ماہ رمضان آتے رہیں گے
یہ کنیڈین سَبوے ٹرین ہےجس میں اس وقت مسافروں کی تعداد بہت کم ہے۔
اس کے ایک سیٹ پر ایک مسافر اپنے سامنےوالی سیٹ پر پاؤں رکھے بیٹھا ہے۔
ایک خاتوں اُسے سیٹ سے پاؤں ہٹانے کو کہتی ہے۔ لیکن وہ سنی ان سنی کر دیتا
ہے۔
تو وہ بھاری بھرکم خاتوں اُس کے پاؤں پر بیٹھ جاتی ہے ۔
جس سے وہ بلبلا اُٹھتا ہے۔
اور
پھر بحث و تکرار اور آخر کار سَبوے پولیس کو بلا نے کی کی نوبت آجاتی ہے۔
جب اس خاتون سے پوچھا گیا کہ آخر آپ اُس کے پاؤں پر کیوں بیٹھیں؟
تو اُس خاتون نے جواب دیا:
’’میں نے پہلے اُسے شائستگی سے پاؤں ہٹانے کو کہا تھا لیکن اُس نے سنی اَن
سنی کردی۔
اُس نے پبلک پروپرٹی کو استعمال کرنے کی قانون کی خلاف ورزی کی تھی‘جو ایک
اچھے شہری ہونے کے ناطے میں اُسے سمجھانا اور سِکھانا چاہتی تھی۔ اگر کوئی
معاشرے میں رہتے ہوئے معاشرتی آداب و اخلاق سے ناواقف ہو اور سیکھنا بھی نہ
چاہے تو اُسے اِسی طرح بیہودگی سے سِکھانا پڑتا ہے۔‘‘
یہ تو تھی کنیڈا کی بات جہاں اکثر لوگ معاشرتی آداب و اخلاق کے پابند ہیں
اور کوئی بھی اس کی خلاف ورزی برداشت نہیں کرتا‘ جہاں ایک عورت بھی پہلے
زبان سے اور پھر طاقت سے معاشرتی آداب و اخلاق کی پاسداری کرواتی ہے۔
اب ذرا اپنے ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کا دورہ کیجئے۔
جہاں لوگ معاشرتی قانون کی پاسداری کرنا تو دور کی بات‘ جنگل کا قانون بھی
نہیں مانتے۔
جہاں معاشرتی آداب و اخلاق سِکھانے کی جرأت کرنے والا خود ہی عبرت کا
نمونہ بن جاتا ہے۔
جہاں کوئی یہ بھی نہیں جانتا کہ پبلک پروپرٹی استعمال کرنے کا بھی کوئی
قاعدہ قانون اور طریقہ ہے۔
جہاں پبلک ٹرانسپورٹ کی کمی کا رونا تو ہے ہی لیکن بس کے کسی کھڑکی سے منہ
نکال کر چھالیہ ‘ پان ‘ پان پراگ ‘ گُٹکا‘ نسواروغیرہ کی پِیک تھوک کر بس
کے دروازے پر لٹک کر سفر کرنے والوں یا قریب کے موٹر سائیکل سواروں یا پیدل
چلتے راہ گیروں کے کپڑے گندے کرنے والوں کی کمی نہیں ہے۔ اور بعض تو ایسے
بھی ہیں کہ بس میں جہاں بیٹھے ہوتے ہیں وہیں نیچے یا سائیڈ میں منہ بھر بھر
کےتھُوک رہے ہوتے ہیں‘ جو پاس بیٹھے کسی شریف انسان کیلئے کتنا روح
فرساہوتا ہے اس کا اندازہ وہی کرسکتا ہے۔
کراچی کی سِوک سینٹر باہر سےکتنی خوبصورت ہے لیکن اندر جس طرح راشی اور
گندے لوگ بیٹھے ہیں اسی طرح اس کی در و دیوار سے بھی گندگی ٹپک رہی ہے۔
جہاں اسکی پبلک ٹوئلیٹس فحش اور بے ہودہ تصاویر و گالیوں سے مزین ہیں وہیں
اسکی در و دیوار اور سیڑھیوں کے کنارے چھالیہ‘ پان ‘ پان پراگ ‘ گُٹکا‘
نسوار وغیرہ کی پِیک اور تھوک سے رنگین ہیں۔صرف اندر ہی نہیں باہر مین گیٹ
اور منسلک دیواریں بھی پیک اور تھوک سے کسی آرٹسٹ کا شاہکاربنا نظر آتا ہے۔
اس شہر کے زیادہ تر سرکاری و رہائشی عمارات اور اسکول ‘ کالج ‘ یونیورسیٹی
وغیرہ اسی طرح کے نظارے پیش کرتے ہیں۔
اور تو اور اکثر مساجد و مدارس کی بیت الخلائیں اور وضو خانے بھی تہ در تہ
جمی ہوئی کائی‘ بھنبھناتی مکھیوں ‘ بدبو کے بھبکوں اور تھوک و پیک کی
رنگینیوں کے ساتھ پاکی حاصل کرنے کیلئے جانے والوں کے اذہان تک کو ناپاک کر
دیتی ہیں۔ صفائی نصف ایمان ہے لیکن نصف ایمان یہاں کام نہیں کرتا۔ قَالَ
رَسُولُ اللَّهِ ﷺ الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ
یوں لگتا ہے جیسے کراچی کے شہریوں کو صفائی سے نہیں بلکہ گندگی سے بڑا پیار
ہے۔ ایک طرف یہ اپنے منہ میں ہر وقت سیگریٹ‘ چھالیہ‘ پان ‘ پان پراگ ‘
گُٹکا‘ نسوار وغیرہ کی گندگی بھرے رکھتے ہیں تو دوسری طرف اپنے گھروں کے
کچڑے خالی پلاٹ‘ خالی مکان یا سرکاری اسکول و کالج اور سرکاری عمارتوں کے
دیواروں کے پاس ڈھیر کرتے ہیں۔بلکہ ایسی جگہ جہاں لکھ دیا جائے کہ یہاں
کچڑا پھینکنا منع ہے وہاں قصداً اور زیادہ کچڑے کا ڈھیر لگا دیتے ہیں۔
جہاں لکھ دیا جائے کہ
’’یہاں تھُوکنا منع ہے‘ وہیں تھُوکتے ہیں‘‘۔
اور
جہاں لکھ دیا جائے کہ
’’یہاں پیشاب کرنا منع ہے‘ وہیں پیشاب کرتے ہیں‘‘۔
شاید ایسے لوگ گدھےاور کتے ہیں یا اس سے بھی بدتر ہیں
کیونکہ جہاں لکھا ہوتا ہے:
’’ دیکھو! گدھا پیشاب کر رہا ہے یا دیکھو! کتا پیشاب کر رہا ہے‘
بس یہ کھڑے ہوں یا بیٹھے ہوں ہر حال میں گندگی پھیلانا ہی اِن کا کام
ہے۔نتجتاً اِن کے اذہان میں گندگی رچ بس گئی ہے۔
ان کے کردار میں گندگی ہے ان کے گفتار میں گندگی ہے۔ جھوٹ بولنا اور گالیوں
سے بات کرنا ان کی خاص پہچان ہے۔
سود و رشوت خوری‘ چور بازاری‘ زخیرہ اندوزی‘ ملاوٹ‘ کرپشن وغیرہ وہ کونسی
گندگی اور برائی ہے جو ان میں نہیں ہے۔
اسی طرح ان میں فکر و عقائد کی گندگی بھی عروج پر ہے۔ ان میں کفر ہے ‘ شرک
ہے‘ بدعات و خرافات ہیں اور جادو و توہم پرستی ہے۔
ان میں تعصب ہے‘ نسل پرستی ہے‘ فرقہ پرستی ہے‘ مسلک پرستی ہے‘ علاقائیت ہے‘
لسانیت ہے اور مادیت پرستی ہے۔
بس نہیں ہے تو ان میں اسلام نہیں ہےحالانکہ یہ سارے ہی مسلمان ہیں! نام کے
مسلمان!دِکھاوے کے مسلمان!
یہ صرف ایک شہر‘ ملک و معاشرے کی بات نہیں۔آج مسلمانوں کے تقریباً ہر شہر‘
ملک و معاشرےمیں کم و بیش ایسے ہی نظارے ہیں۔’’ گندگی کے ڈھیر لگے سڑکیں
اور ان سڑکوں کی اطراف میں غیر قانونی تجاوزات‘گاڑیوں کی بے ہنگم پارکنگ
‘شور مچاتی دھواں چھوڑتی بے ہنگم ٹریفک‘ چییختی چلاتی ٹریفک جام‘ بے ہنگم
بازاریں اور بازاروں میں کھڑے ریڑی والے اور ان سب کے درمیان ہنگامہ خیز
زندگی اور نفسا نفسی کا عالم ‘‘ مسلمانوں کے شہروں کی پہچان ہے۔ نہ ہی کوئی
قانون ہے اور نہ ہی کوئی قانون کو ماننے والا۔اور اسی وجہ کر مسلمان ساری
دنیا میں معتوب و ملامت زدہ ہو کر رہ گئے ہیں۔
لیکن اس طرح کب تک چلے گا؟
کب تک ہم گندگی کھاتے اور گندگی پھیلاتے رہیں گے؟
اور کیا ہم اپنی آئندہ نسل کو بھی اسی گندگی میں چھوڑ جائیں گے؟
ہماری آئندہ نسلوں کی بقاء اسلام سے ہی ممکن ہے۔اسلام ہی ہمارے بچوں کی
دنیا و آخرت محفوظ بنا سکتا ہے۔
لیکن اس کیلئے ہمیں خود اسلام میں داخل ہونا ہوگا‘ خود اسلام اپنانا ہوگا‘
جیسا کہ فرمانِ باری تعالٰی ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً وَلَا
تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ ۚ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ
﴿٢٠٨﴾ سورہ البقرہ
ترجمہ: اے ایمان والو! اسلام میں پورے کے پورے داخل ہوجاؤ،
اورشیطانکیپیروینہ کرو کہوہ تمہاراکھلادشمن ہے
اس آیت میں غیر مسلموں کو نہیں بلکہ ہم مسلمانوں کو ہی مخاطب کیا گیا
ہے۔لہذا مسلمان گھرانے میں پیدا ہوکر مسلمان کہلانا کافی نہیں ہےبلکہ اسلام
کے سارے احکام کو تسلیم کرنا ‘ ان پر عمل کرنا اور اسلام کو اپنی زندگی میں
نافذ کرنا ضروری ہے۔ جب تک ہمارا ظاہر و باطن اسلام کے مطابق نہیں ہوجاتا‘
اس وقت تک ہم اسلام میں پورے کے پورے داخل نہیں ہوسکتے اور نہ ہی ہم ظاہری
و باطنی گندگی سے نکل سکتے ہیں۔
ہم سب مسلمان ہیں۔ ہمارے لئے اسلام میں پورے کے پورے داخل ہونا کوئی مشکل
تو نہیں ہے۔
اور خاص کر ایک ایسے وقت میں جب رمضان کا عظیم رحمتوں برکتوں اور نعمتوں
والا مہینہ سایہ فگن ہونے والا ہے‘ جس میں ہر مسلمان کی یہی کوشش ہوتی ہے
کہ وہ پوری طرح اسلام پر کاربند رہے۔اس بابرکت مہینے میں ہم تھوڑی سی کوشش
کرکے اپنے ظاہر و باطن کو ہر طرح کی گندگی سے پاک کر سکتے ہیں ۔جو لوگ
سیگریٹ‘ چھالیہ‘ پان‘ پان پراگ ‘ گُٹکا‘ نسوار وغیرہ کے نشے میں مبتلا ہیں
وہ بڑی آسانی سے ان گندگیوں سے اپنی جان جھڑا سکتے ہیں کیونکہ چودہ پندرہ
گھنٹے روزہ رکھنے کی وجہ کر ان غلاظت سے تو دور رہنا پڑتا ہی ہے‘ تھوڑی سی
کوشش سے بقیہ وقت میں بھی ان سے دور رہا جا سکتا ہے۔ ان غلاظتوں کی جگہ
مسواک کا استعمال اور ذکر الٰہی میں تر زبان سنت پر عمل اور ظاہری و باطنی
پاکیزگی کا موجب بن سکتا ہے۔ جب زبان پاک رہنے لگے گا تو دل بھی پاک
ہوجائےگا اور دل کا اثر تمام اعضاء جسم پر جھلکے گا۔
جیسا کہ آپ ﷺ کا فرمان ہے:
” جسم میں گوشت کا ایک لوتھڑا ہے (جس کو دل کہا جاتا ہے) ‘ اگر وہ درست
ہوتوسارا جسم درست ہےاوراگروہ بگڑگیا تو ساراجسم بگڑگیا‘‘(ترمذی)
اور زبان کے بارے میں فرمایا:
” جب ابن آدم صبح کرتا ہے تو سارے اعضاء جسم زبان کے سامنے عاجزی کرتے ہیں
کہ کہتے ہیں کہ ہمارے حق میں اللہ سے ڈر کیونکہ ہمارا تعلق تجھ ہی سے ہے
اگر تو سیدھی رہے گی تو ہم بھی سیدھے رہیں گے اور اگر تو ٹیڑھی ہو گی تو ہم
بھی ٹیڑھے ہو جائیں گے‘‘۔ (ترمذی)
جس طرح دل کے صالح و فاسد ہونے کا اثر سارے اعضاء جسم پر پڑتا ہے اسی طرح
زبان کا بناؤ بگاڑ بھی تمام اعضاء جسم کو بناتا اور بگاڑتا ہے۔ دل و زبان
کا کردار ہی انسان کے کردار کی عکاسی کرتا ہے۔
رمضان المبارک تقوی کا مہینہ ہے:
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ
عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ﴿١٨٣﴾سورة البقرہ
ترجمہ: اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے جس طرح تم سے پہلی امتوں پر
بھی فرض کیے گئے تھے تاکہ تم میں تقویٰ پیدا ہو۔
اور دل ہی تقویٰ کا مقام ہے:
آپ ﷺنے تین بار دل کی طرف اشارہ کرکے فرمایاتھا کہ تقوی یہاں ہے،تقوی یہاں
ہے،تقوی یہاں ہے۔
تقوی دل کی اس کیفیت کا نام ہے جس کے حاصل ہو جانے کے بعد انسان اللہ
تعالیٰ سے خوف و امیدکے ساتھ حضور اکرم ﷺ کے طریقہ کے مطابق ممنوعات سے
بچنے اور اوامر پر عمل کرنے پر مائل ہو جائے۔
جب دل میں تقویٰ ہوگا تو نہ ہی دل میں گندہ خیال آئے گا اور نہ ہی زبان پر
گندہ کلام ہوگا۔
نہ کبھی طبیعت کسی گندی و غیرطیب چیز کو منہ میں لے جانے اور نہ ہی گندگی
پھیلانے پر مائل ہوگی۔
لہذا پیک و تھوک پھینک کر یا کسی اور طریقے سے گندگی پھیلانے کا عمل ہمیشہ
کیلئے ختم ہو جائے گا۔
اورہم ظاہری اور باطنی پاکی حاصل کر پائیں گے۔
پھرفکر و عقائد کی گندگی بھی دور ہوگی۔ کفر ‘ شرک ‘ بدعات و خرافات اور
جادو و توہم پرستی وغیرہ ختم ہوگی۔
ہمارے شہر‘ ملک و معاشرے سے تعصب ‘ نسل پرستی ‘ فرقہ پرستی ‘ مسلک پرستی ‘
علاقائیت ‘ لسانیت اور مادیت پرستی وغیرہ کا خاتمہ ہوگا۔
ایمان والے اسلام میں پورے کے پورے داخل ہوں گے‘ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ
آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً
معتوب و ملامت زدہ زندگی سے نکل کر اسلام کی عزت و وقار والی زندگی میں
داخل ہوں گے
اور اپنی آئندہ نسلوں کو ہر طرح کی ظاہری و باطنی گندگی سے پاک ایک پاکیزہ
اسلامی ملک و معاشرہ عطا کر پائیں گے۔
جہاں کوئی ہمارے بچوں پر نہیں تھوکے گا اور نہ ہی ہمارے بچے کسی پر تھوکیں
گے۔
کوئی کسی کے کپڑے گندے نہیں کرے گا اور نہ ہی جہاں مرضی وہاں گندگی پھیلائے
گا۔
آج کی ترقی یافتہ مغربی ممالک کے جیسے ہمارے شہر بھی صاف ستھرے ہوں گے۔
قانون ہوگی اورقانون کی پاسداری ہوگی۔
لوگ معاشرتی آداب و اخلاق کے پابند ہوں گے‘
اور کوئی بھی اس کی خلاف ورزی نہیں کرے گا۔
بس ضروری ہے کہ اس ماہ رمضان میں ہم سب اپنے اپنےدلوںمیں تقویٰ پیدا کریں‘
قانون کی پاسدری کریں اور پھر ہمیشہ کرتے رہیں۔
ورنہ ماہ رمضان آتے رہیں گے‘ جاتے رہیں گے
ہم روزہ رکھتے رہیں گے اور دعائیں کرتے رہیں گے
لیکن نہ ہی ہم بدلیں گے
اور نہ ہی ہمارے شہر‘ ملک و معاشرے میں کوئی تبدیلی آئے گی۔
کیونکہ
إِنَّ اللَّـهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُوا مَا
بِأَنفُسِهِمْ ۗ …. ﴿١١﴾سورة الرعد
ترجمہ: بیشک اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا؛ جب تک وہ خود اپنے آپ کو نہ
بدل ڈالے۔
اللہ کے بندو! اس ماہ مبارک میں اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جائیے‘
اپنے آپ کو‘ اپنے اہل و عیال کو تبدیل کیجئے اور تبدیلی لائیے‘اپنے لئے بھی
اور اپنی آئندہ نسلوں کیلئے بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔تحریر: محمد اجمل خان
|