تحریر گل ارباب ، پشاور
میں اک چڑیا ہوں۔ اک ننھی سی چڑیا۔ کبھی کھلی فضاوں میں خوشی سے اڑتی پھرتی
تھی مگر آج پنجرے میں بند آزادی کے لیے ترس رہی ہوں اور میرا قصور صرف یہ
ہے کہ میں بہت خوبصورت ہوں۔ میرے نرم و ملایم پروں کی خوبصورتی انکی رنگینی
ہے ۔ بہت چمکیلے ہیں میرے پر ۔ بالکل میری ماں کے پروں جیسے۔ میری ماں کسی
دوسرے دیس سے اپنی سہیلیوں کے ساتھ اڑتی ہوئی رستہ بھول کر میرے بابا کے
دیس آگئی تھی یہاں کا پیارا موسم ماں کو اتنا اچھا لگا کہ ماں نے سہیلیوں
کے ساتھ واپس جانے سے انکار کردیا اور کہا کہ اس دیس میں تو سردی بھی ہوتی
ہے گرمی اور خزاں ، بہار بھی جبکہ جس دیس سے ہم آئے ہیں وہاں تو صرف سردی
برف باری اور بادل ہی رہتے ہیں سارا سال۔ اب میں یہاں ہی رہنا چاہتی ہوں۔
سہیلیاں بہت کہتی رہیں تھیں کہ دیکھو اپنا دیس جیسا بھی ہے اپنا ہے اسے یوں
نہ چھوڑو آو اپنے سرد اور خشک موسم میں دل لگاتے ہیں لیکن میری ماں بہت ضدی
تھی نہ مانی اک طویل عرصے بعد اس کے پروں کو ٹکور ملی تھی ایسی دھوپ تو
ادھر اس کے اپنے دیس میں عرصے بعد ہی دیکھنے کو ملتی تھی۔ اس نے اداس
سہیلیوں کو رخصت کرتے ہوئے کہا تھا۔ تم لوگ یہ نہ سمجھنا کہ میں نے وطن کے
ساتھ وفاداری نہیں دکھائی کیونکہ میرا وطن صرف آسمان کا اک محصوص ٹکڑا نہیں
ہے بلکہ میرا وطن تو یہ سارا آسمان ۔ یہ ساری زمیں ،یہ پوری دنیا ہے۔ یہ
کھلی فضائیں۔ یہ پہاڑ یہ درخت، باغ، ہواؤں میں چھپی بلندیاں ہیں۔ یہ سب کچھ
میرا ہے۔ یہ ساری کائنات جہاں تک میری پرواز کی قوت ہے وہاں تک میری
ہے۔سہیلیاں مایوس ہو کر واپس چلی گئیں پھر میری ماں کو اس وطن کی فضاؤں سے
ہواؤں سے محبت ہوگئی ۔
ابا صبح منہ اندھیرے اﷲ کا ذکر کرتے ہوئے اٹھتا اور ہمیں ساتھ لیے دانہ
چگنے نکل جاتا ۔ کبھی گندم کی کٹائی کا موسم ہوتا تو ہر طرف دانے ہی دانے
بکھرے ہوتے۔ ہم آسانی سے پیٹ بھر کے واپس آجاتے تھے اور کبھی کبھی ایسا بھی
ہوتا کہ ہمیں رزق کی تلاش میں دور دور تک جانا پڑتا اور دن بھر کی تلاش کے
بعد بھی ہم بھوکے واپس آجاتے تھے ۔ ایسے میں کبھی کوئی نیک انسان باسی روٹی
کے چھوٹے چھوٹے بھورے کر کے چھت پہ ڈال دیتا توہم خوشی خوشی اپنی بھوک مٹا
کر اس نیک انسان کو دعائیں دیتے وئے واپس آ جاتے۔ کبھی کبھی میں سوچتی ہوں
یہ کتنا چھوٹا سا کام ہے کہ گھر میں پڑی باسی روٹی کے بھورے بنا کر پرندوں
کے لیے چھت پہ ڈال دو اس میں صرف دس منٹ لگتے ہیں اور ہمارے لیے یہ کتنی
بڑی نعمت ہے ۔ کاش سب انسانوں کو اس بات کا اندازہ ہو جائے کہ ان کی ذرا سی
محنت کے بدلے ان کو بھوکے پرندوں کی کتنی دعائیں ملتی ہیں اور پرندوں کے
لیے یہ روٹی کتنی بڑی ہوتی ہے۔
اس دن میں،میرا بھائی،اماں اور ابا ہم سبھی پکنک منانے کے لیے گئے ہوئے
تھے۔ ایک بہت خوبصورت اور پرسکون جگہ پہ ابا کے کہنے پہ ہم سب احتیاط سے
اترے .بہت دور سے اڑتے ہوئے آئے تھے اس لیے سبھی پیاسے تھے یہاں پانی کا اک
خوبصورت چشمہ تھا جس میں سے ہم اپنی پیاس بجھانے لگے۔ یو نہی ادھر ادھر
دیکھ کر ابا نے کہا اتنی پیاری اور خاموش جگہ پہ ہمارے علاوہ کوئی پرندہ
نظر نہیں آ رہا کچھ گڑ بڑ ہے ۔ہو سکتا ہے شکاریوں نے کچھ ٹائم پہلے
کارروائی کی ہو جس کے ڈر سے آس پاس کے پرندے ادھر سے اڑ گئے ہوں۔ مجھے ایسا
لگ رہا ہے کہ کچھ دیر پہلے تک یہ جگہ پرندوں کا ٹھکانا تھی۔ اس سے پہلے کہ
پانی پیتی اماں کوئی جواب دیتی قیامت کی گھڑی آ گئی جس کا تصور آج بھی مجھے
رلاتا ہے ایک بڑا سا جال ہمارے اوپر گرا اور ہم سب خوف ودہشت سے جال کے
اندر پھڑ پھڑانے لگے۔
ہم نے بہت کوشش کی مگر ہم سخت جال سے ٹکرا ٹکرا کر زخمی تو ضرور ہوئے نکلنے
میں کامیاب نہ ہو سکے۔ شکاریوں نے بڑی مہارت سے ہمیں نکال کر پنجرے میں بند
کر دیا۔ میرے بھائی اور ابا کو الگ پنجرے میں بند کر کے رکھ دیا اور مجھے
میری ماں کے ساتھ یہ کہہ کر الگ بند کر دیا کہ یہ دونوں رنگین پروں والی
چڑیاں ہیں یہ بہت مہنگی بکیں گی۔ یہ بات سن کر اماں تو پنجرے میں پھڑ
پھڑانے لگی وہ پنجرے کی دیواروں کے ساتھ ٹکریں مار رہی تھی ۔ میں تو گندم
کے دانے روٹی کے بھورے اور کبھی کبھی چاول یا باجرہ کھاتی تھی اس کے علاوہ
کسی کھانے کی چیز کی پہچان نہ تھی مجھے۔ کچھ دیر گزر گئی میرا دل پنجرے میں
گھبرا ر ہا تھا میں نڈھال سی پنجرے کے تختے پہ گری ہوئی اماں کو دیکھ کر
اور بھی اداس ہو گئی تھی۔
وہ دونوں شکاری باتیں کر رہے تھے۔ یہ دونوں چڑیاں باہر ملک کی ہیں کتنے
خوبصورت رنگ ہیں۔ میں اپنی اور اماں کی تعریف سن کے دل ہی دل میں اترانے
لگی۔ ملک صاحب نے امپورٹڈ رنگین چڑیوں کا آرڈر دیا ہوا ہے یہ آج ہی ان کو
پہنچانی ہیں اور خرچہ پانی نکالنا ہے۔ چلو یار بھوک لگی ہے۔ ان میں سے ایک
نے ابا اور بھائی والا پنجرہ باہر نکال کر کھولا میں سمجھی اب ان کو رہا کر
رہے ہیں لیکن انھوں نے ہمارے سامنے چھری لی اور میرے ابا کے گلے پہ رکھ دی
میں نے ڈرتے ڈرتے ابا کی طرف دیکھا وہ آنسو بھری آنکھوں سے مجھے اور اماں
کو دیکھ رہے تھے۔
اماں تو ہل ہی نہیں رہی تھی ۔انھوں نے کھا پی کر ادھر دیکھا تو پنجرے میں
اماں پہ نظر پڑی۔ اوئے بشیر احمد ! یہ تو مر گئی۔ اس نے اک ہاتھ سے پکڑ کر
میری پیاری سی رنگین پروں والی اماں کو درختوں کے اک جھنڈ میں زور سے
پھینکا اور پنجرے کا دروازہ بند کر دیا۔ ارے یار کیا پتا تھا کہ اس کو بھی
پکا ہی لیتے۔ ایک نے بڑا سا ڈکار مارا اور پیٹ کو پکڑ کر بولا قسم سے پورے
45 چڑے مار کے کھائے ہیں لیکن پیٹ ہی نہیں بھرا۔پیٹ بھرنے کے لیے تو چکن
ہوتا ہے یارا۔ چلو واپس چلیں وہ لوگ گاڑی میں بیٹھ گئے ایک نے مجھے پنجرے
سمیت گاڑی میں رکھ دیا۔
میں روتے روتے زمیں پہ پڑے ابا اور بھائی کے پروں کو دیکھنے لگی۔ گاڑی
روانہ ہوئی تو اک آخری نظر میں نے درختوں کے اس جھنڈ کی طرف دیکھا جہاں
میری اماں پڑی ہوئی تھی۔ جی چاہا اماں ابھی اڑتی ہوئی آئے اور مجھے اپنے
پروں میں چھپا لے لیکن میں روتی رہی اور اماں پھر بھی نہیں آئیں۔ملک صاحب
کے گھر میں بہت سے رنگ برنگے نایاب پرندے تھے ۔سب کے اپنے اپنے دکھ اپنی
اپنی کہانیاں تھیں ۔ملک صاحب اچھے انسان تھے سب پرندوں کو اچھا کھانا پینا
صاف ستھرا ماحول تو دے رکھا تھا لیکن آزادی تو چھین رکھی تھی نا؟
کہاں کھلا نیلا آسمان اور کہاں پنجرے کی دیواریں؟ میرا دل چاہتا کہ کھلی
فضاوں میں اڑوں یا اس قید سے اچھا ہے کہ اماں کی طرح گر کے مر جاؤں۔پنجرے
میں موجود ایک چڑیا نے بتایا کہ کچھ روز پہلے ملک صاحب کی بیوی کا انتقال
ہوا تھا تو ملک صاحب نے تمام پرندوں کو آزاد کیا تھا۔ میں آپ سب سے جھوٹ
نہیں بولوں گی سچ کہتی ہوں میں روزانہ صبح اٹھ کر اﷲ کی حمدو ثنا کرتی ہوں
اور پھر یہ دعا کرتی ہوں کہ اﷲ جی ملک صاحب کی دوسری بیوی مر جائے تاکہ میں
آزاد ہو جاؤں۔
پیارے بچو! میں نے اپنی کہانی اس لیے سنائی کہ آپ سب بڑوں اور بچوں کو اﷲ
تعالی کی دی گئی اس بہت بڑی نعمت جس کا نام ہے آزادی ہے قدر ہو ۔ اﷲ نے جو
آزادی ہمیں دی ہے وہ ہم سے نہیں چھیننی چاہیے کیونکہ ہم پرندے اسی طرح بد
دعا دیتے ہیں جیسے میں ملک صاحب کی بیوی کے مرنے کی دعا مانگتی ہوں ۔ایک
بات اور یہ اپنے گھر کی چھت یا آس پاس پر پرندوں کے لیے دانہ پانی رکھا
کریں تاکہ وہ کسی ایسی جگہ جا کر نہ پھنسیں اور ان کی بھوک پیاس بھی پوری
جایا کرے۔
|