اسلامی جمہوریہ پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا کا بخار
سرچڑھ کر بول رہاہے۔ سارے دن بریکنگ نیوز کے چکر میں عوام کو چکرا کر رکھ
دیا گیاہے۔ ٹاک شوز میں سیاسی ، مذہبی جماعتوں اور مختلف مذہبی طبقہ فکر کے
علماء کرام کو بلاکر آپس میں بحث و تکرار بلکہ اگر یہ کہوں کہ ایک دوسرے پر
تبرا کرنے کا سلسلہ اینکرز شروع کروادیتے ہیں جسے لوگ بڑے مزے لے کر دیکھتے
ہیں۔ چینل کی ریٹنگ میں اضافہ ہوتا۔ بعض اوقات بحث و تکرار اس حد تک بڑھ
جاتی ہے کہ گالم گلوچ ، ہاتھا پائی تک نوبت آجاتی ہے۔ ایسی ویڈیوز اور آف
دی ریکارڈز ویڈیوز کو فیس بک کی زینت بناکر اپنے چینل کی تشہیر کی جاتی ہے۔
ان قباحتوں کے ساتھ ساتھ خاص کر رمضان المبارک کے ماہ کے دوران رمضان
ٹرانسمیشن کے نام پر میراثیوں، بھانڈوں، گلوکاروں ، ناچ گانا کرنے والوں کے
ذریعہ جو غل غپاڑا اور اسلامی شعائر کا مذاق اڑیاجاتاہے وہ اﷲ کے غیض و غضب
کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ اب سوا ل یہ پیدا ہوتاہے کہ کیا کوئی گناہ گار
یا دین سے بالا شخص دین کی دعوت یا تبلیغ کا کام بھی کرسکتاہے؟ ایک حدیث
پاک کے مفہوم کے مطابق (حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ ہم نے عرض کیا یا رسول اﷲ
ﷺ ہم بھلائیوں کا حکم نہ کریں جب تک کہ خود تمام پر عمل نہ کریں اور
برائیوں سے منع نہ کریں جب تک کہ خود تمام برائیوں سے نہ بچیں، حضورؐ نے
ارشاد فرمایا نہیں بلکہ تم بھلی باتوں کا حکم کرو اور اگر یہ تم خود ان سب
کے پابند نہ ہو اور برائیوں سے منع کرو اگرچہ تم خود ان سے بچ نہ رہے ہو)
نیکیوں میں نماز، روزہ، حج، زکوۃ، حقوق العباد، حج، فطرانہ، صدقہ، خیرات کی
دعوت ہر مسلمان دوسرے کو دے سکتاہے اسی طرح برائیوں سے منع بھی کرسکتاہے
لیکن کیونکہ دعوت الی اﷲ کا کام انبیاء کرام کا کام ہے اور ہمیں ختم نبوت ؐ
کے صدقے ملا ہے ۔ اس میں بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت بھی ہے۔ ہمارے
الیکٹرانک چینلز پر رمضان المبارک کی نشریات کے نام پر بے پردہ عورتوں کا
اکٹھ ہونا اور محمدؐ کی شان بیان کرتے ہوئے موسیقی کا استعمال ، نیم عریاں
لباس، لغو اور بیہودہ حرکات و سکنات اور سوالات کا استعمال خاص کر آذان،
نماز، روزہ، تراویح، سحری اور افطاری کے اوقات میں ٹرانسمیشن کا جاری رکھنا
یہ سب کچھ کمرشل ازم اور اپنی ریٹنگ کیلئے کیاجاتاہے اسلام کی تبلیغ سے
اسکا کوئی دور کا بھی تعلق نہیں ہے۔ دین کے ہر کام میں اخلاص کو مقدم رکھنا
انتہائی ضروری ہے اسکے بغیر تو کوئی عمل قابل قبول ہے ہی نہیں رمضان
ٹرانسمیشن کا واحد مقصد رقم کمانا، اشتہارات کی مد میں جن اشتہاروں میں
عورت کو بناسنوار کر پیش کیاجاتاہے جس کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔
ہم نے عورت کو یورپ کی طرح پر سیکس ماڈل بنادیاہے بغیر دوپٹے اور میک اپ
کرکے مردوں کو متوجہ کرنے والی خوبصورت اناؤنسروں اور خود عورتوں کو متوجہ
کرنے والے خوبصورت مرد اناؤنسر اداکار ، اداکارئیں کونسا دین کاکام کررہے
ہیں؟ یہ تمام تو رقم کی خاطر اﷲ کی دی گئی نعمت حسن کو فروخت کررہے ہیں اور
دیکھنے والوں کو اپنی طرف متوجہ کرکے گناہ کبیرہ کا مرتکب ہورہے ہیں۔ اور
ان کے روزوں کو ضائع کرارہے ہیں کیونکہ غیر محرم کو دیکھنا مرد و عورت
دونوں کیلئے حرام ہے۔ ہمارے چینلز پر24گھنٹے ہوتا ہی یہ کام ہے۔ نیوچینل کے
ایک پروگرام میں اوریا مقبول جان نے اینکر کے سوال کے جواب میں بہت اجھی
بات کہی ہم نے کسی کھیل، کرنٹ افئیر، اقتصادی صورتحال، بجٹ، فلم، ڈرامے پر
تبصرہ کیلئے کسی عالم کو بلایا جہاں ہم اپنی رمضان ٹرانسمیشن میں دین سے
بالکل فارغ مرد یا عورت کو لاکر بٹھاتے ہیں۔ جس شخص کو قرآن کی آیت صحیح
طرح پڑھنا نہیں آتی جوکلمہ نہیں پڑھ سکتا وہ کھڑے ہوکر دین کے اوپر گفتگو
کرتے ہیں اور اتھارٹی کے ساتھ سوال و جوابات کررہے ہوتے ہیں۔ خاص کر میزبان
کا علم اگر مہمان سے کم ہوگا تو وہ کیسے انکا مقابلہ کرے گا اسے قرآن کی
آیت کا ترجمہ ، مفہوم نہیں معلوم تو وہ اپنے سامنے والے مقرر یا مہمان کے
نیچے لگ گیا اب وہ اینکر کو جہاں چاہے استعمال کرے جسکے باعث دین حق کی غلط
تصویر دیکھنے والوں تک پہنچاکر لوگوں کو گمراہ کیاجارہاہے۔ الیکٹرانک چینلز
کے پروگرام ڈیزائن ہی اس طرح کئے جارہے ہیں کہ جن سے ہماری نماز، جمعہ نماز،
تراویح، افطار، سحری، زکر و ازکار کے قیمتی اوقات کو ضائع کرواکر یہود و
نصاری کی صورت میں اسلام دشمن ایجنٹوں ، شیطانو ں کو خوش کیاجاسکے۔ ہمارے
چینلز پر صوفی ازم کے نام پر بھی اسلامی شعائر کا مذاق اڑیااجارہاہے۔
درباروں، مزاروں پر جو بیہودہ خرافات، بدعات، شرک ، گانا، بجانا، دھوم
دھڑکا ہوہاہے اس کی کوریج بھی زوروں پر کراکے اولیائے کرام کی تعلیمات کا
مذاق اڑنا معمول بن چکاہے۔ پاکستان کے 00کے قریب مفتیان حضرات نے رمضان
ٹرانسمیشن کے نام پر پروگرامز کو دیکھنا حرارم قرار دیاہے ہمیں اپنے علمائے
کرام کی پیروی کرنی جاہئے اور مضان المبارک جیسے مقدس ماہ میں جب اﷲ سرکش
شیاطین کو قید کردیتے ہیں یہ انسان کا نفس ہی ہے جو اسے گناہ کی طرف راغب
کرتاہے ۔ جس طرح اﷲ کے رسول ؐ کا فرمان ہے کہ داعی کا اعمال نامہ اﷲ قیامت
تک کھلا رکھتاہے اسی طرح جو لوگ مسلمانوں کو اسلام کی غلط تصویر دیکھاکر
گناہ کی طرف راغب کررہے ہیں ان کے حساب میں بھی تمام انسانو ں کے گناہ جب
تک وہ کرتے رہیں گے لکھے جاتے رہیں گے۔ پیمرا کو چاہئے کہ وہ آان، نماز،
تراویح کے اوقات میں چینلز جاری ہر قسم کے بے ہودہ پروگرامز، فلموں، ڈراموں
پر پابندی عائد کرے۔ آذان کو ہر چینل سے نشرکروانے کا سلسلہ شروع کروائے
ہمارا ملک کلمے کی بنیاد پر حاصل کیا گیا تھا ہم تو اپنی بنیاد اور نظریات
کے بالکل الٹ چل رہے ہیں اگر ایسا ہی سلسلہ جاری رہا تو پھر ہم کبھی بھی
سیلابوں، زلزلوں، لوڈشیڈنگ، ڈکیتی، بے روزگاری ، عدالتی ناانصافی، اقرباء
پروری، مہنگائی، بے حیائی کے عذاب سے چھٹکارا نہیں پاسکیں گے۔اگر ہمارے
چینلز والے اسلام کے احیاء میں مخلص ہیں تو انہیں چاہئے کہ وہ ہر اس امر سے
پرہیز کریں جن کی ہمارے مذہب میں ممانعت ہے۔ بعض پروگرامز میں جید علماء
کرام کو بلایاجاتاہے ان کی گفتگو سے لوگ فیضیاب ہوتے ہیں آخر ایسا رمضان
ٹرانسمیشن کے پروگرامز میں کیوں نہیں ہوتا۔ اس سلسلے میں چینلز مالکان کو
اپنے رویوں اور پالیسی پر غور کرنا چاہئے اﷲ ہم سب مسلمانوں کو رمضان
المقدس کے ماہ میں اپنی اور تمام امت کی بخشش کا سامان پیدا کرنے کی توفیق
عطا فرمائے۔ |