کیمرہ، ویڈیو ریکارڈر، گیس کے چولہے، بڑے اور چھوٹےاوون، برائے فروخت تھے جب کہ ان کے ساتھ سی ڈیز اور ڈی وی ڈیز بھی ایک ٹھیلے پر بک رہی تھیں۔ چھوٹے بڑے برقی پنکھے، ڈیپ فریزر ، بھی مختلف دکانوں پر نظر آئے۔ یہاں کئی دکانیں پرانے ملبوسات اور جوتوں کی ہیں۔ ان کے ساتھ وسیع و عریض میدان شروع ہوتا ہے جس کا رقبہ یوپی موڑ سے 4-Kچورنگی کی جانب جانے والی شاہراہ تک پھیلا ہواہے۔ اس میدان میں پرانے اوزاروں، وہیل چیئرز، دستے اور بغیر دستے کی کرسیاں، ایزی چیئرز، ٹوسٹر، گیس کے چھوٹے بڑے چولہے، واٹر کولر، روم کولر ، واٹر کولر کے پارٹس، ٹونٹیاں، جوسر، بلینڈر، گرینڈر، مصالحہ پیسنے کی مشین، قیمہ پیستے کی مشین، چاقو، چھریاں، دستیاب ہیں۔ میدان میں موجود شامیانوں کے اندرواقع زیادہ تر دکانیں پرانے فرنیچر،لوہے کے گیٹ، جالیوں، صوفہ سیٹس، ڈائننگ،ڈریسنگ اورآفس ٹیبلوں سے بھری ہوئی ہیں جب کہ چند دکانوں پر کمپیوٹر اور ٹی وی ٹرالیاں بھی رکھی ہوئی تھیں جن میںدور حاضر کی تمام سہولتیں موجود تھیں۔

ایک اسٹال پر لائن سے پانی کھینچنے اور چھت کی ٹنکی پر پانی چڑھانے والی موٹریں جنہیں سکشن اور پاور پمپ بھی کہا جاتا ہے، توے، کڑھائی، جنریٹر کا فیول ٹینک،بغیر پروں کے برقی پنکھے ، اور لوہے کے دیگرپرزے رکھے تھے۔ اس کے نزدیک چمک دار پنیوں میں لپٹے ہوئے موٹر سائیکل کے ٹائر ، مڈ گارڈ، رم، کیسٹ ریکارڈر، بیٹری سیل سے چلنے والی بڑی ٹارچیں رکھی تھیں۔ ایک جگہ پیڈسٹل فین، بیٹری سے چلنے والے پنکھے، چھٹ کے پنکھوں کا اوپری حصہ، بچوں کی سائیکلیں، موٹر سائیکل کیرئیر، گیس کے چولہے اور دیگر سامان رکھا تھا۔ ایک دکان پر پلاسٹک کی مختلف اشیا اور واٹر کولر کے پرزے فروخت ہورہے تھے۔ ایک دکان میں مین ہولز پر رکھنے والے لوہے کے ڈھکن بھی فروخت ہورہے تھے۔ یوپی ایس، اس کی بیٹریاں، لوہے کے پلنگ، لوہے کے گیٹ، گیس کے بڑے چولہے، اوون، لوہے کے فریم، کمپیوٹر کا انتہائی قدیم مانیٹر، کسی چیز کا لوہ ےکا فریم ، جوسر بلینڈربھی فروخت کے لیے موجود تھا۔ ایک اور دکان پر مائکروویو اوون، بچوں کی چاند گاڑی، ویکیوم کلینرز، دیوار پر لگانے والے پنکھے موجود تھے۔ کانچ اور تام چینی کے برتوں کی بھی ایک دکان تھی جہاں موجود استعمال شدہ برتن اچھی حالت میں تھے۔ یہاں خوتین خریدار کا ہجوم لگا ہوا تھا۔ قریب ہی دکان پردیوار میں سوراخ کرنے والی ڈرل مشین، جوسر، چوپر، بلینڈر، انرجی سیور کا ہولڈر، اسپیکر، بجلی کا سرکٹ بورڈ، پانی کی موٹریں، ڈنکی پمپ، چارج ایبل پنکھے،الیکٹرک ہولڈر، برقی ہیٹر، اسٹیل کٹر، اینگل، سائیکل کی قینچی اور لوہے کا دوسرا سامان رکھا تھا۔ بجلی کے ایڈاپٹر، شیرخوار بچوں کو گھمانے والی گاڑیاں، کچن کے سنک اور دیگر سامان فرخت کے لیے ایک اور دکان پر بک رہا تھا۔ ایک دکان پر موٹر سائیکلوں کے جمپ، کروم کیے ہوئے ہینڈل، گاڑیوں کے ڈرم، مڈگارڈ، استری اسینڈ، لکڑی کی ٹی وی ٹرالی، فروخت کے لیے دستیاب تھے جب کہ اس کے ساتھ والی دکان پر موٹر سائیکلوں کے دیگر اسپئر پارٹس رکھے تھے۔ چند دکانوں پر کچن میں استعمال ہونے والی اشیا، واش بیسن، سلور کےاور اسٹیل کے برتن، جن میں بڑے بڑے تسلے، ٹرے، پرات، سالن کی ڈشیں، لوٹے، جگ، گلاس، ہاتھ دھونے کی سلفچی،لوہے کی بڑی کڑاہیاں، چولہے، ان کے ساتھ ہی کیسٹ ریکارڈر، چینجر، گراموفون، لوہے کے پرزے فروخت کے لیے موجود تھے۔ اس کے ساتھ کے اسٹال پر زمین پر بچی چادر پر صرف واٹر کولر کی ٹونٹیاں رکھی ہوئی تھیں۔ یہاں کئی اسٹال پر چھوٹے بڑے ریفریجریٹر فروخت کے لیے رکھے تھے جن کی قیمت مختلف سائزوں کے لحاظ سے لیکن بازار سے نصف سے بھی کم ریٹ پر تھیں۔ بعض کباڑ اسٹالوں پر ٹائروں میں ہوا بھرنے والی ٹنکیاں، ایئر کمپریسر، لکڑی کے خوب منقش، الماریاں، سائیڈ ٹیبلیں اور لوہے کا بڑا بکس فروخت کے لیے موجود تھے۔ کئی اسٹالوں پر مختلف سازوں کے لیپ ٹاپ، ایل سی ڈی اور ایل ای ڈی کے ساتھ 2سے لے کر 2.5 کے وی کے جنریٹر اور کموڈ بھی فروخت کے لیے رکھے تھے۔ ایک اسٹال پرتقریباً پچاس انچ کی اسکرین رکھی تھی جب کہ اس کے ساتھ ہی ایک جگہ پیتل کی بڑی سی صراحی بھی رکھی دیکھی جس میں ٹونٹی لگی ہوئی تھی، اس کا شمار نوادرات میں کیا جا سکتا ہے۔ اس بازار میں مختلف کمپنیوں کی مسترد شدہ کاسمیٹکس کی اشیا بھی فروخت ہوتی ہیں۔ اس کباڑ بازار میں ہر وہ چیز مل سکتی ہے جس کی ضرورت ہوتی ہے، وہ بھی بہت سستی قیمت پر، بس تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔

Rafi Abbasi
About the Author: Rafi Abbasi Read More Articles by Rafi Abbasi: 213 Articles with 223464 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.