سورۃ فاطر آیت 10 کی روشنی میں عزت حاصل کرنے کا قرآنی راستہ
(Iftikhar Ahmed, Karachi)
سورۃ فاطر آیت 10 کی روشنی میں عزت حاصل کرنے کا قرآنی راستہ
اللہ تعالیٰ نے انسان کو فطری طور پر عزت کا خواہش مند پیدا کیا ہے۔ ہر انسان چاہتا ہے کہ اسے وقار، مقام اور احترام حاصل ہو۔ لیکن سوال یہ ہے کہ سچی عزت ملتی کہاں سے ہے؟ کیا وہ دولت، عہدے، طاقت، یا شہرت سے آتی ہے؟ قرآن ہمیں اس کا بالکل واضح جواب دیتا ہے۔
سورۃ فاطر – آیت نمبر 10:
"مَن كَانَ يُرِيدُ ٱلْعِزَّةَ فَلِلَّهِ ٱلْعِزَّةُ جَمِيعًا ۚ إِلَيْهِ يَصْعَدُ ٱلْكَلِمُ ٱلطَّيِّبُ وَٱلْعَمَلُ ٱلصَّـٰلِحُ يَرْفَعُهُ "
ترجمہ: "جو کوئی عزت چاہتا ہے، تو جان لے کہ ساری عزت اللہ ہی کے لیے ہے۔ اسی کی طرف پاکیزہ باتیں بلند ہوتی ہیں، اور نیک عمل انہیں بلند کرتے ہیں۔"
آیت کا خلاصہ:
یہ آیت ہمیں سکھاتی ہے کہ:
1. عزت کسی انسان، قوم یا مال کی محتاج نہیں — ساری عزت اللہ کے قبضے میں ہے۔
2. عزت کی بنیاد پاکیزہ کلام (کلمہ طیب) ہے — یعنی سچائی، ذکر، دعا، نرمی، حیا اور حکمت۔
3. یہ پاکیزہ باتیں بھی اسی وقت بلند ہوتی ہیں جب انسان ان کے ساتھ عملِ صالح بھی کرے۔
آج کے مسلمانوں کے لیے رہنمائی:
1. عزت صرف اللہ کے در سے مانگی جائے
ہم نے آج عزت انسانوں سے مانگنی شروع کر دی ہے: سوشل میڈیا پر دکھاوا دوسروں کو نیچا دکھا کر خود اونچا بننا غیر اسلامی انداز اپنانا جھوٹ، رشوت، یا سفارش سے مقام حاصل کرنا
قرآن کہتا ہے:
"فَلِلَّهِ ٱلْعِزَّةُ جَمِيعًا" (تمام عزت صرف اللہ کے لیے ہے)
اگر انسان اللہ کے آگے جھکتا ہے، تو اللہ اسے مخلوق کے سامنے اٹھا دیتا ہے۔
2. کلمۂ طیب — پاکیزہ گفتگو
عزت صرف لباس یا انداز سے نہیں آتی، بلکہ زبان سے ادا ہونے والے پاکیزہ الفاظ سے پیدا ہوتی ہے:
سچ بولنا دوسروں کو دعا دینا سلام کرنا دل جوئی کرنا اللہ کا ذکر زبان سے کسی کا دل نہ دکھانا
یہ سب باتیں اللہ کی طرف بلند ہوتی ہیں اور اللہ ان سے راضی ہوتا ہے۔
3.عملِ صالح — نیکی کا عملی مظاہرہ
پاکیزہ باتوں کو بلندی پر پہنچانے والا عمل ہے۔ اگر صرف زبان سے دعویٰ کیا جائے مگر عمل میں تضاد ہو تو وہ بات آسمان تک نہیں پہنچتی۔
مثال: کوئی کہے “یا اللہ مجھے عزت دے” مگر والدین سے بدتمیزی کرے، جھوٹ بولے، یا دوسروں کا حق مارے — تو یہ دعا بلندی نہیں پائے گی۔
عملِ صالح کیا ہے؟
نماز، روزہ، صدقہ والدین سے حسنِ سلوک عدل و انصاف حلال رزق صبر و شکر لوگوں کو فائدہ پہنچانا
4.عاجزی عزت کی کنجی ہے
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
“جو اللہ کے لیے عاجزی اختیار کرتا ہے، اللہ اسے بلند کر دیتا ہے” (مسلم)
آج ہم عزت چاہتے ہیں، مگر جھکنے کو تیار نہیں۔ حالانکہ جو اللہ کے آگے جھکتا ہے، اللہ اسے دنیا کے سامنے سربلند کرتا ہے۔
5. علم، اخلاق اور حیا — سچی عزت کے ستون
قرآن، حدیث اور اسلامی تاریخ سے واضح ہوتا ہے کہ:
علم والے لوگ دلوں میں جگہ پاتے ہیں اخلاق والے دشمنوں کو بھی دوست بنا لیتے ہیں حیا والے لوگ خاموش عزت کما لیتے ہیں
حضرت عمرؓ فرمایا کرتے تھے: “ہم وہ قوم ہیں جسے اللہ نے اسلام کے ذریعے عزت دی، اور اگر ہم نے اسے چھوڑ کر عزت کسی اور میں تلاش کی، تو اللہ ہمیں ذلیل کر دے گا”
عزت کی دعائیں بھی سکھائی گئیں:
"وَٱرْزُقْنَا حُسْنَ ٱلْخَاتِمَةِ وَجَعَلْنَا مِنَ ٱلْمُكْرَمِينَ" (یا اللہ! ہمیں انجام بخیر عطا فرما اور ہمیں عزت والوں میں شامل فرما)
"رَبِّ ٱدْخِلْنِى مُدْخَلَ صِدْقٍۢ وَأَخْرِجْنِى مُخْرَجَ صِدْقٍۢ ۖ وَٱجْعَل لِّى مِن لَّدُنكَ سُلْطَـٰنًۭا نَّصِيرًۭا" (سورۃ الاسراء: 80)
خلاصہ :
سچی عزت صرف اللہ کے ہاں ہے
پاکیزہ باتیں اور نیک عمل ہی اللہ کے ہاں بلند مقام دلاتے ہیں
دنیا کی عزت عارضی ہے، اصل عزت وہ ہے جو آخرت میں کام آئے
جو شخص اللہ کی رضا کے لیے جیتا ہے، اللہ اسے مخلوق کے دلوں میں محبوب بنا دیتا ہےـ
|